عرفان سعید
محفلین
"بابا! کیا ہم ایک بار مائینز (Mainz) دیکھنے جا سکتے ہیں؟" حسن نے بہت معصومیت سے ناشتے کی میز پر مجھ سے ایک روز سوال کیا۔
"کیوں بیٹا؟" میں نے بڑی ملائمت سے پوچھا۔
"بابا ! میں وہاں پیدا ہوا تھا۔ اس کے ایک سال چار ماہ بعد آپ اپنی جاب کے لیے فن لینڈ آ گئے تھے۔ میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ میں جس شہر میں پیدا ہوا، وہ کیسا ہے؟ سات سال ہو گئے، ہم دوبارہ جرمنی کبھی نہیں گئے" حسن نے حسبِ عادت اپنے دلائل کو جاری رکھا۔
"ٹھیک ہے، ابھی تو فروری ہے، کافی سردی ہے۔ گرمیوں کا موسم آتا ہے اور آپ کو سکول سے چھٹیاں ہوتیں ہیں تو کچھ کرتے ہیں" میں نے بات کو ٹالنے کی کوشش کی۔
چار پانچ مہینے پہلے ہونے والی یہ گفتگو شاید طاقِ نسیاں میں رکھ دی جاتی، لیکن امسال مئی میں مجھے معلوم ہوا کہ کچھ دفتری امور کے سلسلے میں مجھے جولائی میں بلجیم کے دارالحکومت برسلز جانا ہو گا۔ جیسے ہی یہ معلوم ہوا ذہن کے کسی گوشے میں لختِ جگر کی جرمنی جانے کی خواہش کی بازگشت سنائی دینے لگی۔جولائی میں فن لینڈ میں سکول میں ویسے ہی تعطیلات ہوتی ہیں۔ اس سنہری موقع کو بھانپ کر میں نے فوری طور پر یہ پلان ترتیب دیا کہ میں جیسے ہی دفتری امور سے فارغ ہوں، میری فیملی مجھے برسلز میں آملے۔ برسلز کی سیر کے بعد جرمنی روانہ ہو جائیں گے۔وہاں دوسرے بہت سے سیاحتی مقامات دیکھنے کے ساتھ ساتھ حسن کو اس کی جائے پیدائش مائینز کی سیر بھی کروا دی جائے۔
میں نے فورا یہ پلان بیگم کے گوش گزار کیا۔ ان دنوں بیگم بھی اپنے فنش زبان کے کورس میں کافی مصروف تھیں۔ خلافِ توقع بہت زیادہ جرح کیے بغیر، ایک ترمیم کے ساتھ میری تجویز کو منظوری مل گئی۔ طے یہ پایا کہ فیملی میرے ساتھ ہی برسلز جائے گی۔ جب تک میں دفتری کاموں میں مصروف رہوں گا، باقی فیملی ان دنوں میں اپنے طور پر کچھ سیر سپاٹا کریں گے۔ مجھے مکمل فراغت میسر آجانے کے بعد سب لوگ مل کر سیر سپاٹے کے لیے نکل کھڑے ہوں گے۔ بقول بیگم ہم نے تمہارے دفتر چڑھائی نہیں کر دینی، اس لیے ساتھ ہی جائیں گے۔ میں نے بیگم کی تیز و تند جرح کیے بغیر منظوری کو نعمتِ غیر مترقبہ جانتے ہوئے ان کو احکامات مکمل طور پر بجا لانے کی یقین دہانی کروائی۔ جوابا ہمیں گرین سگنل مل گیا اور ٹرپ کی پلاننگ کے لیے فری ہینڈ دے دیا گیا، جس کی وجہ بیگم کی شدید مصروفیت کے باعث ذہنی فراغت کی عدم دستیابی تھی۔
میں نے فورا نقشہ کھولا اور مجھے مناسب لگا کہ ہم برسلز جائیں، کچھ دن رکنے کے بعد، جرمنی کے شہر کولون میں قیام کریں۔ کولون سے حسن کی جائے پیدائش مائینز جاتے ہوئے بون کو دیکھ لیا جائے۔مائینز میں کچھ دن رکا جائے، اپناسات سال پرانا مسکن اور برخوردار کی پیدائش کا شہر دیکھنے کے ساتھ ساتھ، مائینز کے گردو نواح کے شہروں کی بھی سیر کر لی جائے۔ یہاں سے جرمنی کے جنوب میں سفر کرتے ہوئے بلیک فارسٹ کے علاقے میں کچھ دن قیام کیا جائے۔
بیگم نے فری ہینڈ تو دیا ہوا تھا، لیکن میں نے حفظِ ماتقدم کے طور پر ایک اجمالی خاکہ بیگم کے سامنے رکھ دیا، جس پر انہوں نے یہ کہتے ہوئے زیادہ توجہ نہ دی کہ جیسے مناسب لگے ویسے کریں۔ تھوڑی سوچ بچار کے بعد میں نے ہوٹل اور ٹکٹوں کی بکنگ کرنا شروع کر دی۔ کولون کی سیر کے بعد باقی کے ٹرپ میں جرمنی میں کافی سفر بن رہا تھا۔ اس لیے میں نے رینٹل کار بھی بک کر لی۔ ایک اجمالی خاکہ تو واضح ہو چکا تھا لیکن کن کن مقامات کو دیکھنا ہے؟ کہاں کہاں جانا ہے؟ تاریخ کے کن دریچوں میں جھانکنا ہے؟ اپنی جمالیاتی احساس کی تسکین کے لیے کیا اقدامات کرنے ہیں؟ ان سب سوالات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے ، یہ سوچا کہ جیسے ہی فراغت میسر آتی ہے، یہ تحقیق و تلاش کر لیں گے۔
"کیوں بیٹا؟" میں نے بڑی ملائمت سے پوچھا۔
"بابا ! میں وہاں پیدا ہوا تھا۔ اس کے ایک سال چار ماہ بعد آپ اپنی جاب کے لیے فن لینڈ آ گئے تھے۔ میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ میں جس شہر میں پیدا ہوا، وہ کیسا ہے؟ سات سال ہو گئے، ہم دوبارہ جرمنی کبھی نہیں گئے" حسن نے حسبِ عادت اپنے دلائل کو جاری رکھا۔
"ٹھیک ہے، ابھی تو فروری ہے، کافی سردی ہے۔ گرمیوں کا موسم آتا ہے اور آپ کو سکول سے چھٹیاں ہوتیں ہیں تو کچھ کرتے ہیں" میں نے بات کو ٹالنے کی کوشش کی۔
چار پانچ مہینے پہلے ہونے والی یہ گفتگو شاید طاقِ نسیاں میں رکھ دی جاتی، لیکن امسال مئی میں مجھے معلوم ہوا کہ کچھ دفتری امور کے سلسلے میں مجھے جولائی میں بلجیم کے دارالحکومت برسلز جانا ہو گا۔ جیسے ہی یہ معلوم ہوا ذہن کے کسی گوشے میں لختِ جگر کی جرمنی جانے کی خواہش کی بازگشت سنائی دینے لگی۔جولائی میں فن لینڈ میں سکول میں ویسے ہی تعطیلات ہوتی ہیں۔ اس سنہری موقع کو بھانپ کر میں نے فوری طور پر یہ پلان ترتیب دیا کہ میں جیسے ہی دفتری امور سے فارغ ہوں، میری فیملی مجھے برسلز میں آملے۔ برسلز کی سیر کے بعد جرمنی روانہ ہو جائیں گے۔وہاں دوسرے بہت سے سیاحتی مقامات دیکھنے کے ساتھ ساتھ حسن کو اس کی جائے پیدائش مائینز کی سیر بھی کروا دی جائے۔
میں نے فورا یہ پلان بیگم کے گوش گزار کیا۔ ان دنوں بیگم بھی اپنے فنش زبان کے کورس میں کافی مصروف تھیں۔ خلافِ توقع بہت زیادہ جرح کیے بغیر، ایک ترمیم کے ساتھ میری تجویز کو منظوری مل گئی۔ طے یہ پایا کہ فیملی میرے ساتھ ہی برسلز جائے گی۔ جب تک میں دفتری کاموں میں مصروف رہوں گا، باقی فیملی ان دنوں میں اپنے طور پر کچھ سیر سپاٹا کریں گے۔ مجھے مکمل فراغت میسر آجانے کے بعد سب لوگ مل کر سیر سپاٹے کے لیے نکل کھڑے ہوں گے۔ بقول بیگم ہم نے تمہارے دفتر چڑھائی نہیں کر دینی، اس لیے ساتھ ہی جائیں گے۔ میں نے بیگم کی تیز و تند جرح کیے بغیر منظوری کو نعمتِ غیر مترقبہ جانتے ہوئے ان کو احکامات مکمل طور پر بجا لانے کی یقین دہانی کروائی۔ جوابا ہمیں گرین سگنل مل گیا اور ٹرپ کی پلاننگ کے لیے فری ہینڈ دے دیا گیا، جس کی وجہ بیگم کی شدید مصروفیت کے باعث ذہنی فراغت کی عدم دستیابی تھی۔
میں نے فورا نقشہ کھولا اور مجھے مناسب لگا کہ ہم برسلز جائیں، کچھ دن رکنے کے بعد، جرمنی کے شہر کولون میں قیام کریں۔ کولون سے حسن کی جائے پیدائش مائینز جاتے ہوئے بون کو دیکھ لیا جائے۔مائینز میں کچھ دن رکا جائے، اپناسات سال پرانا مسکن اور برخوردار کی پیدائش کا شہر دیکھنے کے ساتھ ساتھ، مائینز کے گردو نواح کے شہروں کی بھی سیر کر لی جائے۔ یہاں سے جرمنی کے جنوب میں سفر کرتے ہوئے بلیک فارسٹ کے علاقے میں کچھ دن قیام کیا جائے۔
بیگم نے فری ہینڈ تو دیا ہوا تھا، لیکن میں نے حفظِ ماتقدم کے طور پر ایک اجمالی خاکہ بیگم کے سامنے رکھ دیا، جس پر انہوں نے یہ کہتے ہوئے زیادہ توجہ نہ دی کہ جیسے مناسب لگے ویسے کریں۔ تھوڑی سوچ بچار کے بعد میں نے ہوٹل اور ٹکٹوں کی بکنگ کرنا شروع کر دی۔ کولون کی سیر کے بعد باقی کے ٹرپ میں جرمنی میں کافی سفر بن رہا تھا۔ اس لیے میں نے رینٹل کار بھی بک کر لی۔ ایک اجمالی خاکہ تو واضح ہو چکا تھا لیکن کن کن مقامات کو دیکھنا ہے؟ کہاں کہاں جانا ہے؟ تاریخ کے کن دریچوں میں جھانکنا ہے؟ اپنی جمالیاتی احساس کی تسکین کے لیے کیا اقدامات کرنے ہیں؟ ان سب سوالات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے ، یہ سوچا کہ جیسے ہی فراغت میسر آتی ہے، یہ تحقیق و تلاش کر لیں گے۔
آخری تدوین: