بلاعنوان۔۔

مقدس

لائبریرین
بیٹی ذرا یہ تو بتائیے کہ مسز احمد جو قتل ہوئی وہ کہاںپلی بڑھی تھیں؟ کیا ان کی بنیادی و اعلی تعلیم یوکے کی ہے۔
میرا دل یہ واقعہ پڑھ کر غم زدہ ہے۔
ہوسکتا ہے کہ اپ درست ہوں۔ پر یہ بتائیے کہ مسز احمد کی تعلیم و پرورش کہاں کی تھی؟
وہ ادھر یوکے سے تھیں اور ان کے ہسبینڈ پاکستان سے
 
وہ ادھر یوکے سے تھیں اور ان کے ہسبینڈ پاکستان سے

بیٹی جب وہ یوکے کی پلی بڑھی تھیں اور انھین انسانی حقوق بھی علم تھا تو کیوں انھوں نے طلاق نہ لے لی؟
کیا یوکے میں خاندان کے لوگون کو بلیک میل کیا جاسکتا ہے؟ پاکستان کی طرح؟ پھر کیا فائدہ اس تعلیم و پرورش کا؟
پھر سارا الزام اس بیٹی کی ماں کو تو نہ دیں۔ کیا خبر کہ ماں پوری طرح جانتی ہو اس کے حالات؟ زیادہ دوش تو خود اس عورت کو جاتا ہے کہ وہ خودمختار تھی؟
پھر وہ قتل ہوگئی تو اس کے بچوں کا کیا قصور جو غیروں کے حوالے کردیے گئے؟
کیا اس 12-14 یا 16 سالہ تعلیم نے اتنا بھی شعور نہیں دیا کہ خودمختار ادمی کیا قدم اٹھاتا ہے ان حالات میں؟
 

مقدس

لائبریرین
یہی سوال میں نے بھی پوچھا تھا اس سے تو یہی جواب ملا تھا کہ میرے ماں باپ مجھے چھوڑ دیں گے۔۔
میں ان کو نہیں چھوڑ سکتی۔۔۔ اس کے ماں باپ جب یہ جانتے تھے وہ اس کو مارتا ہے بچوں کو مارتا ہے تو کیوں اس کو سپورٹ نہیں کیا؟؟

صرف ماں نہیں باپ بھی اتنا ہی قصوروار ہے۔۔
 
یہی سوال میں نے بھی پوچھا تھا اس سے تو یہی جواب ملا تھا کہ میرے ماں باپ مجھے چھوڑ دیں گے۔۔
میں ان کو نہیں چھوڑ سکتی۔۔۔ اس کے ماں باپ جب یہ جانتے تھے وہ اس کو مارتا ہے بچوں کو مارتا ہے تو کیوں اس کو سپورٹ نہیں کیا؟؟

صرف ماں نہیں باپ بھی اتنا ہی قصوروار ہے۔۔

میرا خیال ہے کہ صرف مسز احمد کے ماں باپ ہی قصور وار نہیں ہیں۔ ظاہرہے کہ ہر والدین یہی چاہتے ہیں کہ ان کی بیٹی کی ازواجی زندگی اچھی رہے۔ یہی مسز احمد کے والدین چاہتے تھے۔ اپنے مخصوص بیک گراونڈ کی وجہ سے، یعنی تعلق پاکستان سے، کی وجہ سے ان کی یہ ڈیزائر زیادہ تھی۔
مگر برطانوی تعلیم تو میرے خیال میں ہر انسان کو اتنا باشعور ضرور کردیتی ہے کہ کن حالات میں کیا قدم اٹھانا چاہیے۔ اس سے تو اپ متفق ہی ہوں گی۔
میرے خیال میں زیادہ قصورور خود وہ عورت تھی۔ جو بہرحال مظلوم ہے کہ ترقی یافتہ تعلیم اس کو اتنا باہمت نہ بناسکی کہ جذباتی بلیک میل نہ ہو بلکہ اپنے مفاد میں قدم اٹھائے
اگر وہ یہ قدم اٹھالیتی تو اپنی خودمختار زندگی شروع کرسکتی تھی۔ اس کے والدین بھی اسکو قبول کرہی لیتے اج نہیں تو کل۔
میرے خیال میں قصوروار اس کے والدین کو گرداننا غلط ہے۔ قصور خود اس عورت کا ہے اور زیادہ اس ترقی یافتہ تعلیم کا کہ عورت کو باہمت نہ بناسکی۔

مگر اسکے بچوں کوکیا قصور جو والدین کھوچکے ہیں اور لوگوں کی دعاوں کے اسراع پرہیں کہ انھیں پیار کرنے والے لوگ ملیں
انھیں جو بھی لوگ ملیں گے ان کے نانانانی سے پیارسے کم ہی ہونگے۔ اور کتنے نفسیاتی مسائل سے دوچار ہونگے ۔
اللہ انھیں اپنی حفظ و امان میں رکھے۔
 

مقدس

لائبریرین
میرا خیال ہے کہ صرف مسز احمد کے ماں باپ ہی قصور وار نہیں ہیں۔ ظاہرہے کہ ہر والدین یہی چاہتے ہیں کہ ان کی بیٹی کی ازواجی زندگی اچھی رہے۔ یہی مسز احمد کے والدین چاہتے تھے۔ اپنے مخصوص بیک گراونڈ کی وجہ سے، یعنی تعلق پاکستان سے، کی وجہ سے ان کی یہ ڈیزائر زیادہ تھی۔
مگر برطانوی تعلیم تو میرے خیال میں ہر انسان کو اتنا باشعور ضرور کردیتی ہے کہ کن حالات میں کیا قدم اٹھانا چاہیے۔ اس سے تو اپ متفق ہی ہوں گی۔
میرے خیال میں زیادہ قصورور خود وہ عورت تھی۔ جو بہرحال مظلوم ہے کہ ترقی یافتہ تعلیم اس کو اتنا باہمت نہ بناسکی کہ جذباتی بلیک میل نہ ہو بلکہ اپنے مفاد میں قدم اٹھائے
اگر وہ یہ قدم اٹھالیتی تو اپنی خودمختار زندگی شروع کرسکتی تھی۔ اس کے والدین بھی اسکو قبول کرہی لیتے اج نہیں تو کل۔
میرے خیال میں قصوروار اس کے والدین کو گرداننا غلط ہے۔ قصور خود اس عورت کا ہے اور زیادہ اس ترقی یافتہ تعلیم کا کہ عورت کو باہمت نہ بناسکی۔

مگر اسکے بچوں کوکیا قصور جو والدین کھوچکے ہیں اور لوگوں کی دعاوں کے اسراع پرہیں کہ انھیں پیار کرنے والے لوگ ملیں
انھیں جو بھی لوگ ملیں گے ان کے نانانانی سے پیارسے کم ہی ہونگے۔ اور کتنے نفسیاتی مسائل سے دوچار ہونگے ۔
اللہ انھیں اپنی حفظ و امان میں رکھے۔

سوری انکل میں یہاں آپ سے ایگری نہیں کرتی۔۔ آپ چاہے دنیا کے کسی کونے میں بھی کیوں نہ ہوں۔۔ آپ کی اپنے والدین کے ساتھ اٹیچمنٹ میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔ ماں باپ کو یہ حق کس نے دیا ہے کہ وہ اپنی اولاد کو بلیک میل کریں۔ ایک لڑکی جب وہ 16 سال کی ہے والدین یہاں سے لے جا کر اس کی اپنے رشتہ داروں میں شادی کروا دیتے ہیں۔۔ پھر وہ یہ جانتے بھی ہیں کہ وہ اس کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتا۔۔ بیٹی کے بار بار بتانے پر بھی وہ اس کو واپس جانے پر مجبور کر دیتے ہیں۔۔ 16 سال کی عمر تک آپ صرف سیکنڈری اسکول تک ہی جاتے ہو۔۔ بیسک تعلیم ہوتی ہے آپ کی۔۔ ویسے بھی یوکے میں ہوں یا کہیں بھی ۔۔ تعلیم انسان کو باشعور ضرور بناتی ہے لیکن بدتمیز یا ضدی نہیں۔۔ اس کا بھی صرف یہی قصور تھا کہ وہ ہر بار ماں باپ کے کہنے پر واپس اس کے ساتھ نبھاہ کرنے کی کوشش کرتی رہی۔۔

آپ کیسے کہہ سکتے ہیں انکل کہ وہ نانا نانی ان کو سب سے زیادہ پیار دیں گے؟ کیا وہ وہی قربانی ان سے ایکسپیکٹ نہیں کریں گے جو انہوں نے اپنی بیٹی سے کی؟ اس کی کیا گارنٹی ہے؟ وہ بچے جو دن رات ماں کو پیٹتے دیکھتے تھے۔۔ جو خود باپ کی مار سہتے تھے۔۔ جہنوں نے خود اپنی ماں کو مرتے دیکھا۔۔ اس سے زیادہ نفیساتی مسائل اور کیا ہوں گے ان کے ساتھ۔۔ ان کی وہ بیٹی جس کے ساتھ میں کام کرتی ہوں۔۔ وہ میوٹ ہے۔۔ یعنی کہ بات نہیں کرنا چاہتی۔ بالکل خاموش رہتی ہے۔۔ ان بچوں کا کیا قصور۔۔ دے نیڈ اے فیملی ہو ول ٹیک کئیر آف دیم۔۔ لو دیم ناٹ یوز دیم
 
سوری انکل میں یہاں آپ سے ایگری نہیں کرتی۔۔ آپ چاہے دنیا کے کسی کونے میں بھی کیوں نہ ہوں۔۔ آپ کی اپنے والدین کے ساتھ اٹیچمنٹ میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔ ماں باپ کو یہ حق کس نے دیا ہے کہ وہ اپنی اولاد کو بلیک میل کریں۔ ایک لڑکی جب وہ 16 سال کی ہے والدین یہاں سے لے جا کر اس کی اپنے رشتہ داروں میں شادی کروا دیتے ہیں۔۔ پھر وہ یہ جانتے بھی ہیں کہ وہ اس کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتا۔۔ بیٹی کے بار بار بتانے پر بھی وہ اس کو واپس جانے پر مجبور کر دیتے ہیں۔۔ 16 سال کی عمر تک آپ صرف سیکنڈری اسکول تک ہی جاتے ہو۔۔ بیسک تعلیم ہوتی ہے آپ کی۔۔ ویسے بھی یوکے میں ہوں یا کہیں بھی ۔۔ تعلیم انسان کو باشعور ضرور بناتی ہے لیکن بدتمیز یا ضدی نہیں۔۔ اس کا بھی صرف یہی قصور تھا کہ وہ ہر بار ماں باپ کے کہنے پر واپس اس کے ساتھ نبھاہ کرنے کی کوشش کرتی رہی۔۔

آپ کیسے کہہ سکتے ہیں انکل کہ وہ نانا نانی ان کو سب سے زیادہ پیار دیں گے؟ کیا وہ وہی قربانی ان سے ایکسپیکٹ نہیں کریں گے جو انہوں نے اپنی بیٹی سے کی؟ اس کی کیا گارنٹی ہے؟ وہ بچے جو دن رات ماں کو پیٹتے دیکھتے تھے۔۔ جو خود باپ کی مار سہتے تھے۔۔ جہنوں نے خود اپنی ماں کو مرتے دیکھا۔۔ اس سے زیادہ نفیساتی مسائل اور کیا ہوں گے ان کے ساتھ۔۔ ان کی وہ بیٹی جس کے ساتھ میں کام کرتی ہوں۔۔ وہ میوٹ ہے۔۔ یعنی کہ بات نہیں کرنا چاہتی۔ بالکل خاموش رہتی ہے۔۔ ان بچوں کا کیا قصور۔۔ دے نیڈ اے فیملی ہو ول ٹیک کئیر آف دیم۔۔ لو دیم ناٹ یوز دیم

محبت ایک فطری عمل ہے جو فطرت نے فطری رشتوں میں رکھ دیا ہے۔
اپ کے جواب میں بہت سے لاجکل ایررز ہیں جو میں واضح کروں گا ہی۔
مگر پہلے یہ بات کہ ا س عورت کے معاملے میں مسئلہ تعلیم کی کمی کا ہے؟ کیا تعلیم تھی خاتون کی؟
دوسری ترقی یافتہ معاشروں میں ایسے میکانزم ان پلیس ہوتے ہیں جو کسی بھی خانگی معاملہ میں درست رہنمائی کریں ۔ حتی کی بچوں کے اسکول کے استاد کو بھی اگرپتہ چلے تو اسکو کونسلنگ کرنی چاہیے۔ یہ اسکی بھی کوتاہی ہے کہ معاملہ علم میں انے کے باوجود کچھ عمل نہیں کیا
 
یہی سوال میں نے بھی پوچھا تھا اس سے تو یہی جواب ملا تھا کہ میرے ماں باپ مجھے چھوڑ دیں گے۔۔
میں ان کو نہیں چھوڑ سکتی۔۔۔ اس کے ماں باپ جب یہ جانتے تھے وہ اس کو مارتا ہے بچوں کو مارتا ہے تو کیوں اس کو سپورٹ نہیں کیا؟؟

صرف ماں نہیں باپ بھی اتنا ہی قصوروار ہے۔۔
سوری انکل میں یہاں آپ سے ایگری نہیں کرتی۔۔ آپ چاہے دنیا کے کسی کونے میں بھی کیوں نہ ہوں۔۔ آپ کی اپنے والدین کے ساتھ اٹیچمنٹ میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔ ماں باپ کو یہ حق کس نے دیا ہے کہ وہ اپنی اولاد کو بلیک میل کریں۔ ایک لڑکی جب وہ 16 سال کی ہے والدین یہاں سے لے جا کر اس کی اپنے رشتہ داروں میں شادی کروا دیتے ہیں۔۔ پھر وہ یہ جانتے بھی ہیں کہ وہ اس کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتا۔۔ بیٹی کے بار بار بتانے پر بھی وہ اس کو واپس جانے پر مجبور کر دیتے ہیں۔۔ 16 سال کی عمر تک آپ صرف سیکنڈری اسکول تک ہی جاتے ہو۔۔ بیسک تعلیم ہوتی ہے آپ کی۔۔ ویسے بھی یوکے میں ہوں یا کہیں بھی ۔۔ تعلیم انسان کو باشعور ضرور بناتی ہے لیکن بدتمیز یا ضدی نہیں۔۔ اس کا بھی صرف یہی قصور تھا کہ وہ ہر بار ماں باپ کے کہنے پر واپس اس کے ساتھ نبھاہ کرنے کی کوشش کرتی رہی۔۔

آپ کیسے کہہ سکتے ہیں انکل کہ وہ نانا نانی ان کو سب سے زیادہ پیار دیں گے؟ کیا وہ وہی قربانی ان سے ایکسپیکٹ نہیں کریں گے جو انہوں نے اپنی بیٹی سے کی؟ اس کی کیا گارنٹی ہے؟ وہ بچے جو دن رات ماں کو پیٹتے دیکھتے تھے۔۔ جو خود باپ کی مار سہتے تھے۔۔ جہنوں نے خود اپنی ماں کو مرتے دیکھا۔۔ اس سے زیادہ نفیساتی مسائل اور کیا ہوں گے ان کے ساتھ۔۔ ان کی وہ بیٹی جس کے ساتھ میں کام کرتی ہوں۔۔ وہ میوٹ ہے۔۔ یعنی کہ بات نہیں کرنا چاہتی۔ بالکل خاموش رہتی ہے۔۔ ان بچوں کا کیا قصور۔۔ دے نیڈ اے فیملی ہو ول ٹیک کئیر آف دیم۔۔ لو دیم ناٹ یوز دیم
بالکل ٹھیک کہتی ہیں آپ مقدس آپی۔
 
محبت ایک فطری عمل ہے جو فطرت نے فطری رشتوں میں رکھ دیا ہے۔
اپ کے جواب میں بہت سے لاجکل ایررز ہیں جو میں واضح کروں گا ہی۔
مگر پہلے یہ بات کہ ا س عورت کے معاملے میں مسئلہ تعلیم کی کمی کا ہے؟ کیا تعلیم تھی خاتون کی؟
دوسری ترقی یافتہ معاشروں میں ایسے میکانزم ان پلیس ہوتے ہیں جو کسی بھی خانگی معاملہ میں درست رہنمائی کریں ۔ حتی کی بچوں کے اسکول کے استاد کو بھی اگرپتہ چلے تو اسکو کونسلنگ کرنی چاہیے۔ یہ اسکی بھی کوتاہی ہے کہ معاملہ علم میں انے کے باوجود کچھ عمل نہیں کیا

ہر ایک کو میری رائے سے اختلاف کا حق ہے۔

ان بچوں کو بلکل ایک فیملی چاہیے ۔ ان کو وہ فیملی نہیں ملے گی جو ٹوٹ چکی ہے۔ نہ اسکی گارنٹی ہے کہ جو نئی فیملی ان کو اڈاپٹ کرے گی وہ ان کو محبت دے۔

یہ مسئلہ برطانیہ میں عام ہے۔ اس کے تدارک کے لیے اقدام پروایکٹو ہونے چاہیں نہ کہ واقعہ ہونے کے بعد۔ چونکہ ایشین فیملیز میں یہ بہت عام ہے لہذا ان کی تعلیم میں خصوصا یہ بات امبیڈ ہونی چاہیے کہ نوجوان اس صورتحال میں کیا کریں۔ پھر اس صورت حال میں اگر کوئی ہو تو اس سے نکلنے کے لیے امدادی ریسورسز بھی میسر ہو۔ اسی طرح صورت حال بہتر ہوسکتی ہے۔ ورنہ ذمہ داری تمام فیملیز کے والدین پر ڈال کر صورت حال بدل نہیں سکتی۔ کم ازکم ایک یا دو جنریشن تک۔ یہ ریسورسز میرے خیال میں برطانیہ میں ممکن ہیں۔
 

زین

لائبریرین
سوائے افسوس کے اور کیا کیا جاسکتا ہے ۔
ہم بھی کچھ دنوں پہلے کچھ ایسی ہی حالت سے گزرے جب ہمارے ایک سینئر کوداماد سمیت کوئٹہ سے پنجاب جاتے ہوئے بس سے اتار کر قتل کیا گیا۔ صرف اس وجہ سے کہ ان کے شناختی کارڈ پر پتہ ’’پنجاب‘‘ کا لکھا ہوا تھا اور وہ پنجابی تھے۔
 
سوائے افسوس کے اور کیا کیا جاسکتا ہے ۔
ہم بھی کچھ دنوں پہلے کچھ ایسی ہی حالت سے گزرے جب ہمارے ایک سینئر کوداماد سمیت کوئٹہ سے پنجاب جاتے ہوئے بس سے اتار کر قتل کیا گیا۔ صرف اس وجہ سے کہ ان کے شناختی کارڈ پر پتہ ’’پنجاب‘‘ کا لکھا ہوا تھا اور وہ پنجابی تھے۔
یہ چند شر پسندوں کا کام ہے ۔ عام پاکستانی سارے پاکستانیوں سے محبت رکھتا ہے ۔ اللہ تعالی ہمارے ملک کے امن کی حفاظت کرے ۔
 
Top