sani moradabadi
محفلین
غیر اتفاق کی وجہ اور بنا بھی ارشاد فرما دیں وارث بھائی
عالمگیر کے جس جس فعل کو آپ شریعت کی ڈھال فراہم کر رہے ہیں وہ سب کے سب سیاسی فیصلے تھے اور اقتدار کے لیے تھے!غیر اتفاق کی وجہ اور بنا بھی ارشاد فرما دیں وارث بھائی
سلطان اورنگزیب کے حکم پر لکھی جانے والی کتاب فتاوی عالمگیری پوری دنیا میں فتاوی ہند کے نام سے مشہور ہے اور فقہ حنفی کی مستند ترین کتابوں میں سے ایک مانی جاتی ہے۔ایک آخری بات یہ کہ حضرت اورنگ زیب کو ایک طبقہ مجدد بھی کہتا ہے، دیکھیں کتاب (مجددینِ اسلام نمبر مطبع مجلسِ برکات، جامعہ اشرفیہ، مبارک پور)
شکریہ اور یہ اب تک کی سب سے مناسب بات کہی آپ نے۔میں بحث کی راہیں نہیں کھولنا چاہتا
یہاں خوشگوار ہونے کے لیے آتا ہوں
ہر کسی کا الگ نظریہ ہوتا ہے
لوگوں نے امام اعظم، امام مالک پر بھی کفر کے فتوے اور دیگر الزامات لگاکر خلیفۂ وقت سے کوڑے لگوائے ہیں
آپ سب احباب کے لیے محبتیں پیشِ خدمت ہیں قبول فرمائیں
جیشکریہ اور یہ اب تک کی سب سے مناسب بات کہی آپ نے۔
اس کا بہترین حل یہ ہے کہ آپ غالب و سرمد وغیرہ کو کم از کم یہاں کافر کہنا چھوڑ دیں کیونکہ آپ ان کو کافر کہیں گے تو آپ کے کہے ہوئے پر گرفت ہوگی!
بہت اعلیٰ وارث میاںمغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کو اپنی بیٹی زیب النساء کیلئے استاد درکار تھا۔ یہ خبر سن کر ایران اور ہندوستان کے مختلف علاقوں سے بیسیوں قادر الکلام شاعر دہلی آگئے کہ شاید قسمت یاوری کرے اور وہ شہزادی کے استاد مقرر کر دیئے جائیں۔
ان ایام میں دہلی میں اس زمانہ کے نامور شاعر برہمن اور میر ناصر علی سرہندی بھی موجود تھے۔ نواب ذوالفقار علی خان، ناظمِ سرہند کی سفارش پر برہمن اور میر ناصر کو شاہی محل میں اورنگزیب کے روبرو پیش کیا گیا۔ سب سے پہلے برہمن کو اپنا کلام سنانے کا حکم ہوا، برہمن نے تعمیلِ حکم میں جو غزل پڑھی، اسکا مقطع تھا۔
مرا دلیست بکفر آشنا کہ چندیں بار
بکعبہ بُردم و بازم برہمن آوردم
(میرا دل اسقدر کفر آشنا ہے کہ میں جب بھی کعبہ گیا، برہمن کا برہمن ہی واپس آیا۔)
گو یہ محض شاعرانہ خیال تھا اور تخلص کی رعایت کے تحت کہا گیا تھا لیکن عالمگیر انتہائی پابند شرع اور سخت گیر بادشاہ تھا، اسکی تیوری چڑھ گئی اور وہ برہمن کی طرف سے منہ پھیر کے بیٹھ گیا۔
میر ناصر علی نے اس صورتِ حال پر قابو پانے کیلئے اٹھ کر عرض کی کہ جہاں پناہ اگر برہمن مکہ جانے کے باوجود برہمن ہی رہتا ہے تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں، شیخ سعدی بھی تو یہی کہہ گئے ہیں۔۔
خرِ عیسٰی اگر بمکہ رود
چوں بیاید ہنوز خر باشد
(عیسٰی کا گدھا اگر مکہ بھی چلا جائے وہ جب واپس آئے گا، گدھے کا گدھا ہی ہوگا۔)
عالمگیر یہ شعر سن کر خوش ہوگیا اور برہمن کو معاف کردیا۔
اور ہم نے ایسے لوگ دیکھے ہیں جو رشوت بھی خوب لیتے تھے، نماز بھی پہلی صف میں پڑھتے تھے۔ علاوہ ازیں، رمضان میں مسجد میں اجتماعی افطاری بھی اہتمام سے کرواتے تھےنماز پڑھنے سے کوئی متقی نہیں بن جاتا۔
ہم نے ایسے لوگ دیکھیں ہیں جو کاروبار سود کا کرتے ہیں اور نماز پہلی صف میں