محمد وارث
لائبریرین
مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کو اپنی بیٹی زیب النساء کیلئے استاد درکار تھا۔ یہ خبر سن کر ایران اور ہندوستان کے مختلف علاقوں سے بیسیوں قادر الکلام شاعر دہلی آگئے کہ شاید قسمت یاوری کرے اور وہ شہزادی کے استاد مقرر کر دیئے جائیں۔
ان ایام میں دہلی میں اس زمانہ کے نامور شاعر برہمن اور میر ناصر علی سرہندی بھی موجود تھے۔ نواب ذوالفقار علی خان، ناظمِ سرہند کی سفارش پر برہمن اور میر ناصر کو شاہی محل میں اورنگزیب کے روبرو پیش کیا گیا۔ سب سے پہلے برہمن کو اپنا کلام سنانے کا حکم ہوا، برہمن نے تعمیلِ حکم میں جو غزل پڑھی، اسکا مقطع تھا۔
مرا دلیست بکفر آشنا کہ چندیں بار
بکعبہ بُردم و بازم برہمن آوردم
بکعبہ بُردم و بازم برہمن آوردم
(میرا دل اسقدر کفر آشنا ہے کہ میں جب بھی کعبہ گیا، برہمن کا برہمن ہی واپس آیا۔)
گو یہ محض شاعرانہ خیال تھا اور تخلص کی رعایت کے تحت کہا گیا تھا لیکن عالمگیر انتہائی پابند شرع اور سخت گیر بادشاہ تھا، اسکی تیوری چڑھ گئی اور وہ برہمن کی طرف سے منہ پھیر کے بیٹھ گیا۔
میر ناصر علی نے اس صورتِ حال پر قابو پانے کیلئے اٹھ کر عرض کی کہ جہاں پناہ اگر برہمن مکہ جانے کے باوجود برہمن ہی رہتا ہے تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں، شیخ سعدی بھی تو یہی کہہ گئے ہیں۔۔
خرِ عیسٰی اگر بمکہ رود
چوں بیاید ہنوز خر باشد
چوں بیاید ہنوز خر باشد
(عیسٰی کا گدھا اگر مکہ بھی چلا جائے وہ جب واپس آئے گا، گدھے کا گدھا ہی ہوگا۔)
عالمگیر یہ شعر سن کر خوش ہوگیا اور برہمن کو معاف کردیا۔
آخری تدوین: