راشد ماہیؔ
محفلین
احباب و اساتذہ!
مزمل شیخ بسمل محمد تابش صدیقی الف عین محمد وارث محمد یعقوب آسی محمد خلیل الرحمٰن محمد ریحان قریشی محمد اسامہ سَرسَری
ذرا تفصیل سے اصلاح و تنقید کیجئے گا۔۔۔
ہم چلیں گے جوں ہی پیچھے یہ زمانہ ہوگا
دل تو کیا چیز بتوں کو چلےآنا ہوگا
پار وہ یار بلائے گا تو جانا ہوگا
گر کھڑے ماہی کچے بھی ہوں آنا ہوگا
قول تم کو وہ تمھارا تو صنم یاد ہے نا !
کہ پیا عشق کیا گر تو نبھانا ہو گا
رستہِ عشق ہے یہ کوئی تماشہ تونہیں
روشنی کے لیے یاں دل بھی جلانا ہوگا
اے مرے چارہ گر تم تو کہا کرتے تھے
زندگی باہوں کا تیری سرہانہ ہو گا
حسن سے میرے تو محبوب کے کترا کے گزر
مہ تجھے مان بہت روپ کا مانا ہوگا
بھلا کیوں شک ہےتمھیں ہم پہ مسلمانی کا
دل میں کیا تکتے ہو اک بت خانہ ہوگا
رات بھر ہائے! ترے در نالوں کی وہ پکار
پھر تڑپ کے مَرا کوئی دیوانہ ہوگا
شمع یہ کون پڑا ہے ترے قدموں پہ جلا
چوم بیٹھا سرِ محفل پروانہ ہوگا
اپنے دل سے جو چلو گے تو سفر ہی کیا ہے
درمیاں تیرے مرے ایک زمانہ ہوگا
دشمنوں سے بھری محفل میں بلا کے کہے وہ
مسکرانا پڑے گا جشن منانا ہوگا
اپنا دل مانے نہ اور عشق تقاضا ہم سے
کہ جہاں والوں کو بھی اب سمجھانا ہوگا
چھین کے سانس مری بولا پاگل ساطبیب
زندہ رہنے کے لیے تجھ کو بھلانا ہوگا
جاں نکل جائے گی دل نہ کبھی بہلے گا
دل کے بہلانے کو جاناں تجھے آنا ہوگا
نینوں سے کیوں نہیں پڑتے مرا حالِ دل تم
چارہ گرکیا یوں اک اک زخم دکھانا ہوگا
کتنے سادہ ہیں کہ ہر مکھ پہ بھروسہ کر لیں
کتنے یاروں سےابھی دھوکہ کھانا ہوگا
نت نئے شک کیے رہتا ہے محبت پہ مری
لگتا ہےاب تو تجھے مر کے دکھانا ہوگا
میری توبہ توبہ ہجر کی شب کیسے کٹے
جان سے اب تو گزر جانا کہ جانا ہوگا
بھول ہی جائیں گے دکھڑے سبھی محشر کے
سامنے جیسے ہی منظر جانانہ ہوگا
جام ہاتھوں سے اٹھانے کی نہیں اب ہمت
بیٹھ بالیں پر نینوں سے پلانا ہوگا
کب یہ معلوم تھا کم بخت محبت ماہی ؔ
شہر بھر کے دکھوں کا ایک ٹھکانہ ہوگا
افاعیل:فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن
(دونوں فعلاتن میں سے کوئی ایک مفعولن ہوسکتا ہے)
مزمل شیخ بسمل محمد تابش صدیقی الف عین محمد وارث محمد یعقوب آسی محمد خلیل الرحمٰن محمد ریحان قریشی محمد اسامہ سَرسَری
ذرا تفصیل سے اصلاح و تنقید کیجئے گا۔۔۔
ہم چلیں گے جوں ہی پیچھے یہ زمانہ ہوگا
دل تو کیا چیز بتوں کو چلےآنا ہوگا
پار وہ یار بلائے گا تو جانا ہوگا
گر کھڑے ماہی کچے بھی ہوں آنا ہوگا
قول تم کو وہ تمھارا تو صنم یاد ہے نا !
کہ پیا عشق کیا گر تو نبھانا ہو گا
رستہِ عشق ہے یہ کوئی تماشہ تونہیں
روشنی کے لیے یاں دل بھی جلانا ہوگا
اے مرے چارہ گر تم تو کہا کرتے تھے
زندگی باہوں کا تیری سرہانہ ہو گا
حسن سے میرے تو محبوب کے کترا کے گزر
مہ تجھے مان بہت روپ کا مانا ہوگا
بھلا کیوں شک ہےتمھیں ہم پہ مسلمانی کا
دل میں کیا تکتے ہو اک بت خانہ ہوگا
رات بھر ہائے! ترے در نالوں کی وہ پکار
پھر تڑپ کے مَرا کوئی دیوانہ ہوگا
شمع یہ کون پڑا ہے ترے قدموں پہ جلا
چوم بیٹھا سرِ محفل پروانہ ہوگا
اپنے دل سے جو چلو گے تو سفر ہی کیا ہے
درمیاں تیرے مرے ایک زمانہ ہوگا
دشمنوں سے بھری محفل میں بلا کے کہے وہ
مسکرانا پڑے گا جشن منانا ہوگا
اپنا دل مانے نہ اور عشق تقاضا ہم سے
کہ جہاں والوں کو بھی اب سمجھانا ہوگا
چھین کے سانس مری بولا پاگل ساطبیب
زندہ رہنے کے لیے تجھ کو بھلانا ہوگا
جاں نکل جائے گی دل نہ کبھی بہلے گا
دل کے بہلانے کو جاناں تجھے آنا ہوگا
نینوں سے کیوں نہیں پڑتے مرا حالِ دل تم
چارہ گرکیا یوں اک اک زخم دکھانا ہوگا
کتنے سادہ ہیں کہ ہر مکھ پہ بھروسہ کر لیں
کتنے یاروں سےابھی دھوکہ کھانا ہوگا
نت نئے شک کیے رہتا ہے محبت پہ مری
لگتا ہےاب تو تجھے مر کے دکھانا ہوگا
میری توبہ توبہ ہجر کی شب کیسے کٹے
جان سے اب تو گزر جانا کہ جانا ہوگا
بھول ہی جائیں گے دکھڑے سبھی محشر کے
سامنے جیسے ہی منظر جانانہ ہوگا
جام ہاتھوں سے اٹھانے کی نہیں اب ہمت
بیٹھ بالیں پر نینوں سے پلانا ہوگا
کب یہ معلوم تھا کم بخت محبت ماہی ؔ
شہر بھر کے دکھوں کا ایک ٹھکانہ ہوگا
افاعیل:فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن
(دونوں فعلاتن میں سے کوئی ایک مفعولن ہوسکتا ہے)