ماننا پڑے گا کہ ایک بہت بڑا اور چارج اجتماع تھا، شرکاء کی تعداد لاکھوں میں تھی۔ جلسہ گاہ اور اسکے ساتھ منسلک سڑک عوام سے مکمل طور پر بھری ہوئی تھی جب کہ مزید قافلوں کی آمد کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ کئی ہزار جیالے مزار قائد کے سبزازار میں سستا بھی رہے تھے۔
نوے فیصد لوگ اندرون سندھ کے دیہاتی تھے باقی ملیر، لیاری اور گڈاب کے بلوچ، پٹھان اور سندھی تھے جنکی غالب اکثریت ناخواندہ اور غریب معلوم ہورہی تھی۔ شہر کے مضافات میں آباد عیسائیوں کی بھی بڑی تعداد نظر آرہی تھی جو صلیب سمیت آئے ہوئے تھے۔ کراچی کے اردو بولنے والی مڈل کلاس (جو شہر میں اکثریت رکھتی ہے) اور کراچی کے برگرز (ڈیفنس، کلفٹن، سوسائٹی اور گلشن کے لوگ) کہیں بھی نظر نہ آئے۔
جلسے میں پیپلزپارٹی کے روایتی نعروں کے علاوہ کچھ جیالے "رو عمران رو" اور "گو نواز گو" کے نعرے بھی لگارہے تھے۔ ہیلی کاپٹر پر بلاور بھٹو نے گراونڈ کا چکر لگایا تو شرکاء کے جذبات دیدنی تھے۔ دوسری طرف اندرون سندھ سے آئے ہوئے ہزاروں دیہاتی مزار قائد کے سبزازار میں سستا رہے تھے جن میں سے سینکڑوں سبزازار میں لگے فواروں کو سوئمنگ پول سمجھ کر اس میں نہا بھی رہے تھے۔
سیکورٹی کے انتظامات انتہائی اعلی اور فل پروف تھے، اجتماع میں داخل ہونے کے لئے سیکورٹی کے تین حصار سے گزرنا پڑا، دو پولیس کے اور ایک پیپلزپارٹی کے زمہ داروں کا۔ ساونڈ سسٹم پورے مجمع کو کور نہیں کرسکا اور مجمع کے آخری حصے میں آواز نہیں پہنچ رہی تھی۔ مجموعی طور پر انتظامات اچھے تھے لیکن پیپلزپارٹی کا DJ ابھی تحریک انصاف کے DJ سے بہت پیچھے ہے۔
حال ہی میں ہوئے تحریک انصاف کے جلسے اور پیپلزپارٹی کے جلسے کا تقابل کیا جائے تو اس حوالے سے تحریک انصاف کا جلسہ بہتر تھا کہ وہ مختصر نوٹس پر ہوا، اس میں کراچی کے پڑھے لکھے لوگ بڑی تعدار میں تھے اور اس میں کوئی سرکاری اثر و رسوخ بھی استعمال نہ کیا گیا تھا لیکن تعداد کے اعتبار سے اس جلسے میں لوگ زیادہ تھے۔ اگر اس جلسے کا تقابل 18 اکتوبر 2007 سے کیا جائے تو یہ جلسہ اسکا عشراشیر بھی نہیں ہے اور اگر اسکا مقابلہ مولانا فضل الرحمان کے 2012 میں ہوئے "اسلام زنداباد جلسہ" اور ایم کیو ایم کے "خواتین اجتماع" سے کیا جائے تو یہ جلسہ اسکا آدھا بھی نہ تھا لیکن ان سب کے باوجود تعداد کے اعتبار سے یہ جلسہ پھر بھی شہر کے دس بڑے سیاسی جلسوں میں شمار کیا جاسکتا ہے۔
#PPPJalsa
بلاگر کاشف نصیر کا تجزیہ