بغداد ایئرپورٹ پرامریکی راکٹ حملے؛ ایرانی جنرل قاسم سلیمانی سمیت 8 افراد جاں بحق

عرفان سعید

محفلین
عالمی جوہری معاہدہ: ایران کا یورینیم افزودگی جاری رکھنے اور جوہری معاہدے کی مزید پاسداری نہ کرنے کا اعلان
_110401837_mediaitem110401836.jpg

تصویر کے کاپی رائٹEPA
ایران نے سنہ 2015 کے جوہری معاہدے کے تحت عائد کردہ پابندیوں کی مزید پاسداری نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔

ایران کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ یورینیم افزودگی کی صلاحیت، مقدار، افزودہ کی گئی یورینیم کے ذخیرے، تحقیق اور پیداوار پر عائد حدود کی مزید پاسداری نہیں کی جائے گی۔

یہ فیصلہ تہران میں ہوئی ایرانی کابینہ کی میٹنگ کے بعد سامنے آیا ہے۔

گذشتہ جمعے کو عراق کے دارالحکومت بغداد میں امریکی افواج کے ڈرون حملے میں قدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد امریکہ اور ایران کے مابین کشیدگی اپنے عروج کو چھو رہی ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ایران بغیر کسی حد کے اور اپنی تیکنیکی ضروریات پوری کرنے کے لیے یورینیم کی افزودگی جاری رکھے گا۔‘

ایران کی جانب سے واضح الفاظ میں یہ نہیں کہا گیا کہ وہ سنہ 2015 کے جوہری معاہدے سے دستبردار ہو رہا ہے البتہ یہ ضرور کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کی ایجنسی، آئی اے ای اے، کے ساتھ تعاون جاری رکھا جائے گا۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ ایران ایک بار معاہدے کے ثمرات سے فائدہ حاصل کرنے کے بعد اپنی ذمہ داری پوری کرنے کے لیے تیار ہو گا۔

سنہ 2015 میں ہوئے جوہری معاہدے کے تحت ایران اپنی حساس جوہری سرگرمیوں کو محدود کرنے پر رضامند ہوا تھا۔ شدید ترین معاشی پابندیوں کے خاتمے کے بدلے ایران نے بین الاقوامی انسپیکٹرز کو جوہری پروگرام تک رسائی دینے پر بھی اتفاق کیا تھا۔

_110401839_mediaitem110401838.jpg

تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
تاہم سنہ 2018 میں امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس معاہدے سے دستبرداری کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ایران کے ساتھ ایک نئے جوہری معاہدے پر بات چیت کرنا چاہتے ہیں جس کے تحت ایران کے جوہری پروگرام پر لامحدود پابندیاں لگائی جائیں گی جبکہ بلیسٹک میزائلز کی تیاری کو مکمل طور پر روکا جائے گا۔

ایران نے امریکی صدر کی اس تجویز کو مسترد کرتے ہوئے آہستہ آہستہ سنہ 2015 کے جوہری معاہدے سے دستبرداری اختیار کرنا شروع کر دی تھی۔

ایران جوہری معاہدہ کیا ہے؟
سنہ 2015 میں چھ ممالک نے ایران کے جوہری پروگرام کو ختم کرنے کے لیے ایک مشترکہ جامع ایکشن پلان مرتب کیا تھا۔

جس کے تحت تہران نے بین الاقوامی انسپکٹرز کو ملک میں دورہ کرنے کی اجازت اور اپنی جوہری سرگرمیاں محدود کرنے ہر رضامندی ظاہر کی تھی۔

اس معاہدے کے تحت ایران کو ہلکے معیار کی یورینیم افزودہ کرنے کی اجازت تھی جو کہ تین سے چار فیصد تک ارتکاز کے لیول پر افزودہ کی جا سکتی ہے۔ اس کو جوہری بجلی گھروں میں بطور ایندھن استعمال کیا جا سکتا ہے۔

اس معاہدے کے تحت ایران پر یہ بھی پابندی تھی کہ وہ 300 کلو گرام سے زیادہ افزودہ یورینیم کا ذخیرہ نہیں کر سکتا۔

امریکہ کی جانب سے اس معاہدے سے دستبرداری کے بعد جون 2019 میں ایران نے معاہدے میں مقرر کی گئی کم افزودہ یورینیم کی مقررہ حد سے زیادہ یورینیم ذخیرہ کر لی تھی جبکہ ستمبر 2019 میں ایران نے معاہدے کے تحت جوہری تحقیق اور ترقی کے وعدے سے دستبردار ہوتے ہوئے یورینیم افزودگی کے لیے سینٹری فیوجز تیار کرنے کا اعلان کیا تھا۔

اس معاہدے کو مکمل ختم ہونے سے بچانے کے لیے دوسرے فریقین بشمول برطانیہ، فرانس، جرمنی، چین اور روس نے کافی کوششیں کی ہیں۔ امریکہ کی جانب سے عائد کردہ شدید معاشی پابندیوں کے باعث ایران میں معاشی بدحالی بڑھی ہے، ایرانی کرنسی کی قیمت انتہائی کم ترین سطح پر ہے جبکہ افراط زر نئی بلندیوں کو چھو رہا ہے۔

ربط
 
ذیشان بھائ نے صحیح مشورہ دیا تھا کی ذرا گہرائ میں جا کر معاملہ دیکھا کریں ایک دم الٹی نہ کردیا کریں( یہ آخری حصہ اقتباس کا حصہ نہیں ہے vomtingوالا) خیر آپ ملاحظہ کریں ایران وہ واحد اسلامی ملک ہے جس نے بباہنگ دہل بیانات دیے ہیں جب کہ اسی دوران جب کشمیر پر ظلم و بربریت کا بازار گرم تھا.. دیگر اسلامی ملک بھارت کو عزت و احترام اور انعامات نواز رہے تھے...

ایران یا ایرانی حکمرانوں کو ہیرو بنا کر دکھانے والے دو طرح کے لوگ ہیں ، ایک تو وہ معصوم لوگ جو بآسانی بہکاوے میں آکر ہر طولی تقسیم کو قبول کرلیتے ہیں یا پھر وہ جو ان حکومتوں کے پے رول پر ہیں۔ مزا یہ ہے کہ ایرانی حکومت ، شیعہ اور سنی کی طولی تقسیم میں تو آگے آگے ہے لیکن ایلیٹ، امراء، عمومی ، غربا اور پستیوں کی عرضی تقسیم کی بات بھی نہیں کرتے ، زیادہ تر ایرانی اور عراقی عرضی طور پر غربت میں مبتلا ہیں۔ جبکہ مالی وسائیل پر امراء اور ایلیٹ کا قبضہ ہے۔ یہی ایرانی امراء اور ملاء ، غربت اور امارت کی عرضی تقسیم سے نظر ہٹانے کی شعبدہ بازی میں انتہائی کامیاب ہیں۔

ایران نے اپنے تمام پڑوسی ممالک میں فساد فی الارض اللہ کھڑا کیا ہوا ہے۔ اوریا جان مقبول کا یہ ویڈیو دیکھئے ۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ افغانستان ، پاکستان، قطر، یمن، ترکی، لبنان، شام میں بد امنی کی ساری کی ساری ذمہ داری ایران کے سر پر عائید ہوتی ہے۔

دوسری طرف ایران ہمیشہ سے ایک بزدل اور کمزور حملہ آور رہا ہے۔ نا تو ایران کے پاس اتنے میزائیل ہیں کہ پاکستان، فغانستان امارات، قطر، کویت، سعودی عرب اور عراق میں موجود امریکی اڈوں کو تباہ کرسکے ، نا ہی اتنے طیارے ہیں کہ ان امریکی بیسز پر یک لخت حملہ کرکے ان کو تباہ کرسکے۔ پھر مین لینڈ امریکا پر حملے کا تو یہ خواب بھی نہیں دیکھ سکتے۔ اور نا ہی مین لینڈ امریکہ پر حملے کا ایران متھمل ہو سکتا کہ اس کی اینٹ سے اینٹ بجادی جائے گی۔ یہ بات ایرانی بہت ہی اچھی طرح اور کسی سے بھی زیادہ جانتے ہیں۔ لہذا یہ کچھ بھی نہیں کریں گے، اس لئے کہ یہ کچھ بھی کرنے کے قابل ہی نہیں ہیں۔

ایران پر یہ شعر فٹ آتا ہے،
اپنی محرومی کے احساس سے شرمندہ ہیں
خود تو رکھتے نہیں ، اوروںکے بجھاتے ہیں چراغ

ایران کے لئے یہ بات ناقابل قبول ہے کہ پاکستان ، افغانستان کے راستے ، وسطی ایشیا سے تجارت کرے۔ ایرانی جلن اور حسد کا یہ عالم ہے کہ ایرانی ، افغانستان میں صرف فارسی بولنے والے شیعہ گروپس کو سپورٹ کرتے ہیں، تاکہ پاکستان ، وسطی ایشیا سے تجارت نہیں کرسکے۔ جب طالبان ، افغانستان پر غالب آئے تو پراپیگنڈہ کا ایک طوفان، ایران اور ایران نوز فارسیوں نے افغانستان سے شروع ہوا، ہر طرف طالبان کے ہاتھوں ، عورتوں کے قتل کی ویڈیوز انٹرنیٹ پر گردش کرتی رہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج ان علاقوں میں جہاں طالبان کا کنٹرول ہے، ایسے قتل یا ایسے قتل کی ویڈیوز کیوں نہیں سامنے آتی ہیں؟

بنیادی طور پر ایران ، ایک انتہائی دہشت گرد ملک ہے ، جو ہندوستان کے ساتھ مل کر تمام مسلمانوں کے خلاف کام کررہا ہے۔ اس کو اپنے ارد گرد کے ممالک پر تسلط چاہئے جس کے لئے ، ایران اور ایرانی حکومت کسی بھی سطح تک گر سکتی ہے۔ یہ لوگوں کو طولی طور پر تقسیم کرکے ، وہابی، شیعہ اور سنی بناتے رہیں گے لیکن کبھی عرضی طور پر امارت اور غربت کے طبقوں میں نہیں بانٹیں گے۔ ان کے بیانات اور اعمال میںکبھی ہم آہنگی ہو ہی نہیں سکتی اس لئے کہ یہ لوگ ملاء ازم کی مدد سے جس طبقاتی تقسیم کا جرم کرتے رہے ہیں وہ سالہا سال سے واضح ہے۔
 
ابھی میری بات ہوئ صدر ایران سے یہ آپ کی یہ پوسٹ دکھائ تو وہ کہتے ہیں خطے میں جہاں مسلمانوں پر ظلم ہو گا وہاں اسے روکنے کے لیے وہاں ہونگے باقی ہم ان ممالک کی مرضی سے ہیں کوئ گھس بیٹھے نہیں ہیں...

یہ "ہم " کون ہیں ؟ کیا آُ ایرانی پے رول پر ہیں؟
یار کیسے مسلمان؟ مسلمانی کی یہ ورٹیکل تقسیم ، یہ شیعہ ہے ، یہ سنی ہے، ہمیشہ سے ایران کا ہی تحفہ ہے۔ ورنہ ہوریزانٹل تقسیم کہ یہ امیر ہے ، یہ غریب ہے، اس کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے، کے نعرے لگائے جاتے۔ یہ ایران ہی ہے جس کی وجہ سے افغانستان جنگ کے بعد بھی تباہ حال ہے ، کیوں؟ ، شیعوں کو پاکستان کی مخالفت میں سپورٹ کی وجہ سے جب کہ غریبوں میں فارسی شیعہ اور پشتون سنی دونوں ہی ہیں۔ آج بلوچستان میں امن اس لئے نہیں کہ ایران نے یہاں ہندوستان کی مدد سے خانہ جنگی کا حال بنا رکھا ہے۔ جس میں بھارت کی مدد بھی شامل ہے، آج عراق کے غریب عوام جس میں شیعہ اور سنی دونوں ہی ہیں ، ان کا پرسان حال کوئی نہیں ۔ ان غریبوں کا اس حال میں پہنچانے میں ایران کا بہت بڑا ہاتھ ہے ۔ کیوں؟ کہ امیر عراقی شیعہ گروپس کو ایران کی سپورٹ حاصل ہے۔ شام میں ، یمن میں ، ایران کی دہشتگردی اور امیر اور لڑاکا ، فسادی، شیعہ گروپس کی ایران کی طرف سے سپورٹ سب کے سامنے ہے ، لیکن غریب عوام، چاہے سنی ہو یا شیعہ ہو ، ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔ سارے خطے میں امن غارت کرنے والی اس ایرانی حکومت کو مٹا دینے کی ضرورت ہے ، ضروری ہے کہ پاکستان، افغانستان، سعودی عرب، مصر، امارات اور ترکی مل کر اس غاصب ایرانی حکومت کو ختم کریں اور ایران میں بہیترین جمہوریت نافذ کریں۔ تاکہ سارے خطے سے بد امنی دور ہو۔ اور غریب اور امیر، چاہے سنی ہو یا شیعہ ، کا فرق مٹے۔

پاکستان میں بھی شیعہ سنی بنیادوں پر عوام کی تقسیم ، ایران کا ہی تحفہ ہے۔ اس قوم کا صدیوں سے ڈاکہ زنی پیشہ رہا ہے، سبکتگین، کیکاؤس، سے لے گر آیت اللہ تک ، سب امن کو غارت کرنے میں پیش پیش رہے ہیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
فاروق ٹرمپ نے اس معاملے کو شیعہ سنی تقسیم کی نظر سے دکھانے کی کوشش کی ہے لیکن اس کو کیا معلوم کہ ایران تمام مسلم ممالک کے خفیہ فوجی معاہدے کا اہم رکن ہے۔
اب سنی شیعہ سب مل کر امریکہ کا مکو ٹھپ دیں گے۔ شیعہ سنی بھائی بھائی ، قادیانی قوم امریکہ سے آئی۔
 

ابن جمال

محفلین
ایران ایک جانب بحرین میں جہاں شیعہ اکثریت ہے،اورسنی اقلیت حکمراں ہے وہاں وہ شیعہ احتجاج کو سپورٹ کرتاہے لیکن دوسری طرف شام میں جہاں سنی اکثریت اور نصیری شیعہ فرقہ اقلیت میں حکمراں ہے ،وہاں وہ شام کے صدر بشارالاسد کی حمایت میں ہر حد سے گزرنے کو تیار ہے، یہ صرف ایران کی ہی بات نہیں ہے، سعودی حکومت پر بھی یہی بات صادق آتی ہے، خلاصہ یہ ہے کہ مفادات کے حمام میں سب ننگے ہیں، چاہے وہ ایران ہویاپھر سعودی ۔
ماضی میں ڈک چینی پر ایرانی مفادات کیلئے کام کرنے کاالزام تھا اوراس کو تقویت اس بات سے پہنچتی ہے کہ اسی عہد میں ایک جانب طالبان کا خاتمہ ہوا،دوسری جانب عراق کی صدام حکومت ختم ہوئی اور اس طرح ایران کو اپنے دونوں دیرینہ دشمنوں سے نجات ملی اور اس کو یہ بھی موقعہ ملا کہ وہ عراق میں جہاں شیعہ زیادہ ہیں، وہاں اپنے اثرورسوخ کو مضبوط کرسکیں، اوراس کے ساتھ ہی ایران نے پورے خطے میں اپنے اثرورسوخ کو بڑھانے کی کوششیں شروع کردیں۔
ایران دوسری جگہوں پر جہاد کی بات کرتاہے،یمن میں حوثیوں کی مدد کرنے کی بات کرتاہے لیکن اپنے ملک مین سنیوں کی حالت زار پر اسے رحم نہیں آتا،اگرکسی کا دعویٰ ہے کہ سنی بہت اچھی حالت میں ہیں تو وہ ایران حکومت کے اعداد وشمار پیش کرے کہ حکومت کے مختلف محکمو ں میں سنیوں کی تعداد کتنی ہے، غیرجانبدار ذرائع عرصہ سے اس بات کو کہتے آئے ہیں کہ وہاں سنیوں کو دباکر رکھاجاتاہے، اوراسی کو دنیا کی نگاہ اور سنیوں کی نگاہ سے بطورخاص چھپانے کیلئے حماس وغیرہ کی مدد کی جاتی ہے۔
اوریہ بھی حیرت کی بات ہے کہ جب سے فلسطینی جہادی گروپوں نے ایران سے مدد لینی شروع کی ہے اور شام میں اپنے ٹھکانے بنائے ہیں ،اسرائیل کے خلاف ان کے بیشترآپریشن ناکام ہوئے ہیں، اور وہ مسلسل شکست کھارہے ہیں، اس کے تار کہاں سے جڑتے ہیں، اس پرتحقیق کی ضرورت ہے ۔
 

جاسم محمد

محفلین
ایران ایک جانب بحرین میں جہاں شیعہ اکثریت ہے،اورسنی اقلیت حکمراں ہے وہاں وہ شیعہ احتجاج کو سپورٹ کرتاہے لیکن دوسری طرف شام میں جہاں سنی اکثریت اور نصیری شیعہ فرقہ اقلیت میں حکمراں ہے ،وہاں وہ شام کے صدر بشارالاسد کی حمایت میں ہر حد سے گزرنے کو تیار ہے، یہ صرف ایران کی ہی بات نہیں ہے، سعودی حکومت پر بھی یہی بات صادق آتی ہے، خلاصہ یہ ہے کہ مفادات کے حمام میں سب ننگے ہیں، چاہے وہ ایران ہویاپھر سعودی ۔
ایران دوسری جگہوں پر جہاد کی بات کرتاہے،یمن میں حوثیوں کی مدد کرنے کی بات کرتاہے لیکن اپنے ملک مین سنیوں کی حالت زار پر اسے رحم نہیں آتا،اگرکسی کا دعویٰ ہے کہ سنی بہت اچھی حالت میں ہیں تو وہ ایران حکومت کے اعداد وشمار پیش کرے کہ حکومت کے مختلف محکمو ں میں سنیوں کی تعداد کتنی ہے، غیرجانبدار ذرائع عرصہ سے اس بات کو کہتے آئے ہیں کہ وہاں سنیوں کو دباکر رکھاجاتاہے، اوراسی کو دنیا کی نگاہ اور سنیوں کی نگاہ سے بطورخاص چھپانے کیلئے حماس وغیرہ کی مدد کی جاتی ہے۔
بالکل صحیح کہا۔ یہ دراصل مفادات یعنی اپنا اثر رسوخ بڑھانے کی جنگ ہے اور سنی -شیعہ صرف اس میں مہرے کی طرح استعمال ہو رہے ہیں۔
 
Top