برداشت کی حد ؟

شہزاد وحید

محفلین
السلام عليكم ورحمة اللہ وبركاتہ
مجھے جو كچھ كہنا تھا اس كى طرف معزز اركان نے بہت بہتر طريقے سے اشارہ كر ديا ہے الحمدللہ۔ اب مجھے مختصرا بعض باتيں عرض كرنا ہيں:

بيٹے كھانے پينے كى خواہش بھی قدرت نے ركھی ہےاور اس ميں حلال وحرام كى حدود بھی فاطر السموات والارض نے بنائى ہيں ۔ كوئى شريف اور سليم الفطرت آدمى ہروقت نہيں كھاتا ، نہ ہی ہر چيز کھا جاتا ہے ۔ اور اگر ہمارا كوئى بہت عزيز مسلمان ہو كر خنزير كى طرف ہاتھ بڑھائے تو ہم ضرور تڑپ كر اس كو باز ركھنے كى كوشش كريں گے ، اس ليے كہ اس كى خير خواہی يہی ہے۔ يہ اب ان كا نصيب جو كسى كى محبت اور خير خواہى كو بروقت نہ سمجھ پائيں۔

بیٹا مجھے شفقت سے کہا ہے یا طنزا؟ چلیں چھوڑیں۔ہر وقت نہیں کھاتا لیکن کھاتا ضرور ہے اور اس وقت تک کھاتا ہے جب تک پیٹ نا بھر جائے۔ یہی میں کہنا چاہ رہا تھا۔ کہ دِس از آ نیڈ۔ ضرورت ہے یہ ہماری بھائی۔ لیکن آپ کی بات بھی بلکل ٹھیک ہے کہ ہم انسان ہیں جانور نہیں، ہمارے پاس تہذیب ہے۔ لیکن تہذیب کے آجانے سے ضرورتیں نہیں ختم ہو جاتی ی ی ی ی ی ی ی ی ی ی ی ی ی ی۔:):):) اور مزید یہ کہ میں ماڑا بندہ ہوں میرے سے بحثیں نہیں ہوتی۔ میرے پاس اس کا سب سے بڑا حل ہے یہ کہ میں نے آپ کی بات مان لینی ہے۔
 
باتیں دونوں صحیح ہیں۔ دوسری ثقافتوں سے تہوار اور دوسری چیزیں اپنانا بھی کافی عام ہے (اگر یقین نہیں تو بہت سے اسلامی یا عیسائ تہواروں کی تاریخ ہی پڑھ لیں) اور اس کے خلاف تحریک بھی ہر زمانے میں اٹھتی ہیں مگر globalization آج سے نہیں سینکڑوں اور شاید ہزاروں سال سے جاری ہے۔
جى يہی عرض كيا كہ مغلوب قوموں ميں دونوں طرح كے طبقات پيدا ہوتے ہيں :
1-مرعوب نقال اور 2- مزاحم ، اب جو جس ميں چاہے شامل ہو مگر دوسرے كے وجود كا انكار نہ كرے۔
اسلامى تہوار ميرے نزديك صرف دو ہيں عيد الفطر اور عيد الاضحى اور ان ميں مجوسيت ، نصرانيت ، يا شرك كى ذرا سى بو بھی نہيں ۔ عيد الاضحى ميں دين براہيمى كى خوش بو ہے جو توحيد كى اصل تاريخ ہے ۔
 

S. H. Naqvi

محفلین
ظفری نے کہا ہے:
یہ اتنہائی منفی رویہ ہے کہ جو چیزآپ کے مزاج اور فطرت کے ہم آہنگ ہو وہ شرعی اور اگر جو چیز آپ کے مزاج اور فطرت کے برخلاف وہ ممنوع
ہمارے!!!!
یہاں بات کہیں اور چلی گئی ہے صاحب!
گویا یہ اسلام کے مزاج اور فطرت کے عین مطابق ہے اور یار لوگ خواہ مخواہ ذاتی پسند و ناپسند کی بنا پر بحث کر رہے ہیں!!! چلیں آپ اسے اسلام کے مزاج اور فطرت کے مطابق اسلامی حوالہ جات سے، ثابت کر دیں تو آپ سوا سیر۔۔۔۔۔! وگرنہ تحقیق کے دوران اگر آپکو یہ اسلامی فطرت، احکامات اور مزاج کے خلاف نظر آتا ہے تو۔۔۔۔۔۔۔۔!
ایک غلط عمل دوسرے غلط عمل کی کبھی دلیل نہیں ہوتا صاحب، سالگرہ ہو یا کوئی اور۔۔۔۔!
ویسے بھی سالگرہ اور ویلنٹائن کی پراپرٹیز کو آمنے سامنے رکھ کر دیکھیں۔۔۔۔۔۔۔ ویلنٹائن زیادہ کیمیائی اور "بے حیائی" پراپرٹیز کا حامل ہو گا۔۔۔!
 
لیکن آپ کی بات بھی بلکل ٹھیک ہے کہ ہم انسان ہیں جانور نہیں، ہمارے پاس تہذیب ہے۔ لیکن تہذیب کے آجانے سے ضرورتیں نہیں ختم ہو جاتی ۔ اور مزید یہ کہ میں ماڑا بندہ ہوں میرے سے بحثیں نہیں ہوتی۔ میرے پاس اس کا سب سے بڑا حل ہے یہ کہ میں نے آپ کی بات مان لینی ہے۔
بيٹے آپ کے پاس مذہب بھی ہے ، آپ ميرى مت مانيے ، اللہ تعالى كى مانيے اس كى قائم كردہ حدود كا خيال ركھ كر اس كى حلال كردہ پاكيزہ چيزوں سے متمتع ہونا ہر انسان كا حق ہے۔انسان كى ماں خالہ ، پھوپھی،كتنى بھی پركشش ہو وہ صبر كرتا ہے ، صنف مخالف كى كشش كو جواز نہيں بناتا ، كيوں؟ خالق كى قائم كردہ حرمت كا احساس ! تو دوسرى عورتيں جو انسان كے نكاح ميں نہيں ان كى بھی حرمت ہے ان كا بھی تقدس ہے۔
 

ساجد

محفلین
ساجد آپ کے ثقافتی دلائل میں زور تو آپ کے بعد کی پوسٹس نے توڑ دیا ہے :)
:)
پکڑ لیا نا مجھے۔:D
زیک ، سب اپنی رائے دینے میں آزاد ہیں۔ہم دوسرے کی بات سنیں گے نہیں تو اپنی سمجھائیں گے کیسے۔ بہر کیف میں نے کبھی بھی ویلنٹائنز ڈے کو کسی مذہب کی رسم نہیں سمجھا۔
 

مہ جبین

محفلین
بہن ام نور العین آپ نے بہت اچھی طرح دلائل کے ساتھ بات کی ہے ماشاءاللہ اللہ آپ کے علم میں برکتیں عطا فرمائے آمین
حق بات کہنا ، حق بات سننا ، حق کو پھیلانا اور ہر حال میں حق کو اختیار کرنا ہی دراصل ایک سچے مومن کا شعار ہے اور آپ نے اس فورم پر حق بات کرکے ایک سچی مومنہ ہونے کا ثبوت دیا ہے اور کوئی مانے یا نہ مانے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا
سورج نکلتا ہے تو ہر طرف خود بخود روشنی پھیلتی ہے چاہے ہم چاہیں نہ چاہیں، اجالا ہو کر ہی رہتا ہے ، اپنی آنکھیں بند کرنے سے آپ تو اندھے ہوسکتے ہیں لیکن روشنی جوں کی توں رہتی ہے اور اس روشنی میں وہ چیزیں بھی نظر آنا شروع ہو جاتی ہیں جو رات ہونے کے سبب ہم نہیں دیکھ پاتے
ہدایت کا نور تو اپنی روشنی لگ بھگ پندرہ سو سال سے پھیلا رہا ہے اور انشاءاللہ قیامت تک پھیلاتا رہے گا اب اس نور کی روشنی میں بھی اگر ہم آنکھیں بند کرکے کھڑے ہوں اور کہیں کہ ہمیں تو کچھ بھی نظر نہیں آرہا تو یہ ہماری بند آنکھوں کا قصور ہوا نا۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
ایک شخص کے پاس دونوں آنکھیں ہوں اور وہ کہے کہ مجھے اپنی آنکھوں سے نہیں کسی اور کی آنکھوں سے دیکھنا ہے تو اس سے بڑھ کر احمق کون ہوگا
جو ہدایت کا نور ہم کو ملا کیا وہ کم ہے کہ ہمیں کسی اور سے روشنی کی خیرات مانگنا پڑے؟؟؟؟؟
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مسلم قوم کو غیر مسلم اقوام نے صرف ثقافتی یلغار سے زیر کرلیا ہے ، غیر مسلموں کے بیہودہ فیشن اپناتے ہوئے ہمارا ضمیر ہمیں ملامت نہیں کرتا بلکہ اس کو ہم روشن خیالی کا نام دے کر خوشی سے اپنالیتے ہیں اب اس تہوار کو ہم عید ین سے بھی زیادہ دھوم دھام سے منا کر کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ روشن خیالی؟؟؟؟؟؟؟

ایک شعر اس حوالے سے ذہن میں آرہا ہے
نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے
اٹھا کے پھینک دو باہر گلی سے
 

ساجد

محفلین
باتیں دونوں صحیح ہیں۔ دوسری ثقافتوں سے تہوار اور دوسری چیزیں اپنانا بھی کافی عام ہے (اگر یقین نہیں تو بہت سے اسلامی یا عیسائ تہواروں کی تاریخ ہی پڑھ لیں) اور اس کے خلاف تحریک بھی ہر زمانے میں اٹھتی ہیں مگر globalization آج سے نہیں سینکڑوں اور شاید ہزاروں سال سے جاری ہے۔
جہاں تک میں سمجھ سکتا ہوں کہ یہ ایک فیشن کی طرح سے ہوتا ہے کہ کوئی رسم یا رواج کئی مختلف الخیال معاشروں میں مختلف وجوہات کی بنا پر فروغ پا جاتا ہے۔ ان وجوہات میں دیگر عوامل کے ساتھ کچھ معاشروں کی علمی و معاشی پسماندگی بھی ہے۔
بہر حال ایک دلچسپ علمی مکالمہ ہو سکتا ہے اس پر، کیوں کہ میری معلومات اس موضوع پر بہت کم ہیں اور میں چاہوں گا کہ کچھ اس بارے میں جان سکوں۔ اگر احباب چاہیں تو یہ بحث یہیں ختم کر کے اس موضوع پر خالص تحقیقی انداز میں بات کرنے کے لئیے نئے دھاگے کا آغاز کر لیں۔ اور یہ جاننے کی کوشش کریں کہ ماضی میں دنیا کے مختلف معاشروں میں مختلف رسوم و رواج کے فروغ پانے کی کیا نوعیت تھی۔
:chalo:
 

زلفی شاہ

لائبریرین
بہن ام نور العین آپ نے بہت اچھی طرح دلائل کے ساتھ بات کی ہے ماشاءاللہ اللہ آپ کے علم میں برکتیں عطا فرمائے آمین
حق بات کہنا ، حق بات سننا ، حق کو پھیلانا اور ہر حال میں حق کو اختیار کرنا ہی دراصل ایک سچے مومن کا شعار ہے اور آپ نے اس فورم پر حق بات کرکے ایک سچی مومنہ ہونے کا ثبوت دیا ہے اور کوئی مانے یا نہ مانے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا
سورج نکلتا ہے تو ہر طرف خود بخود روشنی پھیلتی ہے چاہے ہم چاہیں نہ چاہیں، اجالا ہو کر ہی رہتا ہے ، اپنی آنکھیں بند کرنے سے آپ تو اندھے ہوسکتے ہیں لیکن روشنی جوں کی توں رہتی ہے اور اس روشنی میں وہ چیزیں بھی نظر آنا شروع ہو جاتی ہیں جو رات ہونے کے سبب ہم نہیں دیکھ پاتے
ہدایت کا نور تو اپنی روشنی لگ بھگ پندرہ سو سال سے پھیلا رہا ہے اور انشاءاللہ قیامت تک پھیلاتا رہے گا اب اس نور کی روشنی میں بھی اگر ہم آنکھیں بند کرکے کھڑے ہوں اور کہیں کہ ہمیں تو کچھ بھی نظر نہیں آرہا تو یہ ہماری بند آنکھوں کا قصور ہوا نا۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔!
ایک شخص کے پاس دونوں آنکھیں ہوں اور وہ کہے کہ مجھے اپنی آنکھوں سے نہیں کسی اور کی آنکھوں سے دیکھنا ہے تو اس سے بڑھ کر احمق کون ہوگا
جو ہدایت کا نور ہم کو ملا کیا وہ کم ہے کہ ہمیں کسی اور سے روشنی کی خیرات مانگنا پڑے؟؟؟؟؟
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مسلم قوم کو غیر مسلم اقوام نے صرف ثقافتی یلغار سے زیر کرلیا ہے ، غیر مسلموں کے بیہودہ فیشن اپناتے ہوئے ہمارا ضمیر ہمیں ملامت نہیں کرتا بلکہ اس کو ہم روشن خیالی کا نام دے کر خوشی سے اپنالیتے ہیں اب اس تہوار کو ہم عید ین سے بھی زیادہ دھوم دھام سے منا کر کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں۔۔۔۔ ۔۔۔ روشن خیالی؟؟؟؟؟؟؟

ایک شعر اس حوالے سے ذہن میں آرہا ہے
نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے
اٹھا کے پھینک دو باہر گلی سے
ام نور العین صاحبہ اور مہ جبیں صاحبہ کے مدلل دلائل کے بعد اب مزید دلائل کی ضرورت نہیں رہی ۔ اللہ تعالی نے ہمیں انسانوں میں پیدا فرما کر اشرف المخلوقات بنایا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت نے ہمیں تمام امتوں میں بہتریں امت بنا دیا ۔ اس تہوار کی مخالفت کرنے والے حضرات نے عقلی دلائل کے ساتھ ساتھ زیادہ ترقرآن و حدیث سے استدلال کیا ہے جبکہ موافقت کرنے والےحضرات نے صرف اور صرف عقلی دلائل سے استدلال کرنے کی سعی لا حاصل کی ہے۔ جہاں قران و حدیث آ جائے وہاں ایک سچے مسلمان کے لئے کسی کی عقل کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ المختصر جو عقل کےبندے ہیں وہ عقل کی مانیں لیکن اللہ کے بندے تو کہتے تھے ، کہتے ہیں اور کہتے رہیں گے’’ ہمیں اللہ اور اس کا رسول ہی کافی ہے‘‘
 
اللہ تعالی نے ہمیں انسانوں میں پیدا فرما کر اشرف المخلوقات بنایا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت نے ہمیں تمام امتوں میں بہتریں امت بنا دیا ۔ اس تہوار کی مخالفت کرنے والے حضرات نے عقلی دلائل کے ساتھ ساتھ زیادہ ترقرآن و حدیث سے استدلال کیا ہے جبکہ موافقت کرنے والےحضرات نے صرف اور صرف عقلی دلائل سے استدلال کرنے کی سعی لا حاصل کی ہے۔ جہاں قران و حدیث آ جائے وہاں ایک سچے مسلمان کے لئے کسی کی عقل کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ المختصر جو عقل کےبندے ہیں وہ عقل کی مانیں لیکن اللہ کے بندے تو کہتے تھے ، کہتے ہیں اور کہتے رہیں گے
’’ ہمیں اللہ اور اس کا رسول ہی کافی ہے‘‘
الحمدلله ! جزاك الله خيرا ۔
 
سورج نکلتا ہے تو ہر طرف خود بخود روشنی پھیلتی ہے چاہے ہم چاہیں نہ چاہیں، اجالا ہو کر ہی رہتا ہے ، اپنی آنکھیں بند کرنے سے آپ تو اندھے ہوسکتے ہیں لیکن روشنی جوں کی توں رہتی ہے اور اس روشنی میں وہ چیزیں بھی نظر آنا شروع ہو جاتی ہیں جو رات ہونے کے سبب ہم نہیں دیکھ پاتے
ہدایت کا نور تو اپنی روشنی لگ بھگ پندرہ سو سال سے پھیلا رہا ہے اور انشاءاللہ قیامت تک پھیلاتا رہے گا اب اس نور کی روشنی میں بھی اگر ہم آنکھیں بند کرکے کھڑے ہوں اور کہیں کہ ہمیں تو کچھ بھی نظر نہیں آرہا تو یہ ہماری بند آنکھوں کا قصور ہوا نا۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔!
ایک شخص کے پاس دونوں آنکھیں ہوں اور وہ کہے کہ مجھے اپنی آنکھوں سے نہیں کسی اور کی آنکھوں سے دیکھنا ہے تو اس سے بڑھ کر احمق کون ہوگا
جو ہدایت کا نور ہم کو ملا کیا وہ کم ہے کہ ہمیں کسی اور سے روشنی کی خیرات مانگنا پڑے؟؟؟؟؟
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مسلم قوم کو غیر مسلم اقوام نے صرف ثقافتی یلغار سے زیر کرلیا ہے ، غیر مسلموں کے بیہودہ فیشن اپناتے ہوئے ہمارا ضمیر ہمیں ملامت نہیں کرتا بلکہ اس کو ہم روشن خیالی کا نام دے کر خوشی سے اپنالیتے ہیں اب اس تہوار کو ہم عید ین سے بھی زیادہ دھوم دھام سے منا کر کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں۔۔۔۔ ۔۔۔ روشن خیالی؟؟؟؟؟؟؟

ایک شعر اس حوالے سے ذہن میں آرہا ہے
نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے
اٹھا کے پھینک دو باہر گلی سے
جزاك الله خيرا وبارك فيك ۔
 
جہاں تک میں سمجھ سکتا ہوں کہ یہ ایک فیشن کی طرح سے ہوتا ہے کہ کوئی رسم یا رواج کئی مختلف الخیال معاشروں میں مختلف وجوہات کی بنا پر فروغ پا جاتا ہے۔ ان وجوہات میں دیگر عوامل کے ساتھ کچھ معاشروں کی علمی و معاشی پسماندگی بھی ہے۔
بہر حال ایک دلچسپ علمی مکالمہ ہو سکتا ہے اس پر، کیوں کہ میری معلومات اس موضوع پر بہت کم ہیں اور میں چاہوں گا کہ کچھ اس بارے میں جان سکوں۔ اگر احباب چاہیں تو یہ بحث یہیں ختم کر کے اس موضوع پر خالص تحقیقی انداز میں بات کرنے کے لئیے نئے دھاگے کا آغاز کر لیں۔ اور یہ جاننے کی کوشش کریں کہ ماضی میں دنیا کے مختلف معاشروں میں مختلف رسوم و رواج کے فروغ پانے کی کیا نوعیت تھی۔
يہ سوال واقعتا بہت اچھا ہے۔ عام طور پر اس كا جواب كئى فلاسفہ نے دینے كى كوشش كى ہے ، البتہ ايك مسلمان كو مغربى ثقافت كے متعلق كيا رويہ اختيار كرنا چاہیے اس سوال كا بہت خوب صورت جواب آسٹريائى نو مسلم علامہ محمد اسدرحمہ اللہ سابقه Leopold Weiss نے ديا ہے اپنی كتاب Islam at the Cross Roads ميں جو غالبا 1932 يا 34 كے لگ بھگ پہلى بار لكھی گئی۔ ميرے پاس جو رى وائزڈ ايڈيشن ہے يہ علامہ كے 1982 ء ميں ايك مفيد اضافى نوٹ كے ساتھ چھپا ہے ۔ يہ كتاب مطالعے كے لائق ہے۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
ذرائع ابلاغ کا تو اللہ ہی حافظ ہے، علامہ اقبال اور قائد اعظم کی پیدائش اور وفات کے دنوں کو کیسے منایا جاتا ہے، یہ پتہ نہیں ہے، مگر ویلنٹائن ڈے، بسنت کیسے منانی ہے، یہ خوب پتہ ہے۔
ان حالات میں علامہ اقبال کا یہ شعر بہت یاد آرہا ہے

تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ خودکشی کرے گی​
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، نا پائیدار ہو گا​
 
Top