بلوچستان پاکستان کی آبادی کا چار فیصد ہے۔ یقیناَ ہر پاکستانی شہری تک وسائل کی تقسیم منصفانہ ہونی چاہئے چاہے وہ بلوچ ہو، سندھی، مہاجر یا پختون یا پنجابی۔ لیکن کیا چار فیصد عوام کے لئے اتنا ہی بجٹ ہونا چاہئے جتنا چالیس فیصد کے لئے؟ یہاں میں یہ نہیں کہہ رہا کہ انہیں سہولیات زندگی نہیں فراہم ہونا چاہئیں، صرف یہ کہ بجٹ کی غیر منصفانہ تقسیم کی بات از خود غیر منصفانہ ہے۔
جی بلوچستان کی کل آبادی لاہور سے کم ہے ، اگر حکومت چاہتی تو یہاں صرف چند فیکٹریاں لگا کر یہاں روزگار کا مسئلہ ختم کرسکتی تھی۔
بجٹ تو کم از کم اتنا رکھنا چاہئے کہ صوبائی حکومت عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کام کریں، نئے سکیمات شروع کریں ۔صوبائی حکومت کے پاس ملازمین کو تنخواہیںدینے کی رقم بھی نہیں ۔ گزشتہ مالی سال کے بجٹ میں کوئی نئی سکیم شامل نہیں ہوئی ۔حکومت کو ملازمین کی تنخواہوں کے لئے سٹیٹ بینک سے قرض لینا پڑا ۔ گزشتہ مہینے تک بلوچستان حکومت کے ذمے 17 ارب روپے سے زائد اوور ڈرافٹ تھا جن کی مد میںماہانہ 50 کروڑ روپے سود دیا جاتا تھا ۔ اب جاکر وفاقی حکومت نے یہ رقم خود ادا کرنے کا کہا ہے ۔
بلوچستان کے وسائل بہت زیادہ ہیں لیکن ان پر یہاںکے عوام کا اختیار نہیں ، 1953 سے نکلنے والی گیس کی رائلٹی کی مد میں وفاق بلوچستان کا سو ارب سے زائد کا مقروض ہے ،اگر یہ رقم ادا کردی جائے تو صوبہ مالی طور پر مستحکم ہوجائے گا۔ سوال یہ رقم کیوں ادا نیہں کی جاتی ؟
سندھ اور پنجاب کی گیس رائلٹی بلوچستان سے کئی سو روپے زیادہ ہے ، یہ امتیازی سلوک کیوں ؟
اس کے علاوہ این ایف سی ایوارڈ کی تقسیم آبادی کی بنیاد پر کیا جاتا ہے ،بلوچستان کی عوام کا مطالبہ کیا ہے کہ فنڈز پسماندگی کی بنیاد پر تقسیم ہونے چاہیئں ۔
بھیا اتنے سارے پراجیکٹ تو آپ نے خود ہی گنوا دئیے۔ جہاں تک بات ہے تعلیمی اداروں کی، یہ کیا وفاقی حکومت بناتی ہے؟ سڑکیں کیا وفاقی حکومت بناتی ہے؟ اسی لئے تو کہتا ہوں کہ پہلے ان سرداروں سے تو پوچھئے کہ انہوں نے جو پیسے ملتے تھے بلوچستان کے لئے ان کا کیا کیا؟ اچھی تعلیم، فیکٹریاں، صنعتیں یہ سب تو صوبائی حکومت کے کام ہیں۔ سکول کیوں نہیں کھولے گئے بلوچستان میں؟ صرف اس لئے کہ لوگ اگر پڑھ لکھ گئے تو سرداروں کے سامنے آواز اُٹھائیں گے۔ یہی تو ظلم ہے۔ پہلے ان لوگوں کو خود انہوں نے سہولتیں نہیں دیں اور اب اس سب کچھ کا الزام وفاق پر لگا کر مزید اُلو سیدھا کرنا چاہتے ہیں۔
میں نے جتنے بھی پراجیکٹ گنوائے ہیں ان میں سے کوئی بھی بلوچستان حکومت کے دائرہ اختیار میںنہیں آتا، ریکوڈک، سیندک پراجیکٹ کے معاہدے چین کے ساتھ کئے گئے ہیں ۔گوادر کا معاہدہ سنگاپور سے کیا گیا ہے ، تمام منافع غیر ممالک اور مرکزی حکومت کو ملتا ہے ، بلوچستان حکومت کو جو منافع ملتا ہے وہ آٹے میں نمک کے برابر ہے ۔
تعلیمی ادارے کی جہاںتک بات ہے تو باقی چھوڑیئے صرف بلوچستان یونیورسٹی کو ہی لے لیجئے ۔ یہ ادارہ کئی عرصے سے مالی بحرانوںکا شکار ہے کیونکہ وفاقی حکومت کے ماتحت ہائیر ایجوکیشن نے فنڈز بند کردیئے ہیں ۔ وائس چانسلر بلوچستان یونیورسٹی پروفیسر معصوم خان یاسین زئی نے گزشتہ دنوں اپنے ایک انٹرویو میں فنڈز نہ ملنے کی صورت میں ادارے کے بند ہونے کے خدشہ کا اظہار کیا ہے ۔
میں سرداروں اور بلوچستان کے حکمران طبقہ کو بھی بری الذمہ قرار نہیں دیتا لیکن وفاق نے ہمیشہ بلوچستان کے ساتھ سوتیلا رویہ روا رکھا۔
بھائی کس نے کئے یہ ادارے تباہ؟ پاکستان میں کہاں سرکاری تعلیمی ادارے درست کام کر رہے ہیں؟ یہ سب مسائل کیا صرف بلوچستان کے ہیں؟
بجایا فرمایا آپ نے یہ مسئلہ صرف بلوچستان میں نہیں لیکن باقی صوبوں کی نسبت بلوچستان کے سرکاری تعلیمی اداروں کی حالت بہت خراب ہے ۔
ہمارے علاقے جس کی آبادی 50 ہزار سے زیادہ ہیں ، وہاں کوئی مڈل سکول نہیں ۔ پرائمری کے بعد بچوں کو مزید تعلیم حاصل کرنے کے لئے پانچ سے دس کلو میٹر دور جانا پڑتا ہے ۔ اکثر بچے اسی وجہ سے آگے نہیں پڑھ سکتے۔ یہی حالات پورے صوبے کی ہے کیونکہ رقبہ زیادہ اور آبادی کم ہے ۔
صوبائی وزیر تعلیم شفیق احمد خان نے کچھ عرصہ قبل ایک پریس کانفرنس کی تھی ، مجھے ان کی پریس کانفرنس کے کچھ اعداد شمار یاد ہے ۔ انہوںنے بتایا تھا کہ صوبے میں چودہ سو کے قریب ایسے پرائمری سکول ہیں جہاںبچے درختوں کے سائے میںپڑھتے ہیں۔
ایک حیرت انگیز بات یہ بھی بتائی کہ پانچ ہزار کے قریب ایسے سکول ہیں جہاں ایک استاد پڑھاتا ہے ۔ اور ایک ہزار ایسے سکول بتائیں جہاں طالب علموں کی تعداد کے تناسب سے اساتذہ نہیں ۔
پنجاب میں روٹی دو روپے کی کس نے کی؟ صوبائی حکومت نے۔ کیا بلوچستان کی حکومت ایسا قدم نہیں اُٹھا سکتی؟ پنجاب اور سندھ میں گندم تو ہر ایک کو ایک ہی دام پر فروخت ہوتی ہے۔ یہ تو وہ سرمایہ دار جو اس گندم/آٹے کو بلوچستان لاکر بیچتے ہیں ان کی ہوس کی وجہ سے روٹی دس روپے کی ہے۔ بلوچ عوام کیوںنہیں سرداروں کو کہتے کہ انہیں بھی روٹی اسی طرحدو روپے یا چلو تین روپے کی چاہئے؟ کیوں نہیں بلوچستان کی حکومت ایسے اقدامات کرتی؟
جب حکومت کے پاس تنخواہیں دینے کے لئے رقم نہیں تو وہ عوام کو ریلیف دینے کے لئے کیا کرے گی ؟
یقیناَ ظلم ہے لیکن نواب بگٹی کئی عشروں سے اسی گیس کی رائلٹی کھاتے رہے ہیں، کیوں نہیں انہوں نے اپنے علاقے کو گیس کی سہولت فراہم کروائی؟ گورنر رہے کئی دفعہ صوبے کے، ملک کے سیاستدانوں میں بڑا اونچا مقام رکھتے تھے، کیوں نہ انہوں نے اپنے علاقے کی ترقی کے لئے کام کیا؟ کروڑوں روپے ماہانہ ملتے تھے انہیں، کتنے میں بچھ جاتی گیس کی پائپ لائن؟ کتنے میں بن جاتے آٹھ دس سکول، چار پانچ کالج، دو تین ہسپتال؟ اس کا سوال کیوں نہیں پوچھتے ہمارے بھائی؟
میں یہاں کے سرداروں ،نوابوں ، وڈیروں اور جو طبقہ حکمران رہا ہے سب کو بلوچستان کی پسماندگی کا ذمہ دار گردانتا ہوں ۔
کوئی فرق نہیں۔ مسائل بلوچستان کے بھی وہی ہیں جو باقی پاکستان کے۔ بات صرف یہ ہے کہ سردار ذمہ داری اپنے کاندھوں سے اُتار کر پاکستان کے سر منڈھ دینا چاہتے ہیںاور کوئی پلٹ کر ان سے سوال کرنے والا نہیں کہ پھر اس کا کام تمام۔
شاید اس سوال کا جواب بھی آپ کو اوپر مل گیا ہوگا۔