جیا راؤ
محفلین
بغاوت
وہی روندھے ہوئے جذبات کے دھندلے سے نقوش
وہی ماحول کی تصویر میں خوشیوں کا تضاد
وہی آغاز کی لغزش، وہی انجام کا خوف
وہی درماندہ جوانی میں امنگوں کا فساد
وہی تہذیب کے بپھرے ہوئے بوجھل سائے
مستعد ہیں مری ہستی کو کچلنے کے لئے
وہی دن رات کے پرُ ہول دہانوں پہ ابھی
وقت لرزاں ہیں حوادث کو اگلنے کے لئے
میری محبوب، تجھے یاد تو کر لوں لیکن
مجھ کو ماحول کے انبوہ سے فرصت ہی نہیں
اس طرح بحرِ حوادث نے جکڑ رکھا ہے
جیسے کشتی کو کنارے کی ضرورت ہی نہیں
مجھ کو حاصل ہیں زمانے میں ہزاروں صدمے
اک فقط تو ہی نہیں ہے میرے غم خانے میں
میری مجروح طبیعیت، مری ناکام سعی
کتنے جلتے ہیں جہنم مرے پیمانے میں
میری آوارہ طبیعیت پہ مچلنے والی
تو نے فطرت کے تقاضوں کو تو سمجھا ہوتا
میری محبوب تجھے کیسے بنا لوں اپنا
میں تو خود زیست کی راہوں میں بھٹکتا ہوں ابھی
سینہ دہر سمجھتا ہے مجھے بارِ گراں
اور ایّام کی نظروں میں کھٹکتا ہوں ابھی
اک طرف ماں کی محبت کے ابھرتے خاکے
اک طرف باپ کے چڑھتے ہوئے تیور کا وقار
اک طرف زیست کے مارے ہوئے بیکس انساں
اک طرف اپنی سلگتی ہوئی آہوں کا فرار
جی تو چاہتا ہے کہ دنیا سے بغاوت کر لوں
پر نئی راہ کے انبوہ سے ڈر لگتا ہے
وہی ماضی کے حوادث کی تہوں کی ترتیب
جن کے ہلکے سے تصور پہ جگر پھٹتا ہے
ڈاکٹر سیف الدین سیف
وہی ماحول کی تصویر میں خوشیوں کا تضاد
وہی آغاز کی لغزش، وہی انجام کا خوف
وہی درماندہ جوانی میں امنگوں کا فساد
وہی تہذیب کے بپھرے ہوئے بوجھل سائے
مستعد ہیں مری ہستی کو کچلنے کے لئے
وہی دن رات کے پرُ ہول دہانوں پہ ابھی
وقت لرزاں ہیں حوادث کو اگلنے کے لئے
میری محبوب، تجھے یاد تو کر لوں لیکن
مجھ کو ماحول کے انبوہ سے فرصت ہی نہیں
اس طرح بحرِ حوادث نے جکڑ رکھا ہے
جیسے کشتی کو کنارے کی ضرورت ہی نہیں
مجھ کو حاصل ہیں زمانے میں ہزاروں صدمے
اک فقط تو ہی نہیں ہے میرے غم خانے میں
میری مجروح طبیعیت، مری ناکام سعی
کتنے جلتے ہیں جہنم مرے پیمانے میں
میری آوارہ طبیعیت پہ مچلنے والی
تو نے فطرت کے تقاضوں کو تو سمجھا ہوتا
میری محبوب تجھے کیسے بنا لوں اپنا
میں تو خود زیست کی راہوں میں بھٹکتا ہوں ابھی
سینہ دہر سمجھتا ہے مجھے بارِ گراں
اور ایّام کی نظروں میں کھٹکتا ہوں ابھی
اک طرف ماں کی محبت کے ابھرتے خاکے
اک طرف باپ کے چڑھتے ہوئے تیور کا وقار
اک طرف زیست کے مارے ہوئے بیکس انساں
اک طرف اپنی سلگتی ہوئی آہوں کا فرار
جی تو چاہتا ہے کہ دنیا سے بغاوت کر لوں
پر نئی راہ کے انبوہ سے ڈر لگتا ہے
وہی ماضی کے حوادث کی تہوں کی ترتیب
جن کے ہلکے سے تصور پہ جگر پھٹتا ہے
ڈاکٹر سیف الدین سیف