ملک ریاض نے عمران خان کے کرپشن غبارے سے ہوا نکال دی
07/12/2019 سید مجاہد علی
برطانیہ میں غیر مصدقہ دولت کے قانون کے تحت ریاض ملک سے وصول ہونے والے 19 کروڑ پاؤنڈ یا تقریباً 38ارب روپے حکومت پاکستان نے سپریم کورٹ کو منتقل کردیے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان اس دھوکہ دہی کے باوجود ’ کامیاب جوان پروگرام ‘میں شفافیت اور میرٹ کا دعویٰ کررہے ہیں۔
جو حکومت برطانیہ سے وصول ہونے والی رقم ایک ہاتھ سے لے کر دوسرے ہاتھ سے ملک ریاض کے حوالے کرنے جیسا گھناؤنا کارنامہ انجام دے چکی ہے ، وہ کس منہ سے شفافیت اور میرٹ کے مقدس الفاظ استعمال کرنے کی متحمل ہوسکتی ہے۔ وزیراعظم کے منصب کا احترام اپنی جگہ بجا لیکن جس طرح ملک ریاض سے برطانیہ میں ہونے والی وصولی کو درپردہ واپس کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے، اس کے بعد اس حکومت کی رہی سہی ساکھ اور دیانت داری کا بھرم ختم ہوچکا ہے۔ حکومت کا یہ اقدام چوری کو جائز قرار دینے اور عوام کو ان کی جائز دولت سے محروم کرنے کا شرمناک فیصلہ ہے۔
افسوس کا مقام ہے کہ ملک کا میڈیا اور سیاسی اپوزیشن اس معاملہ پر کوئی بات کرنے اور عوام کے ساتھ کی جانے والے اس ظلم کا حساب مانگنے کا حوصلہ نہیں کررہے۔ کسی اپوزیشن لیڈر نے اس معاملہ میں حکومت کی پراسرار خاموشی اور اس کے بعد شہزاد اکبر کے ذریعے یہ رقم سپریم کورٹ کے حوالے کرنے کے غیر قانونی ، غیر اخلاقی اور ناجائز اقدام پر سوال نہیں اٹھایا۔ کیا اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اس معاملہ میں ملک ریاض جیسا شخص ملوث ہے جو ہر سیاسی لیڈر اور ہر پارٹی کے ساتھ روابط رکھنے اور انہیں دامے درمے سخنے خوش رکھنے کا گر جانتا ہے۔ نیا پاکستان اور مدینہ ریاست کا نام نہاد بت اپنے ہی ہاتھوں سے گرا کر وزیر اعظم اب برطانیہ کے شفاف نظام کی مثال لاکر بتا رہے ہیں کہ ملک کس طرح ترقی کرتے ہیں۔
برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے ملک ریاض کے ساتھ ایک معاہدہ کے نتیجہ میں 19 کروڑ پاؤنڈ وصول کئے اور یہ رقم پاکستان کو واپس کرنے کا فیصلہ کیا۔ شہزاد اکبر کی اطلاعات کے مطابق اس میں سے 14 کروڑ پاؤنڈ پاکستان کو واپس کئے جاچکے ہیں جبکہ 5 کروڑ پاؤنڈ کی رقم لندن کی ایک عمارت فرخت کرنے کے بعد پاکستان کے حوالے کی جائے گی۔ اب وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب بتا رہے ہیں کہ یہ 14 کروڑ پاؤنڈ اسٹیٹ بنک سے سپریم کورٹ کے نیشنل بنک اکاؤنٹ میں منتقل کئے جاچکے ہیں۔ اور حکومت سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کرے گی کہ یہ رقم حکومت کو واپس منتقل کردی جائے تاکہ اسے عوامی بہبود کے منصوبوں پر صرف کیا جائے۔ عوامی بھلائی کا سہانا نعرہ استعمال کرتے ہوئے حکومت عوام کی جیب کاٹنے کی ایک افسوسناک کارروائی کو جائز قرار دینے کی ناکام کوشش کررہی ہے۔ یہ معاملہ اتنا مشکل اور گنجلک نہیں ہے کہ حکومت کا ایک نمائیندہ بے بنیاد دعوؤں کے ذریعے عوام کو دھوکہ دے کر ایک خطیر رقم کو اسی شخص کو واپس کرنے کا اہتمام کرلے جسے ایک غیر ملکی حکومت نے غیرقانونی طور سے دولت جمع رکھنے کے ایک قانون کے تحت وصول کرکے پاکستان کو واپس کیا ہے۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے آئیندہ سات برس کے دوران 460 ارب روپے ادا کرنے کے وعدے کے بعد ملک ریاض کے خلاف قانونی کارروائی ختم کرنے کا حکم دیا تھا۔ یہ رقم بحریہ ٹاؤن کراچی کے لئے ناجائز طور سے ہتھیائی گئی زمینوں کے معاوضے کے طور پر وصول کی جائے گی۔ اصولی طور پر یہ رقم ملک ریاض اور ان کی کمپنیوں کو پاکستان میں ادا کرنی ہے اور سپریم کورٹ اسے حکومت سندھ کے حوالے کرے گی۔ بحریہ ٹاؤن کراچی نے متنازعہ زمینیں حاصل کی تھیں۔ عدالت عظمی نے ان زمینوں پر ناجائز قبضہ یا سستے داموں خرید کے معاہدوں کو منسوخ کرتے ہوئے ملک ریاض کو خطیر رقم ادا کرنے کا پابند کیا تھا۔
اس معاملہ کا برطانیہ میں ملک ریاض اور ان کے اہل خاندان کے اکاؤنٹس میں موجود رقوم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ برطانوی ایجنسی نے غیر ثابت شدہ دولت کے قانون کے تحت ملک ریاض کی دولت کا سراغ لگایا۔ جب وہ اس دولت کا ذریعہ آمدنی بتانے میں ناکام رہے تو کسی قانونی کارروائی کا سامنا کرنے کی بجائے انہوں نے برطانوی حکومت کو 19 کروڑ پاؤنڈ ادا کرنے کی پیش کش کی ،جسے قبول کرلیا گیا۔ اس طرح برطانوی ایجنسی کو 19 کروڑ پاؤنڈ وصول ہوگئے جبکہ ملک ریاض اس معاہدہ کی آڑ میں نہ جانے کتنی دولت کو ’قانونی‘ تسلیم کروانے میں کامیاب ہوگئے۔ طریقہ کار کے مطابق چونکہ متعلقہ حکام اس معاہدہ کی تفصیل عام نہیں کریں گے لہذا یہ معاملہ ہمیشہ کے لئے راز ہی رہے گا۔
شہزاد اکبر اور حکومت پاکستان خواہ جو بھی دعویٰ کریں ، برطانیہ میں وصول کی گئی رقم کے معاملہ میں ان کا کوئی کردار نہیں ہے۔ یہ کارروائی برطانوی کرائم ایجنسی نے اپنے ایک قانون کے تحت کی اور اسی قانون اور سیاسی فیصلہ کے تحت ناجائز طریقے سے جمع کی گئی دولت کو وصول کرکے اس ملک کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا جہاں سے یہ رقم مبینہ طور پر برطانیہ منتقل کی گئی تھی۔ پاکستان کی حکومت کو یہ جواب دینا ہے کہ اس نے یہ رقم وصول کرتے ہوئے کیا برطانیہ سے پوچھا کہ ملک ریاض سے وصول ہونے والی دولت پاکستان کے حوالے کیوں کی جارہی ہے ؟
یہ سوال نہ بھی کیا گیا ہو تو بھی حکومت سمیت ہر کس و ناکس کو اس کا جواب معلوم ہے۔ ملک ریاض پاکستان میں کمائی گئی دولت کو مختلف غیر قانونی ہتھکنڈوں سے بیرون ملک منتقل کرتے رہے۔ یعنی منی لانڈرنگ کے ذریعے پاکستان کے وسائل برطانیہ میں جمع کرلئے گئے۔ یہ منی لانڈرنگ کا وہی طریقہ ہے جس کے الزام میں آصف زرداری اور فریال تالپور زیر حراست ہیں اور جس کے بارے میں شہزاد اکبر کا دعویٰ ہے کہ شہباز شریف نے وزیر اعلیٰ ہاؤس کو منی لانڈرنگ مافیا کا اڈا بنایا ہؤا تھا۔
اب پاکستانی حکومت برطانیہ سے وصول ہونے والے 38 ارب روپے سپریم کورٹ کی طرف سے ملک ریاض کو عائد کئے گئے جرمانہ کی مد میں استعمال کررہی ہے۔ یعنی ملک ریاض نے سپریم کورٹ کو بحریہ ٹاؤن کراچی کے لئے زمینوں کی خریداری میں بے قاعدگیوں کی وجہ سے 460 ارب روپے کا جو جرمانہ کیا تھا، پاکستان کی ’نیک دل اور اعلیٰ ظرف‘ حکومت نے برطانیہ سے وصول ہونے والے وسائل اس مد میں جمع کرواکے ملک ریاض کی دولت اسے واپس کرنے کا اہتمام کیا ہے۔ غیر ملکی حکام اور نظام نے پاکستان اور اس کے عوام کی بہتری کے لئے جو کام کیا، اسے پاکستانی حکومت ناکام بنا کر ملک ریاض کے سامنے سرخرو ہورہی ہے۔ یہ معاملہ سربستہ راز ہی رہے گا کہ کرپشن کے خلاف نعرے بلند کرنے والی حکومت ایک گھناؤنی کرپشن میں ملوث شخص کے ساتھ یہ رحم دلانہ سلوک کرنے پر کیوں مجبور ہے۔
معاملہ لیکن سادہ ہے۔ ملک ریاض کو پاکستان میں سپریم کورٹ نے جرمانہ کیا اور برطانیہ میں ان کی ناجائز دولت کا سراغ لگایا گیا۔ یہ دو مختلف معاملات ہیں لیکن عمران خان کی حکومت انہیں ملا کر ملک ریاض کو فائیدہ پہنچانا چاہ رہی ہے۔ تاکہ برطانیہ کے حکام بھی مطمئن ہوجائیں کہ ناجائز دولت وصول کر لی گئی اور ملک ریاض بھی ناراض نہ ہوں کہ ان کی دولت ہاتھ سے گئی۔ اس مہربانی کی ایک وجہ ملک ریاض کا غیر معمولی اثر و رسوخ ہے اور دوسری وجہ برطانیہ میں پکڑی گئی دولت کے بے نامی مالکان کے مفادات کا تحفط ہوسکتا ہے۔ وجہ کوئی بھی ہو۔ حکومت نے اس جرم میں شراکت دار بن کر عوام کے ساتھ دھوکہ کیا ہے اور اپنی اخلاقی ساکھ کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ یوں تو نیب کے چئیرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال حسب معمول ملک سے ’کرپشن کے سرطان‘ کو ختم کرنے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگانے اور ذات کو پس پشت ڈالنے کا اعلان کرتے رہتے ہیں لیکن شہزاد اکبر کے ذریعے دن دہاڑے کی جانے والی 38 ارب روپے کی چوری پر ان کی نظر نہیں جاسکی۔
حکومت جب سپریم کورٹ سے برطانیہ سے آئی ہوئی رقم کو واپس مانگے گی تو کیا جج یہ سوال کریں گے کہ الف) یہ رقم سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں کیوں منتقل کی گئی۔ ب) یہ رقم اگر بحریہ ٹاؤن کراچی کیس کی مد میں دی گئی ہے تو اسے وفاقی حکومت کے حوالے کیوں کیا جائے؟ اس پر تو سندھ کے عوام کا حق ہے اور سندھ حکومت ہی اس رقم کو اپنے منصوبوں پر صرف کرنے کا استحقاق رکھتی ہے۔
عمران خان نے ’کامیاب جوان پروگرام‘ کو شفاف بنانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ کامیاب معاشرے میرٹ پر فیصلے کرتے ہیں، اپنے لوگوں کو ترقی کرنے کا موقع دیتے ہیں تاکہ وہ محنت سے اپنی جگہ بنا سکیں۔ برطانیہ نے اس شفافیت اور اصول پرستی کا مظاہرہ ملک ریاض سے پاکستان کی لوٹی ہوئی دولت پاکستان کو واپس کرکے فراہم کیا ہے۔ عمران خان کی حکومت وہی دولت ملک ریاض کو واپس کرکے کون سے شفافیت کا دعویٰ کررہی ہے؟