ملک ریاض کا تصفیہ: فائدہ ملک ریاض ہی کو؟
اس معاملے میں حکومت کے رویے پر سوشل میڈیا میں سوالات اٹھائے جا رہے ہیں اور اس سلسلے میں ٹوئٹر پر ایک ٹرینڈ بھی شروع ہو گیا ہے جس کے تحت تنقید کی جا رہی ہے کہ حکومت پردہ پوشی سے کام لے رہی ہے۔
محمد ثاقب تنویر پروڈیوسر، اسلام آباد
SaqibTanveer@
جمعہ 6 دسمبر 2019 15:45
سوال یہ ہے کہ آیا برطانیہ سے آیا پیسہ ملک ریاض کی سپریم کورٹ کے ساتھ سیٹلمنٹ کا حصہ ہو گا یا نہیں۔ (تصویر: ملک ریاض/فیس بک)
وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے اپنی ٹویٹ میں وضاحت کی ہے کہ برطانوی کرائم ایجنسی کے ساتھ ملک ریاض کے تصفیے کے بعد 19 کروڑ ملین پاؤنڈ (پاکستانی روپوں میں تقریباً 38 ارب) سپریم کورٹ کے نیشنل بینک کے اکاؤنٹ میں جائیں گے۔ شہزاد اکبر کے مطابق 19 کروڑ میں سے 14 کروڑ پاؤنڈ (ساڑھے 28 ارب روپے) سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں آ چکے ہیں۔
شہزاد اکبر نے اپنی ٹویٹ میں مزید کہا ہے کہ سپریم کورٹ کو پیسے ملنے کے بعد حکومت کورٹ سے درخواست کرے گی کہ پیسے حکومت پاکستان کو دے دیے جائیں تا کہ عوام کی فلاح پر خرچ کیے جا سکیں۔
شہزاد اکبر نے ایک اور ٹویٹ میں لکھا کہ ’حکومتِ پاکستان نے اس معاملے کو صیغۂ راز میں رکھنے کے معاہدے پر دستخط کر رکھے ہیں۔ حکومت نے برطانیہ سمیت دوسرے ملکوں سے بھی اسی طرح کے معاہدے کر رکھے ہیں، اور ہمیں کروڑوں ڈالر آنے کی امید ہے، اس لیے ہم صیغۂ راز میں رکھنے کے اس معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کر سکتے۔‘
لیکن سوشل میڈیا پر لوگ پوچھ رہے ہیں کہ آیا یہ معاہدہ ملک ریاض کے ساتھ ہوا ہے یا حکومتِ برطانیہ کے ساتھ؟ اور یہ کیا حکومت کا یہ فرض نہیں ہے کہ وہ اتنے اہم معاملے میں شفافیت برتے؟
دوسری طرف ملک ریاض کے برطانوی کرائم ایجنسی کے ساتھ تصفیے کو جوڑنے پر سوالات کھڑے ہو رہے ہیں کہ اس پیسے کو سپریم کورٹ میں کیسے جمع کرایا جا سکتا ہے جب کہ سپریم کورٹ اور برطانوی کرائم ایجنسی کے کیس میں بظاہر کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔
ملک ریاض کے مطابق یہ 19 کروڑ پاؤنڈ سپریم کورٹ میں ان پر بحریہ ٹاؤن کیس کی مد میں جمع کرائے جائیں گے۔ انہوں نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ کچھ لوگ مجھ پر کیچڑ اچھالنے کے لیے نیشنل کرائم ایجنسی کی رپورٹ کو توڑ مروڑ کر پیش کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے برطانیہ میں اپنی جائیداد سپریم کورٹ میں بحریہ ٹاؤن کیس کے حوالے سے 19 کروڑ پاؤنڈ جمع کرانے کے لیے بیچی ہے۔
اس معاملے میں حکومت کے رویے پر سوشل میڈیا میں سوالات اٹھائے جا رہے ہیں اور اس سلسلے میں ٹوئٹر پر ایک ٹرینڈ بھی شروع ہو گیا ہے جس کے تحت تنقید کی جا رہی ہے کہ حکومت پردہ پوشی سے کام لے رہی ہے۔
ملک ریاض کی برطانوی کرائم ایجنسی کے ساتھ سیٹلمنٹ اور سپریم کورٹ میں ہونے والے فیصلے میں بظاہر کوئی تعلق نظر نہیں آتا۔ سپریم کورٹ نے ملک ریاض کی 460 ارب روپے کی پیشکش مارچ 2019 میں قبول کی تھی اور وہ بحریہ ٹاؤن کراچی کیس میں تھی جب کہ برطانیہ کے اندر تحقیقات اور ملک ریاض کے اکاؤنٹس کو منجمد دسمبر 2018 میں کرنا شروع کیا گیا تھا۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ملک ریاض کے مطابق انہوں نے یہ جائیداد سپریم کورٹ کے لیے بیچی ہے تو نیشنل کرائم ایجنسی نے سپریم کورٹ کے فیصلے سے مہینوں پہلے کیسے ان کے اکاؤنٹس منجمد کرنا شروع کر دیے تھے؟
برطانوی کرائم ایجنسی نے اپنی پریس ریلیز میں لکھا تھا کہ یہ پیسہ ریاست پاکستان کو فراہم کر دیا جائے گا۔ اب سوال یہ ہے کہ آیا برطانیہ سے آیا پیسہ ملک ریاض کی سپریم کورٹ کے ساتھ سیٹلمنٹ کا حصہ ہو گا یا نہیں۔ ملک ریاض کے مطابق یہ پیسہ سپریم کورٹ کے ساتھ 460 ارب کی سیٹلمنٹ میں جائے گا۔
بظاہر سپریم کورٹ کا کیس اور برطانوی کرائم ایجنسی کی تحقیقات دونوں الگ کیس ہیں، جس کا مطلب یہ ہوا کہ ملک ریاض کی سیٹلمنٹ دونوں کیسوں میں الگ معاملات پر ہیں۔ اگر برطانیہ سے واپس آئے پیسے کو سپریم کورٹ کیس کا حصہ بنایا جا رہا ہے تو ملک ریاض کو 38 ارب روپے کا فائدہ ہو گا۔
سپریم کورٹ نے ملک ریاض پر 460 ارب روپے کا بحریہ ٹاؤن کراچی کیس میں جرمانہ لگایا۔ ملک ریاض پر برطانیہ میں 38 ارب روپے سے زائد کا مزید جرمانہ بظاہر کسی اور کیس میں تحقیقات کے بعد ہوا۔ دونوں جرمانوں کو ملا کر ملک ریاض کو 498 ارب روپے کے جرمانے ادا کرنا تھا۔ مگر اگر اب برطانیہ سے حاصل 38 ارب روپے کو 460 ارب کی مد میں وصول کیا جا رہا ہے تو اس کا فائدہ ملک ریاض کو ہو گا اور نقصان ریاست پاکستان کو۔ حکومت پاکستان کو 498 ارب روپے کی بجائے اب 460 ارب روپے ہی ملیں گے۔ گویا حکومت پاکستان کو برطانیہ میں ہوئے تصفیے کا کوئی فائدہ ہوا ہی نہیں اور ملک ریاض کو برطانوی کرائم ایجنسی سے سیٹلمنٹ کا کوئی نقصان نہیں ہوا کیوں کہ پہلے بھی انہوں نے 460 ارب روپے ادا کرنے تھے اور اب بھی 460 ہی ادا کر رہے ہیں۔
یہاں یہ بھی سوال اہم ہے کہ اگر برطانوی کرائم ایجنسی ریاست پاکستان کو پیسے واپس کر رہی ہے تو اس کا مطلب ہوا کہ یہ پیسہ پاکستان سے گیا تھا، اور بظاہر غیر قانونی طریقے سے گیا تھا۔ مگر حکومت پاکستان کی طرف سے کسی تحقیقات کا اعلان نہیں کیا گیا کہ ملک ریاض کون سے چینل سے یہ پیسہ ملک سے باہر لے کر گئے اور کیا انہوں نے اس پیسے پر کتنا ٹیکس ادا کیا۔
انٹرنیشنل لا اور منی لانڈرنگ قوانین کے ماہر بیرسٹر اور ایف آئی اے سابق پراسیکیوٹر زاہد جمیل نے اس معاملے پر انڈپینڈنٹ اردو کو اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ کابینہ کے وزیروں کے بیانات میں تضادات پایا جاتا ہے۔ ’وہ کہتے ہیں کہ وہ بندے کا نام نہیں لے سکتے جب کہ برطانوی کرائم ایجنسی نے اپنی پریس ریلیز میں انہوں نے نہ صرف کمنٹ کیا بلکہ نام بھی لیا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ حکومت کو واضح کرنا چاہیے کہ بظاہر ایک الگ کیس میں دوسرے کیس کا پیسہ کیسے آ سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فوجداری نظام انصاف میں یہ وضاحت ہونا ضروری ہے اور امید ہے کہ تحریک انصاف حکومت اس معاملے پر وضاحت دے گی۔