عبیداللہ عبید
محفلین
بی بی سی کو معلوم ہوا ہے کہ برطانوی وزرا اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ ہومیوپیتھی کو علاج کے ان طریقوں کی فہرست میں ڈال دیا جائے جن پر پابندی ہے۔
ہومیوپیتھی متازع طریقۂ علاج ہے اور یہ ’علاج بالمثل‘ کے اصول پر قائم ہے، تاہم اس کے ناقدین کا کہنا ہے کہ اس میں مریضوں کو بےکار میٹھی گولیاں دی جاتی ہیں۔
تاہم فیکلٹی آف ہومیوپیتھی کے مطابق اس طریقہ علاج کے ’گہرے اثرات‘ مرتب ہوتے ہیں اور مریض اسے پسند بھی کرتے ہیں۔
توقع یہ ہے کہ سنہ 2016 میں اس سلسلے میں مشاورت کی جائے گی۔
برطانیہ میں نیشنل ہیلتھ سروس (این ایچ ایس ) کے ہومیوپیتھی سے متعلق بل تقریباً 40 لاکھ پاؤنڈ مالیت کے ہیں، ان میں ہومیوپیتھی کے ہسپتالوں کے اخراجات اور جنرل پریکٹشنروں (جی پی) کے نسخے شامل ہیں۔
ہومیوپیتھی کی بنیاد دو تصورات پر ہے، ایک یہ کہ زہر زہر کو کاٹتا ہے، اور دوسرا یہ کہ بیماری پیدا کرنے والے مادے کو پتلا کر دیا جائے تو اس کی تاثیر بڑھ جاتی ہے۔
مثال کے طور پر اگر کوئی سنکھیا کھانے سے بیمار ہو گیا ہے تو اسے سنکھیا ہی کم مقدار میں دیا جائے تو وہ ٹھیک ہو جائے گا۔
عام ہومیوپیتھک طریقہ علاج سانس کی بیماری دمہ، کان کے انفکیکشن، تیز بخار، ڈپریشن، دباؤ، گھبراہٹ، الرجی اور جوڑوں کی سوزش کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
تاہم خود این ایچ ایس کا کہنا ہے کہ ’اس بات کے کوئی معیاری شواہد نہیں ہیں کہ ہومیوپیتھی کسی بھی بیماری کے لیے موثر ہے۔
برطانوی تنظیم گڈ تھنکنگ سوسائٹی خاصے عرصے سے مہم چلا رہی ہے کہ این ایچ ایس ہومیوپیتھی ادویات کو شیڈیول 1 میں ڈال دے۔
یہ وہ فہرست ہے جس کے اندر موجود ادویات کو ڈاکٹر تجویز نہیں کر سکتے۔ اگر دواؤں کے سستے متبادل موجود ہیں یا پھر دوا پُراثر نہیں تو اسے اس فہرست میں ڈالا جا سکتا ہے۔
گُڈ تھنکنگ سوسائٹی کے بانی سائمن سنگھ کا کہنا ہے کہ ان غیر تصدیق شدہ ٹوٹکوں پر خرچ کی جانے والی رقم کہیں زیادہ بہتر طریقۂ علاج پر خرچ جا سکتی ہے جو مریضوں کو حقیقی فائدہ پہنچاتے ہیں۔
گُڈ تھنکنگ سوسائٹی کی جانب سے اس کیس کو عدالت میں لےکر جانے کی دھمکی کے بعد شعبہ صحت کے قانونی مشیروں نے ای میل کی شکل میں جواب دیا ہے کہ وزرا نے ’اس سلسلے میں مشاورت کا فیصلہ کر لیا ہے۔
ماخذ: بی بی سی(اردو) ویب سائٹ
ہومیوپیتھی متازع طریقۂ علاج ہے اور یہ ’علاج بالمثل‘ کے اصول پر قائم ہے، تاہم اس کے ناقدین کا کہنا ہے کہ اس میں مریضوں کو بےکار میٹھی گولیاں دی جاتی ہیں۔
تاہم فیکلٹی آف ہومیوپیتھی کے مطابق اس طریقہ علاج کے ’گہرے اثرات‘ مرتب ہوتے ہیں اور مریض اسے پسند بھی کرتے ہیں۔
توقع یہ ہے کہ سنہ 2016 میں اس سلسلے میں مشاورت کی جائے گی۔
برطانیہ میں نیشنل ہیلتھ سروس (این ایچ ایس ) کے ہومیوپیتھی سے متعلق بل تقریباً 40 لاکھ پاؤنڈ مالیت کے ہیں، ان میں ہومیوپیتھی کے ہسپتالوں کے اخراجات اور جنرل پریکٹشنروں (جی پی) کے نسخے شامل ہیں۔
ہومیوپیتھی کی بنیاد دو تصورات پر ہے، ایک یہ کہ زہر زہر کو کاٹتا ہے، اور دوسرا یہ کہ بیماری پیدا کرنے والے مادے کو پتلا کر دیا جائے تو اس کی تاثیر بڑھ جاتی ہے۔
مثال کے طور پر اگر کوئی سنکھیا کھانے سے بیمار ہو گیا ہے تو اسے سنکھیا ہی کم مقدار میں دیا جائے تو وہ ٹھیک ہو جائے گا۔
عام ہومیوپیتھک طریقہ علاج سانس کی بیماری دمہ، کان کے انفکیکشن، تیز بخار، ڈپریشن، دباؤ، گھبراہٹ، الرجی اور جوڑوں کی سوزش کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
تاہم خود این ایچ ایس کا کہنا ہے کہ ’اس بات کے کوئی معیاری شواہد نہیں ہیں کہ ہومیوپیتھی کسی بھی بیماری کے لیے موثر ہے۔
برطانوی تنظیم گڈ تھنکنگ سوسائٹی خاصے عرصے سے مہم چلا رہی ہے کہ این ایچ ایس ہومیوپیتھی ادویات کو شیڈیول 1 میں ڈال دے۔
یہ وہ فہرست ہے جس کے اندر موجود ادویات کو ڈاکٹر تجویز نہیں کر سکتے۔ اگر دواؤں کے سستے متبادل موجود ہیں یا پھر دوا پُراثر نہیں تو اسے اس فہرست میں ڈالا جا سکتا ہے۔
گُڈ تھنکنگ سوسائٹی کے بانی سائمن سنگھ کا کہنا ہے کہ ان غیر تصدیق شدہ ٹوٹکوں پر خرچ کی جانے والی رقم کہیں زیادہ بہتر طریقۂ علاج پر خرچ جا سکتی ہے جو مریضوں کو حقیقی فائدہ پہنچاتے ہیں۔
گُڈ تھنکنگ سوسائٹی کی جانب سے اس کیس کو عدالت میں لےکر جانے کی دھمکی کے بعد شعبہ صحت کے قانونی مشیروں نے ای میل کی شکل میں جواب دیا ہے کہ وزرا نے ’اس سلسلے میں مشاورت کا فیصلہ کر لیا ہے۔
ماخذ: بی بی سی(اردو) ویب سائٹ