190 ملین پاونڈ والا کیس الگ ہے،شریف فیملی کے کیسز الگ ہیں،شہزاداکبر
ملک ریاض سے کس برطانوی قانون کے تحت پیسہ لیا گیا ہے؟
تصویر کے کاپی رائٹNATIONAL CRIME AGENCY
Image captionملک ریاض سے تصفیے میں حاصل کیے گئے اثاثے میں ہائیڈ پارک ون کی یہ رہائشی عمارت بھی ہے جس کی مالیت پانچ کروڑ پاؤنڈ بتائی جاتی ہے
برطانوی حکومت نے 31 جنوری 2018 کو ’ان ایکسپیلینڈ ویلتھ آرڈر‘ یعنی ایسی دولت جسی کی وضاحت نہ کی گئی ہو کا قانون نافد کیا تھا جس کے تحت برطانیہ میں مقیم غیر ملکی افراد سے برطانیہ میں ان کے اثاثوں کے بارے میں پوچھا جا سکتا ہے۔
برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے اسی قانون کے تحت پاکستان کی کاروباری شخصیت ملک ریاض حسین اور ان کے خاندان سے 19 کروڑ پاؤنڈ کی رقم/ اثاثوں کی فراہمی کے عوض تصفیہ کرنے کی تصدیق کی ہے۔
ان ایکسپلینڈ ویلتھ آرڈر کا قانون کیا ہے؟
’یو ڈبلیو او‘ ایک ایسا قانون ہے جس کے تحت لوگوں کو اپنے چند اثاثوں کی ملکیت کے بارے میں وضاحت دینی ہوگی لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حکومت فوراً اس پر قبضہ کر لے۔ یو ڈبلیو او کے قانون کی مدد سے برطانوی حکام کسی بھی اثاثے اور جائیداد کو اس وقت تک اپنے قبضے میں رکھ سکتے ہیں جب تک کہ ان کے بارے میں وضاحت نہ مل جائے۔
یہ قانون صرف حکومت کی جانب سے مجوزہ کردہ ادارے ہی نافذ کر سکتے ہیں۔ ان اداروں کی جانب سے کیے گئے سوالات کا جھوٹا جواب دینا قابل سزا جرم ہوگا۔ اس قانون کے تحت حاصل کیے گئے شواہد کو عدالت میں پیش کیا جاسکتا ہے۔
تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionاس برطانوی قانون کے مطابق پچاس ہزار پاؤنڈ سے زیادہ مالیت کے اثاثوں کی ملکیت کے بارے میں وضاحت مانگی جا سکتی ہے
حکومتی اندازوں کے مطابق برطانیہ میں ہر سال کالے دھن سے حاصل کی گئی تقریباً 90 ارب پاؤنڈ تک کی رقم کو سفید کیا جاتا ہے۔
برطانوی میڈیا اس قانون کو حکومت کی روس سے تعلق رکھنے والے مبینہ بدعنوان افراد کے خلاف کارروائی کرنے کے تناظر میں دیکھتا رہا ہے لیکن یہ قانون دنیا کے دیگر ممالک کے ایسے شہریوں کے لیے بھی مشکلات کا باعث بن رہا ہے جن کی برطانیہ میں جائیداد اور دیگر اثاثے ہیں۔
برطانیہ کے اس وقت کے وزیر برائے سیکورٹی بین والیس نے اخبار دی ٹائمز کو بتایا تھا کہ وہ امیر غیر ملکی افراد، جیسے روسی اشرافیہ، جو برطانیہ میں رہائش پذیر ہیں اور جن پر مبینہ بدعنوانی کے الزامات ہیں انھیں اپنے پرتعیش طرز زندگی اور اسے جاری رکھنے کے ذرائع کے بارے میں وضاحت دینی ہوگی۔
وزیر نے کہا تھا کہ ایسے کوئی بھی اثاثے جن کی مالیت پچاس ہزار پاؤنڈ سے زیادہ ہو اور ان پر شک ہو کہ وہ غیر قانونی طور پر حاصل کیے گئے ہیں، حکومت اس کے خلاف کارروائی کر سکتی ہے۔
بین والیس نے مبینہ بدعنوانی میں ملوث لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: 'ہم تم لوگوں کے پیچھے آئیں گے، تم لوگوں کے اثاثوں کے پیچھے جائیں گے اور تمہارے لیے یہاں جینا مشکل بنا دیں گے۔'
انھوں نے مزید کہا تھا 'حکومت کا موقف یہ ہے کہ ہمیں معلوم ہے کہ یہ عناصر کیا کر رہے ہیں اور ہم مزید ایسا ہونے نہیں دیں گے۔'
ان ایکسپلینڈ ویلتھ آرڈر کا پہلا شکار
اس قانون کے تحت سب سے پہلے آذربائیجان کے سرکاری بینکار
جہانگیر حاجی ایوا کی بیوی ضمیرہ حاجی ایوا سے ان کے دولت کی وضاحت مانگی گئی تھی۔
ضمیرہ حاجی ایوا کا تعلق آذربائیجان سے ہے اور آذربائیجان کے سرکاری بینک کے اعلیٰ افسر جہانگیر ہاجیوا کی بیوی ضمیرہ ہاجیوا لندن میں شاہانہ طرز رندگی گزار رہی تھیں۔