عرفان سعید
محفلین
کافی بھوک لگ رہی تھی۔ ہوٹل میں سامان رکھ کر فورا کھانا کھانے چلے گئے۔ کھانے سے جب ہوٹل واپسی ہوئی تو تھکاوٹ سے برا حال تھا۔ بچے کچھ ہی دیر میں شور شرابہ کرنے کے بعد سو گئے۔ ہماری بھی کچھ دیر میں آنکھ لگ گئی۔ آنکھ کھلی تو شام کے سات بج رہے تھے۔ بچے ابھی تک خوابِ خرگوش کے مزے لے رہے تھے۔ میں بیوی بچوں کی نیند میں خلل ڈالے بغیر،بیگم کے موبائل پر ایک پیغام چھوڑ کر، ہوٹل سے باہر آگیا۔ برسلز کا بہت بڑا اسٹیشن ہوٹل کے سامنے ہی تھا۔ میں شام کے کھانے کا بندوبست کرنے اسٹیشن کی دوکانوں میں جا گھسا۔ شام کا کھانا لیکر جب واپس آیا تو بیگم جاگ چکی تھیں اور بچے ابھی تک سو رہے تھے۔ رات نو بجے تک سب بیدار ہو چکے تھے۔ اس لمبی نیند کے نتیجے میں سب تازہ دم محسوس کررہے تھے۔کھانے سے فارغ ہو کر بیگم نے برسلز کے تاریخی مقامات کو گھنگالنے کا مورچہ سنبھال لیا۔ بچے اب بہت فریش تھے اور کھانا کھا کر توانائی سے بھرپور تھے۔ انہوں نے بیڈ پر چھلانگیں لگانا شروع کر دیں۔ میں اپنے آفس کا کچھ کام دیکھنے کے ساتھ ساتھ بچوں کو کم شور کرنے کی نصیحت کرتا رہا۔
تین گھنٹے بعد جب سب دوبارہ سونے کے لیے تیار تھے تو بیگم اپنی مقاماتِ سیاحت کی تحقیق سے بہت مطمئن تھیں۔ صبح کی سیر و سیاحت کی باتیں کرتے ہوئے ہم سب سو گئے۔
تین گھنٹے بعد جب سب دوبارہ سونے کے لیے تیار تھے تو بیگم اپنی مقاماتِ سیاحت کی تحقیق سے بہت مطمئن تھیں۔ صبح کی سیر و سیاحت کی باتیں کرتے ہوئے ہم سب سو گئے۔