عالمی جوہری معاہدہ: ایران کا یورینیم افزودگی جاری رکھنے اور جوہری معاہدے کی مزید پاسداری نہ کرنے کا اعلان
تصویر کے کاپی رائٹEPA
ایران نے سنہ 2015 کے جوہری معاہدے کے تحت عائد کردہ پابندیوں کی مزید پاسداری نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
ایران کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ یورینیم افزودگی کی صلاحیت، مقدار، افزودہ کی گئی یورینیم کے ذخیرے، تحقیق اور پیداوار پر عائد حدود کی مزید پاسداری نہیں کی جائے گی۔
یہ فیصلہ تہران میں ہوئی ایرانی کابینہ کی میٹنگ کے بعد سامنے آیا ہے۔
گذشتہ جمعے کو عراق کے دارالحکومت بغداد میں امریکی افواج کے ڈرون حملے میں قدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد امریکہ اور ایران کے مابین کشیدگی اپنے عروج کو چھو رہی ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ایران بغیر کسی حد کے اور اپنی تیکنیکی ضروریات پوری کرنے کے لیے یورینیم کی افزودگی جاری رکھے گا۔‘
ایران کی جانب سے واضح الفاظ میں یہ نہیں کہا گیا کہ وہ سنہ 2015 کے جوہری معاہدے سے دستبردار ہو رہا ہے البتہ یہ ضرور کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کی ایجنسی، آئی اے ای اے، کے ساتھ تعاون جاری رکھا جائے گا۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ ایران ایک بار معاہدے کے ثمرات سے فائدہ حاصل کرنے کے بعد اپنی ذمہ داری پوری کرنے کے لیے تیار ہو گا۔
سنہ 2015 میں ہوئے جوہری معاہدے کے تحت ایران اپنی حساس جوہری سرگرمیوں کو محدود کرنے پر رضامند ہوا تھا۔ شدید ترین معاشی پابندیوں کے خاتمے کے بدلے ایران نے بین الاقوامی انسپیکٹرز کو جوہری پروگرام تک رسائی دینے پر بھی اتفاق کیا تھا۔
تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
تاہم سنہ 2018 میں امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس معاہدے سے دستبرداری کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ایران کے ساتھ ایک نئے جوہری معاہدے پر بات چیت کرنا چاہتے ہیں جس کے تحت ایران کے جوہری پروگرام پر لامحدود پابندیاں لگائی جائیں گی جبکہ بلیسٹک میزائلز کی تیاری کو مکمل طور پر روکا جائے گا۔
ایران نے امریکی صدر کی اس تجویز کو مسترد کرتے ہوئے آہستہ آہستہ سنہ 2015 کے جوہری معاہدے سے دستبرداری اختیار کرنا شروع کر دی تھی۔
ایران جوہری معاہدہ کیا ہے؟
سنہ 2015 میں چھ ممالک نے ایران کے جوہری پروگرام کو ختم کرنے کے لیے ایک مشترکہ جامع ایکشن پلان مرتب کیا تھا۔
جس کے تحت تہران نے بین الاقوامی انسپکٹرز کو ملک میں دورہ کرنے کی اجازت اور اپنی جوہری سرگرمیاں محدود کرنے ہر رضامندی ظاہر کی تھی۔
اس معاہدے کے تحت ایران کو ہلکے معیار کی یورینیم افزودہ کرنے کی اجازت تھی جو کہ تین سے چار فیصد تک ارتکاز کے لیول پر افزودہ کی جا سکتی ہے۔ اس کو جوہری بجلی گھروں میں بطور ایندھن استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اس معاہدے کے تحت ایران پر یہ بھی پابندی تھی کہ وہ 300 کلو گرام سے زیادہ افزودہ یورینیم کا ذخیرہ نہیں کر سکتا۔
امریکہ کی جانب سے اس معاہدے سے دستبرداری کے بعد جون 2019 میں ایران نے معاہدے میں مقرر کی گئی کم افزودہ یورینیم کی مقررہ حد سے زیادہ یورینیم ذخیرہ کر لی تھی جبکہ ستمبر 2019 میں ایران نے معاہدے کے تحت جوہری تحقیق اور ترقی کے وعدے سے دستبردار ہوتے ہوئے یورینیم افزودگی کے لیے سینٹری فیوجز تیار کرنے کا اعلان کیا تھا۔
اس معاہدے کو مکمل ختم ہونے سے بچانے کے لیے دوسرے فریقین بشمول برطانیہ، فرانس، جرمنی، چین اور روس نے کافی کوششیں کی ہیں۔ امریکہ کی جانب سے عائد کردہ شدید معاشی پابندیوں کے باعث ایران میں معاشی بدحالی بڑھی ہے، ایرانی کرنسی کی قیمت انتہائی کم ترین سطح پر ہے جبکہ افراط زر نئی بلندیوں کو چھو رہا ہے۔
ربط