برونائی میں بدفعلی، ہم جنس پرستی پر سنگسار کی سزا

فے کاف

محفلین
ffc74395-72f8-4879-814b-b9d9eaa29e8b.jpg
ان تمام پوسٹس میں جو زہر بھرا ہے وہاں ناپسندیدہ کی ریٹنگ بہت کم ہے۔
 

فاخر

محفلین
جواب در جواب كا کچھ بھی حاصل نہیں سوائے یہ کہ میں آپ سے کہوں "تعالوا الی کلمۃ سوا " ویسے یہ عقدہ حل ہوگیا کہ جسے ہم مسلمان سمجھتے ہیں وہ مسلمان ہی نہیں ہے....!!!
 

جاسم محمد

محفلین
جواب در جواب كا کچھ بھی حاصل نہیں سوائے یہ کہ میں آپ سے کہوں "تعالوا الی کلمۃ سوا " ویسے یہ عقدہ حل ہوگیا کہ جسے ہم مسلمان سمجھتے ہیں وہ مسلمان ہی نہیں ہے....!!!
کس کس کو سنگسار کریں گے۔ یہاں تو بچے یہ سب کر رہے ہیں
بدفعلی، ایک بچے نے دوسرے کو قتل کر دیا
 

فاخر

محفلین
کس کس کو سنگسار کریں گے۔ یہاں تو بچے یہ سب کر رہے ہیں
بدفعلی، ایک بچے نے دوسرے کو قتل کر دیا
بات كس كس کو سنگسار کرنے کی نہیں ہے بات شرعی حد کے نفاذ کی ہے ۔ جب شرعی حد کا نفاذ ہوگا تو یقیناً اس طرح کے جرائم اور کبائر گناہ میں کمی آئے گی ۔ یہ الگ بات ہے کہ آپ شرعی حد کے نفاذ میں معذور ہوں ۔
 

جاسم محمد

محفلین
بات شرعی حد کے نفاذ کی ہے ۔ جب شرعی حد کا نفاذ ہوگا تو یقیناً اس طرح کے جرائم اور کبائر گناہ میں کمی آئے گی ۔
شرعی حد کا نفاذ (حدود آرڈیننس) 80 کی دہائی میں ہو چکا ہے۔ لیکن اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اُلٹا خواتین کیلئے انصاف کا حصول مزید مشکل ہو گیا:
زنا بالجبر کا شکار ہونے والی مظلوم عورت اس جرم کے چار بالغ مسلم مرد گواہ کہاں سے لائے۔ اگر چار بالغ مسلمان اپنی موجودگی میں اس جرم کو روک نہیں سکتے تو وہ عدالت میں گواہی دینے کیوں آئیں گے۔
دنیا بھر میں زنا بالجبر کے بیشتر واقعات میں کوئی عینی گواہ موجود نہیں ہوتا۔ یہ مظلوم عورت کے ساتھ انتہائی زیادتی ہے کہ اس سے واقعے کے گواہ پیش کرنے کے لیے کہا جائے جب کہ اس جرم کی اطلاع دیتے ہی وہ قانون میں ایک اصطلاحی سقم کی بنا پر بذات خود مجرم ٹھرتی ہے۔ حدود کے قانون میں زنا اور زنا بالجبر میں کوئی فرق نہیں کیا گیا۔ چنانچہ زنا بالجبر کی شکایت کرنے والی خاتون اگر موقع کے چار عینی گواہ پیش نہ کر سکے تو اپنی شکایت کی روشنی میں زنا کی مرتکب قرار پاتی ہے۔
جرم کی ان گنت شکلیں ہو سکتی ہیں۔ کوئی شخص لڑکیوں کے ہاسٹل میں گھس کے یہ جرم کر سکتا ہے جہاں اگر کوئی گواہ ہو گا توصرف عورتیں ہوں گی۔
کوئی اور مجرم کسی غیر مسلم گھرانے میں جا کے اس جرم کا ارتکاب کر سکتا ہے جہاں موقع کے گواہ صرف غیر مسلم ہوں گے۔ ایسے سنگین جرم میں عورتوں اور غیر مسلم شہریوں کی گواہی رد کرنا انتہائی ناانصافی ہے۔
80 کی دہائی کے شروع میں تو اس قانون کی مدد سے زنا بالجبر کی شکایت کرنے والی ایک نابینا لڑکی کو اپنے ملزمان شناخت نہ کر سکنے پر سزا سنائی گئی تھی جسے اندرون اور بیرونِ ملک شدید احتجاج پر ختم کیا گیا۔
اگست 1997 میں سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس اسلم ناصر زاہد کی سربراہی میں قائم سینیٹ کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں اعداد و شمار کے ذریعے بتایا تھا کہ حدود قوانین کے اجراء سے پاکستان میں خاتون قیدیوں کی تعداد پانچ گنا بڑھ گئی ہے۔ ان میں سے بیشتر خواتین حدود قوانین کا خمیازہ بھگت رہی ہیں۔
BBCUrdu.com

میں مسلسل آپ کو تاریخی حوالوں سے شرعی قوانین کے نفاذ کے بعد پیش آنے والی خراب صورت حال سے آگاہ کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ لیکن آپ پھر بھی بضد ہیں کہ شرعی حد کے نفاذ کے بعد اس قسم کے جنسی جرائم میں کمی آئے گی۔ ایسی ضدی سوچ کا اب کیا کیا جائے؟

جب شرعی حد کا نفاذ ہوگا تو یقیناً اس طرح کے جرائم اور کبائر گناہ میں کمی آئے گی ۔
 

La Alma

لائبریرین
شرعی حد کا نفاذ (حدود آرڈیننس) 80 کی دہائی میں ہو چکا ہے۔ لیکن اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اُلٹا خواتین کیلئے انصاف کا حصول مزید مشکل ہو گیا
یہ درست ہے کہ گواہان کی عدم موجودگی مجرم کو ہی فائدہ دے گی اور مظلوم کے لئے انصاف کا حصول مشکل ہی نہیں بلکہ تقریباً ناممکن ہو جائے گا۔ ہزاروں واقعات میں سے کوئی ایک آدھ ہی ایسا واقعہ ہوتا ہو گا جس کے چار عینی گواہ بھی موجود ہوں۔
تعجب ہوتا ہے کہ حدود سے متعلق شرعی قوانین کی تشریح کرتے ہوئے، چار گواہوں کی موجودگی کو صرف چشم دید گواہان سے ہی کیوں مشروط کیا جاتا ہے۔ یہ مقدمے کے اندراج کی ابتدائی شرائط بھی ہو سکتی ہیں کہ عورت چار ایسے گواہ پیش کرے جو عاقل اور بالغ ہوں اور عورت کی صداقت کی گواہی دیں اور اس بات کی ذمہ داری قبول کریں کہ یہ کسی پر جھوٹا الزام نہیں لگا رہی۔ بعد میں فریقین سے مکمل تفتیش کے بعد اگر واقعی جرم ثابت ہوتا ہے تو مجرم کو قرار واقعی سزا دی جا سکے۔ یعنی چار گواہ پیش کرنا صرف ایک قانونی تقاضا ہو سکتا ہے جس کا مقصد، اولین درجے میں صرف اس بات کا تعین کرنا ہو کہ آیا یہ کیس شنوائی کے قابل ہے بھی یا نہیں۔
اس طرح کے کیسز میں عینی گواہان کی موجودگی کی کڑی شرط سے صرف ظلم ہی پنپ سکتا ہے۔ عورت اگر حق پر بھی ہے تو چشم دید گواہ پیش نہیں کر سکتی ۔ بصورتِ دیگر اس بات کا بھی قوی امکان موجود ہے کہ کسی دشمنی کے شاخسانے میں چار عینی جھوٹی شہادتیں پیش کر کے، کسی بھی بےگناہ کو بآسانی مجرم قرار دلوایا جا سکتا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
تعجب ہوتا ہے کہ حدود سے متعلق شرعی قوانین کی تشریح کرتے ہوئے، چار گواہوں کی موجودگی کو صرف چشم دید گواہان سے ہی کیوں مشروط کیا جاتا ہے۔
یہ سوال تو ان قانون دانوں سے کرنا چاہئے جو اس قسم کی غیر منصفانہ تشریحات کرتے ہیں۔ اور یوں انصاف کا حصول بہتر بنانے کی بجائے نظام میں مزید بگاڑ پیدا کر دیتے ہیں۔
 

فلسفی

محفلین
شرعی حد کا نفاذ (حدود آرڈیننس) 80 کی دہائی میں ہو چکا ہے۔ لیکن اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اُلٹا خواتین کیلئے انصاف کا حصول مزید مشکل ہو گیا:

اس دعوے کو آپ بی بی سی سے کے لنک سے ثابت کرتے ہیں؟ ، آفیشل اعدادوشمار کہاں ہیں؟ ۔ مفتی تقی عثمانی صاحب جو خود 17 سال اس قسم کے کیسز شرعی عدالت میں سنتے رہے ہیں ان کے اعدادوشمار آپ کے بیان کردہ دعوے سے مختلف ہیں۔ تھوڑا تردد کیجیے تفصیل مل جائے گی۔ بی بی سی کی نسبت ایک جج جو خود ایسے کیسز سنتا رہا ہے، اعدادوشمار کے معاملے میں زیادہ مستند ہے۔

بالفرض ایسا ہوا بھی تو اس کی وجہ شرعی قانون کیسے ہوا؟ پولیس کے محکمے کی خرافات ثابت کرنے کے لیے تو کسی قسم کے اعدادوشمار کی ضرورت بھی نہیں، جس کا پالا پڑا وہ بخوبی جانتا ہے۔ تو کیا پولیس کا محکمہ ختم کردیں؟ کیا پولیس کے محکمے کے سب اصول درست نہیں یا ان پر عملدرآمد نہیں ہوتا؟ ایسے میں قصور کس کا قانون یا اصول کا یا عملدرآمد کرنے والوں کا؟

میں مسلسل آپ کو تاریخی حوالوں سے شرعی قوانین کے نفاذ کے بعد پیش آنے والی خراب صورت حال سے آگاہ کرنے کی کوشش کر رہا ہوں

تاریخی حوالوں سے مراد بی بی سی کے لنکس ہیں؟ کوئی حقیقی مستند دستاویز ہے تو شئیر کیجیے۔

ایک اہم گذارش کہ حدود آرڈیننس کے متن کا مطالعہ غیر جانبداری سے کیجیے۔ فقط ملا کی ضد میں اور اخباری خبروں پر دھیان مت دیجیے۔

ثبوت کے لیے مفتی صاحب کی گفتگو غور سے سنیے


اس کے بعد مزید بحث کی گنجائش میرے نزدیک باقی نہیں رہتی۔ اللہ پاک ہم سب کو دین کی سمجھ عطا کرے اور سب کی عزت ؤ آبرو کی حفاظت فرمائے۔ آمین
 

جاسم محمد

محفلین
بالفرض ایسا ہوا بھی تو اس کی وجہ شرعی قانون کیسے ہوا؟
لگتا ہے آپ نے ان قوانین کا مطالعہ ہی نہیں کیا۔ حد کیلئے 4 گواہان والی شق اتنی سخت ہے کہ اس کے بغیر نہ تو کچھ ثابت کیا جا سکتا ہے اور ہی کوئی سزا سنائی جا سکتی ہے۔ نتیجتاً سالہا سال یہ کیسز عدالتوں میں لٹکتے رہتے ہیں۔ یعنی انصاف کی جلد فراہمی بجائے عوام کے قریب آنے کے مزید دور چلی جاتی ہے۔
مثال کے طور پر اگر کسی نے اپنی مرضی سے زنا کیا یا کسی کے ساتھ زنا بالجبر ہوا۔ تو ایسے میں 4 چشم دید گواہان کہاں سے آئیں گے؟ تاکہ حد کا اطلاق کا ہو سکے۔ ظاہر ہےا یسے جنسی جرائم کھلے عام تو ہوتے نہیں ہیں۔ اسی لئے یہ قانون عوام کے مسائل حل نہیں کر رہا تھا۔ بلکہ ان میں اضافے کا باعث تھا۔
 

فلسفی

محفلین
لگتا ہے آپ نے ان قوانین کا مطالعہ ہی نہیں کیا۔ حد کیلئے 4 گواہان والی شق اتنی سخت ہے کہ اس کے بغیر نہ تو کچھ ثابت کیا جا سکتا ہے اور ہی کوئی سزا سنائی جا سکتی ہے۔ نتیجتاً سالہا سال یہ کیسز عدالتوں میں لٹکتے رہتے ہیں۔ یعنی انصاف کی جلد فراہمی بجائے عوام کے قریب آنے کے مزید دور چلی جاتی ہے۔
مثال کے طور پر اگر کسی نے اپنی مرضی سے زنا کیا یا کسی کے ساتھ زنا بالجبر ہوا۔ تو ایسے میں 4 چشم دید گواہان کہاں سے آئیں گے؟ تاکہ حد کا اطلاق کا ہو سکے۔ ظاہر ہےا یسے جنسی جرائم کھلے عام تو ہوتے نہیں ہیں۔ اسی لئے یہ قانون عوام کے مسائل حل نہیں کر رہا تھا۔ بلکہ ان میں اضافے کا باعث تھا۔
میڈیا کا پروپیگنڈا

اوپر شئیر کی گئی 10 منٹ کی ویڈیو میں اس پروپیگنڈے کا جواب موجود ہے۔

اس لیے کہا تھا کہ جو جج کیسز خود سنتا رہا ہے اس کی گفتگو سنیے۔ یا قانون کا متن دیکھیے۔ آپ کی مرضی کہ آپ حقائق کو بی بی سی کی آنکھ سے دیکھنا چاہتے ہیں۔
 

سید عمران

محفلین
پاکستان میں شرعی سزاؤں کا نفاذ 80 کی دہائی میں ہو چکا ہے۔ اور قوم نے ان کے سنگین نتائج بھی بھگت لئے۔
کیا آپ کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ معاذ اللہ، اللہ تعالیٰ نے جرائم کے لیے غلط سزائیں تجویز کی ہیں جن سے فائدے کی بجائے نقصان ہوتا ہے؟؟؟
 

فاخر

محفلین
جاسم محمد صاحب آپ کس کو قانون سمجھتے ہیں ؟’’ کتاب و سنت اور اجماع و قیاس‘‘ کو یا پھر بی بی سی کی خبروں کو؟
اس بی بی سی کو جو اپنے ’’مخصوص ‘‘نظریات کی تبلیغ کے لیے اربوں ڈالر خرچ کرتا ہے۔ کیا آپ کو پتہ نہیں ہے ۔ کئی مرتبہ بی بی سی کا مکروہ چہرہ آپ کے ملک کے مفاد کے خلاف ’بے نقاب‘ ہوچکا ہے۔
خیر ! آپ مجھے بزعم خویش، بی بی سی کی گمراہ کن تجزیئے ، خبریں، وغیرہ وغیرہ نتھی کرکے اپنے دین پر ایمان لانے کے لیے ’’تبلیغ ‘‘ کررہے ہیں ؟ یہ دین اور مذہب آپ کو ہی مبارک۔ ’میرا ایمان یہی ہے جس کو باری تعالیٰ نے آج نہیں ؛بلکہ نبی برحق و آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے بیان کیا ہے : ’’ ولکم فی القصاص حیوۃ یاولی الالباب‘‘ ۔ آپ کی ’’تحقیقِ بیداد‘‘ کی جولانی جو بھی پیش کر ے ؛لیکن پیش کردہ آیت مبارکہ کا یہ ٹکڑا آپ کے پیش کردہ اربوں ؛بلکہ کھربوں عظیم دفاتر پر ’بھاری‘ ہے ۔ میں بھی آپ سے اسی زبان میں چیلنج کرتا ہے جس زبان میں باری تعالیٰ و حق جل مجدہ نے کفار مکہ سے کیا تھا :’’ ام یقولون افترہ ؟ قل فاتوا بعشر سورمثلہ مفتریات ، وادعو من استطعتم من دون اللہ ان کنتم صادقین‘‘۔ آپ جو بھی قانون، رپورٹ، تجزیے،وغیرہ پیش کریں، ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہیں ؛لیکن ان تمام قانون و آئین و اصول و ضوابط سے قبل شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب کا بیان غور سے دیکھ اور سن لیتے ۔
اور ہاں یاد رکھیں! اسلام میں کوئی تنگی ،جبر اور اکراہ نہیں ہے ،’ لا اکراہَ فی الدین‘ آپ جو بھی مذہب اختیار کریں اس سے اسلام کو کوئی پریشانی نہیں ہے ۔ کیا محمد بن قاسم کی آمد سے قبل اس برصغیر میں کفر کی تاریکی تھی ،کیا اس سے اسلام کا کچھ بگڑگیا ؟ ---------الغرض ! صرف ایک دل میں چھپی ’خواہش‘ کو مزید خفتہ رکھنے کے لیے اتنے بہانے اور حیلے اختیار نہ کریں ، صاف کہہ دیں کہ :’’ ہم شرعی آئین و اصول کو اپنے اوپر نافذ نہیں کرنا چاہتے‘۔ والسلام علیٰ من اتبع الہدیٰ‘
 

فاخر

محفلین
پاکستان میں کم از کم مسلمانوں کے ساتھ وہ سلوک نہیں ہوتا جو بھارت میں آر ایس ایس / ہندوتوا کے غنڈے کھلے عام کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں غیرمسلم اقلیتوں کی جان و مال تحفظ بھی بھارت سے بہتر ہے۔ باقی جو معاشرتی مسائل ہیں وہ کہاں نہیں ہوتے۔
آپ نے میری ’دکھتی رگ‘ پر ہاتھ رکھ دیا ہے ۔ میں آپ کے تمام تبصرہ جات پڑھ رہا تھا ؛لیکن جواب کے لیے فرصت نہیں مل رہی تھی ،خیر آج فرصت ملی ہے تو ’آپ کے اس بیہودہ سوال کا جواب پیش کرتاہوں ؛کیوں کہ ہم ا س ملک میں رہتے ہیں جس کو ہمارے آبا و اجداد نے اپنے خونِ جگر سے سینچا ہے ۔ بہادر شاہ ظفرؔ سے لیکر ٹیپوسلطان اور پھر جانباز ویر عبدالحمید اور شہید اشفاق اللہ خان نے اس ملک کی عزت و ناموس کی حفاظت کی ہے۔ اور آپ میرے عزیز از جان وطن اور پیارے دیس کے سیاسی احوال کی بابت طعنہ دے رہے ہیں ؟ الغرض ! اتنا یاد رکھیں ! ہم وہ سخت جان ہیں جو اپنے میراثِ پدری پر اپنا پورا حق تصور کرتے ہیں ، ہم نے بزدلوں کی طرح ایک چھوٹے سے ٹکڑے پر ’قناعت‘ نہیں کرلیا ۔ دل تھام کر رکھئے گا ،آج برسوں کی ’خلش‘ پیش کرنا لازمی تصور کرتا ہوں۔
 

فاخر رضا

محفلین
آپ نے میری ’دکھتی رگ‘ پر ہاتھ رکھ دیا ہے ۔ میں آپ کے تمام تبصرہ جات پڑھ رہا تھا ؛لیکن جواب کے لیے فرصت نہیں مل رہی تھی ،خیر آج فرصت ملی ہے تو ’آپ کے اس بیہودہ سوال کا جواب پیش کرتاہوں ؛کیوں کہ ہم ا س ملک میں رہتے ہیں جس کو ہمارے آبا و اجداد نے اپنے خونِ جگر سے سینچا ہے ۔ بہادر شاہ ظفرؔ سے لیکر ٹیپوسلطان اور پھر جانباز ویر عبدالحمید اور شہید اشفاق اللہ خان نے اس ملک کی عزت و ناموس کی حفاظت کی ہے۔ اور آپ میرے عزیز از جان وطن اور پیارے دیس کے سیاسی احوال کی بابت طعنہ دے رہے ہیں ؟ الغرض ! اتنا یاد رکھیں ! ہم وہ سخت جان ہیں جو اپنے میراثِ پدری پر اپنا پورا حق تصور کرتے ہیں ، ہم نے بزدلوں کی طرح ایک چھوٹے سے ٹکڑے پر ’قناعت‘ نہیں کرلیا ۔ دل تھام کر رکھئے گا ،آج برسوں کی ’خلش‘ پیش کرنا لازمی تصور کرتا ہوں۔
ارشاد ارشاد
آج تو آپ ہمیں سنگسار کر ہی دیجئے. قسم سے ہم اف تک نہیں کریں گے. یقین نہ آئے تو آزما کر دیکھ لیجیے
یہ خلش بھی دکھائیے گا ضرور
ہمارے لئے تو آپ کا اندازِ بیان اور اردو کی مہارت جان لینے کے لئے کافی ہے. ہمارا یہاں آپ سے واسطہ فقط اور فقط اردو زبان کے باعث ہے لہذا ہم اس تمام گفتگو کو بھی محظوظ ہو کر پڑھیں گے.
ارشاد جناب
 

فاخر

محفلین
ارشاد ارشاد
آج تو آپ ہمیں سنگسار کر ہی دیجئے. قسم سے ہم اف تک نہیں کریں گے. یقین نہ آئے تو آزما کر دیکھ لیجیے
یہ خلش بھی دکھائیے گا ضرور
ہمارے لئے تو آپ کا اندازِ بیان اور اردو کی مہارت جان لینے کے لئے کافی ہے. ہمارا یہاں آپ سے واسطہ فقط اور فقط اردو زبان کے باعث ہے لہذا ہم اس تمام گفتگو کو بھی محظوظ ہو کر پڑھیں گے.
ارشاد جناب
گویا ایک ہندوستانی الاصل کہ جس نے آج تک اردو کو’’ دیکھا، لکھا ،پڑھا ،بولا ،پہنا ،اوڑھا ،بچھایا‘‘ سے اردو کا سوال پوچھ رہے ہیں ۔ ھھھا بھائی ہم دہلوی ہیں ، کراچوی اور لاہوروی نہیں۔میرؔ تقی میر، غالبؔ ،ذوقؔ ،داغ ؔ صاحبان اسی دہلی کے کوچوں کے ’اسیر‘ تھے ۔ پھر بھی ہم یہ کہنے میں تأمل نہ کریں گے کہ ان کا فیضؔ ابھی بھی جاری وساری ہے ۔
 

جاسم محمد

محفلین
کیا آپ کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ معاذ اللہ، اللہ تعالیٰ نے جرائم کے لیے غلط سزائیں تجویز کی ہیں جن سے فائدے کی بجائے نقصان ہوتا ہے؟؟؟
ہم شرعی آئین و اصول کو اپنے اوپر نافذ نہیں کرنا چاہتے‘۔
یہ میں نے کہاں کہا؟ مسئلہ ان قوانین کے عملی نفاذ کا ہے۔ جس سے انصاف تو ملتا نہیں۔ اُلٹا انصاف کی فراہمی مزید پیچیدہ ہوجاتی ہے جیسا کہ ذیل میں صاف ظاہر ہے:
یہ درست ہے کہ گواہان کی عدم موجودگی مجرم کو ہی فائدہ دے گی اور مظلوم کے لئے انصاف کا حصول مشکل ہی نہیں بلکہ تقریباً ناممکن ہو جائے گا۔ ہزاروں واقعات میں سے کوئی ایک آدھ ہی ایسا واقعہ ہوتا ہو گا جس کے چار عینی گواہ بھی موجود ہوں۔
تعجب ہوتا ہے کہ حدود سے متعلق شرعی قوانین کی تشریح کرتے ہوئے، چار گواہوں کی موجودگی کو صرف چشم دید گواہان سے ہی کیوں مشروط کیا جاتا ہے۔
یہ مقدمے کے اندراج کی ابتدائی شرائط بھی ہو سکتی ہیں کہ عورت چار ایسے گواہ پیش کرے جو عاقل اور بالغ ہوں اور عورت کی صداقت کی گواہی دیں اور اس بات کی ذمہ داری قبول کریں کہ یہ کسی پر جھوٹا الزام نہیں لگا رہی۔ بعد میں فریقین سے مکمل تفتیش کے بعد اگر واقعی جرم ثابت ہوتا ہے تو مجرم کو قرار واقعی سزا دی جا سکے۔ یعنی چار گواہ پیش کرنا صرف ایک قانونی تقاضا ہو سکتا ہے جس کا مقصد، اولین درجے میں صرف اس بات کا تعین کرنا ہو کہ آیا یہ کیس شنوائی کے قابل ہے بھی یا نہیں۔
 

ابن جمال

محفلین
یہ درست ہے کہ گواہان کی عدم موجودگی مجرم کو ہی فائدہ دے گی اور مظلوم کے لئے انصاف کا حصول مشکل ہی نہیں بلکہ تقریباً ناممکن ہو جائے گا۔ ہزاروں واقعات میں سے کوئی ایک آدھ ہی ایسا واقعہ ہوتا ہو گا جس کے چار عینی گواہ بھی موجود ہوں۔
تعجب ہوتا ہے کہ حدود سے متعلق شرعی قوانین کی تشریح کرتے ہوئے، چار گواہوں کی موجودگی کو صرف چشم دید گواہان سے ہی کیوں مشروط کیا جاتا ہے۔ یہ مقدمے کے اندراج کی ابتدائی شرائط بھی ہو سکتی ہیں کہ عورت چار ایسے گواہ پیش کرے جو عاقل اور بالغ ہوں اور عورت کی صداقت کی گواہی دیں اور اس بات کی ذمہ داری قبول کریں کہ یہ کسی پر جھوٹا الزام نہیں لگا رہی۔ بعد میں فریقین سے مکمل تفتیش کے بعد اگر واقعی جرم ثابت ہوتا ہے تو مجرم کو قرار واقعی سزا دی جا سکے۔ یعنی چار گواہ پیش کرنا صرف ایک قانونی تقاضا ہو سکتا ہے جس کا مقصد، اولین درجے میں صرف اس بات کا تعین کرنا ہو کہ آیا یہ کیس شنوائی کے قابل ہے بھی یا نہیں۔
اس طرح کے کیسز میں عینی گواہان کی موجودگی کی کڑی شرط سے صرف ظلم ہی پنپ سکتا ہے۔ عورت اگر حق پر بھی ہے تو چشم دید گواہ پیش نہیں کر سکتی ۔ بصورتِ دیگر اس بات کا بھی قوی امکان موجود ہے کہ کسی دشمنی کے شاخسانے میں چار عینی جھوٹی شہادتیں پیش کر کے، کسی بھی بےگناہ کو بآسانی مجرم قرار دلوایا جا سکتا ہے۔
انشاء اللہ اگرموقع ملاتوفقہ اسلامی کے تعزیری قوانین کی روشنی میں کچھ عرض کرنے کی جسارت کروں گا، ابھی اتنا عرض کرنا ہے کہ چارگواہوں کے ثبوت کو بعض لوگوں نے ہوا بنالیاہے اوراسلامی قوانین کے عدم نفاذ کی بڑی وجہ بتاتے ہیں کہ عورت کیلئے انصاف کا حصول مشکل ہوجائے گا۔
یہ بات واضح رہنی چاہئے کہ چارگواہوں کی گواہی سنگساری کیلئے لازم ہے نہ کہ نفس سزا کیلئے،اگر دوگواہ ہوں اور قرائن سے قاضی یا عدالت کے جج کو پتہ چلتاہے کہ عورت کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے تو وہ مجرم کو قرارواقعی سزادے سکتاہے، صرف سنگساری کی سزانہیں دے سکتا،اسے قید بامشقت کی سزا دے سکتاہے، اس جرم پر خطیررقم جرمانہ کرسکتاہے،جلاوطنی کی سزا دے سکتاہے۔
اورافتخار رحمانی صاحب سے عرض ہے کہ :
دامن کو ذرا دیکھ،ذرا بند قبادیکھ
 
Top