دریافت ہونے والا نسخہ اب تک قرآن کریم کا سب سے قدیم نسخہ ہے۔ خط حجازی کی تاریخ کوئی بھی موڑ لے ، اس سے اس دریافت شدہ نسخے کی قدامت پر بھلا کیا حرف آئے گا ؟
آپکی بات درست ہے۔ دراصل بعض یہود و نصاریٰ لابی گروپس اس قدیم ترین قرآنی نسخہ کی دریافت کو اپنی ہزار سالہ سازشی تھیوریز سے جوڑنے کی انتھک کوشش میں مگن ہیں، جن کے مطابق نعوذ باللہ قرآن پاک انکی کتب مقدسہ کی ایک plagiarized ورژن ہے۔ یہ کوئی نیا الزام تو نہیں اور خود آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں یہ کئی بار منظر عام پر آیا۔ جسکا عموماً جواب یہی دیا جاتا رہا ہے کہ چونکہ یہود و نصاریٰ کی مقدس کُتب میں تحریف ہوئی، یوں اس "غلطی" کا اژالہ کرنے کیلئے قرآن پاک میں وہی باتیں دوبارہ دہرائی گئیں جو کہ دیگر الہامی کُتب میں پہلے سے موجود تھیں۔
1400 سال تک یہ دلیل ان تمام بے بنیاد الزامات کا مقابلہ کرتی رہی یہاں تک کہ کچھ دہائیوں قبل یہودی بائبل کے قدیم ترین نسخے جیسے بحیرہ مردار کے طومار دریافت ہوئے، جنکی کاربن ڈیٹنگ اور متن پر ریسرچ کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ موجودہ بائبل اور قدیم ترین بائبل میں کوئی تحریف نہیں ہوئی۔ اسی وجہ سے وہ سابقہ الزامات جو کہ مدفون ہو چکے تھے ، دوبارہ منظر عام پر آگئے۔ اور مسلمان اسکالرز کو کافی تنگ بھی کرتے رہے۔ یہاں تک کہ قرآن پاک کا یہ قدیم ترین نسخہ سامنے آگیا اور اسکی کاربن ڈیٹنگ عین ظہور اسلام کے ارد گرد ہی تشخیص ہوئی۔
یوں plagiarism پر بحث ختم ہونی چاہئے تھی مگر خط حجازی اور متن قرآن میں اعراب والا معاملہ جوں کا توں ہے۔ امید ہے آنے والے وقتوں میں جوں جوں مزید قدیم قرآنی نسخے دریافت ہوتے جائیں گے، ان الزامات کی تلافی آثار قدیمہ سے ملنے والے شواہد سے ہو جائے گی۔ ایسے میں مسلمان ریسرچرز کو خود بھی قدم آگے بڑھانا چاہئے کہ یہ کام بھی انہیں یہی یہود و نصاریٰ ریسرچرز کر کے دیں