برطانیہ ملک ریاض کے19 کروڑ پاؤنڈز پاکستان کو دے گا

جاسم محمد

محفلین
اور یوں انصاف کا بول بالا ہوا اور ساتھ میں تحریکِ انصاف کے 'کرپشن'، 'انصاف'، منی لانڈرنگ'، 'مافیا'، 'میرٹ' کے نعروں کا بھی! مبارک باد قبول کیجیے!
بول بالا = منہ کالا
معلوم نہیں اپوزیشن، لبرل، لفافوں کی دیرینہ خواہش کیوں ہے کہ یہ حکومت پاک فوج یا ان کے فرنٹ مینوں کا مقابلہ کر کے سیاسی شہید ہو جائے جبکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ حکومت بھی ماضی کی حکومتوں کی طرح سلیکٹڈ ہی ہے۔ :)
 

جاسم محمد

محفلین
یہ کنٹینر والا کپتان واپس چاہئے!
بدعنوانی کےسرپرست عوام نہیں، ملک ریاض جیسے کردار ہیں
10/12/2019 سید مجاہد علی



پاکستانی اشرافیہ کے محبوب ملک ریاض پر برطانیہ میں عائد ہونے والے جرمانہ کی پاکستان کو وصولی اور براستہ سپریم کورٹ اس رقم کی ملک ریاض کے اکاؤنٹ میں واپسی کے ہوشربا انکشافات کے باوجود، وزیر اعظم نے اینٹی کرپشن ڈے کی تقریب میں شریک ہوکر بدعنوانی کی بیخ کنی کا اعلان کیا ہے۔

اسلام آباد میں منعقد ہونے والی تقریب میں انہوں نے عوام کو کم فہم اور ناسمجھ قرار دیتے ہوئے یہ دعویٰ کرنا بھی ضروری سمجھا کہ ’لوگ سمجھتے ہیں کہ کرپشن ہوئی تو حکومت کا پیسہ چلا گیا، ہمیں کیا فرق پڑتا ہے۔ عوام کرپٹ لوگوں پر پھول برساتے ہیں اور ان کو زندہ باد بھی کہتے ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے کوئی آپ کا گھر لوٹ لے اور آپ اس پر پھول پھینکنا شروع کردیں۔ لوگوں کو یہ سمجھ نہیں آتی کہ جب ایک ملک کا پیسہ چوری ہوتا ہے تو اصل میں ساری قوم کو اس کا نقصان ہوتا ہے‘۔ دیوار سے لگی حکومت کے سربراہ کا یہ انداز گفتگو دراصل ان کی باتوں کے کھوکھلے پن کو ظاہر کرتا ہے اور اپنی ناکامی کو چھپانے کی ناکام کوشش ہے۔

حکومت منی لانڈرنگ کے ذریعے ملک کی دولت بیرون ملک لے جانے والے ملک ریاض کے رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کے باوجود، ان کے بارے میں ایک لفظ کہنے پر آمادہ نہیں ہے۔ نہ صرف ملک ریاض سے غیر قانونی سرگرمیوں کے بارے میں کوئی تحقیقات شروع کرنے کا اعلان سامنے نہیں آیا بلکہ وزیر اعظم نے اپنے معاون خصوصی شہزاد اکبر کے ذریعے عوام کو یہ بھی بتا دیا ہے کہ برطانیہ نے جو غیر قانونی دولت ملک ریاض سے وصول کرکے پاکستانی عوام کے لئے روانہ کی تھی، اسے حکومت نے سپریم کورٹ کے ذریعے ملک صاحب کو ہی واپس کر دیا ہے۔ اس کے باوجود عمران خان کے حوصلہ کی داد دینا چاہئے کہ وہ اینٹی کرپشن دن منانے اور کرپشن کے بارے میں لیکچر دینے کا ڈھونگ کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ ملک کی تاریخ میں بدعنوانی کا سب سے بڑا اسکینڈل سامنے آنے پر عمران خان نے البتہ اپنی کابینہ کو اس معاملہ پر خاموش رہنے اور ملک ریاض یا ان سے وصول ہونے والی دولت کے بارے میں کوئی بات نہ کرنے کا حکم ضرور دیا۔

عمران خان کا گلہ ہے کہ عوام کو کرپشن کے نقصانات کا علم نہیں ہے اور وہ بدعنوان لیڈروں پر پھول نچھاور کرتے ہیں۔ وہ اگر اپنی آنکھیں اور کان کھول سکتے اور عوام کی آواز ان تک پہنچ سکتی تو وزیر اعظم کو اندازہ ہوتا کہ ملک کا بچہ بچہ کس طرح اس گھناؤنی بددیانتی اور بدعنوانی پر تھو تھو کررہا ہے۔ وہ اپوزیشن جسے عمران خان نکو بنا کر اور الزام کی سان پر رکھ کر، بدعنوانی کے نعروں کی بنیاد پر اپنا سیاسی ایجنڈا سامنے لاتے رہے ہیں، دراصل ملک ریاض کے معاملہ پر حکومت کی حلیف بنی ہوئی ہے۔ کیوں کہ اس کی قیادت بھی اسی اشرافیہ کا حصہ ہے جو ملک ریاض جیسے عناصر کی سرپرستی، قومی فریضہ سمجھتی ہے۔ ملک ریاض کے معاملہ میں حکومت کی ملی بھگت پر اپوزیشن کی خاموشی اس بات کا ثبوت ہے کہ ملک کی ساری قیادت کے مفادات مشترک ہیں۔

ایوان اقتدار سے لے کر اپوزیشن کے اجلاسوں تک ہر جگہ پر اس معاملہ پر خاموشی ہے۔ البتہ عوام میں بے چینی، غم و غصہ اور پریشانی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ عمران خان اگر یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے کھوکھلے نعروں کے ذریعے عوام کی آنکھوں میں مسلسل دھول جھونکتے رہیں گے تو انہیں نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہئے۔ جلد یا بدیر انہیں عوامی غیظ و غضب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پھر کوئی ملک ریاض انہیں بچانے کے لئے سامنے نہیں آئے گا کیوں کہ ملک ریاض جیسوں کے دوست ہر پارٹی اور ہر گروہ میں ہوتے ہیں۔ ان کی دوستی اپنے مفاد اور دولت سے ہوتی ہے۔ انہیں کسی عمران خان کے سیاسی دشمنوں سے حساب چکتا نہیں کرنا ہوتا۔

وزیر اعظم نے پاکستانی عوام کو یہ گالی دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ کرپشن اور بدعنوان لیڈروں کی سرپرستی کرتے ہیں۔ یہ گالی سود سمیت عمران خان کو جلد واپس ملنے والی ہے۔ دراصل یہی خوف اس وقت حکومت کے سربراہ کے دل و دماغ پر حاوی ہے۔ عوام تو کرپشن کے ستائے ہوئے ہیں۔ انہوں نے اسی امید پر عمران خان کا ساتھ دیا تھا کہ وہ اس فرسودہ نظام کو تبدیل کرنے کی کوشش کریں گے جس نے ان کی زندگی کی خوشیاں محدود اور امکانات معدوم کردیے ہیں۔

بدنصیبی سے عمران خان اقتدار حاصل کرنے کی ہوس میں اسی نظام کا کل پرزہ اور آلہ کار بننے پر آمادہ ہو گئے جسے تبدیل کرنے کی خواہش، پاکستانی عوام میں ہرسطح پر موجود ہے۔ عوام کا ہر گروہ نظام کی کرپشن ختم کرنا چاہتا ہےخواہ اس کے عقائد اور سیاسی نظریات کچھ بھی کیوں نہ ہوں۔ عام لوگ اگر اس بدعنوان نظام میں زندہ رہنے پر مجبور ہیں تو اس کی بڑی وجہ عمران خان جیسے لیڈر ہی ہوتے ہیں جو نیا پاکستان بنانے کا خواب دکھاتے ہیں اور پھر پرانے طریقے اختیار کرتے ہوئے اقتدار کی رسہ کشی کو ہی مقصود و مطلوب بنا بیٹھتے ہیں۔ عمران خان سچائی کا آئینہ دیکھ سکیں تو انہیں حقیقت حال کا ادراک ہو۔

عوام کو الزام دینے سے پہلے عمران خان کو گریبان میں جھانک کر یہ دیکھنا چاہئے کہ اگر عوام بے شعور ہوتے اور اگر پاکستان میں کرپشن کے خلاف ناراضی موجود نہ ہوتی تو گزشتہ انتخابات میں وہ تحریک انصاف کا ساتھ کیوں دیتے۔ ووٹ کے ذریعے لوگوں نے عمران خان کو ملک کا وزیر اعظم بننے میں اعانت فراہم کی لیکن وہ اس عہدہ تک پہنچنے کے لئے آخری چھلانگ میں ملنے والے سہارے کو ہی مقصد حیات سمجھ بیٹھے ہیں۔ عمران خان کی سیاسی کامیابی اور اپنے ہی مقصد میں شرمناک ناکامی ہماری حالیہ تاریخ کا المناک باب ہے۔ کوئی بھی قوم ایسے افسوسناک تجربے سے گزرنے کی خواہش نہیں کرتی۔ لیکن لیڈروں کے جھوٹے وعدے اور پر فریب باتیں انہیں بار بار دھوکہ دیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جو اسٹیج عمران خان کو اقتدار میں لانے کے لئے سجایا گیا تھا، اب خبر ہے کہ انہیں اس سے اتارنے کے لئے متبادل اسٹیج سجانے کی تیاریاں رو بہ عمل ہیں۔

ملک میں احتساب نافذ کرنے کے ذمہ دار جسٹس (ر) جاوید اقبال نے بھی آج صدر مملکت کی ہمراہی میں اینٹی کرپشن ڈے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے، ایک ایسی ہی اطلاع دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’اب ہوا کا رخ بدل گیا ہے۔ جلد ہی لوگوں کو تبدیلی دکھائی دینے لگے گی‘۔ اس تبدیلی کے عنوان کے طور پر انہوں نے ایسے معاملات پر کام کرنے کا اشارہ دیا جس میں موجودہ حکومت کے معتبر لیڈر ملوث ہیں۔ یہی جاوید اقبال اس سال کے شروع میں فرما چکے ہیں کہ سیاسی عدم استحکام سے بچنے کے لئے حکومتی عہدیداروں کے بارے میں نرمی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ سال کے آخر میں اگر ہواؤں کا رخ تبدیل ہو رہا ہے تو کسی کو یہ سمجھنے میں غلطی نہیں ہونی چاہئے کہ اس تبدیلی کا منبع کہاں پر واقع ہے۔ تبدیلی لانے کے شوقین عمران خان ہوا کے اس تبدیل شدہ رخ سے خوفزدہ ہیں۔

عوام کا البتہ ان تبدیلیوں سے کوئی لینا دینا نہیں۔ عوام کی کامیابی تو اس تبدیلی میں ہے جو ان کے ووٹ کی طاقت سے رونما ہو۔ لیڈر جس مقصد سے ان کے ووٹ مانگیں تو وہ بعد میں بھی اسی ایجنڈے پر قائم رہیں۔ جو لیڈر ووٹ عوام سے مانگتے ہیں اور تابعداری کا عہد نامہ کہیں اور لکھ کر دیتے ہیں، انہی کی وجہ سے ملک کی سیاسی تاریخ لہو لہان اور عوام کی زندگی طوفان کی زد پر ہے۔ ملک ریاض کا معاملہ ایک ایسا ہی سنگین معاملہ ہے۔ کسی مہذب ملک میں اس جرم کی اجازت نہیں دی جا سکتی کہ منی لانڈرنگ پر عائد ہونے والا جرمانہ اسی شخص کو واپس کر دیا جائے۔ پاکستان میں لیکن سب بااثر ملک ریاض کے زیر نگیں کردار بن چکے ہیں۔ اس ’مجبوری ‘ کی وجہ بھی سب جانتے ہیں۔ بدعنوانی پر عوام کو مورد الزام ٹھہرانے والے عمران خان اور قومی اسمبلی کے فلور پر انتقام کی دھمکی دینے والے خواجہ آصف دراصل سول حکمرانی کے اصول سے دست بردار ہو کر اقتدار کی دوڑ میں شریک ہیں۔

عوام محو تماشا ہیں۔ وہ خاموش ضرور ہیں۔ یہ خاموشی ان کی بے بسی کی علامت بھی ہے لیکن عوام میں بیدار ہونے والا جمہوری شعور مستحکم ہو رہا ہے۔ عام لوگ یہ بات سمجھنے لگے ہیں کہ جمہوریت کا سفر جاں گسل ضرور ہے لیکن رائگاں نہیں جاتا۔ یہی بات ان ہاؤس تبدیلی کی خواہش کرنے یا مفاہمت کی سیاست کو مسائل کا حل سمجھنے والوں کی فہم سے بالا ہے۔
 

عدنان عمر

محفلین
بلا عنوان
IMG-20191210-164158.jpg
 

جاسم محمد

محفلین
فاشسٹ رجیم کی حمایت کرنے کے باوجود کوئی کس طرح لیفٹسٹ اور لبرل کہلاسکتا ہے۔
تحریک انصاف کو بالکل ویسے ہی سب سے زیادہ ووٹ پڑے ہیں جیسے ماضی کے الیکشن میں دیگر جماعتوں کو پڑتے تھے۔ اگر وہ سب غلط تھا تو پاکستان میں بننے والی اب تک کی تمام حکومتیں ناجائز تھیں۔ اور اگر وہ سب صحیح تھا تو تحریک انصاف کی حالیہ حکومت بھی جائز ہے۔
رہا سوال نظریہ کا تو وہ بھٹو جیسے سرخے لبرل کی ہی حکومت تھی جب پاکستانی قادیانیوں سے مذہبی آزادی آئینی ترمیم کرکے چھین لی گئی۔ جب ۲۲ طاقتور صنعتی خاندانوں کی املاک اور اثاثوں کو بجنبش قلم سرکاری تحویل میں دے کر ملک کے صنعتی انقلاب کا کباڑہ کر دیا گیا۔ جب معیشت کو سرمایہ دارانہ مارکیٹ اکانمی سے کنورٹ کر کے سوشلسٹ اکانمی کیا گیا جس کی وجہ سے پاکستانی معیشت ایسی بیٹھی کہ آج تک اپنے پاؤں پر کھڑی نہ ہو سکی۔ جب اداروں اور محکموں میں میرٹ کا نظام ختم کرکے پارٹی ورکرز بھرتی کئے گئے اور یوں ان کو تباہ کیا گیا۔ اس قسم کی سوشلسٹ لبرلزم سے تحریک انصاف ہزار گنا بہتر ہے۔
 
آخری تدوین:
تحریک انصاف کو بالکل ویسے ہی سب سے زیادہ ووٹ پڑے ہیں جیسے
جیسے امیر المؤمنین کو 98 فیصد ووٹ پڑے تھے۔ کیا فارم 45 بھول گئے؟.

بھٹو 70 میں پاپولر ووٹ سے جیتا تھا۔ ملٹری جنتا نے مشرقی پاکستان سے جان چھڑائی تو مغرب میں بھٹو ہی کی پارٹی اکثریت میں تھی۔

بے نظیر نے الیکشن جیتا تھا لہٰذا مجبوراً اسے حکومت دی گئی۔
 

جاسم محمد

محفلین
جیسے امیر المؤمنین کو 98 فیصد ووٹ پڑے تھے۔ کیا فارم 45 بھول گئے؟.

بھٹو 70 میں پاپولر ووٹ سے جیتا تھا۔ ملٹری جنتا نے مشرقی پاکستان سے جان چھڑائی تو مغرب میں بھٹو ہی کی پارٹی اکثریت میں تھی۔

بے نظیر نے الیکشن جیتا تھا لہٰذا مجبوراً اسے حکومت دی گئی۔
بھٹو، نواز شریف، بینظیر، زرداری، عمران خان وغیرہ کو جن ٹرمز اینڈ کنڈیشنز پر حکومت دی گئی وہ بھی بتائیں۔ پاکستانی ہائبرڈ سسٹم میں ایسا نہیں ہے کہ جس پارٹی کو اکثریتی ووٹ پڑ گئے وہ اقتدار میں آجائے گی۔ اگر یہ سب اتنا آسان ہوتا تو صدر یحیی فوری طور پر اقتدار شیخ مجیب کو منتقل کر دیتے۔ وہ اس لئے طول دیتے رہے کیونکہ شیخ مجیب نے اپنے ۶ نکاتی ایجنڈے پر رتی بھر بھی لچک دکھانے سے انکار کیا تھا۔ مزید یہ کہ شیخ مجیب یحیی اور بھٹو کو حکومت میں دیکھنا نہیں چاہتے تھے۔ اسلئے جمہوریت کی بجائے ملک توڑنے کو ترجیح دی گئی۔
اسے پاکستان کی خوش قسمتی سمجھئے کہ ملک کو ابھی تک شیخ مجیب جیسا اڑیل حکمران نصیب نہیں ہوا۔ وگرنہ ۱۹۷۱ کے بعد یہاں مزید ٹکڑے بھی ہو سکتے تھے۔
ہر الیکشن جیتنے والے سیاست دان اقتدار کی خاطر اسٹیبلشمنٹ کی کچھ شرائط مان لیتے ہیں۔ اور یہی ہائبرڈ نظام کا خاصہ ہے اور حقیقی جمہوریت کی راہ میں اصل رکاوٹ۔
 
الیکشن جیتنے والے سیاست دان اقتدار کی خاطر اسٹیبلشمنٹ کی کچھ شرائط مان لیتے ہیں۔

زور الیکشن جیتنے والے سیاست دانوں پر ہے، اس بہروپیے پر نہیں جو نہ الیکشن جیتا نہ سیاستدان ہے۔ جو پانچ ہزار لوگوں کو بغیر مقدمہ چلائے پھانسی پر لٹکانا چاہتا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
زور الیکشن جیتنے والے سیاست دانوں پر ہے، اس بہروپیے پر نہیں جو نہ الیکشن جیتا نہ سیاستدان ہے۔ جو پانچ ہزار لوگوں کو بغیر مقدمہ چلائے پھانسی پر لٹکانا چاہتا ہے۔
آپ کے کراچی سے فیصل واڈا کا کردار محض ایک پیرا شوٹر کا ہے۔ اس کی فکر نہ کریں یہ سب لوگ جلد یا بدیر فارغ کر دیے جائیں گے۔
 
آپ کے کراچی سے فیصل واڈا کا کردار محض ایک پیرا شوٹر کا ہے۔ اس کی فکر نہ کریں یہ سب لوگ جلد یا بدیر فارغ کر دیے جائیں گے۔
لوٹوں اور بہروپیوں کو نکال دیں تو نیازی صاحب اکیلے کھڑے ہوں گے۔ تحریکی ساتھیوں کو تو پہلے دیس نکالا دے چکے۔ حامد خان، وجیہہ الدین، اکبر ایس بابر اینڈ کاؤنٹنگ۔۔
 

جاسم محمد

محفلین
لوٹوں اور بہروپیوں کو نکال دیں تو نیازی صاحب اکیلے کھڑے ہوں گے۔ تحریکی ساتھیوں کو تو پہلے دیس نکالا دے چکے۔ حامد خان، وجیہہ الدین، اکبر ایس بابر اینڈ کاؤنٹنگ۔۔
اس کا پس منظر جاننا ضروری ہے۔ ۲۰۱۳ الیکشن میں لہر تحریک انصاف کی چل رہی تھی لیکن پارٹی ابھی بھی اصل نظریاتی انصافین کے ہاتھ میں تھی۔ اس لئے اس وقت منظم دھاندلی کرکے خان صاحب کو سبق سکھا دیا گیا کہ اگر اقتدار میں آنا ہے تو ہمارے ایجنڈے پر چلو۔
خان صاحب بھی لفٹر سے گر کر چوٹیں شوٹیں کھا کر سمجھدار ہو گئے اور اسٹیبلشمنٹ سے ہاتھ ملا لیا۔ وہ دن اور آج کا دن خان صاحب آپ کی محبوب اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی فرنٹ مین کا کردار نبھا رہے ہیں جیسے ملک ریاض اسٹیبلشمنٹ کے کاروباروں کا فرنٹ مین ہے۔ :)
عمران خان کو اپنا فرنٹ مین بنانے کا فوج کو بہت فائدہ ہوا ہے۔ اوّل تو انہیں پارٹی میں نظریاتیوں کی چھٹی پر کوئی اعتراض نہیں۔ دوئم تحریک انصاف کے سپورٹر فوج مخالف نہیں ہیں بلکہ بعض سختی سے عسکری اداروں کا دفاع کرتے ہیں۔
یوں اسٹیبلشمنٹ کو تاریخ میں پہلی بار خود سے پارٹی لیڈر، پارٹی بنانے کی بجائے بنا بنایا سیاسی پیکیج تحریک انصاف کی صورت میں دستیاب ہو گیا ہے۔ اب یہ تو خان صاحب کی برداشت پر منحصر ہے کہ وہ کس حد تک اس ہائبرڈ نظام کے ساتھ چل سکتے ہیں۔ جلد یا بدیر ان کو فیصلہ کرنا ہوگا۔ ساتھ نہ چلنے کی صورت میں اقتدار واپس قومی چوروں کو منتقل کر دیا جائے جو خان صاحب سے بہتر پیکیج اسٹیبلشمنٹ کو آفر کر چکے ہیں :)
 
الیکشن میں دھاندلی کرواتے وقت اسٹیبلشمنٹ کا خیال تھا کہ کچھ پاپولر ووٹ اور کچھ دھاندلی، نیازی صاحب کو برتری مل جائے گی۔

غلطی سے 2018 تبدیلی سال بھی کہہ گئے۔

نتیجہ آیا تو پاپولر ووٹ غائب. تب لوٹوں کو گھیرنا پڑا۔ یوں نیازی صاحب اقتدار کی کرسی پر براجمان ہوئے۔

اب اسٹیبلشمنٹ کو کچھ کچھ اندازہ ہوچلا ہے کہ ان تلوں میں تیل نہیں۔ نیازی صاحب کو تو کچھ نہیں آتا۔ اب ادھر ادھر بھی دیکھ رہے ہیں۔
 
Top