بغاوت ۔ ڈاکٹر سیف الدین سیف

جیا راؤ

محفلین
بغاوت

وہی روندھے ہوئے جذبات کے دھندلے سے نقوش
وہی ماحول کی تصویر میں خوشیوں کا تضاد
وہی آغاز کی لغزش، وہی انجام کا خوف
وہی درماندہ جوانی میں امنگوں کا فساد
وہی تہذیب کے بپھرے ہوئے بوجھل سائے
مستعد ہیں مری ہستی کو کچلنے کے لئے
وہی دن رات کے پرُ ہول دہانوں پہ ابھی
وقت لرزاں ہیں حوادث کو اگلنے کے لئے
میری محبوب، تجھے یاد تو کر لوں لیکن
مجھ کو ماحول کے انبوہ سے فرصت ہی نہیں
اس طرح بحرِ حوادث نے جکڑ رکھا ہے
جیسے کشتی کو کنارے کی ضرورت ہی نہیں
مجھ کو حاصل ہیں زمانے میں ہزاروں صدمے
اک فقط تو ہی نہیں ہے میرے غم خانے میں
میری مجروح طبیعیت، مری ناکام سعی
کتنے جلتے ہیں جہنم مرے پیمانے میں
میری آوارہ طبیعیت پہ مچلنے والی
تو نے فطرت کے تقاضوں کو تو سمجھا ہوتا
میری محبوب تجھے کیسے بنا لوں اپنا
میں تو خود زیست کی راہوں میں بھٹکتا ہوں ابھی
سینہ دہر سمجھتا ہے مجھے بارِ گراں
اور ایّام کی نظروں میں کھٹکتا ہوں ابھی
اک طرف ماں کی محبت کے ابھرتے خاکے
اک طرف باپ کے چڑھتے ہوئے تیور کا وقار
اک طرف زیست کے مارے ہوئے بیکس انساں
اک طرف اپنی سلگتی ہوئی آہوں کا فرار
جی تو چاہتا ہے کہ دنیا سے بغاوت کر لوں
پر نئی راہ کے انبوہ سے ڈر لگتا ہے
وہی ماضی کے حوادث کی تہوں کی ترتیب
جن کے ہلکے سے تصور پہ جگر پھٹتا ہے

ڈاکٹر سیف الدین سیف
 

محسن حجازی

محفلین
کیا بات ہے ڈاکٹر صاحب تو گویا ہمارے ہم حال ہوئے! ہم حال نہ ہوئے ہم خیال ضرور ٹھہرے!

وہ کیا ہے کہ ہماری بھی ایک زیر تعمیر نظم میں کچھ اس طرح کے اشعار تھے:

نہیں اس قدر دل و گردہ ابھی
حائل خرد و جنوں میں پردہ ابھی
بہت فکر کاروبار حیات کی ہمیں
دامن گیر ہمہ وقت فکر فردا ابھی

تاہم اسے ہم مکمل نہ کر سکے کہ آمد و وجہ آمد دونوں نہ رہے۔ :(
تاہم یہ نظم ہمارے پاس موجود ہے، خریدنے کے خواہشمند حضرات ہم سے رابطہ کر سکتے ہیں، ارزاں نرخوں پر بازار سے بارعایت خرید فرمائيے! :grin:
مزید یہ کہ ایک بند خریدنے پر ایک بند بالکل مفت! :grin:
 

محسن حجازی

محفلین
ویسے اس دھاگے کے عنوان بغاوت سے ہم کو مطالعہ پاکستان کا ایک باب یاد آ گیا جو کچھ یوں تھا:
اسباب بغاوت ہند
اسے ہم لاہور میں چھت پر ٹہل ٹہل کر لہک لہک کر یاد کیا کرتے تھے امتحان سے ایک شام پہلے!
دلچسپ امریہ ہے کہ یہی عنوان پانچویں سے دسویں جماعت تک ہم سے امتحانات میں پوچھا جاتا رہا کہ صاحب اسباب بغاوت ہند بیان فرمائيے۔ ہم اپنی بغاوت پر قیاس کر کے بیان فرما دیا کرتے کہ دیکھئے صاحب کسی کو ستائیں گے تو کتنا برداشت کرے گا؟ :grin:
 

جیا راؤ

محفلین
کیا بات ہے ڈاکٹر صاحب تو گویا ہمارے ہم حال ہوئے! ہم حال نہ ہوئے ہم خیال ضرور ٹھہرے!

وہ کیا ہے کہ ہماری بھی ایک زیر تعمیر نظم میں کچھ اس طرح کے اشعار تھے:

نہیں اس قدر دل و گردہ ابھی
حائل خرد و جنوں میں پردہ ابھی
بہت فکر کاروبار حیات کی ہمیں
دامن گیر ہمہ وقت فکر فردا ابھی

تاہم اسے ہم مکمل نہ کر سکے کہ آمد و وجہ آمد دونوں نہ رہے۔ :(
تاہم یہ نظم ہمارے پاس موجود ہے، خریدنے کے خواہشمند حضرات ہم سے رابطہ کر سکتے ہیں، ارزاں نرخوں پر بازار سے بارعایت خرید فرمائيے! :grin:
مزید یہ کہ ایک بند خریدنے پر ایک بند بالکل مفت! :grin:


آپ کی آمد اور وجہِ آمد جتنی تیزی سے روپذیر ہوتی ہے اتنی ہی تیزی سے معدوم بھی ہو جاتی ہے۔
ایں چہ چکر است؟:grin::grin:
 

جیا راؤ

محفلین
ویسے اس دھاگے کے عنوان بغاوت سے ہم کو مطالعہ پاکستان کا ایک باب یاد آ گیا جو کچھ یوں تھا:
اسباب بغاوت ہند
اسے ہم لاہور میں چھت پر ٹہل ٹہل کر لہک لہک کر یاد کیا کرتے تھے امتحان سے ایک شام پہلے!
دلچسپ امریہ ہے کہ یہی عنوان پانچویں سے دسویں جماعت تک ہم سے امتحانات میں پوچھا جاتا رہا کہ صاحب اسباب بغاوت ہند بیان فرمائيے۔ ہم اپنی بغاوت پر قیاس کر کے بیان فرما دیا کرتے کہ دیکھئے صاحب کسی کو ستائیں گے تو کتنا برداشت کرے گا؟ :grin:

:grin::grin:
 

حسن علوی

محفلین
بہت خوب جیا راؤ، بہت اچھا احاطہ کیا حالات کا شاعر نے اپنی اس نظم میں۔ اچھی نظم ھے شئیر کرنے کا شکریہ۔
 

محسن حجازی

محفلین
آپ کی آمد اور وجہِ آمد جتنی تیزی سے روپذیر ہوتی ہے اتنی ہی تیزی سے معدوم بھی ہو جاتی ہے۔
ایں چہ چکر است؟:grin::grin:

اس کے لیے ہم آمد و وجہ آمد کو خود موقع دینا چاہیں گے کہ اپنی معدومیت و رو پذیری کی برق رفتاری پر مفصل نوٹ لکھیں :grin: :grin: :grin:
 

محسن حجازی

محفلین
مطلب میری لغت کسی کام کی نہیں۔۔ :(
شکریہ جیا۔

کیوں جناب؟ آپ کی لغت کیا فرماتی ہے بابت انبوہ کے؟ :confused:

ہمیں شک ہو رہا ہے کہ آپ کی لغت میں کچھ یوں درج ہے:

انبوہ: (اسم)
گاجر کا ایسا تازہ کیک جس پر پنیر کی تہہ نفاست سے جمائی گئی ہو

:grin:
 
Top