عبدالحسیب
محفلین
فلسفہ کے میدان میں مابعدالطبیعاتی صداقت تک پہنچنے کے لیے برگساں نے عام فلسفیانہ نظریات سے ہٹ کر اپنے لیے ایک علٰحدہ راہ اختیار کی ہے۔ اس نے اپنے مخصوص انوکھے نظریات پیش کرکے اپنے لیے اعتراضات کا دروازہ کھول دیا ہے۔ اکثرو بیشتر فلسفیوں نے اپنے مسائل کے لیے عقل کو رہنما بنایا ہے اور عقل ہی نے انکی فکر کے پس منظر میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ لیکن برگساں نے عقل کی رہنمائی سے انحراف کیا ہے اور اپنے فلسفہ کو نظریہ وجدان کی بنیادوں پر کھڑا کیا ہے۔ وجدان کو اس کے فلسفہ میں کلیدی اہمیت حاصل ہے۔ اپنے نظریات کے ثبوت میں اس نے کچھ ایسے انوکھے ، دقیق اور ٹھوس دلائل سے کام لیا ہے۔ جس کی وجہ سے اسکا فلسفہ بڑا پیچیدہ اور فہم عامہ سے بالا تر سمجھا جاتا ہے۔ اس کے فلسفہ کا مرکزی اُصول حیاتیات میں تغّیر اور تبّدل پر محیط ہے۔ اس کا فلسفہ طبعیات کے اساسی تصورات مثلاّ زماں ومکاں، مادہ و حرکت اور قوت و توانائی کے صحیح ادراکات کے حصول پر مبنی ہے۔ اور انکے حقیقی ادراک کے لیے اس نے وجدان کا سہارا لیا ہے۔ لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس نے کیوں عقل سے انحراف کر کے وجدان کو اہمیت دی ہے۔ اس کے لیے وہ یہ جواز پیش کرتا ہے کہ عقل ایک مخصوص آلہ اور ماہرِ تحلیل ہے جسے ہم نے اپنے افعال کے مقاصد کے لیے وضع کیا ہے۔ اس کے مقابلے میں وجدان ہمہ گیر اور وحدت پسند ہے۔ جس کی توسط سے ہم مابعدالطبعیاتی صداقت تک پہنچتے ہیں۔ جہاں عقل اپنے آپ کو مجبور پاتی ہے ،یہ کسی قضیہ کے متعلق احساسِ تعین کا نام نہیں ہے ۔ وہ موجودات میں کسی شئے کا ادراک ہے۔ وہ حواس کی ایک نوع ہے جو حواس کے دائرہ عمل سے باہر حامل ہوتی ہے۔چنانچہ زماں جس کا ہمارے حواس ادراک نہیں کر سکتے اس کا ہمارا وجدان ہی ادراک کر سکتا ہے۔ یہ صنف ایسی قوت کے فیصلے پر مشتمل ہوتی ہے جس کے ذریعے ہم مابعدالطبعیاتی صداقت تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔اپنے نظریہ وجدان کو اس نے اپنے ایک مقالہ " مقدمہ مابعد الطبعیات' میں بڑے دلکش اور خوبصورت اندازِ بیان میں بڑی فصاحت اور وضاحت سے پیش کیا ہے۔حیاتیات اور نفسیات اس کی فکر کے خاص اور اہم موضوعات ہیں۔ اور ان موضوعات پر اس نے اپنی تین کتابوں میں بڑی تفصیل سے بحث کی ہے۔اس کی سب سے پہلی تصنیف "زماںو اختیار" ہے۔ دوسری "ذہن اور مادہ" اور تیسری کتاب "تخلیقی ارتقاء" ہے۔ ہرقلیطوس کے اس قول کو کہ 'ہر شئے مسلسل تغیر پذیر ہے' برگساں نے اپنے فلسفہ کا مرکزی اصول بنایا ہے اور اس نظریہ ارتقاء پر وہ بالکل جداگانہ ڈھنگ سے نظر ڈالتا ہے۔ اس کے خیال میں حیاتیاتی مظاہرہ کی میکانکی اصولوں پر توجہ ممکن ہی نہیں ہے ۔وہ کہتا ہے جن عوامل کے متعلق یہ قیاس کیا جاتا ہے کہ وہ ماحول سے مطابقت کی اتفاقی بقاء کا یقین کرتے ہیں وہ ان اشیاء کی توجیہہ میں قطعی کامیاب ثابت نہیں ہوتے۔ اگر ایسا ہوتا تو اب سے ہزاروں سال بیشتر ہی ارتقاء کا عمل رک گیا ہوتا۔ اور حیات کے ارتقاء کو وہیں رک جانا چاہئے تھا جہاں کہیں بھی اسے رک جانا ممکن تھا۔ وہ روبہ ارتقاء کیوں ہےِ؟ ایک حقیر عضو یہ بھی با لکل ہماری طرح ان حالات سے مطابقت رکھتا ہے جن پر اس کی حیات کا دارومدار ہے۔جس کا اندازہ اس نے اپنی زندگی کو قائم رکھنے میں کامیابی سے لگایا ہے۔ تو پھر وہ زندگی جو اپنے حالات کے موافق ڈھالنے میں کامیابی سے ہمکنار ہوچکی ہو پیچیدہ تر کیوں بنتی جارہی ہے؟ دراصل یہ جوش حیات کا ایک طبعی اصول ہے جو زندگی میں جاری و ساری ہے۔ جو زندگی کو آگے بڑھاتا ہے۔یہ جوشِ حیات ہی وہ قوت ہے جو ارتقاء کو کامیابی سے آگے بڑھنے پر مجبور کرتی ہے۔ اس نے جوشِ حیات کو اُس قوت سے تعبیر کیا ہے جو حیاتِ عالم کی اس مرکزی نبض کے دریافت کرنے میں شامل ہے جو اشیاء کی باہمی ربط اور اتحاد میں ظہور پذیر ہوتی ہے۔ یہ وجدان کا سب سے نادر اور انتہائی کمال ہے ورنہ اس کے بغیر یہ بتلانا نا ممکن ہے کہ ارتقاء کا عمل کیوں اور کیسے واقع ہوتا ہے۔ ارتقائی تطابق نشونما کے پیچ و خم کی توجیہہ تو کرتا ہے لیکن اس حرکت کی وہ وضاحت نہیں کرسکتا ۔ حیات ہمیں واقعات کا ایک تسلسل بہم پہنچاتی ہے۔ جس کی توجیہہ کا تمام تر انحصار اس بات کے تسلیم کر لینے میں ہے کہ کائنات کسی ایسی حیاتی قوت کی تخلیق اور ظہور ہے جس کا کام مسلسل تغیر اور ارتقاء ہے۔وہ ڈارون کی اس رائے سے اتفاق نہیں کرتا کہ جو اتفاقی تبدیلیاں انواعِ حیات میں ہنگامی طور پر واقع ہوتی رہتی ہیں اور ان میں جو تبدیلیاں انواع کے ماحول سے مطابقت رکھتی ہے ان کا میلان صرف اپنے وجود کو قائم رکھنے میں اور بار بار اپنی تخلیق کرتے رہنے میں ہوتا ہے۔یہ عمل محض ایک اتفاقی حادثہ ہے۔ اس میں کسی اضطراری فعل یا تحریک کی کارفرمائی کا سراغ لگانا نا ممکن ہے۔لیمارک اس مسئلہ پر اپنا نظریہ اس طرح پیش کرتا ہے کہ ارتقاع کا عمل ایک فیصلہ کن عمل ہے۔جب ماحول تبدیل ہوتا ہے تو انواع حیات بھی اپنے آپ کو اس کے موافق بنانے کے لیے روبہ ارتقاءہوتی ہے۔
(جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
مضمون: "جادہ حرف" از ابراہیم اختر
(جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
مضمون: "جادہ حرف" از ابراہیم اختر