برطانیہ ملک ریاض کے19 کروڑ پاؤنڈز پاکستان کو دے گا

آورکزئی

محفلین
ELNh7j7WoAAOGSY
 

آورکزئی

محفلین
اگر ملک ریاض کے مطابق انہوں نے یہ جائیداد سپریم کورٹ کے لیے بیچی ہے تو نیشنل کرائم ایجنسی نے سپریم کورٹ کے فیصلے سے مہینوں پہلے کیسے ان کے اکاؤنٹس منجمد کرنا شروع کر دیے تھے؟
 

جاسم محمد

محفلین
اگر ملک ریاض کے مطابق انہوں نے یہ جائیداد سپریم کورٹ کے لیے بیچی ہے تو نیشنل کرائم ایجنسی نے سپریم کورٹ کے فیصلے سے مہینوں پہلے کیسے ان کے اکاؤنٹس منجمد کرنا شروع کر دیے تھے؟
نومبر 2018 میں وزیر اعظم نے شہزاد اکبر کی سربراہی میں Asset Recovery Unit شروع کیا تھا۔ جس نے برطانیہ سمیت دیگر ممالک میں پاکستانیوں کے اثاثوں سے متعلق تفصیلات پٹیشن کرنا شروع کی تھی۔
 

جاسم محمد

محفلین
کوئی پتھر سے نہ مارے میرے دیوانے کو
08/12/2019 وسعت اللہ خان
وسعت اللہ خان - تجزیہ کار

یہ بات ہمیں گھر سے درس گاہ تک متواتر ازبر کرائی جاتی ہے کہ ہر معاملے کے دو پہلو ہوتے ہیں۔ ایک منفی اور دوسرا مثبت پہلو۔ ہمیں منفی سے زیادہ مثبت پہلو کو دیکھنا اور اجاگر کرنا چاہیے۔

جیسے گلاس پانی سے آدھا بھرا ہوا ہے اور آدھا خالی ہے تو ہمیں یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ گلاس آدھا خالی ہے بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ گلاس آدھا بھرا ہوا ہے۔ اس طرح سوچنے سے انسان میں مثبت تبدیلی پیدا ہوتی ہے اور مایوسی قریب نہیں پھٹکتی۔

مثلاً ہمیں یہ نہیں کہنا چاہیے کہ پاکستان کی تہتر سالہ تاریخ میں سے آدھا وقت ملک پر براہِ راست عسکری حکمرانی رہی بلکہ یہ سوچنا چاہیے کہ پاکستان میں آدھا وقت سویلین بھی تو حکمران رہے اور آج بھی کم و بیش سویلین حکمرانی ہے۔

ہمیں یہ نہیں یاد رکھنا چاہیے کہ ملک سولہ دسمبر انیس سو اکہتر کو آدھا رہ گیا بلکہ نئی نسل کو یہ بتانا چاہیے کہ ملک کا جو آدھا حصہ بچ گیا وہ پورا ہونے کی مسلسل کوشش کر رہا ہے۔

کیا ہوا کہ چند سو یا چند ہزار لوگ غائب ہیں۔ یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ بائیس کروڑ میں سے اکیس کروڑ ننانوے لاکھ پچھتر ہزار تو اپنی جگہ موجود ہیں۔

اس پر ہی کیوں نگاہ جاتی ہے کہ سکولوں میں آدھے بچے داخل نہیں ہیں۔ اس پر کیوں شکر ادا نہیں کرتے کہ پچاس فیصد بچے پڑھ تو رہے ہیں۔

یقیناً ہمارے ہاں صحت اور صاف پانی کی سہولتوں تک عام آدمی کی اتنی رسائی نہیں جتنی ہونی چاہیے مگر یہ بھی تو دیکھیے کہ ہم اس معاملے میں بہت سے افریقی ممالک سے کتنے بہتر ہیں۔

جب بھی آپ کو لگے کہ پاکستان میں صحافت پابندیوں میں جکڑی ہوئی ہے اور سانس لینا مشکل ہے تو پھر چین، ایران، خلیجی ممالک، ترکی اور انڈیا کا تصور کر لیں۔ آپ کو فوراً لگنے لگے گا کہ ہمارے ہاں صحافت آج بھی کتنی آزاد ہے۔ شکر ہے کہ سوائے دو تین ٹی وی چینلز اور مٹھی بھر صحافیوں کے سب ہی کو گلاس آدھا بھرا ہوا نظر آ رہا ہے۔

بال کی کھال نکالنے والے کچھ صحافی دوست میڈیا پر پابندی کی تازہ ترین مثال یہ پیش کرتے ہیں کہ حساس اداروں اور عدلیہ پر تنقید کی حوصلہ شکنی اور ازقسم مریم نواز اور آصف زرداری کے انٹرویوز کے نشر کرنے پر پابندی تو کھینچ تان کے سمجھ میں آ سکتی ہے مگر اب تو آپ پاکستان کی سب سے بڑی تعمیری شخصیت ملک ریاض کا نام بھی نہیں لے سکتے۔ حالانکہ ان کے پاس کوئی حساس یا غیر حساس سرکاری عہدہ بھی نہیں۔

کسی نے یہ بھی بتایا کہ تین روز پہلے ہی ایک اینکر عاصمہ شیرازی کے ٹاک شو میں مدعو ایک سابق گورنر نے ملک ریاض کہنا چاہا تو تکنیکی خرابی کے سبب ملک کی میم کے بعد آواز غائب ہو گئی اور ایسا ایک بار نہیں بار بار ہوا۔

101660569_f5d25e8e-4b2b-4ae1-9570-3d03214134fb-1.jpg

AFP
ایسے بودے اعتراضات وہی لوگ کر سکتے ہیں جنہیں اثاثوں اور سٹرٹیجک اثاثوں میں بنیادی فرق نہیں معلوم۔ جس شخص کو عدلیہ، احتسابی حکومت، نیب، سرکردہ قومی سیاسی جماعتوں اور ننانوے فیصد میڈیا مالکان کی جانب سے کلین چٹ ملی ہوئی ہے کم از کم اس کا پیچھا تو چھوڑ دیں۔

آپ کا کیا خیال ہے؟ اگر ملک ریاض صاحب کے اثاثوں کی منی ٹریل ثابت نہ ہوتی، اگر وہ ملک کو معاشی نقصان پہنچا رہے ہوتے، اگر انہیں بیرونی قوتوں کا آشیر واد ہوتا اور اگر وہ قانون کے دائرے سے باہر رہتے ہوئے کاروبار کر رہے ہوتے تو کیا عمران خان خاموش رہتے؟ کچھ تو عقل کو ہاتھ ماریں۔

حسن حاضر ہے محبت کی سزا پانے کو
کوئی پتھر سے نہ مارے میرے دیوانے کو
 
کسی نے یہ بھی بتایا کہ تین روز پہلے ہی ایک اینکر عاصمہ شیرازی کے ٹاک شو میں مدعو ایک سابق گورنر نے ملک ریاض کہنا چاہا تو تکنیکی خرابی کے سبب ملک کی میم کے بعد آواز غائب ہو گئی اور ایسا ایک بار نہیں بار بار ہوا۔


میری اطلاعات کے مطابق اس رقم کا ایک بڑا حصہ 2008 سے لیکر 2014 تک ڈی ایچ ویلی اسلام آباد کی کاغذی فروخت سے حاصل ہوئی بے پناہ دولت کا ہے۔ ڈی ایچ اے ویلی کے اعلان شدہ 21 سیکٹروں میں سے آج کی تاریخ تک صرف 10 سیکٹرز کی زمین حاصل کی جا سکی ہےباقی 11 سیکٹرز ابھی صرف نقشے پر ہی ہیں۔

ہر سیکٹر میں اندازاً ساڑھے تین ہزار پلاٹ موجود ہیں۔ مختلف سائیز کے پلاٹس کی مالیت اس وقت 10 سے 15 لاکھ روپے تھی جو سال 2009 سے 2011 کے درمیان اقساط میں وصول کر لی گئی۔ ان ’متاثرین‘ کو بدلے میں بحریہ ٹاؤن کراچی اور بحریہ ٹاؤن فیز 8 اسلام آباد میں پلاٹس بھی آفر کیے گئے۔

کسی کو جرات نہیں ہونی چاہیے کہ وہ ملک ریاض کا نام بھی لے۔:)
 
یہی تو اس ملک کا اندھا قانون ہے۔ جتنا بڑا چور اتنی بڑی رعایت :)
جی آ۔
سیاسی مخالفین کو چُن چُن کو اندر کریں اور جو عوام کا کھربوں روپیہ باہر کے ملکوں میں سرمایہ کاری کر کے اس کے منافع سے بڑے بڑے سینگوں والوں کو نقد یا پلاٹ یا گھروں کی صورت میں حصہ دے؛ سیاسی دھرنوں، پارٹیوں اور سینٹ کی الیکشنوں کا خرچا اٹھائے اس کا نام لینا بھی گناہ کبیرہ ہے۔

حکومت ہمت کریں اور ڈالے ملک ریاض پر ہاتھ۔
 

جاسم محمد

محفلین
حکومت ہمت کریں اور ڈالے ملک ریاض پر ہاتھ۔
اسٹیبلشمنٹ کو ذرا حکومت کے خلاف ہونے دیں۔ پھر دیکھیں ان کے فرنٹ مین ملک ریاض پر کیسے ہاتھ ، پاؤں پڑتا ہے ۔ وہ خفیہ ڈیلیں جو حکومت نے فی الحال صیغہ راز میں رکھی ہیں سب کھول کر سامنے رکھ دی جائیں گی :)
 
اسٹیبلشمنٹ کو ذرا حکومت کے خلاف ہونے دیں۔ پھر دیکھیں ان کے فرنٹ مین ملک ریاض پر کیسے ہاتھ ، پاؤں پڑتا ہے ۔ وہ خفیہ ڈیلیں جو حکومت نے فی الحال صیغہ راز میں رکھی ہیں سب کھول کر سامنے رکھ دی جائیں گی :)

یہ حکومت چار بار بھی پیدا ہو کر آ جائے تب بھی اصطبلیہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ تسی اک خفیہ ڈیل کھولسو تے اگلے چار ویڈیوز نشر کر دین گے۔
 

جاسم محمد

محفلین
یہ حکومت چار بار بھی پیدا ہو کر آ جائے تب بھی اصطبلیہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔
اسٹیبلشمنٹ کے خلاف آپ کی ن لیگ تین بار گئی اور ہمیشہ منہ کی کھا کر ان کے ساتھ ڈیلیں کر کے ملک سے فرار ہوئی۔ تحریک انصاف ایک بار بھی کوشش نہ کرے؟ :)
 
اسٹیبلشمنٹ کے خلاف آپ کی ن لیگ تین بار گئی اور ہمیشہ منہ کی کھا کر ان کے ساتھ ڈیلیں کر کے ملک سے فرار ہوئی۔ تحریک انصاف ایک بار بھی کوشش نہ کرے؟ :)
تحریک انصاف میں تو کوشش کرنے کی بھی جرات نہیں ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
تحریک انصاف میں تو کوشش کرنے کی بھی جرات نہیں ہے۔
بالکل جرات ہے۔ لیکن یہ آپ کے نواز شریف کی طرح خودکش حملے پر یقین نہیں رکھتی۔ حکومت پر پہلا وار اسٹیبلشمنٹ کرے گی تو جواب میں تحریک کی جانب سے جوابی وار ہوگا۔ فی الحال اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر کھیل رہی ہے۔
 

زیرک

محفلین
میں نےسناہےنوجوان کہتےہیں عمران خان کرپٹ لوگوں سےہاتھ نہیں ملاتا،وزیراعظم
جی ہاں آپ نے سچ سنا کہ وہ کرپٹ سے ہاتھ نہیں ملاتا، بلکہ اسے گلے سے لگاتا ہے، یقین نہ آئے تو کابینہ کے آدھے سے افراد کو ہی دیکھ لیں جن پر کرپشن کے سنگین الزامات ہیں لیکن وہ حکومتی چھتری تلے آرام فرما رہے ہیں تاکہ انہیں نیب کی دھوپ نہ لگ سکے۔
 

جاسم محمد

محفلین
جی ہاں آپ نے سچ سنا کہ وہ کرپٹ سے ہاتھ نہیں ملاتا، بلکہ اسے گلے سے لگاتا ہے، یقین نہ آئے تو کابینہ کے آدھے سے افراد کو ہی دیکھ لیں جن پر کرپشن کے سنگین الزامات ہیں لیکن وہ حکومتی چھتری تلے آرام فرما رہے ہیں تاکہ انہیں نیب کی دھوپ نہ لگ سکے۔
بالکل صحیح کہا۔ پاکستان میں مسلسل حکومت دو فیصد اشرافیہ یعنی جج، جرنیل، جرنلسٹ، سیاست دان، بیروکریٹ کے پاس ہی ہے۔ یہ ہر بار اقتدار میں آنے کیلئے عوامی ووٹ کا استحصال کرتی ہے۔ قومی خزانہ لوٹنے کیلئے اقتدار کا سہارا لیتی ہے۔ اور اگر خدانخواستہ قانون کی زد میں آجائے تو ان کے ساتھی جج، جرنیل قانون سے چھڑوا کر انہے لے جاتے ہیں ۔ جب تک یہ اشرافیہ اقتدار پر قابض ہے اس ملک کی 98 فیصد عوام خسارہ میں رہے گی۔
 

جاسم محمد

محفلین
دائیں یا بائیں
اتوار‬‮ 8 دسمبر‬‮
جاوید چوہدری

دسمبر میں شانزے لیزے بدل جاتی ہے‘ یورپ میں نومبر میں کرسمس کی تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں‘ شہروں کو روشنیوں میں نہلانے کا سلسلہ چل پڑتا ہے‘ آپ کسی کرسچین کنٹری میں چلے جائیں یہ آپ کو بدلا ہوا نظر آئے گا لیکن پیرس کی شانزے لیزے کی کیا ہی بات ہے‘ آپ جوں ہی دسمبر میں شانزے لیزے پر قدم رکھتے ہیں آپ کو محسوس ہوتا ہے جیسے پورا ملک کرسمس کا انتظار کررہا تھا لہٰذا جوں ہی نومبر آیا حکومت نے پورے ملک کی تخلیقی جادوگری اس ایک سڑک پر لگا دی۔

فرنچ گورنمنٹ ہر کرسمس کو ایک نیا تھیم دیتی ہے‘ میں پچھلے سال پیرس گیا تو پوری سڑک نیلی روشنیوں میں نہائی ہوئی تھی‘ اس سے پہلے سفید کرسٹل جیسی روشنیاں تھیں

اور اس سال یہ پہلے سے آخری سرے تک سرخ روشنیوں میں نہائی ہوئی تھی‘ حکومت نے تمام درختوں کو سرخ رنگ کی جھالروں میں چھپا دیا تھا‘ ہر جھالر میں چھوٹے چھوٹے بلب تھے‘ بلب سرشام جلا دیے جاتے تھے جس کے بعد آرک ڈی ٹرائی مف سے کنکورڈ تک شانزے لیزے کے دونوں سروں پر آگ سی لگ جاتی تھی‘ میں پیرس پہنچا‘ شانزے لیزے پر ہوٹل لیا اور تین دن اس سڑک پرگزار دیے‘ دن کا زیادہ وقت 120 سال پرانی کافی شاپ فوکٹ پر گزرتا تھا‘ فوکٹ پر بیٹھے بیٹھے پتا چلا سپریم کورٹ آف پاکستان نے حکومت کو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی ایکسٹینشن پر قانون سازی کے لیے چھ ماہ کا وقت دے دیا‘ باہر ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی‘ سردی میں اچانک اضافہ ہو گیا تھا‘ لوگ سر اور گردنیں لپیٹ کر آہستہ آہستہ چل رہے تھے‘ میں بھی باہر نکلا اور ہجوم میں شامل ہو گیا‘لوگ چلتے جا رہے تھے اور میں بھی ان میں چپ چاپ چل رہا تھا اور بار بار اپنے آپ سے پوچھ رہا تھا ہم کب ان لوگوں جیسے ہوں گے‘ مطمئن‘ مسرور اور بے خوف‘ مجھے ہر بار آخر میں سیاہ اندھیری غار کے سوا کچھ نظر نہیں آتا تھا‘ انسان کو ہمیشہ آدھا بھرا ہوا گلاس دیکھنا چاہیے‘ یہ اچھی بات ہے لیکن گلاس کا ہونا بھی ضروری ہے‘ آپ کے سامنے اگر گلاس ہی نہیں ہوگا تو پھر آدھے بھرے یا آدھے خالی کا جواز ہی ختم ہو جائے گا‘ پھر دیکھنے کا امکان ہی جاتا رہے گا اور ہمارے سامنے گلاس ہی نہیں ہے۔

دنیا میں ایک دور بادشاہوں کا ہوتا تھا‘ بادشاہ بنتے تھے اور یہ پھر آخری سانس تک تخت پر جلوہ افروز رہتے تھے‘ بادشاہ کو موت کے علاوہ کوئی نہیں ہٹا سکتا تھا چناں چہ یہ بے چارے کسی نہ کسی سازش کا نشانہ بن کر دنیا سے رخصت ہوتے تھے‘ آپ پوری انسانی تاریخ کھول کر دیکھ لیں آپ کو بادشاہ اپنی ملکاؤں‘ شہزادوں‘ وزیروں‘ وفاداروں اور غلاموں کے ہاتھوں مرتے دکھائی دیں گے‘ ملکہ یا ولی عہد بادشاہ کو زہر دے دیتا تھا یا پھر یہ کسی محلاتی سازش کا شکار ہو کر دنیا سے رخصت ہو تا تھا اور پھر کوئی دوسرا موت تک کے لیے تخت پر قابض ہو جاتا تھا۔

سپہ سالاروں‘ وزیروں‘ مشیروں اور جاگیرداروں کے ساتھ بھی یہی ہوتا تھا‘ سپہ سالار کو قتل کر کے دوسرا جنرل سپہ سالار بن جاتا تھا‘ وزیر‘ مشیر اور جاگیردار بھی اپنی کرسی سے سیدھے جلاد کی تلوار کے نیچے جاتے تھے یا پھر باقی زندگی زندان میں گزارتے تھے‘ وہ ایک وحشت‘ درندگی‘ ابتری اور خلفشار کا وقت تھا‘ پورا پورا ملک بادشاہوں‘ شہزادوں اور طالع آزماؤں کی حرص کا نشانہ بن جاتا تھا‘ سروں کی فصلیں پکائی اور کاٹی جاتی تھیں‘ اقتدار کی ہر تبدیلی کا آغاز کھوپڑیوں کے میناروں اور شہروں کی راکھ سے ہوتا تھا لیکن پھر انسان نے سیکھا بادشاہوں کو ریٹائر بھی کیا جا سکتا ہے۔

یہ تخت کے بغیر بھی زندہ رہ سکتے ہیں‘ یہاں سے جمہوریت کا آغاز ہو گیا‘ بادشاہ کا عہدہ حکمرانی میں تبدیل ہو گیا‘ حکمرانوں کو عوام منتخب کرنے لگے اور حکمران حکومت کے ذریعے عوام کی زندگی بہتر بنانے لگے‘ حکمرانوں کے بعد حکومتوں کے باقی پرزے بھی ریٹائر ہونے لگے‘ اس تبدیلی کے نتیجے میں دنیا میں امن‘ خوش حالی اور ترقی آنے لگی‘ آپ کسی دن دنیا کی صرف سو سال کی تاریخ پڑھ لیں‘ آپ کو 1900ء اور 2000ء میں زمین آسمان کا فرق ملے گا۔

دنیا آج جتنی سکھی اور خوش حال ہے سو سال پہلے انسان اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا اور یہ معجزہ کیسے ہوا؟ اس کی پانچ بڑی وجوہات میں سے پہلی وجہ طاقت ور لوگوں کی ریٹائرمنٹ تھی‘ دنیا نے سیکھ لیا اللہ کی اس زمین کے لیے کوئی شخص ناگزیر نہیں اور ”میں اہم تھا‘ یہ میرا وہم تھا“ یہ دنیا کی سب سے بڑی حقیقت ہے چناں چہ حکمران ہوں یا پھر کارندے انہیں ریٹائر ہونا چاہیے‘ انہیں اپنی کرسی نئے لوگوں کے لیے خالی کر دینی چاہیے‘ اس ایک اصول‘ ایک روایت کے نتیجے میں شخصیات کے مقابلے میں ادارے مضبوط ہوئے۔

اداروں نے پرفارم کرنا شروع کیا اور اس پرفارمنس سے معاشرے اور ملک تبدیل ہوتے چلے گئے‘ امریکا اس وقت دنیا کی واحد سپر پاور ہے ہم نے کبھی سوچا‘ کیوں؟ وجہ سسٹم ہے اور یہ سسٹم کسی انسان کا محتاج نہیں‘ امریکی ادارے شخصیات سے بالاتر ہیں‘ امریکا میں پہلا الیکشن 1788ء میں ہوا تھا‘ امریکی الیکشن سسٹم کو آج 231 سال ہو چکے ہیں‘ آج تک امریکا کا کوئی الیکشن ملتوی ہوا اور نہ کسی صدر کو ایکسٹینشن ملی‘ فرینکلن روزویلٹ امریکی تاریخ کے واحد صدر ہیں جو دو سے زیادہ مرتبہ صدر منتخب ہوئے جب کہ باقی تمام صدر زیادہ سے زیادہ دو بار صدر رہ سکے۔

جنگ ہو یا پھر زلزلے‘ آفتیں یا وبائیں امریکا کے صدارتی الیکشن وقت پر ہوتے ہیں اور صدر خواہ کتنا ہی ناگزیر کیوں نہ ہو وہ بہر حال 20 جنوری کو وائیٹ ہاؤس خالی کردیتا ہے اور باقی تمام زندگی عام امریکی کی حیثیت سے گزارتا ہے‘ امریکا کے وزراء اور باقی عہدیدار بھی سسٹم کے تابع ہوتے ہیں‘ صدر ایڑی چوٹی کا زور بھی لگا لے یہ کسی کی مدت ملازمت میں ایک منٹ بھی اضافہ نہیں کر سکتا‘ آپ سسٹم کی خوب صورتی دیکھیے‘ امریکا نے ریمنڈ ڈیوس کو چھڑانے کے لیے پاکستان سے 65 سال پرانے تعلقات داؤ پر لگا دیے لیکن جب قصاص کی باری آئی تو پھر صدر سمیت امریکا کے کسی عہدیدار کے پاس 20 کروڑ روپے ادا کرنے کی اتھارٹی نہیں تھی چناں چہ یہ رقم وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو پاکستانی خزانے سے ادا کرنا پڑ گئی۔

یہ ہوتا ہے سسٹم جب کہ ہم نے واپس بادشاہی نظام کی طرف دوڑ لگا دی ہے‘ ہم آج بھی شخصیات کو اداروں سے زیادہ مضبوط اور بلند سمجھتے ہیں۔میں اس وقت فرانس میں کھڑا تھا‘ فرانس کی آبادی ساڑھے چھ کروڑ ہے لیکن ملک میں پچھلے سال آٹھ کروڑ 69لاکھ سیاح آئے‘ فرانس آج بھی سیاحت میں پہلے نمبر پر ہے‘ یہ ملک زرعی تحقیق میں دنیا میں تیسرے نمبر پر آتا ہے اور انڈسٹری میں نویں نمبر پر ہے لیکن اس کے جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ صرف ڈیڑھ فیصد اور صنعتوں کا 17 فیصد ہے جب کہ یہ سروسز سیکٹر سے 70 اعشاریہ 24 فیصد دولت کما رہا ہے۔

فرانس نے یہ کیسے اچیو کیا؟ جواب سسٹم ہے‘ فرانسیسی قوم نے اپنے سارے ایشوز سو دو سو سال پہلے فکس کر دیے تھے‘ نظام صدارتی ہو گا‘ بلدیاتی ادارے وفاقی حکومت سے زیادہ مضبوط ہوں گے‘ عدلیہ انتظامیہ میں مداخلت نہیں کرے گی اور اسٹیبلشمنٹ ججوں کو نہیں چھیڑے گی‘ یہ ملک اڑھائی ہزار ارب ڈالر کے جی ڈی پی پر کھڑا ہے جب کہ ہم 285 بلین ڈالرپر آ گئے ہیں اور اس سے بھی روزانہ نیچے جا رہے ہیں‘ ہم ایک ہی بار فیصلہ کیوں نہیں کر لیتے‘ ہمیں اگر پارلیمنٹ یا الیکشنز پر اعتبار نہیں تو ہم اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کیوں نہیں کر دیتے؟۔

ہم بادشاہی نظام لے آئیں‘ بادشاہ آئے اور انتقال تک تخت پر جلوہ افروز رہے یا شہزادہ اسے قتل کر دے اور قوم شہزادے کے ہاتھ پر بیعت کر لے‘ بادشاہ جسے چاہے اپنا وزیر‘ مشیر اور سفیر لگا دے‘ یہ اپنا چیف جسٹس بھی لے آئے اور جب تک چاہے لوگوں کو عہدوں پر رکھے اور جب چاہے ان کے سر قلم کر دے اور لاش چیلوں کوؤں کے لنچ کے لیے چھوڑ دے‘ بات ختم‘ ہم آخر کب تک آدھا تیتر اور آدھا بٹیر پکاتے رہیں گے اور ہمیں اگر جمہوریت چاہیے تو پھر ہم ایک ہی بار اصلی اور صاف ستھری جمہوریت کیوں نہیں لے آتے؟۔

ہم ایک خالص‘ صاف‘ شفاف اور بااختیار الیکشن کمیشن بنا دیں‘ یہ صاف اور شفاف الیکشن کرائے اور اقتدار منتخب پارٹی کے حوالے کر دے‘ ہم کیوں رات کے اندھیرے میں رزلٹ تبدیل کرتے ہیں‘ہم کیوں کم زور حکومتیں لے کر آتے ہیں اور پھر ان کی حماقتوں کا رونا روتے ہیں‘ یہ آخر کب تک چلے گا؟ ہم سرکاری عہدیداروں کے اختیارات‘ احتساب اور ریٹائرمنٹ کا فیصلہ بھی ایک ہی بار کیوں نہیں کر دیتے؟ ملک کے لیے ایکسٹینشن ضروری ہے تو ہم وزیراعظم کو یہ اختیار دے دیں‘ یہ چیف جسٹس‘ آرمی چیف‘ چیئرمین نیب اور چیف الیکشن کمشنرسمیت تمام عہدوں پر اپنی مرضی کے لوگ لے کر آئے اور جس کی مدت میں جب چاہے اضافہ کر دے اور جس کو چاہے جب چاہے ہٹا دے‘ ملک کا کوئی ادارہ سوال نہ کر سکے۔

اور یہ اگرغلط ہے تو پھر ہم اس پر ایک ہی بار پابندی کیوں نہیں لگا دیتے‘ ہم یہ فیصلہ کیوں نہیں کر لیتے ہم صور اسرافیل کے وقت بھی کسی کی مدت ملازمت میں اضافہ نہیں کریں گے‘ یہ بھی ساری فرسٹ ورلڈ میں ہو رہا ہے‘ جنگوں کے درمیان بھی کمانڈر ریٹائر ہوتے ہیں اور ان کی جگہ نئے آ جاتے ہیں‘ بھارت میں آرمی چیف کے ساتھ ہی اگلے آرمی چیف کا اعلان کر دیا جاتا ہے‘ اگلا آرمی چیف موجودہ آرمی چیف کے ساتھ ساتھ ٹرینڈ ہو جاتا ہے اور کمانڈ کی تبدیلی سے ادارے پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔

ہم آخر اندھیرے میں کیوں رہنا چاہتے ہیں‘ ہم ہر تین سال بعد ”دیں یا نہ دیں“ کے بخار میں کیوں مبتلا ہو جاتے ہیں‘ ہم دائیں یا بائیں حتمی فیصلہ کیوں نہیں کر لیتے؟ ہم آخر شاہی یا جمہوری کسی ایک نظام کا انتخاب کیوں نہیں کر لیتے‘ ہم دونوں کو ساتھ ساتھ کیوں چلانا چاہتے ہیں‘ ہم دو کشتیوں کا سوار کیوں بننا چاہتے ہیں؟۔میرے سوال ختم ہو گئے‘ میں کنکورڈ پہنچ گیا لیکن مجھے اپنے کسی سوال کا جواب نہ ملااور شاید مجھے کبھی کوئی جواب مل بھی نہ سکے‘ کیوں؟ کیوں کہ کنفیوز لوگوں کے سوال اور جواب دونوں برابر ہوتے ہیں۔
 

جان

محفلین
ملک ریاض نے عمران خان کے کرپشن غبارے سے ہوا نکال دی
07/12/2019 سید مجاہد علی



برطانیہ میں غیر مصدقہ دولت کے قانون کے تحت ریاض ملک سے وصول ہونے والے 19 کروڑ پاؤنڈ یا تقریباً 38ارب روپے حکومت پاکستان نے سپریم کورٹ کو منتقل کردیے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان اس دھوکہ دہی کے باوجود ’ کامیاب جوان پروگرام ‘میں شفافیت اور میرٹ کا دعویٰ کررہے ہیں۔
جو حکومت برطانیہ سے وصول ہونے والی رقم ایک ہاتھ سے لے کر دوسرے ہاتھ سے ملک ریاض کے حوالے کرنے جیسا گھناؤنا کارنامہ انجام دے چکی ہے ، وہ کس منہ سے شفافیت اور میرٹ کے مقدس الفاظ استعمال کرنے کی متحمل ہوسکتی ہے۔ وزیراعظم کے منصب کا احترام اپنی جگہ بجا لیکن جس طرح ملک ریاض سے برطانیہ میں ہونے والی وصولی کو درپردہ واپس کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے، اس کے بعد اس حکومت کی رہی سہی ساکھ اور دیانت داری کا بھرم ختم ہوچکا ہے۔ حکومت کا یہ اقدام چوری کو جائز قرار دینے اور عوام کو ان کی جائز دولت سے محروم کرنے کا شرمناک فیصلہ ہے۔
افسوس کا مقام ہے کہ ملک کا میڈیا اور سیاسی اپوزیشن اس معاملہ پر کوئی بات کرنے اور عوام کے ساتھ کی جانے والے اس ظلم کا حساب مانگنے کا حوصلہ نہیں کررہے۔ کسی اپوزیشن لیڈر نے اس معاملہ میں حکومت کی پراسرار خاموشی اور اس کے بعد شہزاد اکبر کے ذریعے یہ رقم سپریم کورٹ کے حوالے کرنے کے غیر قانونی ، غیر اخلاقی اور ناجائز اقدام پر سوال نہیں اٹھایا۔ کیا اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اس معاملہ میں ملک ریاض جیسا شخص ملوث ہے جو ہر سیاسی لیڈر اور ہر پارٹی کے ساتھ روابط رکھنے اور انہیں دامے درمے سخنے خوش رکھنے کا گر جانتا ہے۔ نیا پاکستان اور مدینہ ریاست کا نام نہاد بت اپنے ہی ہاتھوں سے گرا کر وزیر اعظم اب برطانیہ کے شفاف نظام کی مثال لاکر بتا رہے ہیں کہ ملک کس طرح ترقی کرتے ہیں۔
برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے ملک ریاض کے ساتھ ایک معاہدہ کے نتیجہ میں 19 کروڑ پاؤنڈ وصول کئے اور یہ رقم پاکستان کو واپس کرنے کا فیصلہ کیا۔ شہزاد اکبر کی اطلاعات کے مطابق اس میں سے 14 کروڑ پاؤنڈ پاکستان کو واپس کئے جاچکے ہیں جبکہ 5 کروڑ پاؤنڈ کی رقم لندن کی ایک عمارت فرخت کرنے کے بعد پاکستان کے حوالے کی جائے گی۔ اب وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب بتا رہے ہیں کہ یہ 14 کروڑ پاؤنڈ اسٹیٹ بنک سے سپریم کورٹ کے نیشنل بنک اکاؤنٹ میں منتقل کئے جاچکے ہیں۔ اور حکومت سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کرے گی کہ یہ رقم حکومت کو واپس منتقل کردی جائے تاکہ اسے عوامی بہبود کے منصوبوں پر صرف کیا جائے۔ عوامی بھلائی کا سہانا نعرہ استعمال کرتے ہوئے حکومت عوام کی جیب کاٹنے کی ایک افسوسناک کارروائی کو جائز قرار دینے کی ناکام کوشش کررہی ہے۔ یہ معاملہ اتنا مشکل اور گنجلک نہیں ہے کہ حکومت کا ایک نمائیندہ بے بنیاد دعوؤں کے ذریعے عوام کو دھوکہ دے کر ایک خطیر رقم کو اسی شخص کو واپس کرنے کا اہتمام کرلے جسے ایک غیر ملکی حکومت نے غیرقانونی طور سے دولت جمع رکھنے کے ایک قانون کے تحت وصول کرکے پاکستان کو واپس کیا ہے۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے آئیندہ سات برس کے دوران 460 ارب روپے ادا کرنے کے وعدے کے بعد ملک ریاض کے خلاف قانونی کارروائی ختم کرنے کا حکم دیا تھا۔ یہ رقم بحریہ ٹاؤن کراچی کے لئے ناجائز طور سے ہتھیائی گئی زمینوں کے معاوضے کے طور پر وصول کی جائے گی۔ اصولی طور پر یہ رقم ملک ریاض اور ان کی کمپنیوں کو پاکستان میں ادا کرنی ہے اور سپریم کورٹ اسے حکومت سندھ کے حوالے کرے گی۔ بحریہ ٹاؤن کراچی نے متنازعہ زمینیں حاصل کی تھیں۔ عدالت عظمی نے ان زمینوں پر ناجائز قبضہ یا سستے داموں خرید کے معاہدوں کو منسوخ کرتے ہوئے ملک ریاض کو خطیر رقم ادا کرنے کا پابند کیا تھا۔
اس معاملہ کا برطانیہ میں ملک ریاض اور ان کے اہل خاندان کے اکاؤنٹس میں موجود رقوم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ برطانوی ایجنسی نے غیر ثابت شدہ دولت کے قانون کے تحت ملک ریاض کی دولت کا سراغ لگایا۔ جب وہ اس دولت کا ذریعہ آمدنی بتانے میں ناکام رہے تو کسی قانونی کارروائی کا سامنا کرنے کی بجائے انہوں نے برطانوی حکومت کو 19 کروڑ پاؤنڈ ادا کرنے کی پیش کش کی ،جسے قبول کرلیا گیا۔ اس طرح برطانوی ایجنسی کو 19 کروڑ پاؤنڈ وصول ہوگئے جبکہ ملک ریاض اس معاہدہ کی آڑ میں نہ جانے کتنی دولت کو ’قانونی‘ تسلیم کروانے میں کامیاب ہوگئے۔ طریقہ کار کے مطابق چونکہ متعلقہ حکام اس معاہدہ کی تفصیل عام نہیں کریں گے لہذا یہ معاملہ ہمیشہ کے لئے راز ہی رہے گا۔
شہزاد اکبر اور حکومت پاکستان خواہ جو بھی دعویٰ کریں ، برطانیہ میں وصول کی گئی رقم کے معاملہ میں ان کا کوئی کردار نہیں ہے۔ یہ کارروائی برطانوی کرائم ایجنسی نے اپنے ایک قانون کے تحت کی اور اسی قانون اور سیاسی فیصلہ کے تحت ناجائز طریقے سے جمع کی گئی دولت کو وصول کرکے اس ملک کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا جہاں سے یہ رقم مبینہ طور پر برطانیہ منتقل کی گئی تھی۔ پاکستان کی حکومت کو یہ جواب دینا ہے کہ اس نے یہ رقم وصول کرتے ہوئے کیا برطانیہ سے پوچھا کہ ملک ریاض سے وصول ہونے والی دولت پاکستان کے حوالے کیوں کی جارہی ہے ؟
یہ سوال نہ بھی کیا گیا ہو تو بھی حکومت سمیت ہر کس و ناکس کو اس کا جواب معلوم ہے۔ ملک ریاض پاکستان میں کمائی گئی دولت کو مختلف غیر قانونی ہتھکنڈوں سے بیرون ملک منتقل کرتے رہے۔ یعنی منی لانڈرنگ کے ذریعے پاکستان کے وسائل برطانیہ میں جمع کرلئے گئے۔ یہ منی لانڈرنگ کا وہی طریقہ ہے جس کے الزام میں آصف زرداری اور فریال تالپور زیر حراست ہیں اور جس کے بارے میں شہزاد اکبر کا دعویٰ ہے کہ شہباز شریف نے وزیر اعلیٰ ہاؤس کو منی لانڈرنگ مافیا کا اڈا بنایا ہؤا تھا۔
اب پاکستانی حکومت برطانیہ سے وصول ہونے والے 38 ارب روپے سپریم کورٹ کی طرف سے ملک ریاض کو عائد کئے گئے جرمانہ کی مد میں استعمال کررہی ہے۔ یعنی ملک ریاض نے سپریم کورٹ کو بحریہ ٹاؤن کراچی کے لئے زمینوں کی خریداری میں بے قاعدگیوں کی وجہ سے 460 ارب روپے کا جو جرمانہ کیا تھا، پاکستان کی ’نیک دل اور اعلیٰ ظرف‘ حکومت نے برطانیہ سے وصول ہونے والے وسائل اس مد میں جمع کرواکے ملک ریاض کی دولت اسے واپس کرنے کا اہتمام کیا ہے۔ غیر ملکی حکام اور نظام نے پاکستان اور اس کے عوام کی بہتری کے لئے جو کام کیا، اسے پاکستانی حکومت ناکام بنا کر ملک ریاض کے سامنے سرخرو ہورہی ہے۔ یہ معاملہ سربستہ راز ہی رہے گا کہ کرپشن کے خلاف نعرے بلند کرنے والی حکومت ایک گھناؤنی کرپشن میں ملوث شخص کے ساتھ یہ رحم دلانہ سلوک کرنے پر کیوں مجبور ہے۔
معاملہ لیکن سادہ ہے۔ ملک ریاض کو پاکستان میں سپریم کورٹ نے جرمانہ کیا اور برطانیہ میں ان کی ناجائز دولت کا سراغ لگایا گیا۔ یہ دو مختلف معاملات ہیں لیکن عمران خان کی حکومت انہیں ملا کر ملک ریاض کو فائیدہ پہنچانا چاہ رہی ہے۔ تاکہ برطانیہ کے حکام بھی مطمئن ہوجائیں کہ ناجائز دولت وصول کر لی گئی اور ملک ریاض بھی ناراض نہ ہوں کہ ان کی دولت ہاتھ سے گئی۔ اس مہربانی کی ایک وجہ ملک ریاض کا غیر معمولی اثر و رسوخ ہے اور دوسری وجہ برطانیہ میں پکڑی گئی دولت کے بے نامی مالکان کے مفادات کا تحفط ہوسکتا ہے۔ وجہ کوئی بھی ہو۔ حکومت نے اس جرم میں شراکت دار بن کر عوام کے ساتھ دھوکہ کیا ہے اور اپنی اخلاقی ساکھ کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ یوں تو نیب کے چئیرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال حسب معمول ملک سے ’کرپشن کے سرطان‘ کو ختم کرنے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگانے اور ذات کو پس پشت ڈالنے کا اعلان کرتے رہتے ہیں لیکن شہزاد اکبر کے ذریعے دن دہاڑے کی جانے والی 38 ارب روپے کی چوری پر ان کی نظر نہیں جاسکی۔
حکومت جب سپریم کورٹ سے برطانیہ سے آئی ہوئی رقم کو واپس مانگے گی تو کیا جج یہ سوال کریں گے کہ الف) یہ رقم سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں کیوں منتقل کی گئی۔ ب) یہ رقم اگر بحریہ ٹاؤن کراچی کیس کی مد میں دی گئی ہے تو اسے وفاقی حکومت کے حوالے کیوں کیا جائے؟ اس پر تو سندھ کے عوام کا حق ہے اور سندھ حکومت ہی اس رقم کو اپنے منصوبوں پر صرف کرنے کا استحقاق رکھتی ہے۔
عمران خان نے ’کامیاب جوان پروگرام‘ کو شفاف بنانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ کامیاب معاشرے میرٹ پر فیصلے کرتے ہیں، اپنے لوگوں کو ترقی کرنے کا موقع دیتے ہیں تاکہ وہ محنت سے اپنی جگہ بنا سکیں۔ برطانیہ نے اس شفافیت اور اصول پرستی کا مظاہرہ ملک ریاض سے پاکستان کی لوٹی ہوئی دولت پاکستان کو واپس کرکے فراہم کیا ہے۔ عمران خان کی حکومت وہی دولت ملک ریاض کو واپس کرکے کون سے شفافیت کا دعویٰ کررہی ہے؟
اور یوں انصاف کا بول بالا ہوا اور ساتھ میں تحریکِ انصاف کے 'کرپشن'، 'انصاف'، منی لانڈرنگ'، 'مافیا'، 'میرٹ' کے نعروں کا بھی! مبارک باد قبول کیجیے!
بول بالا = منہ کالا
 
Top