برطانیہ کی برمنگھم یونیورسٹی میں قرآن پاک کاقدیم ترین نسخہ برآمد، 14 سو سال میں ایک بھی تبدیلی نہیں

arifkarim

معطل
آپ ایک لمحے کے لیے سوچئے ایل گور جیسے لوگ خواب بھی کیسے کیسے دیکھتے ہیں اور ہم لوگ کھلی آنکھوں کے ساتھ کیا کر رہے ہیں؟ وہ کیا ہیں اور ہم کیا ہیں اور ہمیں ہم ہونے پر شرم تک نہیں آتی
http://www.express.pk/story/377791/
اس خبر کا قرآن پاک کے نسخہ سے کیا تعلق ہے؟
 
ویسے ایک بات اور قابل غور ہے کہ اس نسخے بلکہ چند اوراق کو اتنی عظیم دریافت قرار دیا جارہا ہے۔ جبکہ یہ کسی لائبریری (بلکہ ایک بڑی اور معروف لائبریری) میں سے میڈیا پر آئی ہے۔
اس کی دریافت تو اس وقت کی ہو گی جب اسے "کہیں سے کسی نے صحیح معنوں میں دریافت کر کے اتنی مشہور یونیورسٹی یا لائبریری میں منتقل کیا گیا ہوگااور پھر یہ گمنام ہو گئی ۔۔۔۔واللہ اعلم
وہی خبر کہتی ہے یہ سو سال پہلے کی بات ہے۔ 1915 : پہلی عالمی جنگ ؟؟؟؟
 

arifkarim

معطل
اس کی دریافت تو اس وقت کی ہو گی جب اسے "کہیں سے کسی نے صحیح معنوں میں دریافت کر کے اتنی مشہور یونیورسٹی یا لائبریری میں منتقل کیا گیا ہوگااور پھر یہ گمنام ہو گئی ۔۔۔۔واللہ اعلم
یہ کوئی نئی بات نہیں۔ بحیرہ مردار کے طومار جو کہ یہودی بائبل کے قدیم ترین نسخے تصور کیے جاتے ہیں کیساتھ بھی قریباً یہی معاملہ ہوا تھا۔ انہیں جب سردخانہ سے نکال کر تحقیق میں لایا گیا تو پتا چلا کہ یہ کس قدر اہمیت کے حامل ہیں۔ ابھی کچھ دن قبل ہی اسرائیلی ریسرچرز نے ان میں سے بعض جلے ہوئے نسخوں کو جدید امیجنگ ٹیکنالوجیز کا استعمال کرتے ہوئے پڑھنے کے قابل بنایا ہے:
http://www.jspacenews.com/israelis-decipher-ancient-hebrew-scroll-since-dead-sea-scrolls/
 

arifkarim

معطل
برطانوی ریسرچرز کے مطابق قرآن پاک کے اس قدیم ترین نسخہ کی عمر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ ولادت سے بھی زیادہ قدیم ہو سکتی ہے:
http://news.discovery.com/history/r...-oldest-koran-may-predate-muhammad-150901.htm
http://www.techtimes.com/articles/8...-worlds-oldest-quran-may-predate-muhammad.htm

حیرت انگیز طور پر ایک بھی اردو یا پاکستانی اخبار نے اس بڑی خبر کو رپورٹ نہیں کیا ۔ جہاں اسلام اور پاکستان سے متعلق ایک چھوٹی سی مغربی خبر بھی مرچ مصالحے کیساتھ سُرخیاں بن جاتی ہیں۔ وہیں یہ آثار قدیمہ اور سائنسی شواہد سے ملنے والی معلومات کو دانستہ طور پر سردخانے میں ڈال دیا گیا کہ عوام مشتعل ہوکر اخبار کے دفاتر ہی کو نہ آگ لگا دیں!!!
زیک عثمان ظفری
 

عثمان

محفلین
برطانوی ریسرچرز کے مطابق قرآن پاک کے اس قدیم ترین نسخہ کی عمر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ ولادت سے بھی زیادہ قدیم ہو سکتی ہے:
http://news.discovery.com/history/r...-oldest-koran-may-predate-muhammad-150901.htm
http://www.techtimes.com/articles/8...-worlds-oldest-quran-may-predate-muhammad.htm

حیرت انگیز طور پر ایک بھی اردو یا پاکستانی اخبار نے اس بڑی خبر کو رپورٹ نہیں کیا ۔ جہاں اسلام اور پاکستان سے متعلق ایک چھوٹی سی مغربی خبر بھی مرچ مصالحے کیساتھ سُرخیاں بن جاتی ہیں۔ وہیں یہ آثار قدیمہ اور سائنسی شواہد سے ملنے والی معلومات کو دانستہ طور پر سردخانے میں ڈال دیا گیا کہ عوام مشتعل ہوکر اخبار کے دفاتر ہی کو نہ آگ لگا دیں!!!
زیک عثمان ظفری
ربط میں دی گئی خبر احمقانہ صحافت کا ایک بدترین نمونہ ہے اور آپ کا تبصرہ اس سے بھی دو ہاتھ بڑھ کر۔
کاربن ڈیٹنگ ہمیشہ ایک ٹائم پیریڈ کا تعین کرتی ہے۔ اس خبر میں بتایا گیا ٹائم پیریڈ وہی ہے جو ڈیڑھ ماہ پہلے اس سلسلے کی اولین خبر میں دیا گیا تھا۔ آپ کے دیے گئے نئے ربط میں کوئی نئی اور تعجب خیز بات نہیں ماسوائے غیر محتاط سرخی اور متن کے۔
گوگل کا سہارا لیتے ہوئے اس سلسلے کی اگلی پچھلی خبروں کو ایک بار پھر بغور پڑھیے۔
 

فاتح

لائبریرین
برطانوی ریسرچرز کے مطابق قرآن پاک کے اس قدیم ترین نسخہ کی عمر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ ولادت سے بھی زیادہ قدیم ہو سکتی ہے:
http://news.discovery.com/history/r...-oldest-koran-may-predate-muhammad-150901.htm
http://www.techtimes.com/articles/8...-worlds-oldest-quran-may-predate-muhammad.htm

حیرت انگیز طور پر ایک بھی اردو یا پاکستانی اخبار نے اس بڑی خبر کو رپورٹ نہیں کیا ۔ جہاں اسلام اور پاکستان سے متعلق ایک چھوٹی سی مغربی خبر بھی مرچ مصالحے کیساتھ سُرخیاں بن جاتی ہیں۔ وہیں یہ آثار قدیمہ اور سائنسی شواہد سے ملنے والی معلومات کو دانستہ طور پر سردخانے میں ڈال دیا گیا کہ عوام مشتعل ہوکر اخبار کے دفاتر ہی کو نہ آگ لگا دیں!!!

میں نے آپ کے دیے ہوئے صرف پہلے لنک یعنی "ڈسکوری ڈاٹ کام" سے ہی پڑھا اور وہاں لفاظی کو نکال کر صرف کاربن ڈیٹنگ اور زمانے کے تعین کے حوالے سے صرف ذیل کے یہ پیراگراف ملے ہیں جن میں اس دریافت شدہ نسخے اور رسول اللہ ﷺ کے زمانوں میں کسی اختلاف کا پہلو نہیں نکلتا۔ میں نے وہ پیراگراف من و عن یہاں نقل بھی کر دیے ہیں اور ساتھ ہی اردو ترجمہ بھی کر دیا ہے۔
ترجمہ:
آکسفورڈ یونیورسٹی کے ماہرین نے ان صفحات کی کاربن ڈیٹنگ سے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ وہ قدیم نسخہ سن 568 تا سن 645 عیسوی کے درمیان تحریر کیا گیا ہو سکتا ہے۔ یوں ممکنہ طور پر نئے دریافت شدہ صفحات قرآن کا قدیم ترین نسخہ ہیں۔
حضرت محمد ﷺکو اسلامی عقیدے کے بانی کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے اور ان پر مبینہ طور پر وحی نازل ہوتی تھی جو قرآن کا ماخذ ہے۔ وہ سن 570 تا 645 عیسوی زندہ رہے۔

علاوہ ازیں یہ خبریں یکم اور دو ستمبر کی ہیں جب کہ زیک یہی نکتہ یہاں محفل پر ہی 22 جولائی کو اٹھا چکے ہیں کہ
  1. خیال رہے کہ 568 سے 610 تک اسلام کا وجود نہ تھا۔
  2. دوسری اہم بات یہ کہ یہ قدامت اس کھال کی ہے جس پر یہ آیات لکھی ہیں۔ ہمیں یہ علم نہیں کہ اس پر قرآن کب لکھا گیا۔
 
آخری تدوین:

arifkarim

معطل
کاربن ڈیٹنگ ہمیشہ ایک ٹائم پیریڈ کا تعین کرتی ہے۔ اس خبر میں بتایا گیا ٹائم پیریڈ وہی ہے جو ڈیڑھ ماہ پہلے اس سلسلے کی اولین خبر میں دیا گیا تھا۔ آپ کے دیے گئے نئے ربط میں کوئی نئی اور تعجب خیز بات نہیں ماسوائے غیر محتاط سرخی اور متن کے۔

خبر میں صاف لکھا ہے "could predate" ۔ نیز کارب ڈیٹنگ اس پارچ منٹ کی ہے جہاں یہ لکھا گیا۔ نہ کہ متن کی۔ متن کی عمر صرف اسکے تحریر ی خط کے موازنہ کیساتھ لگائی جا سکتی ہے، جو کہ ریسرچرز کے مطابق قدیم عربی 'حجازی' خط ہے:
http://www.inquisitr.com/2382300/th...-shake-the-foundations-of-islam-scholars-say/

اگر ریسرچرز یہ ثابت کر دیتے ہیں کہ ظہور اسلام کے وقت خط حجازی کا کوئی وجود نہیں تھا بلکہ یہ اس سے زیادہ قدیم خط ہے تو پھر اس خبر میں صداقت ہو سکتی ہے۔ وگرنہ نہیں۔
 
آخری تدوین:

arifkarim

معطل
علاوہ ازیں یہ خبریں یکم اور دو ستمبر کی ہیں جب کہ زیک یہی نکتہ یہاں محفل پر ہی 22 جولائی کو اٹھا چکے ہیں کہ
زیک کی بات بھی درست ہے۔ کاربن ڈیٹنگ صرف کھال کی عمر بتاتی ہے۔ متن کی نہیں۔ متن کی عمر اسکے خط کی تشخیص اور اسکی تاریخ سے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
مذکورہ لمنٹری کرنے والا "شیپ یا گوٹ" کہہ رہا ہے ۔ کیا یہ متعین نہیں ہو سکتا کہ یہ بھیڑ تھی یا بکری۔ مزید براں پھر ایجنگ کی ایکوریسی کا کیا کہنا ۔
 

عثمان

محفلین
خبر میں صاف لکھا ہے "could predate" ۔
کاربن ڈیٹنگ سے حاصل کیے گئے Statistical Inference یہ نتائج مہیا کرتے ہیں کہ اس بات کے ٪95 امکانات ہیں کہ کھال کے اس ٹکڑے کی قدامت 645-568 عیسوی کی ہے۔ اس سے زیادہ اس پر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ شماریات کے مروجہ اصول وقت کے اس دورانیے کی مزید تخصیص کی اجازت نہیں دیتے۔ یعنی آپ یہ نہیں کہہ سکتے اس بات کے اتنے فیصد امکانات ہیں کہ یہ ٹکڑا چار جون 568ء شام ساڑھے پانچ بجے وجود میں آیا وغیرہ۔۔ دی گئی حدود پر ہی اکتفا کرنا ہوگا۔ حدود کو مزید بہتر کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ نیا سیمپل لیں اور اس پر نیا اور مظبوط ٹیسٹ کریں۔

نیز کارب ڈیٹنگ اس پارچ منٹ کی ہے جہاں یہ لکھا گیا۔ نہ کہ متن کی۔ متن کی عمر صرف اسکے تحریر ی خط کے موازنہ کیساتھ لگائی جا سکتی ہے، جو کہ ریسرچرز کے مطابق قدیم عربی 'حجازی' خط ہے:
http://www.inquisitr.com/2382300/th...-shake-the-foundations-of-islam-scholars-say/

اگر ریسرچرز یہ ثابت کر دیتے ہیں کہ ظہور اسلام کے وقت خط حجازی کا کوئی وجود نہیں تھا بلکہ یہ اس سے زیادہ قدیم خط ہے تو پھر اس خبر میں صداقت ہو سکتی ہے۔ وگرنہ نہیں۔
خط حجازی کی تاریخ کا اس موضوع سے کوئی تعلق نہیں۔ کاربن ڈیٹنگ اس کھال کی قدامت ثابت کرتی ہے۔ اس پر موجود تحریر یا تو اس دورانیے کی ہے یا اس کے کچھ بعد کی۔ اس نمونے کی بنیاد پر "could predate" کا کوئی سوال نہیں رہا۔
 
آخری تدوین:

عثمان

محفلین
مذکورہ لمنٹری کرنے والا "شیپ یا گوٹ" کہہ رہا ہے ۔ کیا یہ متعین نہیں ہو سکتا کہ یہ بھیڑ تھی یا بکری۔ مزید براں پھر ایجنگ کی ایکوریسی کا کیا کہنا ۔
کاربن ڈیٹنگ کا مقصد قدامت کا تعین کرنا ہے۔ نوع کے تعین کے لیے تو ڈی این اے ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔ ڈی این اے کی preservation آسان نہیں۔ عین ممکن ہے کہ نمونہ اس قدر contaminated ہو کہ اس پر ڈی این اے ٹیسٹ کرنا ممکن نہ رہا ہو۔
 

arifkarim

معطل
خط حجازی کی تاریخ کا اس موضوع سے کوئی تعلق نہیں۔
کیا آپکے نزدیک ایک زمانہ یا تہذیب کے رائج العام خط میں تحریر تاریخ کا حصہ نہیں؟پھر تو egyptian hieroglyphics کی تاریخ کا قدیم مصری تہذیب سے کوئی تعلق نظر نہیں ہونا چاہئے؟ یا ادھر پاکستان میں ہڑپا اور موئنجودوڑو سے ملنے والی ناقابل شناخت تحاریر کا ان معدوم قدیم تہذیبوں سے کوئی تعلق نہیں ہوگا؟ میرا مطلب یہ تھا کہ اگر ریسرچرز شواہد سے ثابت کر دیتے ہیں کہ خط حجازی ظہور اسلام سے بہت عرصہ قبل صحرائے عرب میں رائج العام تھا اور قرآن پاک کے دیگر قدیم نسخے اس خط سے مختلف ہیں تو پھر کہیں کچھ مسئلہ تو ہوا ہے۔ کیونکہ ان قدیم نسخوں میں متن پر اعراب کا استعمال تک نہیں ہوا ہے اور عربی ایک ایسی زبان ہے کہ اسمیں اعراب کے معمولی سے رد و بدل سے پورا کا پورا متن بدلا جاتا ہے۔
 

عثمان

محفلین
کیا آپکے نزدیک ایک زمانہ یا تہذیب کے رائج العام خط میں تحریر تاریخ کا حصہ نہیں؟پھر تو egyptian hieroglyphics کی تاریخ کا قدیم مصری تہذیب سے کوئی تعلق نظر نہیں ہونا چاہئے؟ یا ادھر پاکستان میں ہڑپا اور موئنجودوڑو سے ملنے والی ناقابل شناخت تحاریر کا ان معدوم قدیم تہذیبوں سے کوئی تعلق نہیں ہوگا؟ میرا مطلب یہ تھا کہ اگر ریسرچرز شواہد سے ثابت کر دیتے ہیں کہ خط حجازی ظہور اسلام سے بہت عرصہ قبل صحرائے عرب میں رائج العام تھا اور قرآن پاک کے دیگر قدیم نسخے اس خط سے مختلف ہیں تو پھر کہیں کچھ مسئلہ تو ہوا ہے۔ کیونکہ ان قدیم نسخوں میں متن پر اعراب کا استعمال تک نہیں ہوا ہے اور عربی ایک ایسی زبان ہے کہ اسمیں اعراب کے معمولی سے رد و بدل سے پورا کا پورا متن بدلا جاتا ہے۔
دریافت ہونے والا نسخہ اب تک قرآن کریم کا سب سے قدیم نسخہ ہے۔ خط حجازی کی تاریخ کوئی بھی موڑ لے ، اس سے اس دریافت شدہ نسخے کی قدامت پر بھلا کیا حرف آئے گا ؟
 

arifkarim

معطل
دریافت ہونے والا نسخہ اب تک قرآن کریم کا سب سے قدیم نسخہ ہے۔ خط حجازی کی تاریخ کوئی بھی موڑ لے ، اس سے اس دریافت شدہ نسخے کی قدامت پر بھلا کیا حرف آئے گا ؟
آپکی بات درست ہے۔ دراصل بعض یہود و نصاریٰ لابی گروپس اس قدیم ترین قرآنی نسخہ کی دریافت کو اپنی ہزار سالہ سازشی تھیوریز سے جوڑنے کی انتھک کوشش میں مگن ہیں، جن کے مطابق نعوذ باللہ قرآن پاک انکی کتب مقدسہ کی ایک plagiarized ورژن ہے۔ یہ کوئی نیا الزام تو نہیں اور خود آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں یہ کئی بار منظر عام پر آیا۔ جسکا عموماً جواب یہی دیا جاتا رہا ہے کہ چونکہ یہود و نصاریٰ کی مقدس کُتب میں تحریف ہوئی، یوں اس "غلطی" کا اژالہ کرنے کیلئے قرآن پاک میں وہی باتیں دوبارہ دہرائی گئیں جو کہ دیگر الہامی کُتب میں پہلے سے موجود تھیں۔
1400 سال تک یہ دلیل ان تمام بے بنیاد الزامات کا مقابلہ کرتی رہی یہاں تک کہ کچھ دہائیوں قبل یہودی بائبل کے قدیم ترین نسخے جیسے بحیرہ مردار کے طومار دریافت ہوئے، جنکی کاربن ڈیٹنگ اور متن پر ریسرچ کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ موجودہ بائبل اور قدیم ترین بائبل میں کوئی تحریف نہیں ہوئی۔ اسی وجہ سے وہ سابقہ الزامات جو کہ مدفون ہو چکے تھے ، دوبارہ منظر عام پر آگئے۔ اور مسلمان اسکالرز کو کافی تنگ بھی کرتے رہے۔ یہاں تک کہ قرآن پاک کا یہ قدیم ترین نسخہ سامنے آگیا اور اسکی کاربن ڈیٹنگ عین ظہور اسلام کے ارد گرد ہی تشخیص ہوئی۔
یوں plagiarism پر بحث ختم ہونی چاہئے تھی مگر خط حجازی اور متن قرآن میں اعراب والا معاملہ جوں کا توں ہے۔ امید ہے آنے والے وقتوں میں جوں جوں مزید قدیم قرآنی نسخے دریافت ہوتے جائیں گے، ان الزامات کی تلافی آثار قدیمہ سے ملنے والے شواہد سے ہو جائے گی۔ ایسے میں مسلمان ریسرچرز کو خود بھی قدم آگے بڑھانا چاہئے کہ یہ کام بھی انہیں یہی یہود و نصاریٰ ریسرچرز کر کے دیں :)
 
آخری تدوین:

رانا

محفلین
آپکی بات درست ہے۔ دراصل بعض یہود و نصاریٰ لابی گروپس اس قدیم ترین قرآنی نسخہ کی دریافت کو اپنی ہزار سالہ سازشی تھیوریز سے جوڑنے کی انتھک کوشش میں مگن ہیں، جن کے مطابق نعوذ باللہ قرآن پاک انکی کتب مقدسہ کی ایک plagiarized ورژن ہے۔ یہ کوئی نیا الزام تو نہیں اور خود آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں یہ کئی بار منظر عام پر آیا۔ جسکا عموماً جواب یہی دیا جاتا رہا ہے کہ چونکہ یہود و نصاریٰ کی مقدس کُتب میں تحریف ہوئی، یوں اس "غلطی" کا اژالہ کرنے کیلئے قرآن پاک میں وہی باتیں دوبارہ دہرائی گئیں جو کہ دیگر الہامی کُتب میں پہلے سے موجود تھیں۔
قرآن شریف میں گذشتہ کتب کی جو باتیں دہرائی گئی لگتی ہیں وہ سرسری نظر سے مطالعہ کرنے کی وجہ سے لگتا ہے۔ ورنہ جہاں بھی قرآن پاک نے کوئی ایسی بات بیان کی ہے جو گذشتہ کتب میں بھی موجود ہے تو وہاں ضرور کوئی نہ کوئی نیا نکتہ بیان کیا گیا ہے یا گذشتہ کتب کی کسی غلطی کی طرف توجہ دلانے کے لئے قرآن شریف نے اسی واقعہ کو درست پیرائے میں بیان کیا ہے۔ مثلا موسیٰ اور ہارون علیہ السلام کا واقعہ دہرایا گیا لگتا ہے لیکن فرق بہت بڑا ہے کہ بائبل حضرت ہارون کو اس موقعے پر گناہگار کے طور پر پیش کرتی ہے کہ انہوں نے حضرت موسیٰؑ کی غیر موجودگی میں قوم میں بچھڑا بنا کر شرک کی بنیاد ڈالی جبکہ قرآن شریف اسی واقعے کو بیان کرکے درست بات بتاتا ہے کہ یہ کام سامری نے کیا تھا اور حضرت ہارون ؑ کی بریت ظاہر فرماتا ہے۔ یا فرعون کے ذکر میں بائبل اس کے جسم کے بچائے جانے کی نسبت خاموش ہے اور قرآن اس نئے نکتے کی طرف توجہ دلارہا ہے۔ اسی ایک واقعے میں اور بہت سے فرق ہیں جہاں بائبل کے بیان میں واقعاتی اور تاریخی غلطیاں ہیں۔ اور دیگر واقعات میں بھی بہت سی باتیں ہیں کہ یا تو قرآن گذشتہ واقعے کو بیان کرکے کسی نئے نکتے کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہے یا بائبل کی کسی غلطی کو درست کرنا مقصود تھا۔ اور بعد کو قرآن میں بیان کردہ واقعات ہی تاریخ اور سائنس کی کسوٹی پر درست ثابت ہوئے ہیں۔ اس لئے یہود و نصاریٰ اس معاملے میں مغالطہ دینے کی کوشش کرتے ہیں ورنہ درحقیقت ایسے جس معاملے کو وہ اٹھاتے ہیں وہاں وہ خود ہی ملزم بن جاتے ہیں۔

قرآن شریف میں اعراب ابتدا میں نہیں تھے یہ 65 ہجری کے بعد لگائے گئے تھے۔کہیں پڑھا تھا کہ حجاج بن یوسف کے عہد میں یہ مفید کام ہوا تھا۔
 
Top