برطانوی شہزادی کا حجاب

یوسف-2

محفلین
کیوں آپ موت کے فرشتے کے پہلو میں کھڑے ہوئے تھے جب ڈیانا کی روح قبض ہو رہی تھی؟ کیا پتہ اس نے آخری وقت میں کلمہ پڑھ لیا ہو؟
ویسے بھی آخری دنوں میں اس کے ایک پاکستانی ڈاکٹر کیساتھ مراسم تھے۔
ویسے بھی آخری دنوں میں اس کے ایک پاکستانی ڈاکٹر کیساتھ ناجائزمراسم تھے :)
  1. جب تک دو نامحرم کی باہم آن دی ریکارڈ شادی کا ثبوت نہ ہو، تو ایسے افراد کے ”مراسم“ اسلامی تعلیمات کی رو سے ناجائز ہی ہوں گے۔:)
  2. اگر کوئی پیدائشی کافر آن دی ریکارڈ کلمہ پڑھ کر مسلمان نہ ہوا ہو تو اسے اس دنیا میں کافر ہی قرار دیا جائے گا۔ ایسے فرد کی نہ نماز جنازہ ہوگی اور نہ اس کے لئے دعائے مغفرت کی جائے گی، قرآن کی رو سے۔
  3. آخرت کا معاملہ اللہ کے حوالہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی کافر خفیہ طور پر مسلمان ہوا ہو تو وہ یقیناً اسے اجر عظیم (جنت) عطا کرے
  4. کیا آپ کو علم غیب حاصل ہے جو کہہ رہے ہیں کہ: کیا پتہ اس نے آخری وقت میں کلمہ پڑھ لیا ہو؟
 
ویسے بھی آخری دنوں میں اس کے ایک پاکستانی ڈاکٹر کیساتھ ناجائزمراسم تھے :)

جانے دے ، مرے ہوئے لوگوں کے عیوب بیان نہ کئے جائے اور خاص کر جس کے بارے میں ٹھوس ثبوت نہ ہو کہ مرداراس برے فعل میں مبتلا تھا ، یہی اسلام ہم کو سکھاتا ہے ۔۔۔گرچہ کافر ہی کیوں نہ ہو ۔۔
البتہ گزرے ہوئےدشمانان اسلام کی چیرہ دستیوں کا ذکر بطور تاریخ آگاہی کے لیے بیان کرنے میں مضائقہ نہیں ۔۔اس پر بھی اسکو گالم گلوچ نہیں کی جائے گی محض برا مانا جائے گا ۔۔۔جیسے فرعون ، ابوجہل ، ابولہب وغیرہ
کیونکہ حدیث ہے کہ "مردار کو برا نہ کہو ، وہ اپنے انجام کو پہنچ چکا ہے"

جب تک دو نامحرم کی باہم آن دی ریکارڈ شادی کا ثبوت نہ ہو، تو ایسے افراد کے ”مراسم“ اسلامی تعلیمات کی رو سے ناجائز ہی ہوں گے۔:)
  1. اگر کوئی پیدائشی کافر آن دی ریکارڈ کلمہ پڑھ کر مسلمان نہ ہوا ہو تو اسے اس دنیا میں کافر ہی قرار دیا جائے گا۔ ایسے فرد کی نہ نماز جنازہ ہوگی اور نہ اس کے لئے دعائے مغفرت کی جائے گی، قرآن کی رو سے۔
  2. آخرت کا معاملہ اللہ کے حوالہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی کافر خفیہ طور پر مسلمان ہوا ہو تو وہ یقیناً اسے اجر عظیم (جنت) عطا کرے
  3. کیا آپ کو علم غیب حاصل ہے جو کہہ رہے ہیں کہ: کیا پتہ اس نے آخری وقت میں کلمہ پڑھ لیا ہو؟

سو فیصد درست ۔۔۔ مکمل اتفاق
 

یوسف-2

محفلین
جانے دے ، مرے ہوئے لوگوں کے عیوب بیان نہ کئے جائے اور خاص کر جس کے بارے میں ٹھوس ثبوت نہ ہو کہ مرداراس برے فعل میں مبتلا تھا ، یہی اسلام ہم کو سکھاتا ہے ۔۔۔ گرچہ کافر ہی کیوں نہ ہو ۔۔
البتہ گزرے ہوئےدشمانان اسلام کی چیرہ دستیوں کا ذکر بطور تاریخ آگاہی کے لیے بیان کرنے میں مضائقہ نہیں ۔۔اس پر بھی اسکو گالم گلوچ نہیں کی جائے گی محض برا مانا جائے گا ۔۔۔ جیسے فرعون ، ابوجہل ، ابولہب وغیرہ
کیونکہ حدیث ہے کہ "مردار کو برا نہ کہو ، وہ اپنے انجام کو پہنچ چکا ہے"
بھائی آپ کی بات درست ہے۔ لیکن میرا روئے سخن ”زنا“ کی طرف ہرگز نہیں تھا۔ ایک مسلمان کا ایک نامحرم کافرہ کے ساتھ اکیلے گھومنا پھرنا تو آن دی ریکارڈ تھا۔ یہ بھی ”ناجائز مراسم“ کے زمرہ میں آتا ہے۔ اور ”بے حیائی“ کے ایسے ”کھلے اعمال“ پر تنقید کرنا شرعاً ممنوع نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
 

شمشاد

لائبریرین
بھتیجی تم اس کے جواب میں جو تمہارے دل میں ہے ضرور کہو، بھلے ہی وہ سخت بات ہو۔
 

ظفری

لائبریرین
بھائی آپ کی بات درست ہے۔ لیکن میرا روئے سخن ”زنا“ کی طرف ہرگز نہیں تھا۔ ایک مسلمان کا ایک نامحرم کافرہ کے ساتھ اکیلے گھومنا پھرنا تو آن دی ریکارڈ تھا۔ یہ بھی ”ناجائز مراسم“ کے زمرہ میں آتا ہے۔ اور ”بے حیائی“ کے ایسے ”کھلے اعمال“ پر تنقید کرنا شرعاً ممنوع نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
ایک بات تو بتائیں قرآن اور سنت کی رُو سے کافر کی اصطلاح تو وضع کریں ۔
 

شمشاد

لائبریرین
کافر عربی لفظ ہے
اسم ہے
صفت ہے
مذکر ہے

اللہ تعالٰی کو نہ ماننے والا کافر کہلاتا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
عیسائی تین خداؤں کو مانتے ہیں اور یہودی خدا اور اس کے بیٹے کو خدا مانتے ہیں۔ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات وحدانیت کو نہیں مانتے اس لیے کافر کہلاتے ہیں۔
 

ظفری

لائبریرین
خدا سمیت کسی اور خدا ماننا ایک دوسری بات ہے ۔ اور خدا کا انکار کرنا ایک بلکل الگ بات ہے ۔ رہی خدا کی وحدانیت کی بات تو عیسائیوں کو تو چھوڑیں آپ کو مسلم میں بھی ایسے گروپ مل جائیں گے جو خدا کی وحدانیت کیساتھ کسی اور کو بھی پتا نہیں کیا کیا مانتے ہیں ۔ قرآن میں اللہ نے مشرکین اور کفار کی اصطلاح استعمال کی ہے تو آپ دیکھیں کہ وہ لوگ کون تھے ۔ آپ پر کافر اور غیر مسلم کا فرق وضع ہوجائے گا ۔
 
کفرکے معنی:
کفر کے معنی چھپانے کے ہیں، لغت عرب میں کفر انکار کرنے کے معنی میں مستعمل ہے، اس کے ایک معنی نا شکری کرنے کے بھی ہیں۔

اصطلاحِ دین میں کفر کے معنی ہیں:
اصطلاح دین میں کفر ایمان کی ضد ہے، یعنی نبی ﷺ کی لائی ہوئی باتوں پر ایمان نہ لانا کفر ہے، خواہ یہ ایمان نہ لانا شک کی بنیا دپر ہو، یا محض اعراض ہو، یا تکبر اور حسد کی بنیاد پر ہو یا خواہشات نفس کی پیروی میں ہو سبھی صورتوں میں نبی ﷺ پر ایمان نہ لانا کفر ہے۔

کفر کے متعلق یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ کفر کسی عقيدے پر ہونے کا نام نہيں بلکہ یہ کسی دعوت يا عقيدے کے رد اور انکار کا نام ہوتا ہے۔ کفر کرنے والابھی کسی نہ کسی عقیدے پر ہوتا ہے۔ یہ عقیدہ شرک، یہودیت یا نصرانیت وغیرہ ہوسکتا ہے۔ جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعوت عرب میں پیش کی، تو آپ کے مخاطبین دو طرح کے لوگ تھے۔ ایک وہ لوگ جنھیں قرآن مشرکین کہتا ہے۔ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے شرک کو اپنا دین بنارکھا تھا۔ اور دوسرا گروہ اہلِ کتاب کا تھا یعنی یہود و نصاریٰ۔ یہ دونوں گروہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے موجود تھے لیکن اس سے پہلے نہ ان کے سامنے دعوت پیش کی گئی اور نہ انھوں نے اس کا انکار کیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعوت ان کے سامنے پیش کی تو ان دونوں گروہوں میں سے کچھ لوگ ایمان لے آئے جبکہ باقی لوگوں نے کفر کا ارتکاب کیا یعنی دعوتِ حق کا انکار کردیا۔
 

یوسف-2

محفلین
ایک بات تو بتائیں قرآن اور سنت کی رُو سے کافر کی اصطلاح تو وضع کریں ۔
Parah: 6 Surah: 5 Ayat: 10
وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَكَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا اُولٰىِكَ اَصْحٰبُ الْجَحِيْمِ
اور جن لوگوں نے کفر کیا اور جھٹلائیں ہماری آیتیں وہ ہیں دوزخ والے
 

ظفری

لائبریرین
Parah: 6 Surah: 5 Ayat: 10
وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَكَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا اُولٰىِكَ اَصْحٰبُ الْجَحِيْمِ
اور جن لوگوں نے کفر کیا اور جھٹلائیں ہماری آیتیں وہ ہیں دوزخ والے
ارے میرے محترم بھائی ! میں یہی تو جاننا چاہ رہا ہوں کہ کفر کی اصطلاح قرآن و سنت کے مطابق کیا ہیں ۔ یا عام لفظوں میں کفر کس کو کہتے ہیں ۔ اور جس آیت کو آپ نے یہاں کوٹ کیا ہے ۔ اس کا پش منظر تو پہلے جان لیں ۔ آپ نے دوبارہ کفر سب غیر مسلموں پر لاگو کردیا ۔
 

سید ذیشان

محفلین
عیسائی تین خداؤں کو مانتے ہیں اور یہودی خدا اور اس کے بیٹے کو خدا مانتے ہیں۔ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات وحدانیت کو نہیں مانتے اس لیے کافر کہلاتے ہیں۔

اگر آپ کی بات درست مان لی جائے تو اہل کتاب اور دیگر مشرکین میں فرق کیوں روا رکھا گیا ہے؟ اہل کتاب خواتین سے شادی کی اجازت ہے وغیرہ وغیرہ
 

یوسف-2

محفلین
ارے میرے محترم بھائی ! میں یہی تو جاننا چاہ رہا ہوں کہ کفر کی اصطلاح قرآن و سنت کے مطابق کیا ہیں ۔ یا عام لفظوں میں کفر کس کو کہتے ہیں ۔ اور جس آیت کو آپ نے یہاں کوٹ کیا ہے ۔ اس کا پش منظر تو پہلے جان لیں ۔ آپ نے دوبارہ کفر سب غیر مسلموں پر لاگو کردیا ۔
اگر آپ واقعی جاننا چاہ رہے ہیں تو براہ راست قرآن و حدیث سے رجوع کریں۔ اور اگر آپ کو پہلے سے ہی سب کچھ معلوم ہے اور آپ کے سوال کا مقصد صرف میرا امتحان لینا مقصود ہے تو میں یہ امتحان دینے سے قاصر ہوں۔:p
 

ظفری

لائبریرین
اگر آپ واقعی جاننا چاہ رہے ہیں تو براہ راست قرآن و حدیث سے رجوع کریں۔ اور اگر آپ کو پہلے سے ہی سب کچھ معلوم ہے اور آپ کے سوال کا مقصد صرف میرا امتحان لینا مقصود ہے تو میں یہ امتحان دینے سے قاصر ہوں۔:p

بخدا میرا ہرگز یہ مقصد نہیں کہ میں آپ کا امتحاں لوں ۔ مطلب میری کیا مجال کہ میں اس غلطی کا متحمل ہوسکوں ۔ میں نے تو آپ کے مندرجہ ذیل کوٹ کے جواب میں استفار کیا تھا کہ اس کوٹ میں تو آپ نے نہ جانے کیا کیا کہہ دیا ہے ( اور خدانخواستہ میں اس کو آپ کا فتویٰ بھی قرار نہیں دے رہا ) ۔ آن دی ریکارڈ کی بات چھیڑتا تو پھر بات بہت دور نکل جاتی ہے ۔ کیونکہ اس میں ایک نیا انکشاف ہوا کہ کسی " کافرہ " کیساتھ گھومنا پھرنا " ناجائز" مراسم کے زمرے میں آتا ہے ۔ کاش موصوفہ مسلم ہوتیں تو اس بہتان سے شاید محفوظ رہتیں ۔ اس لیئے میں صرف " کافر " کی اصطلاح آپ سے جاننے کی کوشش کی تھی ۔ ;)

بھائی آپ کی بات درست ہے۔ لیکن میرا روئے سخن ”زنا“ کی طرف ہرگز نہیں تھا۔ ایک مسلمان کا ایک نامحرم کافرہ کے ساتھ اکیلے گھومنا پھرنا تو آن دی ریکارڈ تھا۔ یہ بھی ”ناجائز مراسم“ کے زمرہ میں آتا ہے۔ اور ”بے حیائی“ کے ایسے ”کھلے اعمال“ پر تنقید کرنا شرعاً ممنوع نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
 
مشرکین اور اہل کتاب
(یہ اقتباس دوسری جگہ سے لیا گیا ہے ، معلوماتی ہے ضرور پڑھے)

مذکورہ عقیدے مشرکانہ ہیں،اس لیے ان عقیدوں کے حاملین بھی یقینا اسی طرح مشرک ہیں ،جیسے لات و عزی کے پجاری مشرک تھے۔اب یہ سوال سامنے آتا ہے کہہ پھر قرآن نے ان کو صراحت کے ساتھ مشرک کیوں نہیں کہا؟اور انہیں مشرکین عرب کے مقابلے میں اہل کتاب کے الفاظ سے کیوں مخاطب کیا؟ کیا ہمارے ناقص فہم کے مطابق اس کی اصل وجہ تمام موجود فرقوں کا امتیاز اور تشخص تھا،اگر سب کے لیے ایک ہی لفظ "مشرک" استعمال کیا جاتا،تو کسی بھی فرقے کا امتیاز باقی نہ رہتا،جب کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت ان کے امتیاز کو باقی رکھنا تھا۔یہودونصاری کا امتیاز یہ تھا کہ وہ اللہ اور رسولوں کے ماننے والے تھے،انہیں آسمانی کتابوں سے بھی نوازا گیا تھا،لیکن اس کے باوجود وہ عمل و اعتقاد کی خرابیوں میں مبتلا ہو گئے۔انہیں بار بار اہل کتاب کے لفظ سے خطاب کرنے میں یہی حکمت تھی کہ انہیں ان کے جرم اور معصیت و طغیان کی شناعت و قباحت کو زیادہ سے زیادہ نمایاں کر کے دکھلایا جاتا اور وہ اسی طرح ہو سکتا تھا کہ انہیں یاد دلایا جاتا کہ تم لوگوں نے اہل کتاب ہونے کے باوجود یہ یہ کیا اور اس اس قسم کے عقیدے گھڑ لیے،جو صریحا کفر ہیں۔اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ ان کے اندر شرک نہیں پایاجاتا تھااور اس اعتبار سےوہ مشرک نہیں تھے۔یقینا جس طرح وہ کافر تھے ،مشرک بھی تھے۔انہیں اہل کتاب صرف عربوں سے ممتاز کرنے کے لیے کہا گیا ،جیسے عربوں کو قرآن نے اُمی بھی کہا،کیونکہ ان کی اکثریت ان پڑھ تھی،جب کہ اہل کتاب میں تعلیم و تعلم کا سلسلہ قائم تھا، اس لیے انہیں اُمی نہیں کہا گیا،اس کی وہ اس معاملے میں دونوں کا اپنا اپنا امتیاز تھا ،عرب بالعموم ان پڑھ تھے اور اہل کتاب کی اکثریت پڑھی لکھی ۔اس لیے ایک کو اہل کتاب اور دوسرے کو اُمی کہا گیا۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ عربوں میں کوئی بھی پڑھا لکھا نہ تھا یا اہل کتاب میں کوئی ان پڑھ نہ تھا،یہ عمومی اعتبار سے ان کا ایک تشخص تھا جس کو اللہ تعالیٰ نے ایک حکمت و مصلحت کے تحت باقی رکھا۔اس سے قطعا یہ مہوھم اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ اہل کتاب کو مشرک نہیں کہا جاسکتا۔اس کو ایک اور مثال سے یوں سمجھا جس سکتا ہے۔قرآن میں ہے:
إِنَّ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَٱلَّذِينَ هَادُوا۟ وَٱلصَّٰبِ۔ِٔينَ وَٱلنَّصَٰرَىٰ وَٱلْمَجُوسَ وَٱلَّذِينَ أَشْرَكُوٓا۟ إِنَّ ٱللَّهَ يَفْصِلُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ ٱلْقِيَٰمَةِ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍۢ شَهِيدٌ ﴿17﴾

ترجمہ: بے شک الله مسلمانوں اور یہودیوں اور صابیوں اور عیسائیوں اورمجوسیوں اور مشرکوں میں قیامت کے دن فیصلہ کرے گا بےشک ہر چیز الله کے سامنے ہے (سورۃ الحج،آیت 17)
یہاں اللہ تعالیٰ نے ان تمام گروہوں کا الگ الگ نام لیا،جونزول قرآن کے وقت عرب یا اس کے قرب و جوار میں تھے اور امتیازی ناموں سے معروف تھے،ان میں اہل ایمان اور اور یہودونصاری کے علاوہ صابئین اور مجوس کا نام بھی ہے،صابئین ،فرشتوں اور ستاروں کے پجاری تھے۔مجوس، سورج پرست اور آتش پرست تھے ،بلکہ مجوس دو خالق مانتے تھے،ایک نور اور خیر کا خالق اور دوسرا ظلمت اور شر کا خالق اور یہ دنیا کا واحد فرقہ ہے جو ذات کے اعتبار سے تعدد الہ کا قائل ہے۔ورنہ دیگر تمام مشرکین ذات کے اعتبار سے ایک ہی الہ کے قائل رہے ہیں،وہ صرف صفات کے اعتبار سے دوسروں کو اللہ ئی اختیارات کا حامل سمجھتے تھے ،جیسے آج کل کے قبر پرست ہیں۔گویا دنیا میں اصل اور سب سے بڑے مشرک مجوس تھے اور ہیں،لیکن قرآن نے ان کا ذکر مشرکوں کے ساتھ نہیں کیا،بلکہ ان کے امتیازی نام سے ان کا ذکر کیا،صابئین کا بھی ان کے امتیازی نام سے ذکر کیا اوران سب کا نام لینے کے بعد فرمایا (وَٱلَّذِينَ أَشْرَكُوٓا۟) "اور وہ لوگ جنہوں نے شرک کیا" یعنی بُتوں کے پجاریوں کو الگ مشرکین کے لفظ سے یاد کیا،جب کہ صابئین بھی ستارہ پرست اور مجوس بھی سورج پرست و آتش پرست تھےاور اس اعتبار ےسے یقینا یہ بھی پکے مشرک تھے۔لیکن اس کے باوجود قرآن نے ان کا ذکر مشرکین سے الگ کیا۔کیا اس سے یہ استدلال صحیح ہو گا کہ صابئین اور مجوس مشرک نہیں ہیں یا انہیں مشرک نہیں کہا جا سکتا،کیونکہ قرآن نے ان کے لیے مشرکین کی اصطلاح استعمال نہیں کی؟
اگر صابئین اور مجوس اپنے عقیدوں کے اعتبار سے مشرک ہیں اور انہیں مشرک کہا جا سکتا ہے ،حالانکہ قرآن نے انہیں مشرک نہیں کہا،بلکہ مشرکین سے الگ ان کا ذکر کیا ہے۔تو یقینا یہودونصاری کو بھی ان کے عقیدوں کی بنا پر مشرک کہا جا سکتا ہے،گو قرآن نے ان کا ذکر مشرکین سے الگ کیا ہے۔کیونکہ امتیاز کے لیے الگ الگ نام لینا ضروری تھا۔اسی طرح جو نام نہاد مسلمان مشرکانہ عقائد و اعمال میں مبتلا ہیں،وہ مسلمانوں میں شمار ہونے کے باوجود مشرک کیوں نہیں ہو سکتے۔؟یا نہیں مشرک کیوں نہیں کہا جا سکتا؟
یہ ساری گفتگو ہم نے یہ تسلیم کرتے ہوئے کی ہے کہ قرآن نے یہودونصاری کو مشرک نہیں کہا ہے۔لیکن ہمارے خیال میں یہ دعوی بھی مکمل طور پر صحیح نہیں ہے۔یہ ٹھیک ہے کہ صراحتا انہیں مشرک نہیں کہا گیا ،لیکن قرآن نے ان کے مشرک ہونے کی طرف واضح اشارہ ضرور کیا ہے۔دیکھئے قرآن نے کہا:
لَقَدْ كَفَرَ ٱلَّذِينَ قَالُوٓا۟ إِنَّ ٱللَّهَ هُوَ ٱلْمَسِيحُ ٱبْنُ مَرْيَمَ ۖ وَقَالَ ٱلْمَسِيحُ يَٰبَنِىٓ إِسْرَٰٓءِيلَ ٱعْبُدُوا۟ ٱللَّهَ رَبِّى وَرَبَّكُمْ ۖ إِنَّهُۥ مَن يُشْرِكْ بِٱللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ ٱللَّهُ عَلَيْهِ ٱلْجَنَّةَ وَمَأْوَىٰهُ ٱلنَّارُ ۖ وَمَا لِلظَّٰلِمِينَ مِنْ أَنصَارٍۢ﴿72﴾

ترجمہ: وہ لوگ بےشبہ کافر ہیں جو کہتے ہیں کہ مریم کے بیٹے (عیسیٰ) مسیح اللہ ہیں حالانکہ مسیح یہود سے یہ کہا کرتے تھے کہ اے بنی اسرائیل اللہ ہی کی عبادت کرو جو میرا بھی پروردگار ہے اور تمہارا بھی (اور جان رکھو کہ) جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرے گا اللہ اس پر بہشت حرام کر دے گا اور اس کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں (سورۃ المائدہ،آیت72)
قرآن کریم کی اس آیت کا سیاق واضح کر رہا ہے کہ مسیحوں کا عقیدہ ابنیت میسح جیسے کفر ہے ،وہ شرک بھی ہے۔فرق صرف یہ ہے کہ کفر کے لیے صریح لفظ استعمال کیا گیا ہے جب کہ شرک کے لیے تعریض و کنایہ کا انداز اپنایا گیا ہے ۔اگر ابنیت مسیح کا عقیدہ شرک نہ ہوتا یا کم از کم یہ کہ جائے کہ قرآن نے اسے شرک سے تعبیر نہیں کیا ہے،تو یہاں (مَن يُشْرِكْ بِٱللَّهِ) کہنے کا کوئی مطلب ہی نہیں رہتا۔یہ عقیدہ شرک ہے ،تب ہی تو اللہ نے اس عقیدے کو کفر سے تعبیر کر کے شرک کی سزا بیان فرمائی ہے،ورنہ یہ کہا جاتا (ومن یکفر باللہ) کی جگہ (مَن يُشْرِكْ بِٱللَّهِ) کہہ کر واضح کر دیا گیا کہ کسی کا امتیازی نام کچھ بھی ہو،لیکن اگر اس کے عقیدہ و عمل میں شرک کی آمیزیش پائی جائے تو اس کے عقیدے کو شرک اور خود اس ک مشرک کہا جس سکتاہے،اسی لیے قرآن نے اس کو ظالم سے بھی تعبیر کیا ہے جو یہاں یقینا مشرک ہی کے معنی میں ہے۔اسی طرح قرآن کریم کی دوسری آیت ہے:
ٱتَّخَذُوٓا۟ أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَٰنَهُمْ أَرْبَابًۭا مِّن دُونِ ٱللَّهِ وَٱلْمَسِيحَ ٱبْنَ مَرْيَمَ وَمَآ أُمِرُوٓا۟ إِلَّا لِيَعْبُدُوٓا۟ إِلَٰهًۭا وَٰحِدًۭا ۖ لَّآ إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ سُبْحَٰنَهُۥ عَمَّا يُشْرِكُونَ ﴿31﴾

ترجمہ: انہوں نے اپنے عالموں اور درویشوں کو الله کے سوا رب بنا لیا ہے اور مسیح مریم کے بیٹےکو بھی حالانکہ انہیں حکم یہی ہوا تھا کہ ایک الله کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ ان لوگوں کے شریک مقرر کرنے سے پاک ہے (سورۃ التوبہ،آیت 31)
یہاں بھی قرآن کے سیاق سے صاف واضح ہو رہا ہے کہ یہودونصاری کا اپنے علماء کو رب بنا لینا اور (عیسائیوں) کا مسیح بن مریم کو رب بنا لینا شرک ہے،اس شرک سے اللہ تعالیٰ پاک ہے اور جب ان کا یہ عقیدہ شرک ہے جس سے اللہ تعالیٰ براءت کا اظہار فرما رہا ہے تو یہودونصاری یقینا مشرک ہوئے۔اس لیے جب بھی ان کے فاسد عقیدہ کی بات ہو گی تو ان کےفاسد عقیدے کو شرک اور خود ان کو مشرک کہا جائے گا،گو اصطلاح یا امتیاز کے طور پر انہیں بالعموم اہل کتاب ہی کے الفاظ سے موسوم کیا جائے۔یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے بدکاری کے مرتکب کو زانی،چوری کرنے والے کو چور،ڈاکہ مارنے والے کو ڈاکر کہا جاتا ہے اور کہا جائے گا،چاہے وہ کوئی بھی ہو،دنیا کے کسی بھی مذہب سے اس کا تعلق ہو۔اسی طرح جو بھی مشرکانہ عقیدہ و عمل کا حامل اور مرتکب ہو گا،اس کے عقیدہ و عمل کو شرک اور خود اسے مشرک کہا جائے گا چاہے وہ کوئی بھی ہو اور کسی بھی مذہب سے اس کا تعلق ہو۔
باقی رہا مسئلہ کہ جہالت یا نا سمجھی کی وجہ سے اسے کچھ رعایت مل سکتی ہے یا نہیں؟ اس کی بابت ہم کچھ نہیں کہہ سکتے،یہ اس کا معاملہ اللہ کے ساتھ ہے،جس کا فیصلہ وہ روز قیامت ہی فرمائے گا۔علماء کی ذمہ داری بلاغ مبین (کھول کر بیان کر دینا) ہے اور اس بلاغ مبین میں یہ بات بھی شامل ہے کہ جو عقیدہ یا عمل جیسا ہے،قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کی وضاحت کریں ،اس پر تاویلات کا پردہ نہ ڈالیں اور نہ مصلحت کا نقاب۔وہ حلال ہے یا حرام،سنت ہے یا بدعت،شرک ہے یا توحید؟ہر عمل کی وضاحت علماء کا منصبی فریضہ ہے ،تاکہ لوگ حلال کو اختیار کریں ،حرام سے بچیں،سنت پر عمل کریں۔بدعت سے گریز کریں اور شرک سے بچیں اور توحید کا راستہ اپنائیں۔
 

یوسف-2

محفلین
بخدا میرا ہرگز یہ مقصد نہیں کہ میں آپ کا امتحاں لوں ۔ مطلب میری کیا مجال کہ میں اس غلطی کا متحمل ہوسکوں ۔ میں نے تو آپ کے مندرجہ ذیل کوٹ کے جواب میں استفار کیا تھا کہ اس کوٹ میں تو آپ نے نہ جانے کیا کیا کہہ دیا ہے ( اور خدانخواستہ میں اس کو آپ کا فتویٰ بھی قرار نہیں دے رہا ) ۔ آن دی ریکارڈ کی بات چھیڑتا تو پھر بات بہت دور نکل جاتی ہے ۔ کیونکہ اس میں ایک نیا انکشاف ہوا کہ کسی " کافرہ " کیساتھ گھومنا پھرنا " ناجائز" مراسم کے زمرے میں آتا ہے ۔ کاش موصوفہ مسلم ہوتیں تو اس بہتان سے شاید محفوظ رہتیں ۔ اس لیئے میں صرف " کافر " کی اصطلاح آپ سے جاننے کی کوشش کی تھی ۔ ;)
آپ نے تو لفظ پکڑ لیا ہے،تاکہ اصل بات کو گول مول کیا جاسکے۔ اصل بات میرے مراسلہ میں یہ تھی کہ موصوفہ ایک ڈیکلیرڈ کافرہ تھیں۔ اور ان کا کسی مسلمان کے ساتھ گھومنے پھرنے سے یہ ”ثابت“نہیں ہوتا کہ وہ ایمان لے آئیں تھیں۔ اور یہ کہ کسی مسلمان کا کسی نامحرم یا کافرہ کے ساتھ گھومنا پھرنا ویسے بھی ناجائز ہے۔
ویسے میں نے نامحرم پہلے لکھا تھا، کافرہ بعد میں ۔۔۔ مطلب یہ تھا کہ نامحرم کے ساتھ گھومنا پھرنا بھی ”ناجائز“ ہے اور موصوفہ نامحرم کے ساتھ کافرہ بھی تھیں۔ کافرہ کا ذکر اس لئے بھی کیا کہ اوپر احباب اسی کافرہ کی مغفرت کے لئے دعا گو تھے، جس سے اللہ نے صاف صاف منع کیا ہے۔
گو اس وضاحت کی ضرورت نہینں تھی، مگر آپ کے ”اصرار“ پر نثری جملوں کی نثر میں ہی تشریح کردی ہے ۔ :)
 
Top