لفظ آپ سے نہیں روٹھے ہیں مقدس آپ ایک خاص کیفیت سے گُذر رہی ہیں جہاں ہر لمحہ کچھ کھو جانے کا خوف ، کچھ چُھٹ جانے کا ڈر اور مُسلسل اُداسی آپ کو گھیرے ہوے ہے اور اسکی وجہ شائد آپ کے دوست کی بیماری اور ایک دائمی خلا جو آپ کے والد کی وفات سے آپ کی زندگی میں آیا ہے اسے گذر جانے دیں اور دُعا کریں اپنے حق میں اپنے دوست کے حق میں ۔آج کتنے دنوں بعد دل کر رہا ہے۔۔۔ کہ کچھ لکھوں۔۔۔ پر سمجھ نہیں آرہا۔۔ کیا لکھوں۔۔۔ ۔۔ لفظوں سے دوستی ختم ہوتی جا رہی ہے ۔۔اور یہ مجھ سے روٹھتے جا رہے ہیں شاید۔۔۔ ۔ کتنا مشکل ہوتا ہے ناں۔۔ جب ہم جانتے ہیں کہ ہمیں کچھ کہنا ہے۔۔۔ لیکن کہنے کے لیے الفاظ ملنا مشکل لگتا ہے۔۔ وہ الفاظ جو سچ میں ہمارے اندر کی فیلنگز کو نکال کر باہر لے آئیں اور ہم کہہ سکیں کہ واقعی یہ تو ہم کہنا چاہ رہے تھے۔
پچھلے کچھ دنوں سے میرے اندر ایک عجیب سی بےچینی ہے۔۔۔ کوئی سکون نہیں ہے۔۔ کچھ اچھا نہیں لگ رہا۔۔ ایسا لگتا ہے کہ بہت کچھ غلط ہونے والا ہے۔۔ بہت کچھ چھننے والا ہے مجھ سے۔۔ اپنے اندر کے اس خوف کو چھپانے کے لیے میں بلاسبب ہنستی ہوں، ڈھیروں باتیں کرتی ہوں۔۔۔ قہقے لگاتی ہوں۔۔ الٹی سیدھی باتیں کر کے دوسروں کو ہنساتی ہوں۔۔۔ لیکن ۔۔۔ لیکن جب چپ ہوتی ہوں تو یہ خوف دوبارہ سے امڈ آتا ہے۔۔ باہر آوازوں کا ایک ڈھیر ہے اور میرے اندر ایک گہری خاموشی۔۔۔ ایک ایسی خاموشی جس میں ایک طوفان چھپا ہے۔۔ مجھے ڈر لگ رہا ہے۔۔ چھپنا چاہتی ہوں کہیں پر۔۔ لیکن ۔۔
مجھے بہت سارا رونا ہے۔۔ تاکہ آنسوؤں کے ساتھ اندر کا سارا ڈر سارا خوف آنکھوں کے رستے بہہ جائے اور میں ایک بار پھر سے پرسکون ہو جاوں ۔۔۔ لیکن ۔۔۔ یہ آنسو کبھی تو بلا سبب بہنا شروع ہو جاتے ہیں۔۔ اور ابھی میرے چاہنے کے باوجود۔۔ میں رو نہیں پا رہی۔۔ وقت پڑنے پر یہ بھی ساتھ چھوڑ گئے۔۔۔ باہر نکلنے کے بجائے ۔۔ کہیں اندر گرنا شروع کر دیا انہوں نے۔۔۔
ابھی امی کی آواز آ رہی ہے مجھے۔۔ اوو۔۔ میں جلدی سے آنکھیں بند کر لوں۔۔ تاکہ انہیں لگیں کہ میں سو رہی ہوں۔۔۔
مقدس! بیٹا ابھی تک سو رہی ہو آپ۔۔ اٹھ جاؤ اب!
مقدس!
امی واپس جا رہی ہیں شاید۔۔ ان کے قدموں کی آواز دور ہوتی جا رہی ہے۔۔ اور۔۔۔ میں ایک بار پھر سے اپنی سوچوں میں گم۔
آج کل میرا دل نہیں کر رہا کسی سے بولنے کا۔۔ اپنی آواز بہت بری لگنے لگی ہے مجھے۔۔ بہت ڈراونی۔۔ خوف آتا ہے مجھے خود سے۔ اپنی آواز سے۔۔۔ ۔۔ لیکن ۔۔۔ ۔۔ میں اب بدل گئی ہوں۔۔۔ سر سے پیر تک۔۔۔ اپنے چہرے پر ماسک چڑھا لیا میں نے بھی۔۔ ایک چہرے کے پیچھے ایک اور چہرہ۔۔ اس کے پیچھے ایک اور۔۔ اور پھر ایک اور۔۔۔ ۔۔۔ مجھے اس نئے چہرے سے ڈر لگتا ہے۔۔
اس کی ہنسی سے مجھے عجیب سے وحشت چھلکتی نظر آتی ہے۔۔ ایک بےبسی کا احساس۔۔۔ کچھ نہ کر پانے کی کیفیت۔۔۔
پتا نہیں۔۔ میں لکھنا کیا چاہ رہی تھی اور لکھ کیا دیا۔۔ دیکھیں ناں ۔۔ آج الفاظ بھی دھوکہ دے گئے مجھے۔۔
اللہ کا فرمان ہے کہ ہر شخص پر مصیبت آتی ہے ‘ اس کی وسعت کے مطابق۔ اب اگر تمہارے خیال میں مصیبت زیادہ پڑ رہی ہے تو سمجھو کہ تمہیں وسیع بنایا جا رہا ہے۔ تمہیں صاحبِ ظرف بنایا جا رہا ہے …. یہ ایک درجہ ہے …. اور دوسرا درجہ یہ ہے کہ صبر کو شکر بنا دو ، کہ اے اللہ ! یہ تمہارا حکم ہے تو ہمیں ایسے ہی منظور ہے اور ایسے بہت کم لوگ ہوتے ہیں ۔ آسان لفظوں میں …. پسندیدہ چیزوں کا چھن جانا …. آپ کی خواہش کچھ اور ہے ، آپ کا حاصل کچھ او ر ہے …. ایسا مقام جہاں آپ کے ارادے اور اللہ کے ارادے میں فرق آ جائے…. اور ایسا اکثر ہی ہوتا ہے کہ آپ کی مرضی اور اللہ کی مرضی میں فرق ہو۔ آپ نے پھولوں کی آرزو کی ہو اور آپ کا دامن کانٹوں سے بھر گیا ہو …. یعنی حالات اور خواہشات میں فرق ہوگیا ہو۔ بس صبر اسی کو کہتے ہیں۔ اب جولوگ یہ کہتے ہیں کہ صبر کی ایک حد ہوتی ہے اور اس کے بعد صبر نہیں کیا جا سکتا …. تو اگر اُن سے صبر نہیں ہو سکتا ‘ تو وہ نہ کریں ….آسمان دُور تو نہیں …. زمین کے اندر جانا مشکل تو نہیں …. جب ایسے حالات آ جائیں کہ کوئی راستہ نہ ملے تو وہی مقام صبر کا مقام ہوتا ہے اور اگر تم اس کے علاوہ کچھ اور کر سکتے ہو تو کر لو۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ” اے گروہِ جِنّ و اِنس ! اگر تم زمین اور آسمان سے نکلنا چاہتے ہو تو نکل جاﺅ …. مگر تم میری طاقت کے بغیر نہیں نکل سکتے “….مطلب یہ ہوا کہ اگر تم صبر نہیں کر سکتے تو تمہارے گرد جو حصار ہے تم اس سے بھی نہیں نکل سکتے۔ صبر کرنا ہی بہتر ہے…. کوشش سے حالات ٹھیک کر لو ، اگر نہیں ٹھیک ہوتے تو صبر کر لو اور حالات کو قبول کر لو۔ آپ جو پسند کرتے ہو وہ حاصل کر لو یا جو حاصل ہے اسے پسند کر لو….جھگڑا نہ کرو۔ ہم تمہیں کوئی چیز حاصل کرنے سے منع نہیں کرتے مگر نتیجہ کی ذمہ داری تم پر ہی ہو گی…. سمندر میں ڈوبنے کی خواہش ہو بھی تو نہیں ڈوب سکو گے۔ پہلے غوطے پر چیخ لگاﺅ گے اور دوسرے غوطے پر مدد کے لیے پکارو گے…. یعنی ہو سکتا ہے جن چیزوں کی تم خواہش کرتے ہو وہ تمہارے لیے تباہی کا باعث ہوں …. اس لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو چیز آئے اسے پسند کرو ‘ اس پر صبر کرو۔
سائیکاٹرسٹ سے ملیں اور یہ سب بتائیں یہ نفسیاتی مسائل ہیں ۔
کیا ہوا؟ ارے بھئی نفسیاتی مسائل کا حل نفسیاتی ڈاکٹر ہے کرے گا اور کون کر سکتا ہے
نہیں بیٹا انکی طرح تو بلکل بھی مت سوچیئے گا ۔۔۔کسی اور کی طرف رجوع فرمایئے شاید آپکا بھلا ہو جائےارے بیٹا۔۔۔ یہ نجومیوں کی طرح سوچنا بند کرو کہ کچھ ہونے والا ہے۔۔۔ ہماری طرح سب اچھا سوچا کرو
محترم مقدس بٹیاآج کتنے دنوں بعد دل کر رہا ہے۔۔۔ کہ کچھ لکھوں۔۔۔ پر سمجھ نہیں آرہا۔۔ کیا لکھوں۔۔۔ ۔۔ لفظوں سے دوستی ختم ہوتی جا رہی ہے ۔۔اور یہ مجھ سے روٹھتے جا رہے ہیں شاید۔۔۔ ۔ کتنا مشکل ہوتا ہے ناں۔۔ جب ہم جانتے ہیں کہ ہمیں کچھ کہنا ہے۔۔۔ لیکن کہنے کے لیے الفاظ ملنا مشکل لگتا ہے۔۔ وہ الفاظ جو سچ میں ہمارے اندر کی فیلنگز کو نکال کر باہر لے آئیں اور ہم کہہ سکیں کہ واقعی یہ تو ہم کہنا چاہ رہے تھے۔
پچھلے کچھ دنوں سے میرے اندر ایک عجیب سی بےچینی ہے۔۔۔ کوئی سکون نہیں ہے۔۔ کچھ اچھا نہیں لگ رہا۔۔ ایسا لگتا ہے کہ بہت کچھ غلط ہونے والا ہے۔۔ بہت کچھ چھننے والا ہے مجھ سے۔۔ اپنے اندر کے اس خوف کو چھپانے کے لیے میں بلاسبب ہنستی ہوں، ڈھیروں باتیں کرتی ہوں۔۔۔ قہقے لگاتی ہوں۔۔ الٹی سیدھی باتیں کر کے دوسروں کو ہنساتی ہوں۔۔۔ لیکن ۔۔۔ لیکن جب چپ ہوتی ہوں تو یہ خوف دوبارہ سے امڈ آتا ہے۔۔ باہر آوازوں کا ایک ڈھیر ہے اور میرے اندر ایک گہری خاموشی۔۔۔ ایک ایسی خاموشی جس میں ایک طوفان چھپا ہے۔۔ مجھے ڈر لگ رہا ہے۔۔ چھپنا چاہتی ہوں کہیں پر۔۔ لیکن ۔۔
مجھے بہت سارا رونا ہے۔۔ تاکہ آنسوؤں کے ساتھ اندر کا سارا ڈر سارا خوف آنکھوں کے رستے بہہ جائے اور میں ایک بار پھر سے پرسکون ہو جاوں ۔۔۔ لیکن ۔۔۔ یہ آنسو کبھی تو بلا سبب بہنا شروع ہو جاتے ہیں۔۔ اور ابھی میرے چاہنے کے باوجود۔۔ میں رو نہیں پا رہی۔۔ وقت پڑنے پر یہ بھی ساتھ چھوڑ گئے۔۔۔ باہر نکلنے کے بجائے ۔۔ کہیں اندر گرنا شروع کر دیا انہوں نے۔۔۔
ابھی امی کی آواز آ رہی ہے مجھے۔۔ اوو۔۔ میں جلدی سے آنکھیں بند کر لوں۔۔ تاکہ انہیں لگیں کہ میں سو رہی ہوں۔۔۔
مقدس! بیٹا ابھی تک سو رہی ہو آپ۔۔ اٹھ جاؤ اب!
مقدس!
امی واپس جا رہی ہیں شاید۔۔ ان کے قدموں کی آواز دور ہوتی جا رہی ہے۔۔ اور۔۔۔ میں ایک بار پھر سے اپنی سوچوں میں گم۔
آج کل میرا دل نہیں کر رہا کسی سے بولنے کا۔۔ اپنی آواز بہت بری لگنے لگی ہے مجھے۔۔ بہت ڈراونی۔۔ خوف آتا ہے مجھے خود سے۔ اپنی آواز سے۔۔۔ ۔۔ لیکن ۔۔۔ ۔۔ میں اب بدل گئی ہوں۔۔۔ سر سے پیر تک۔۔۔ اپنے چہرے پر ماسک چڑھا لیا میں نے بھی۔۔ ایک چہرے کے پیچھے ایک اور چہرہ۔۔ اس کے پیچھے ایک اور۔۔ اور پھر ایک اور۔۔۔ ۔۔۔ مجھے اس نئے چہرے سے ڈر لگتا ہے۔۔
اس کی ہنسی سے مجھے عجیب سے وحشت چھلکتی نظر آتی ہے۔۔ ایک بےبسی کا احساس۔۔۔ کچھ نہ کر پانے کی کیفیت۔۔۔
پتا نہیں۔۔ میں لکھنا کیا چاہ رہی تھی اور لکھ کیا دیا۔۔ دیکھیں ناں ۔۔ آج الفاظ بھی دھوکہ دے گئے مجھے۔۔