فے کاف
محفلین
ان تمام پوسٹس میں جو زہر بھرا ہے وہاں ناپسندیدہ کی ریٹنگ بہت کم ہے۔
ان تمام پوسٹس میں جو زہر بھرا ہے وہاں ناپسندیدہ کی ریٹنگ بہت کم ہے۔
کس کس کو سنگسار کریں گے۔ یہاں تو بچے یہ سب کر رہے ہیںجواب در جواب كا کچھ بھی حاصل نہیں سوائے یہ کہ میں آپ سے کہوں "تعالوا الی کلمۃ سوا " ویسے یہ عقدہ حل ہوگیا کہ جسے ہم مسلمان سمجھتے ہیں وہ مسلمان ہی نہیں ہے....!!!
بات كس كس کو سنگسار کرنے کی نہیں ہے بات شرعی حد کے نفاذ کی ہے ۔ جب شرعی حد کا نفاذ ہوگا تو یقیناً اس طرح کے جرائم اور کبائر گناہ میں کمی آئے گی ۔ یہ الگ بات ہے کہ آپ شرعی حد کے نفاذ میں معذور ہوں ۔کس کس کو سنگسار کریں گے۔ یہاں تو بچے یہ سب کر رہے ہیں
بدفعلی، ایک بچے نے دوسرے کو قتل کر دیا
شرعی حد کا نفاذ (حدود آرڈیننس) 80 کی دہائی میں ہو چکا ہے۔ لیکن اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اُلٹا خواتین کیلئے انصاف کا حصول مزید مشکل ہو گیا:بات شرعی حد کے نفاذ کی ہے ۔ جب شرعی حد کا نفاذ ہوگا تو یقیناً اس طرح کے جرائم اور کبائر گناہ میں کمی آئے گی ۔
BBCUrdu.comزنا بالجبر کا شکار ہونے والی مظلوم عورت اس جرم کے چار بالغ مسلم مرد گواہ کہاں سے لائے۔ اگر چار بالغ مسلمان اپنی موجودگی میں اس جرم کو روک نہیں سکتے تو وہ عدالت میں گواہی دینے کیوں آئیں گے۔
دنیا بھر میں زنا بالجبر کے بیشتر واقعات میں کوئی عینی گواہ موجود نہیں ہوتا۔ یہ مظلوم عورت کے ساتھ انتہائی زیادتی ہے کہ اس سے واقعے کے گواہ پیش کرنے کے لیے کہا جائے جب کہ اس جرم کی اطلاع دیتے ہی وہ قانون میں ایک اصطلاحی سقم کی بنا پر بذات خود مجرم ٹھرتی ہے۔ حدود کے قانون میں زنا اور زنا بالجبر میں کوئی فرق نہیں کیا گیا۔ چنانچہ زنا بالجبر کی شکایت کرنے والی خاتون اگر موقع کے چار عینی گواہ پیش نہ کر سکے تو اپنی شکایت کی روشنی میں زنا کی مرتکب قرار پاتی ہے۔
جرم کی ان گنت شکلیں ہو سکتی ہیں۔ کوئی شخص لڑکیوں کے ہاسٹل میں گھس کے یہ جرم کر سکتا ہے جہاں اگر کوئی گواہ ہو گا توصرف عورتیں ہوں گی۔
کوئی اور مجرم کسی غیر مسلم گھرانے میں جا کے اس جرم کا ارتکاب کر سکتا ہے جہاں موقع کے گواہ صرف غیر مسلم ہوں گے۔ ایسے سنگین جرم میں عورتوں اور غیر مسلم شہریوں کی گواہی رد کرنا انتہائی ناانصافی ہے۔
80 کی دہائی کے شروع میں تو اس قانون کی مدد سے زنا بالجبر کی شکایت کرنے والی ایک نابینا لڑکی کو اپنے ملزمان شناخت نہ کر سکنے پر سزا سنائی گئی تھی جسے اندرون اور بیرونِ ملک شدید احتجاج پر ختم کیا گیا۔
اگست 1997 میں سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس اسلم ناصر زاہد کی سربراہی میں قائم سینیٹ کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں اعداد و شمار کے ذریعے بتایا تھا کہ حدود قوانین کے اجراء سے پاکستان میں خاتون قیدیوں کی تعداد پانچ گنا بڑھ گئی ہے۔ ان میں سے بیشتر خواتین حدود قوانین کا خمیازہ بھگت رہی ہیں۔
جب شرعی حد کا نفاذ ہوگا تو یقیناً اس طرح کے جرائم اور کبائر گناہ میں کمی آئے گی ۔
یہ درست ہے کہ گواہان کی عدم موجودگی مجرم کو ہی فائدہ دے گی اور مظلوم کے لئے انصاف کا حصول مشکل ہی نہیں بلکہ تقریباً ناممکن ہو جائے گا۔ ہزاروں واقعات میں سے کوئی ایک آدھ ہی ایسا واقعہ ہوتا ہو گا جس کے چار عینی گواہ بھی موجود ہوں۔شرعی حد کا نفاذ (حدود آرڈیننس) 80 کی دہائی میں ہو چکا ہے۔ لیکن اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اُلٹا خواتین کیلئے انصاف کا حصول مزید مشکل ہو گیا
یہ سوال تو ان قانون دانوں سے کرنا چاہئے جو اس قسم کی غیر منصفانہ تشریحات کرتے ہیں۔ اور یوں انصاف کا حصول بہتر بنانے کی بجائے نظام میں مزید بگاڑ پیدا کر دیتے ہیں۔تعجب ہوتا ہے کہ حدود سے متعلق شرعی قوانین کی تشریح کرتے ہوئے، چار گواہوں کی موجودگی کو صرف چشم دید گواہان سے ہی کیوں مشروط کیا جاتا ہے۔
شرعی حد کا نفاذ (حدود آرڈیننس) 80 کی دہائی میں ہو چکا ہے۔ لیکن اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اُلٹا خواتین کیلئے انصاف کا حصول مزید مشکل ہو گیا:
میں مسلسل آپ کو تاریخی حوالوں سے شرعی قوانین کے نفاذ کے بعد پیش آنے والی خراب صورت حال سے آگاہ کرنے کی کوشش کر رہا ہوں
لگتا ہے آپ نے ان قوانین کا مطالعہ ہی نہیں کیا۔ حد کیلئے 4 گواہان والی شق اتنی سخت ہے کہ اس کے بغیر نہ تو کچھ ثابت کیا جا سکتا ہے اور ہی کوئی سزا سنائی جا سکتی ہے۔ نتیجتاً سالہا سال یہ کیسز عدالتوں میں لٹکتے رہتے ہیں۔ یعنی انصاف کی جلد فراہمی بجائے عوام کے قریب آنے کے مزید دور چلی جاتی ہے۔بالفرض ایسا ہوا بھی تو اس کی وجہ شرعی قانون کیسے ہوا؟
میڈیا کا پروپیگنڈالگتا ہے آپ نے ان قوانین کا مطالعہ ہی نہیں کیا۔ حد کیلئے 4 گواہان والی شق اتنی سخت ہے کہ اس کے بغیر نہ تو کچھ ثابت کیا جا سکتا ہے اور ہی کوئی سزا سنائی جا سکتی ہے۔ نتیجتاً سالہا سال یہ کیسز عدالتوں میں لٹکتے رہتے ہیں۔ یعنی انصاف کی جلد فراہمی بجائے عوام کے قریب آنے کے مزید دور چلی جاتی ہے۔
مثال کے طور پر اگر کسی نے اپنی مرضی سے زنا کیا یا کسی کے ساتھ زنا بالجبر ہوا۔ تو ایسے میں 4 چشم دید گواہان کہاں سے آئیں گے؟ تاکہ حد کا اطلاق کا ہو سکے۔ ظاہر ہےا یسے جنسی جرائم کھلے عام تو ہوتے نہیں ہیں۔ اسی لئے یہ قانون عوام کے مسائل حل نہیں کر رہا تھا۔ بلکہ ان میں اضافے کا باعث تھا۔
جتنا شدومد سے آپ کی کوشش ہے انسان کو سنگسار کرنے کی خدا نے اسے اتنا ہی مشکل بنایا ہےایسے میں 4 چشم دید گواہان کہاں سے آئیں
کیا آپ کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ معاذ اللہ، اللہ تعالیٰ نے جرائم کے لیے غلط سزائیں تجویز کی ہیں جن سے فائدے کی بجائے نقصان ہوتا ہے؟؟؟پاکستان میں شرعی سزاؤں کا نفاذ 80 کی دہائی میں ہو چکا ہے۔ اور قوم نے ان کے سنگین نتائج بھی بھگت لئے۔
ان کے بیانیہ سے تو یہی واضح ہوتا خیر اللہ ہماری حفاظت فرمائے آمین ۔کیا آپ کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ معاذ اللہ، اللہ تعالیٰ نے جرائم کے لیے غلط سزائیں تجویز کی ہیں جن سے فائدے کی بجائے نقصان ہوتا ہے؟؟؟
آپ نے میری ’دکھتی رگ‘ پر ہاتھ رکھ دیا ہے ۔ میں آپ کے تمام تبصرہ جات پڑھ رہا تھا ؛لیکن جواب کے لیے فرصت نہیں مل رہی تھی ،خیر آج فرصت ملی ہے تو ’آپ کے اس بیہودہ سوال کا جواب پیش کرتاہوں ؛کیوں کہ ہم ا س ملک میں رہتے ہیں جس کو ہمارے آبا و اجداد نے اپنے خونِ جگر سے سینچا ہے ۔ بہادر شاہ ظفرؔ سے لیکر ٹیپوسلطان اور پھر جانباز ویر عبدالحمید اور شہید اشفاق اللہ خان نے اس ملک کی عزت و ناموس کی حفاظت کی ہے۔ اور آپ میرے عزیز از جان وطن اور پیارے دیس کے سیاسی احوال کی بابت طعنہ دے رہے ہیں ؟ الغرض ! اتنا یاد رکھیں ! ہم وہ سخت جان ہیں جو اپنے میراثِ پدری پر اپنا پورا حق تصور کرتے ہیں ، ہم نے بزدلوں کی طرح ایک چھوٹے سے ٹکڑے پر ’قناعت‘ نہیں کرلیا ۔ دل تھام کر رکھئے گا ،آج برسوں کی ’خلش‘ پیش کرنا لازمی تصور کرتا ہوں۔پاکستان میں کم از کم مسلمانوں کے ساتھ وہ سلوک نہیں ہوتا جو بھارت میں آر ایس ایس / ہندوتوا کے غنڈے کھلے عام کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں غیرمسلم اقلیتوں کی جان و مال تحفظ بھی بھارت سے بہتر ہے۔ باقی جو معاشرتی مسائل ہیں وہ کہاں نہیں ہوتے۔
ارشاد ارشادآپ نے میری ’دکھتی رگ‘ پر ہاتھ رکھ دیا ہے ۔ میں آپ کے تمام تبصرہ جات پڑھ رہا تھا ؛لیکن جواب کے لیے فرصت نہیں مل رہی تھی ،خیر آج فرصت ملی ہے تو ’آپ کے اس بیہودہ سوال کا جواب پیش کرتاہوں ؛کیوں کہ ہم ا س ملک میں رہتے ہیں جس کو ہمارے آبا و اجداد نے اپنے خونِ جگر سے سینچا ہے ۔ بہادر شاہ ظفرؔ سے لیکر ٹیپوسلطان اور پھر جانباز ویر عبدالحمید اور شہید اشفاق اللہ خان نے اس ملک کی عزت و ناموس کی حفاظت کی ہے۔ اور آپ میرے عزیز از جان وطن اور پیارے دیس کے سیاسی احوال کی بابت طعنہ دے رہے ہیں ؟ الغرض ! اتنا یاد رکھیں ! ہم وہ سخت جان ہیں جو اپنے میراثِ پدری پر اپنا پورا حق تصور کرتے ہیں ، ہم نے بزدلوں کی طرح ایک چھوٹے سے ٹکڑے پر ’قناعت‘ نہیں کرلیا ۔ دل تھام کر رکھئے گا ،آج برسوں کی ’خلش‘ پیش کرنا لازمی تصور کرتا ہوں۔
گویا ایک ہندوستانی الاصل کہ جس نے آج تک اردو کو’’ دیکھا، لکھا ،پڑھا ،بولا ،پہنا ،اوڑھا ،بچھایا‘‘ سے اردو کا سوال پوچھ رہے ہیں ۔ ھھھا بھائی ہم دہلوی ہیں ، کراچوی اور لاہوروی نہیں۔میرؔ تقی میر، غالبؔ ،ذوقؔ ،داغ ؔ صاحبان اسی دہلی کے کوچوں کے ’اسیر‘ تھے ۔ پھر بھی ہم یہ کہنے میں تأمل نہ کریں گے کہ ان کا فیضؔ ابھی بھی جاری وساری ہے ۔ارشاد ارشاد
آج تو آپ ہمیں سنگسار کر ہی دیجئے. قسم سے ہم اف تک نہیں کریں گے. یقین نہ آئے تو آزما کر دیکھ لیجیے
یہ خلش بھی دکھائیے گا ضرور
ہمارے لئے تو آپ کا اندازِ بیان اور اردو کی مہارت جان لینے کے لئے کافی ہے. ہمارا یہاں آپ سے واسطہ فقط اور فقط اردو زبان کے باعث ہے لہذا ہم اس تمام گفتگو کو بھی محظوظ ہو کر پڑھیں گے.
ارشاد جناب
اول ملکی قانون دوم اپنے اپنے مذہبی قوانینآپ کس کو قانون سمجھتے ہیں ؟
کیا آپ کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ معاذ اللہ، اللہ تعالیٰ نے جرائم کے لیے غلط سزائیں تجویز کی ہیں جن سے فائدے کی بجائے نقصان ہوتا ہے؟؟؟
یہ میں نے کہاں کہا؟ مسئلہ ان قوانین کے عملی نفاذ کا ہے۔ جس سے انصاف تو ملتا نہیں۔ اُلٹا انصاف کی فراہمی مزید پیچیدہ ہوجاتی ہے جیسا کہ ذیل میں صاف ظاہر ہے:’ ہم شرعی آئین و اصول کو اپنے اوپر نافذ نہیں کرنا چاہتے‘۔
یہ درست ہے کہ گواہان کی عدم موجودگی مجرم کو ہی فائدہ دے گی اور مظلوم کے لئے انصاف کا حصول مشکل ہی نہیں بلکہ تقریباً ناممکن ہو جائے گا۔ ہزاروں واقعات میں سے کوئی ایک آدھ ہی ایسا واقعہ ہوتا ہو گا جس کے چار عینی گواہ بھی موجود ہوں۔
تعجب ہوتا ہے کہ حدود سے متعلق شرعی قوانین کی تشریح کرتے ہوئے، چار گواہوں کی موجودگی کو صرف چشم دید گواہان سے ہی کیوں مشروط کیا جاتا ہے۔ یہ مقدمے کے اندراج کی ابتدائی شرائط بھی ہو سکتی ہیں کہ عورت چار ایسے گواہ پیش کرے جو عاقل اور بالغ ہوں اور عورت کی صداقت کی گواہی دیں اور اس بات کی ذمہ داری قبول کریں کہ یہ کسی پر جھوٹا الزام نہیں لگا رہی۔ بعد میں فریقین سے مکمل تفتیش کے بعد اگر واقعی جرم ثابت ہوتا ہے تو مجرم کو قرار واقعی سزا دی جا سکے۔ یعنی چار گواہ پیش کرنا صرف ایک قانونی تقاضا ہو سکتا ہے جس کا مقصد، اولین درجے میں صرف اس بات کا تعین کرنا ہو کہ آیا یہ کیس شنوائی کے قابل ہے بھی یا نہیں۔
انشاء اللہ اگرموقع ملاتوفقہ اسلامی کے تعزیری قوانین کی روشنی میں کچھ عرض کرنے کی جسارت کروں گا، ابھی اتنا عرض کرنا ہے کہ چارگواہوں کے ثبوت کو بعض لوگوں نے ہوا بنالیاہے اوراسلامی قوانین کے عدم نفاذ کی بڑی وجہ بتاتے ہیں کہ عورت کیلئے انصاف کا حصول مشکل ہوجائے گا۔یہ درست ہے کہ گواہان کی عدم موجودگی مجرم کو ہی فائدہ دے گی اور مظلوم کے لئے انصاف کا حصول مشکل ہی نہیں بلکہ تقریباً ناممکن ہو جائے گا۔ ہزاروں واقعات میں سے کوئی ایک آدھ ہی ایسا واقعہ ہوتا ہو گا جس کے چار عینی گواہ بھی موجود ہوں۔
تعجب ہوتا ہے کہ حدود سے متعلق شرعی قوانین کی تشریح کرتے ہوئے، چار گواہوں کی موجودگی کو صرف چشم دید گواہان سے ہی کیوں مشروط کیا جاتا ہے۔ یہ مقدمے کے اندراج کی ابتدائی شرائط بھی ہو سکتی ہیں کہ عورت چار ایسے گواہ پیش کرے جو عاقل اور بالغ ہوں اور عورت کی صداقت کی گواہی دیں اور اس بات کی ذمہ داری قبول کریں کہ یہ کسی پر جھوٹا الزام نہیں لگا رہی۔ بعد میں فریقین سے مکمل تفتیش کے بعد اگر واقعی جرم ثابت ہوتا ہے تو مجرم کو قرار واقعی سزا دی جا سکے۔ یعنی چار گواہ پیش کرنا صرف ایک قانونی تقاضا ہو سکتا ہے جس کا مقصد، اولین درجے میں صرف اس بات کا تعین کرنا ہو کہ آیا یہ کیس شنوائی کے قابل ہے بھی یا نہیں۔
اس طرح کے کیسز میں عینی گواہان کی موجودگی کی کڑی شرط سے صرف ظلم ہی پنپ سکتا ہے۔ عورت اگر حق پر بھی ہے تو چشم دید گواہ پیش نہیں کر سکتی ۔ بصورتِ دیگر اس بات کا بھی قوی امکان موجود ہے کہ کسی دشمنی کے شاخسانے میں چار عینی جھوٹی شہادتیں پیش کر کے، کسی بھی بےگناہ کو بآسانی مجرم قرار دلوایا جا سکتا ہے۔