بلوچستان جل رہا ہے

کسی بھی ايشو کے حوالے سے جذبات کا اظہار اور اپنی حتمی رائے قائم کرنے سے پہلے يہ ضروری ہے کہ آپ حقائق کی جانچ پڑتال کر ليں۔ آپ پوری امريکی حکومت کو ہدف تنقيد بنا رہے ہيں اور امريکی کانگريس کے ايک رکن کے ديے گئے بيان کو پوری امريکی حکومت کی سرکاری پاليسی سے تعبير کر رہے ہيں جو کہ غير منطقی اور غير دانشمندانہ ہے۔ يقينی طور پر پاکستان کی قومی اسمبلی کے تمام ارکان سے يہ توقع نہيں کی جا سکتی کہ ان کے تمام بيانات ہميشہ حکومت پاکستان کی پاليسيوں کے عين مطابق ہوں۔

اسی عالمی جمہوری اصول کا اطلاق امريکہ پر بھی ہوتا ہے۔

فواد صاحب۔

تمام قوانین کا مثبت اطلاق امریکہ پر ہوتا ہے جبکہ منفی اطلاق باقی ممالک پر

کیا یہ بھی آپ کو ہم ہی یاد دلائیں کہ ایک آدمی (آپ ہی کی زبان کے مطابق "نٹ کیس") کی حرکت پر آپ کی وزیر داخلہ (جو کہ صدر کے بعد دوسرا اہم عہدہ ہوتا ہے) نے کیا کہا تھا ۔انہوں نے ایک شخص کی زلالت کی سزا پورے پاکستان کو دینے کی بات کی تھی۔اور رعونت سے کہا تھا کہ اپنے بندوں پر نظر رکھو۔
پاکستان میں 20 کڑوڑ افراد بستے ہیں۔کیا کسی بہترین ترین حکومت کے لیے بھی یہ ممکن ہے کہ وہ سب پر نظر رکھ سکے کجا یہ کہ پاکستانی حکومت۔
وہ فیصل شہزاد" یا اس جیسے کسی اور پاگل کے گناہوں کی سزا پوری پاکستانی قوم کو دینے کی بات کر رہی تھیں۔
وہ شخص جو اتنے سالوں سے آپ کے ملک میں رہ رہا تھا چند دنوں کے لیے پاکستان آیا اور اس کے تمام گناہ ہمارے ذمہ لگ گئے۔
آپ کے فوجی بے گناہ سولینز کو مار دیں اور اس پر کہا جائے کہ "ان کی تو پرسنل لائف خراب تھی"اور ایسا کہہ کے اسے چند مہینوں کی سزا دی جائے۔
یہی بات ہمارے لیے کبھی بھی نہیں کہی جائے گی۔
مسز کلنٹن کے الفاظ:
"We've made it very clear that if - heaven-forbid - an attack like this that we can trace back to Pakistan were to have been successful, there would be very severe consequences,"
 

شمشاد

لائبریرین
محسن بھائی جو چاہے اُن کا حسن کرشمہ ساز کرے۔

دوسرے کریں تو گناہگار، خود کریں تو کار ثواب
 

زرقا مفتی

محفلین
UNREPRESENTED NATIONS AND PEOPLES ORGANIZATION
ایک این جی او ہے جو دُنیا بھر کے علیحدگی پسندوں کو راہنمائی اور مدد فراہم کرتی ہے اس کے کچھ پُرانے ارکان آرمینیا، مشرقی تیمور، ایسٹونیا، لٹویا، جورجیا اور پالاؤ آزاد ملک بن چکے ہیں۔ اس کے موجودہ ارکان کی فہرست درج ذیل ربط پر ملاحظہ کیجیے
http://www.unpo.org/members.php

مقام فکر ہے کہ کیا ہمارے سیاسی اکابرین اور حکومت علیحدگی پسند تحریکوں سے نمٹنے کے لئے مناسب اقدامات کر رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم سیاسی بونوں کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے ہیں جنہیں نہ تو صورتحال کی سنگینی کا احساس ہے اور نہ ہی اس سے عہدہ برا ہونے کے لئے کوئی لائحہ عمل
 

زرقا مفتی

محفلین
col2.gif
 

Fawad -

محفلین
فواد صاحب۔

تمام قوانین کا مثبت اطلاق امریکہ پر ہوتا ہے جبکہ منفی اطلاق باقی ممالک پر

کیا یہ بھی آپ کو ہم ہی یاد دلائیں کہ ایک آدمی (آپ ہی کی زبان کے مطابق "نٹ کیس") کی حرکت پر آپ کی وزیر داخلہ (جو کہ صدر کے بعد دوسرا اہم عہدہ ہوتا ہے) نے کیا کہا تھا ۔انہوں نے ایک شخص کی زلالت کی سزا پورے پاکستان کو دینے کی بات کی تھی۔اور رعونت سے کہا تھا کہ اپنے بندوں پر نظر رکھو۔
پاکستان میں 20 کڑوڑ افراد بستے ہیں۔کیا کسی بہترین ترین حکومت کے لیے بھی یہ ممکن ہے کہ وہ سب پر نظر رکھ سکے کجا یہ کہ پاکستانی حکومت۔
وہ فیصل شہزاد" یا اس جیسے کسی اور پاگل کے گناہوں کی سزا پوری پاکستانی قوم کو دینے کی بات کر رہی تھیں۔
وہ شخص جو اتنے سالوں سے آپ کے ملک میں رہ رہا تھا چند دنوں کے لیے پاکستان آیا اور اس کے تمام گناہ ہمارے ذمہ لگ گئے۔
آپ کے فوجی بے گناہ سولینز کو مار دیں اور اس پر کہا جائے کہ "ان کی تو پرسنل لائف خراب تھی"اور ایسا کہہ کے اسے چند مہینوں کی سزا دی جائے۔
یہی بات ہمارے لیے کبھی بھی نہیں کہی جائے گی۔
مسز کلنٹن کے الفاظ:
"We've made it very clear that if - heaven-forbid - an attack like this that we can trace back to Pakistan were to have been successful, there would be very severe consequences,"


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

جہاں تک سابق وزير خارجہ ہيلری کلنٹن کے بيان کا تعلق ہے تو يہ واضح رہے کہ وہ ايک مفروضے کی بنياد پر ايک ممکنہ صورت حال کے تناظر ميں کيے گئے سوال کا جواب دے رہی تھيں۔ يقينی طور پر امريکہ کے خلاف دہشت گردی کی صورت ميں امريکی حکومت کی جانب سے ردعمل آئے گا۔

دنيا کا کوئ بھی ملک يا حکومت يہ موقف اختيار نہيں کر سکتی کہ دہشت گردی کے حملے کی صورت ميں کوئ کاروائ نہيں کی جائے گي اور اس ملک کے شہريوں کو درپيش خطرات کو نظرانداز کر ديا جائے گا۔ کسی بھی ملک کی طرح امريکی حکومت کے اہم سفارتی عہديدار کو بھی يہ حق حاصل ہے کہ وہ يہ واضح کرے کہ دہشت گردی کی کسی کامياب کوشش کے واقعے کو سنجيدگی سے ليا جائے گا اور اس پر شديد ردعمل کا اظہار کيا جائے گا۔ اس ضمن ميں ہميشہ کی طرح ہم دنيا بھر ميں اپنے پارٹنرز سے تعاون چاہيں گے تا کہ نا صرف اس واقعے کے حوالے سے بلکہ دیگر موجود خطرات کا بھی سدباب کيا جا سکے۔

امريکی حکومت نے يہ بھی واضح کيا ہے کہ اس خطے کے اندر دہشت گردی کے حوالے سے سب سے زيادہ نقصان پاکستان نے اٹھايا ہے۔ يہ ايک مشترکہ دشمن کی جانب سے ايسا خطرہ ہے جو سب کے ليے يکساں ہے۔

سيکرٹری کلنٹن نے حکومت پاکستان يا پاکستان کی عوام کو مورد الزام نہيں ٹھہرايا۔ بلکہ انھوں نے يہ واضح کيا کہ دہشت گردی کے جس خطرے کا ہميں سامنا ہے، پاکستان اس کے خلاف موثر اقدامات کر رہا ہے۔ اس ضمن ميں انھوں نے سوات اور وزيرستان ميں جاری آپريشنز کی مثال بھی دی تھی۔

ريکارڈ کی درستگی کے ليے واضح کر دوں کہ امريکہ کو مطلوب القائدہ کے اہم ترين ليڈر ايک امريکی شہری ايڈم پرلمين ہيں جو "عزام دا امريکن" کے نام سے بھی جانے جاتے ہيں۔ يہ ايک طے شدہ حقيقت ہے کہ وہ افغانستان ميں القائدہ تنظيم کے ساتھ کام کر رہے ہيں۔ امريکی حکومت ان کی امريکی شہريت سے قطع نظر ان کی گرفتاری اور ان کو قانون کے کٹہرے ميں لانے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔

دہشت گردی کے ضمن ميں کيے جانے والے جرم اور تفتيشی عمل کا مجرم کی شہريت اور مذہب سے کوئ تعلق نہيں ہے۔ امريکی حکومت کی توجہ اور تمام تر کوششوں کا مرکز ان افراد کی گرفتاری اور دہشت گردی کے ان اڈوں کا قلع قمع کرنا ہے جہاں اس سوچ کی ترويج وتشہير کی جاتی ہے کہ دانستہ بے گناہ افراد کی ہلاکت جائز ہے۔

يہ درست ہے کہ 911 کے واقعات ميں ملوث افراد افغان شہری نہيں تھے۔ ليکن يہ بھی ايک ناقابل ترديد حقيقت ہے کہ جن افراد نے دہشت گردی کے اس واقعے ميں حصہ ليا تھا ان کی تربيت افغانستان ميں موجود القائدہ کے ٹرينيگ کيمپس ميں کی گئ تھی۔ افغانستان کے خلاف فوجی کاروائ کا فيصلہ اسی وقت کيا گيا تھا جب اس وقت کی طالبان حکومت نے ان دہشت گردوں کے خلاف کاروائ کرنے سے انکار کر ديا تھا۔

ميں يہ بھی ياد دلا دوں کہ پاکستان ميں بھی 5 امريکی شہريوں کو دہشت گردی کے جرم ميں سزا دی گئ تھی۔ اس ضمن ميں بھی امريکی حکومت نے پاکستان کے تفتيشی اداروں اور عہديداروں کو ہر ممکن تعاون اور سپورٹ فراہم کيا۔

http://www.nytimes.com/2010/06/25/world/asia/25pstan.html?_r=0

اس ايشو کے حوالے سے امريکی حکومت کی پاليسی بالکل واضح ہے۔ ہر وہ شخص جس کے دہشت گرد گروپوں کے ساتھ تعلقات ہيں، انھيں انصاف کے کٹہرے ميں لايا جانا چاہيے۔ جب کسی کے اوپر جرم ثابت ہو جائے تو پھر اس کی شہريت، مذہبی وابستگی اور سياسی نظريات کا اس کے جرائم اور اس کی سزا سے کوئ تعلق نہيں رہ جاتا۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
http://s22.postimage.org/p40ynp7mp/Mien_kis_key_hath_pey.jpg
 

شمشاد

لائبریرین
جو بھی مجرم ہے اسے عدالت کے کٹہرے میں لایا جانا چاہیے، یہ آپ کی حکومت کی پالیسی ہے۔

میں نے بہت دفعہ آپ سے ایک سوال پوچھا لیکن آپ ہر دفعہ یا تو چُپ سادھ گئے یا پھر بات گول کر گئے۔ پھر سے اپنا سوال دھراتا ہوں۔

ریمنڈ ڈیوس والے کیس میں آپ کے صدر صاحب تک یہ نوبت آ گئی تھی کہ انہیں جھوٹ بولنا پڑا کہ اسے سفارتی استثنیٰ حاصل ہے۔ اور آپ اسے کسی بھی طرح چھڑا کر پاکستان سے لے گئے۔ اسی واقعے میں ایک اور امریکی پاکستانی ٹریفک کے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سڑک کے مخالف سمت سے گاڑی چلاتے ہوئے آیا۔ اور ایک راہگیر کو کُچل کر ریمنڈ ڈیوس تک پہنچ کر اس سے کچھ مواد لیکر رفوچکر ہو گیا۔ پاکستانی پولیس نے کئی دفعہ اس بات کا مطالبہ کیا کہ اس فرد اور اس گاڑی کو حوالے کیا جائے۔ آپ کی حکومت یا سفارتخانے نے ایسا نہیں کیا۔ جو کہ ایک ہٹ دھرمی اور دوسرے ملک میں امریکہ کی کھلی بدمعاشی ہے۔ اس پر آپ کیا کہیں گے۔

مجھے معلوم ہے آپ پھر سے یا تو اس بات کا جواب ہی نہیں دیں گے یا پھر گول مول بات کریں گے۔
 

Fawad -

محفلین
جو بھی مجرم ہے اسے عدالت کے کٹہرے میں لایا جانا چاہیے، یہ آپ کی حکومت کی پالیسی ہے۔

میں نے بہت دفعہ آپ سے ایک سوال پوچھا لیکن آپ ہر دفعہ یا تو چُپ سادھ گئے یا پھر بات گول کر گئے۔ پھر سے اپنا سوال دھراتا ہوں۔

ریمنڈ ڈیوس والے کیس میں آپ کے صدر صاحب تک یہ نوبت آ گئی تھی کہ انہیں جھوٹ بولنا پڑا کہ اسے سفارتی استثنیٰ حاصل ہے۔ اور آپ اسے کسی بھی طرح چھڑا کر پاکستان سے لے گئے۔ اسی واقعے میں ایک اور امریکی پاکستانی ٹریفک کے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سڑک کے مخالف سمت سے گاڑی چلاتے ہوئے آیا۔ اور ایک راہگیر کو کُچل کر ریمنڈ ڈیوس تک پہنچ کر اس سے کچھ مواد لیکر رفوچکر ہو گیا۔ پاکستانی پولیس نے کئی دفعہ اس بات کا مطالبہ کیا کہ اس فرد اور اس گاڑی کو حوالے کیا جائے۔ آپ کی حکومت یا سفارتخانے نے ایسا نہیں کیا۔ جو کہ ایک ہٹ دھرمی اور دوسرے ملک میں امریکہ کی کھلی بدمعاشی ہے۔ اس پر آپ کیا کہیں گے۔

مجھے معلوم ہے آپ پھر سے یا تو اس بات کا جواب ہی نہیں دیں گے یا پھر گول مول بات کریں گے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

ميں نے اس سوال سے فرار کی کوشش نہيں کی ہے۔ اس ميں کوئ شک نہیں کہ ميں نے اس کيس کے حوالے سے جو امريکی موقف اور تسلسل کے ساتھ نقطہ نظر فورمز پر پيش کيا ہے وہ آپ کی سوچ، نقطہ نظر اور اس کيس سے متعلق مخصوص سوالات کے مخالف ہے۔

جيسا کہ ميں نے پہلے بھی واضح کيا تھا کہ ہم 27 جنوری 2011 کو پيش آنے والے تمام واقعات کے اس سلسلے کو ايک ہی پيرائے ميں ديکھتے ہیں جو مقامی عدالتوں، ٹريفک پوليس اور مقامی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی دسترس سے باہر ہے۔

آپ ميڈيا رپورٹس اور قياس آرائيوں کے بنياد پر جو سوال اٹھا رہے ہیں وہ ايک عام عدالتی کيس کے پیمانے کے مطابق تو درست ہے جس ميں تمام فريقين کو اس بات کے يکساں مواقع ملتے ہيں کہ وہ اپنا کيس پيش کريں اور پھر شواہد کی بنياد پر جج يہ حتمی فيصلہ کرتا ہے کہ آيا کسی مخصوص واقعے کو ايسا حادثہ قرار ديا جا سکتا ہے جس سے بچاؤ ممکن نہيں تھا يا پھر اسے مجرمانہ غفلت گردانا جائے۔

ميں نے بارہا يہ کہا ہے کہ سفارتی حيثيت سے متعلق رائج عالمی قوانين اور ضوابط بالکل واضح ہيں اور امريکہ سميت دنيا بھر میں کام کرنے والے غیر ملکی سفارت کاروں کو تحفظ مہيا کرتے ہیں۔

دنيا بھر کے مختلف ممالک ميں ايسی درجنوں مثاليں موجود ہیں جہاں سفارت کاروں کی جانب سے ٹريفک قوانين اور ديگر واقعات کے نتيجے ميں کوئ کاروائ نہیں کی جا سکی کيونکہ انھيں سفارتی استثنی حاصل تھی۔

يہاں ميں يہ بھی واضح کر دوں کہ ميزبان ملک کو يہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ سفارتی استثنی کے باوجود کسی بھی غیر ملکی شخص کو ناپسنديدہ قرار دے کر ملک بدر کر دے۔

حتمی تجزيے ميں ريمنڈ ڈيوس کو نہ تو پاکستان سے فرار کروايا گيا تھا اور نہ ہی زبردستی پاکستان سے چھينا گيا۔ انھيں پاکستانی حکام کی جانب سے اسلامی ديت کے قوانين کے تحت باقاعدہ رہا گيا تھا اور اس سارے معاملے ميں ان افراد کے اہل خانہ شامل تھے جو اس حادثے ميں ہلاک ہوئے۔ آپ جو سوالات اٹھا رہے ہيں ان کا رخ پاکستان کے متعلقہ حکام کی جانب ہونا چاہيے کيونکہ ہمارا سرکاری موقف کہ وہ ايک سفارت کار تھا، اس طريقہ کار ميں يکسر نظرانداز کر ديا گيا تھا جس کے تحت حکومت پاکستان کی جانب سے رہائ کا عمل مکمل کيا گيا تھا۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
http://s22.postimage.org/p40ynp7mp/Mien_kis_key_hath_pey.jpg
 

شمشاد

لائبریرین
پھر وہی مرغے کی ایک ٹانگ

ریمنڈ ڈیوس کو جیسے بھی آپ نے چھڑوا لیا، اس کی بات چھوڑ دیں۔

وہ بندہ جس نے ٹریفک کی خلاف ورزی کرتے ہوئے راستے کی مخالف سمت سے آیا اور ایک راہگیر کو کُچل کر ہلاک کر دیا، میں اس کی بات کر رہا ہوں۔

اب یہ نہ کہیے گا کہ پاکستان میں موجود ہر امریکی للو پنجو کو سفارتی استثنی حاصل ہے۔

اسی بات کو اگر اسطرح دیکھا جائے کہ ایک پاکستانی سفارتکار امریکہ میں ٹریفک کی خلاف ورزی کرتے ہوئے راستے کی مخالف سمت سے داخل ہو کر دو چار امریکیوں کو اپنی گاڑی سے کُچل کر ہلاک کر دے تو امریکہ کی پولیس اور عدالت اسے کچھ بھی نہیں کہے گی۔ اور وہ بڑے آرام سے گاڑی چلاتے ہوئے پاکستانی سفارتخانے واپس آئے گا اور اگلی فلائٹ سے پاکستان پہنچ جائے گا۔ کیا ایسا ہونا ممکن ہے؟
 

کاشفی

محفلین

brp.gif
کوئٹہ (آن لائن) بلوچ ری پبلکن پارٹی کی مرکزی آرگنائزنگ کمیٹی کے ترجمان شیر محمد بلوچ نے بلوچ نسل کشی اور قبضہ گیریت کے خلاف ہڑتال پر عوام و تاجر برادری سے اظہار تشکر کرتے ہوئے اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے عالمی اداروں سے اپیل کی ہے کہ وہ بلوچستان میں جاری ریاستی ظلم جبر اور بربریت کا نوٹس لیتے ہوئے نہ صرف لب کشائی کریں بلکہ فوری و عملی مداخلت کرتے ہوئے بلوچ قوم کو ریاستی ظلم و جبر اور بربریت سے نجات دلائیں ترجمان نے کہا کہ گزشتہ دنوں ظہیر انور بلوچ کی گولیوں سے چھلنی لاش کے ملنے اور بلوچستان میں جاری ریاستی ظلم جبر اور بلوچوں کی نسل کشی کے خلاف جمعرات کو بی آر پی کی اپیل پر عوام اور تاجر برادری نے شٹرڈاؤن ہڑتال کو کامیاب بناکر سرزمین و قوم سے وابستگی کا ثبوت دیا اور قبضہ گیریت سے نفرت کا جس انداز میں نفرت کا اظہار کیا اس قومی یکجہتی پر ہم ان سے اظہار تشکر کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں وہ آئندہ بھی ظلم و جبر کے خلاف احتجاج کی کال پر لبیک کہیں گے ترجمان نے کہا ہے کہ ہم نے ہمیشہ کہا کہ بلوچ دشمن قابض ریاست اپنے کمزور وجود کو برقرار رکھنے کیلئے بلوچ سرزمین کے وسائل ہتھیانے کے خواب دیکھ رہی اور بلوچوں کی نسل کشی کی جارحانہ پالیسیوں میں بھی تیزی اس لئے لائی گئی ہے تاکہ بلوچ وسائل پر قبضہ جمانے میں اسے کسی قسم کی دشواریوں کا سامنا نہ کرنا پڑے ڈیرہ بگٹی میں تیل و گیس کے نئے ذخائر کی دریافت کے بعد وہاں پینے کے پانی کے تالابوں کو زہر آلود کیا جارہا ہے بارودی سرنگیں بچھائی جارہی ہیں بلاجواز نہتے اور بے گناہ لوگوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے تاکہ خوف دہشت اور عدم تحفظ کی وجہ سے لوگ علاقے سے نقل مکانی کرجائیں اور ریاستی قوتوں کو بلوچ وسائل کی لوٹ مار میں آسانی ہو اب تو ریاستی قوتوں نے آپریشن کا دائرہ پورے بلوچستان پھیلا دیا ہے لیکن اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے اداروں نے خاموشی اور چشم پوشی اختیار کررکھی ہے جو باعث تعجب ہے اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے ادارے بلوچستان میں بلوچوں کی نسل کشی پر نہ صرف لب کشائی کریں بلکہ نسل کشی کی جارحانہ پالیسیاں رکوانے اور بلوچ قوم کو نجات دلانے کیلئے آگے آئیں اور اپنا مؤثر وعملی کردار ادا کریں۔
 

کاشفی

محفلین
bnm2.jpg
کوٹہ(این این آئی)بلوچ نیشنل موؤمنٹ کے مرکزی ترجمان نے کہا کہ الیکٹرونک میڈیا کے چمپین و آزادی صحافت کے دعوئے دار حامد میر و دیگر کی جانب سے بلوچ آزادی پسند تنظیموں و رہنماؤں کو دہشت گرد کہنا انکی و دہشت گرد سوچ کی ترجمانی کر تی ہے۔ میڈیا و بی بی سی کی جانب سے ایسے غیر صحافیانہ انداز دراصل ریاست کی بلوچ جہد آزادی کو بدنام کرنے کے حربے ہیں ترجمان نے کہا کہ بین الاقوامی چارٹر کسی بھی قوم کو اپنی قومی آزادی کے لیے آواز اُٹھانے اور جدوجہد کرنے کی اجازت دیتی ہے بلوچ قوم اپنی جنگ آزادی اقوام متحدہ کی منشور کے مطابق لڑ رہی ہے۔ بلوچ جنگ آزادی بین الالقوامی سطح پر جس طرح پذیرائی حاصل کر رہی ہے اس سے خفیہ ادارے قومی آزادی کے خلاف مذہبی انتہا پسندی کوبلوچستان میں ہوا دے رہے ہیں جو مذہبی تنظیمیں خفیہ ادارے کے اسٹرٹیجک حصہ ہیں انکو استعمال کیا جا رہا ہے ۔ تاکہ بلوچ قومی آزادی کے اثرات کو عالمی سطح پر کم کیا جا سکے اور قابض ریاست کے میڈیا پر بلوچ جہد آزادی کے خلاف زہر ابھلا جا رہا ہے تاکہ قبضہ گیر کی پالسیوں کے ذریعہ بلوچ جنگ آزادی کے مخالف مذہبی انتہا پسندوں کو مظبوط کر کے بلوچستان کی سوشل فکر،سیکولر،آزادی پسند جنگ آزادی کو مذہبی و انتہا پسند کی نتہی کر کے اسکو متنازعہ بنانے کی سہی لا حاصل کی جا رسکے۔انکی کوشش ہو رہی ہے وفاق پرستی کو بلوچ قوم پرست کہہ کر حقیقی بلوچ قوم دوست آزادی پسند رہنماؤں کے خلاف دہشت گرد جیسے منفی اصطلاع استعمال کر کے قابض ریاست کے ساتھ حق وفاداری ادا کر رہے ہیں۔اگر قومی آزادی کی جنگ دہشت گردی ہے تو امریکوں کے ہیرو جارج واشنگٹن،عالمی انسان دوست و قوم دوست نوبل انعام یافتہ رہنما نیلسن منڈیلہ،ماؤزے تنگ، ہوچی مون بھی دہشت گرد ہیں ۔
 

کاشفی

محفلین

mengal2.jpg
کوئٹہ(آن لائن) بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل نے کہا ہے کہ جب تک بلوچستان میں حد سے زیادہ اختیارات رکھنے والی قوتوں کو بے اختیار کرکے انہیں ان کے قلعوں تک محدود نہیں کیا جائے لاپتہ افراد کی بازیابی کو یقینی بناتے ہوئے لاشیں پھینکنے کا سلسلہ نہیں روکا جائے گا مذاکرات کا کوئی دروازہ نہیں کھل سکتا لیکن جن قوتوں نے بلوچستان کو اپنی میراث سمجھ رکھا ہے وہ بلوچستان میں حالات کی بہتری کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں ’’آن لائن‘‘سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سردار اختر جان مینگل نے کہا کہ کوئٹہ میں پیش آنیوالے واقعات کی جتنی مذمت کی جائے وہ کم ہے کیونکہ اس طرح کے واقعات کی اسلام اجازت دیتا ہے اور نہ ہی بلوچستان قومی روایات میں اس کی کوئی گنجائش ہے لیکن اس طرح کے واقعات کی ذمہ داری انٹیلی جنس اداروں پر عائد ہوتی ہے جن کی کارکردگی امن وامان کی صورتحال برقرار رکھنے کی ہے جن پر عوامی خزانے سے خطیر رقم مختص کی جاتی ہے لیکن اس کے باوجود ان کی کارکردگی انتہائی مایوس کن ہے دہشت گردی کے واقعے میں لقمہ اجل بننے والوں کے لواحقین سے افسوس کا اظہار کرتے ہیں غم کی اس گھڑی میں ہم ان کے برابر کے شریک ہیں اس میں جو کوئی بھی ملوث ہو وہ کسی قسم کی ہمدردی کے قابل نہیں بلکہ یہ انتہائی گھناؤنا اور سفاکانہ عمل ہے باقی بلوچستان کے حالات کو ایک سوچے سمجھے کے منصوبے کے تحت خراب کیا گیا ہے اور اس میں وہ تمام بااختیار قوتیں ملوث ہیں جن کا دارو مدار ہی بلوچستان کے خراب حالات پر ہے اگر بلوچستان کے حالات بہتر ہوئے تو ان کا معاشی دارومدار یا پھٹہ بیٹھ جائے گا جو قطعاً نہیں چاہتے کہ بلوچستان کے حالات بہتری کی جانب جائیں کیونکہ انہوں نے بلوچستان کو اپنی میراث سمجھ رکھا ہے اور بلوچستان کے خراب حالات سے فائدہ بھی سب سے زیادہ انہی قوتوں نے اٹھایا ہے ایک سوال کے جواب انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں حالات کی بہتری کی امید رکھنا اس وقت تک بے سود رہے گی جب تک یہاں کا مکمل کنٹرول منتخب عوامی نمائندوں کو نہیں جاتا لیکن بدقسمتی سے نمائندوں کو قدم جمانے کی فرصت بھی نہیں دی جارہی وزیراعلیٰ نے ابھی اپنے عہدے کا حلف ہی نہیں اٹھایا تھا کہ لاشیں پھینکنے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا جس دن وزیراعلیٰ نواز شریف کیساتھ ملاقات کرکے بلوچستان کے حالات پر تشویش کا اظہار کررہے تھے تو اس روز بھی ہمارے کارکنوں کو ہدف بنایا گیا اختیارات کی منتقلی کا عمل نہ شروع ہوا ہے اور نہ ہی اس کی کوئی امید کی جاسکتی ہے البتہ سیاسی نمائندے جرات کا مظاہرہ کرکے بلی کے گلے میں گھنٹی باندھتے ہیں تو پھر کوئی امید کی جاسکتی ہے انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں خفیہ اداروں اور بلخصوص فرنٹیئر کورکے پاس حکمرانی کے اصل اختیارات ہیں اور ایف سی کو کھلے ہاتھی کی طرح چھوڑ دیا گیا ہے جس نے بلوچستان کے امن کو تہس نہس کرکے رکھ دیا ہے حالات کی بہتری سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جب تک ان قوتوں سے اختیارات واپس لیکر انہیں ان کے قلعوں تک محدود نہیں کیا جائے گا لاپتہ افراد کو بازیاب کرکے لاشیں پھینکنے کا سلسلہ بندنہیں کیا جاتا اس وقت تک مذاکرات کا کوئی دروازہ کھلنے کا کوئی امکان نہیں اگر لاشیں پھینکنے کا سلسلہ بند کیا جائے اور حالات سازگار بنایا جائے تو پھر مذاکرات کا کوئی دروازہ کھل سکتا ہے اور لوگوں کو مذاکرات کی ٹیبل پر لایاجاسکتا ہے تاہم بلوچستان میں اس وقت جو حالات ہیں اور جس طرح اداروں اور سیکورٹی فورسز نے جارحانہ کارروائیاں جاری رکھی ہوئی ہیں اس میں بہتری کی کوئی امید نہیں۔
 

کاشفی

محفلین

noordin-mengal.jpg
کوئٹہ (آن لائن) اقوام متحدہ میں بلوچ نمائندہ میر نوردین مینگل نے کہا ہے کہ بلوچستان کے کشیدہ صورتحال کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے اس وقت بھی بلوچستان کے لوگوں کا خون بہہ رہا ہیں اور وہاں کے لوگ ماتم میں مبتلا ہے ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے متعلق منعقدہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا اس موقع پر بلوچ نمائندہ مہران بلوچ، کچکول بلوچ ایڈووکیٹ،سابق معبر یورپی پارلیمنٹ پولو کسکا، جولیا گروننفلدڈربھی موجود تھے انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے لوگ ایک پرزور آپریشن کا سامنا کررہے ہے لیکن ریاستی فورسز کے اس اندھا دھند عمل سے اقوام متحدہ اور بین الاقوامی ممالک پر کوئی فرق نہیں پڑرہا ہیں جس دن سے ریاستی فورسز نے بلوچستان پر زبردستی قبضہ کیا اس دن سے بلوچ قوم کااستحصال کیا جارہا ہے ریاست نے ہمیشہ بلوچ قومی تحریک کو مسلسل دبانے کی کوشش کی اور لوگوں کی حقوق اور آزادی کی جدوجہد کیخلاف ہمیشہ طاقت کی بے دریغ استعمال کی ہیں اور بلوچ سرزمین کو لوٹتے رہے ہے انہوں نے کہا کہ ریاستی فورسزدن دیہاڑے لوگوں کو اٹھا کر مار دیتی ہیں دوسری جانب ریاست کے بنائے ہوئے بنیاد پرست ڈیتھ اسکواڈ بلوچ قوم پرستوں اور ہزارہ کیمونٹی کے لوگوں کو کھلے عام قتل کررہے ہیں اور وہ ہر قسم کی سزا سے مستثنیٰ ہیں ریاست کے سپر اسٹریٹجک اثاثے ہزارہ برادری کی بے رحمانہ نسل کشی کررہے ہے، پرامن مظاہرین کو طاقت سے دبایا جاتا ہے، سیاسی نمائندوں کو غیر قانونی طور پر غائب کیا جاتا ہے، آزادی اظہار اور سیاسی سرگرمیوں پر مکمل پابندی ہے جبکہ دوسری جانب بنیاد پرست تنظیموں کو کھلی چھوٹ دی گئی ہیں انہوں نے کہا کہ چین نے اسلام آباد کے ساتھ گوادر پورٹ کے متعلق معاہدہ کرکے جلتی پر تیل ڈال دی ہے، چین بھی بلوچوں کے حالات زار کرنے میں اہم کردار ادا کی ہے بلوچ قوم امید کرتا ہے کہ چین ذمہ داری کا مظاہرہ کرکے بلوچوں کے تحفظات کا خیال کریں جبکہ ایران اور ریاست نے ملکر گیس پائپ لائن کا آغاز کیا ہے جو کہ بلوچ قوم کے خواہشات کے برخلاف ہیں اس پائپ لائن کے آڑ میں ریاست بلوچستان میں اپنی کارروائیاں مزید تیز کرکے وہاں عسکری نقل و حرکت میں اضافہ کرے گی ریاست کی سیاسی تنظیمیں ایک طرف دعوے اور دوسری جانب فورسزکی پالیسیاں خاموشی سے قبول کرچکے ہے۔​
 

کاشفی

محفلین
اسمبلیوں نے 65سالوں میں بلوچوں کو کوئی حق نہیں دیا، بی این وی

bnv.jpg
کوئٹہ ( این این آئی ) لاپتہ افراد کے اہل خانہ کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 1178دن ہوگئے لاپتہ بلوچ اسیران شہداء کے بھوک ہڑتالی کیمپ میں اظہار یکجہتی کرنیوالوں میں بلوچ نیشنل وائس کا ایک وفد لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار ہمدردی کی اور بھر پور تعاون کا یقین دلایا اور انہوں نے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ وہ جماعتیں جو قوم پرستی کا نعرہ تو لگاتی ہے اپنے آپ کوقوم پرست پارٹیاں کہتی ہے مگر پارلیمان پسند بھی ہیں پارلیمنٹ میں جاکر حقوق حاصل کرنے کی بات کرتے ہیں مرکزی اور ذیلی اسمبلیوں میں گذشتہ پینسٹھ سالوں میں بلوچوں کو کوئی حق نہیں ملا پتہ نہیں اب کیسے ملے گا پارلیمان پسند جماعتوں کو اچھی طرح پتہ ہے کہ ایوانوں میں جاکر اور اقتدار میں آکر کوئی حق وحقوق حاصل نہیں کیا جاسکتا بلکہ کرپشنجھوٹ اور جھوٹے وعدے رشوت چاپلوسی مراعات ومفادات کے حصول دولت پیسے کی کمائی بنگلوں کی تعداد میں اضافہ اور نوکریاں اپنے رشتہ داروں پارٹی ورکروں میں بانٹنے کے سوا اور کوئی قومی حقوق حاصل نہیں کئے جاسکتے پارلیمانی سیاست پر یقین رکھنے والے قوم پرستی کے دعویدار پارٹیاں بلوچ عوام اپنی رعیدت سمجھ کر ان پر حکمرانی کرنا چاہتی ہے چاہے عوام ٹی بی یا ہیپاٹائٹس بھوک وپیاس میں مرتے جائیں یا پھر فورسز کے آپریشنوں اغواء کے بعد شہید کرکے مسخ شدہ لاشوں کی شکل میں یا بمباری اور ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے مرتے جائیں ۔
 

کاشفی

محفلین

bugti1.jpg
کراچی(شاہنواز بلوچ سے)پاکستان میں اول دن سے الیکشن نہیں بلکہ سلیکشن ہوتا آیا ہے، طاقت ہمیشہ فوج کے پاس رہی ہے حکومتیں صرف نام کی رہی ہیں۔ ان خیالات کااظہار شہیدنواب اکبرخان بگٹی کے فرزند نوابزادہ جمیل بگٹی نے ’’روزنامہ آزادی‘‘ سے خصوصی گفتگو کے دوران کیا۔انہوں نے کہاکہ پشتون علاقوں کو الگ کرکے بلوچ علاقوں میں اقوام متحدہ کی زیرنگرانی میں شفاف ریفرنڈم کرایا جائے تاکہ بلوچ اپنی آزاد رائے کا استعمال کریں، میں پاکستان میں ہونے والے الیکشن کو نہیں مانتا۔انہوں نے کہاکہ 70ء کی دہائی میں بھی شفاف الیکشن کا دعویٰ کیاجاتا ہے جبکہ اُس وقت بھی شفاف الیکشن نہیں ہوئے تھے۔ انہوں نے کہاکہ 70ء کی دہائی میں میرے والد نواب اکبرخان بگٹی کا گورنر بننا بالکل غلط تھا مگر اس سے بھی بڑی غلطی میرے والدنے 47ء میں پاکستان کے حق میں ووٹ دیکر کیامگر میرے والد کہتے ہیں کہ میرے پاس کوئی آپشن نہیں تھاصرف دو آپشن تھے کہ میں ہندوستان کے حق میں ووٹ دوں یا پاکستان کے اس لئے میں نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا کیونکہ بگٹی اور مری علاقے قلات اسٹیٹ کے کنٹرول میں نہیں تھے۔ انہوں نے کہاکہ پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کو اتنی ساری سیٹیں ملی جس کی توقع کسی کو نہیں تھی اب تو مجھے لگتا ہے کہ یہ ڈیرہ بگٹی سے بھی جیت جائینگے۔ انہوں نے کہاکہ سردار اخترجان مینگل کے ساتھ دھاندلی ہوئی جن حلقوں میں سردار اخترجان کی کنفرم سیٹیں تھی وہاں سے بھی پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کو کامیاب کرایاگیا، اس سے بڑھ کر اور کیا دھاندلی کے ثبوت ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ ایک اچھے انسان ہیں اور ہمارے دوست بھی ہیں مگر انہوں نے بھی نواب اکبرخان بگٹی کی شہادت پر کمیشن بنانے کی بات کی جس پر انتہائی افسوس ہوا، وہ خود بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ جس معاملے کو سرد خانے میں ڈالنا ہو تو اُس پر کمیشن بنائی جاتی ہے، حمودالرحمن کمیشن کا کیا ہوا یہ تمام باتیں صرف دھوکہ دہی پرمبنی ہے ، میں تو شکر کرتا ہوں کہ ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ نے سابقہ حکمرانوں کے روایات کو برقرار نہ رکھتے ہوئے بلوچوں سے معافی نہیں مانگی۔ انہوں نے کہاکہ ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ وزیراعلیٰ بلوچستان بن تو گئے ہیں کیا اُن کے پاس اختیارات ہیں ماضی اس بات کی خود گواہ ہے کہ صرف عہدہ ملتا رہا ہے مگر اختیارات کا محور کہی اور رہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ لاپتہ افراد کا مسئلہ ہو یا مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی جس دن ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ حلف اٹھارہے تھے اُس دن بھی پانچ مسخ شدہ لاشیں ملی اور میراحمدیار خان کے خاندان سے تعلق رکھنے والے فرد میرمحراب خان کو کس بے دردی کے ساتھ قتل کیا گیا اور اُس کی لاش کو نادرا آفس کے پاس پھینک دیا گیا، اب آپ آگے بہتر جانتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ یہ کہنا قبل ازوقت ہوگا کہ ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ کیا کارنامہ انجام دینگے مگر ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ کو نامزد کرنے والاوزیراعظم نواز شریف نے تو چاغی میں ایٹمی دھماکہ کرتے ہوئے بلوچ دشمنی کا ثبوت دیا، مجھے تو لگتا ہے کہ نواز شریف کو بھی اعتماد میں نہیں لیاگیا اور ایٹمی دھماکے کئے گئے، انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہاکہ سردار اخترجان مینگل سے میں نے ایٹمی دھماکوں کے متعلق پوچھا تھاتو انہوں نے کہاکہ میں اس معاملے سے لاعلم تھا اور نہ ہی مجھ سے پوچھا گیا تھا۔انہوں نے کہاکہ نواب اکبرخان بگٹی کی شہادت سے قبل جب مشاہد حسین اور چوہدری شجاعت نمائندہ بن کر مذاکرات کرنے آئے تھے تو دوبار اُن سے بات چیت ہوئی مگر تیسری بار میرے والد نے مشاہدحسین سے کہاکہ آپ کے پاس اختیارات نہیں کیوں آپ اپنا اور ہمارا وقت ضائع کررہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ نواب اکبرخان بگٹی کی شہادت کسی غار میں نہیں ہوئییہ جھوٹ پر مبنی باتیں ہیں۔ انہوں نے کہاکہ میرے والد نے گیس رائلٹی کیلئے جنگ نہیں کی یہ صرف پروپیگنڈہ ہے جبکہ گیس رائلٹی حکومت بلوچستان کو ملتی رہی ہے نواب اکبرخان نے بلوچ قوم کے حقوق کیلئے جدوجہد کی اس سے پہلے جب ون یونٹ توڑنے کی موومنٹ چل رہی تھی تو میرغوث بخش بزنجو نے کرنسی پر ون یونٹ توڑنے کے نعرے لکھے جس پر انہیں گرفتار کرکے غداری کا مقدمہ درج کیا گیا اور کیس کراچی میں چل رہا تھابلوچ جب بھی اپنے حقوق کی بات کرتا ہے تو اسے غداری کا لقب دیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ اسٹیبلشمنٹ اب بلوچ اور پشتونوں کو لڑانے کی سازش کرے گی اب یہ منصوبہ کب شروع ہوگا اس کچھ کہہ نہیں سکتا مگر جو حالات پیدا کئے جارہے ہیں اس سے یہی لگتا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ پشتون ہر وقت یہی کہتے ہیں کہ جی بلوچستان میں ہمارا استحصال کیاجارہا ہے تو الگ ہوجائیں باقی جوعلاقے متنازعہ ہیں اس پر بیٹھ کر ہم بات چیت کرینگے کیونکہ ہمیں ایک سال ساتھ نہیں رہنا ہے بلکہ مستقبل میں بھی ہمیں پڑوسی بن کر رہنا ہے۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہاکہ بلوچ آج بھی تقسیم ہیں اور اُس کی تین وجوہات ہیں، انا، لالچ اور نادانی اِ ن تینوں نقص سے نکل جائیں تو بلوچ آپسی جھگڑے سے نکل کر اپنے حقوق کیلئے مشترکہ جدوجہد کرینگے، میرے والد نے سنگل پارٹی بنانے کا اعلان کیا مگر والد کی شہادت کے بعد اُن کی اپنی پارٹی ہی بکھر گئی ایک دھڑا عالی کے پاس،دوسرا طلال اور نوابزادہ براہمداغ بگٹی نے تو اپنی پارٹی کا نام ہی تبدیل کردیا، جمیل بگٹی نے ہنستے ہوئے کہاکہ جی میں سیاست نہیں کرسکتا۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہاکہ میرے والد نے بے شک اپنی حیات کے وقت اپنے جانشین کا اعلان کیا تھا مگر میں نے اُس وقت بھی اختلاف رکھا تھا کہ بگٹی قبائل کا نواب چننے کا حق بگٹی قبائل کے پاس ہے وہ کسی کو بھی چُن لیں وہ ہمارے لئے قابل قبول ہے مگر عالی کو اسٹیبلشمنٹ نے نواب بنادیا جبکہ ہم وہاں جا بھی نہیں سکتے۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہاکہ ظاہر سی بات ہے کہ نوابزادہ براہمداغ بگٹی کو بیرون ملک جانے پر کسی نے سپورٹ ضرور کیا ہے کہ وہ سوئٹزر لینڈ پہنچیں مگر عالمی طاقتیں اپنے مفادات کے تحت کام کرتے ہیں وہ یہ نہیں کہتے کہ جی بلوچوں کے ساتھ بہت زیادہ ظلم ہورہا ہے اور رحم کھاکر اُن کی مدد کرینگے بلکہ وہ اپنے مفادات کو اولین ترجیح دینگے ۔انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں آئے روز ہڑتال سے بلوچ معاشی طور پر کمزور ہورہے ہیں جو صحیح نہیں ہے آج تک ہزاروں کی تعداد میں بلوچ قتل کئے گئے تو پھر سال کے بارہ مہینے ہڑتال کیاجائے تو رہ کیا جائے گا اس سے بہتر ہے مؤثر انداز میں ایک احتجاج ریکارڈ کرایاجائے تاکہ اپنے لوگوں کو تکلیف نہ پہنچیں اور بیزاری کی کیفیت پیدا نہ ہو۔انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں ہزارہ کمیونٹی کاقتل بلوچستان کا مسئلہ نہیں اسے زبردستی یہاں کا ایشو بنایا جارہا ہے یہ افغانستان میں طالبان کے ساتھ ہونے والے جنگ کے نتیجے میں ہزارہ کمیونٹی کو نشانہ بنایاجارہا ہے دیگر شیعہ برادری کو کیوں نہیں مارا جارہا صرف ہزارہ کمیونٹی کو نشانہ بنایاجارہا ہے یہ تو افغان، طالبان اور ہزارہ کی صدیوں سے چلتاآیا ہوا جنگ ہے ہزارہ کمیونٹی کو افغانستان میں کس لیول پر رکھاگیا ہے خود تاریخ اس بات کی گواہ ہے جب سے چنگیز خان انہیں چھوڑ کر گیا ہے یہ جنگ چلتی آرہی ہے لہٰذا ہزارہ کمیونٹی کی جنگ کو بلوچستان سے جوڑنا غلط ہے۔انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں جو افغان مہاجرینکی آباد کاری ہوئی اِس کی وجہ آج کے دن ہیں جو الیکشن میں صاف ظاہر ہوئے کہ کوئٹہ کے اردگرد اور کوئٹہ کے اندر کتنے افغان مہاجرین نے ووٹ دیئے اور اِن کو آباد کرنے کا مقصد بھی یہی تھا۔​
 

کاشفی

محفلین
کوئٹہ ( این این آئی ) لاپتہ افراد کے اہل خانہ کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 1191دن ہوگئے لاپتہ بلوچ اسیران شہداء کے بھوک ہڑتالی کیمپ میں اظہار یکجہتی کرنیوالوں میں نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنماء میر عبدالغفار قمبرانی اور دیگر رہنماؤں کیساتھ بڑی تعداد میں لاپتہ افراد شہداء کے لواحقین سے اظہار ہمدردی کی اور بھر پور تعاون کا یقین دلایا اور انہوں نے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ انسانی حقوق کی پامالی کو غیر قانونی قرار دیا گیا ہے اور انسانی حقوق کی پامالیاں کرنے والے ملکوں کوخبردار کیا گیا ہے اپنے گھناونے عمل کو بند کریں انسانی حقوق کے مرتکب ہونے والے نے بھی بڑی عاجزی سے اپنی کرتوتوں کو چھپانے کیلئے پروگرامز اور سیمینار ز کئے اور انسانی حقوق کی باتیں کی دوسری جانب مظلوم ومحکوم انسانوں نے دنیا کے انسانیت دوست لوگوں کو آگاہ کرنے کیلئے انسانی حقوق کی پامالیوں کے متعلق مختلف پروگرامز کئے کون صحیح کون غلط یہ صرف انسانیت کو فروغ دینے کیلئے انسان کے درد کو سمجھنے والے درحقیقت میں انسانی حقوق کی پامالیوں کو غلط قرار دینے والے انسان ہی بناسکتے ہیں وگرنہ انسانی حقوق کی پامالیاں کرنے والے خود کو کبھی غلط نہیں کہتے انسانی تباہی دیکھ کر اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی نے 1948کو انسانی حقوق کا عالمی سال قرار دیا تاکہ دنیا میں کسی بھی جگہ انسانی حقق کی پامالیاں ہوں تو دنیا کو آگاہ کرنے کیلئے 1948ماہ 10دسمبر کو پروگرامز منعقد کئے جائیں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین قدیر بلوچ نے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ یہ حقیقت کے دنیا میں مظلوم انسانوں نے ظالموں کے خلاف ہمیشہ خود آواز اٹھاک ر جائیں قربان کرتے ہیں تجب جاکر اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں حرکت میں آتی ہے ۔
 

کاشفی

محفلین
بلوچ حالت جنگ میں ہیں کسی پر بھروسہ نہیں کرسکتے، بلوچ مزاحمت کار
کوئٹہ (آن لائن )بلوچستان کے ضلع آواران سے تبلیغی جماعت کے اغواء کئے جانے والے 8 ارکان کو آئندہ تبلیغ کیلئے ضلع آواران کا رخ نہ کرنے کی شرط پر رہا کردیا گیا گذشتہ روز ضلع آواران کی تحصیل جھاؤ کے نواحی علاقے سے نامعلوم مسلح افراد نے تبلیغی جماعت کے آٹھ افراد کو اس وقت اغواء کرلیاجب وہ مسجد میں قیام پذیر تھے ضلعی انتظامیہ نے تبلیغی جماعت کے ارکان کی بازیابی کیلئے سیاسی و قبائلی رہنماؤں اور قبائلی عمائدین سے رابطہ کیا اور کوششیں بار آور ثابت ہوئیں رات گئے جھاؤ کے علاقے گلی کے مقام پر 8 تبلیغیوں کو اغواء کاروں نے چھوڑ دیا تحصیلدار جھاؤ غفور شاہ کے مطابق تبلیغی جماعت کے ان ارکان کو بلوچ مزاحمت کار اغوا کرکے لے گئے تھے ان سے پوچھ گچھ کرنے اور تسلی کرنے کے بعد انہیں اس پیغام کے ساتھ چھوڑ دیا کہ یہ افراد اپنی جماعت کے امیر کو جاکر علاقے کی صورتحال سے آگاہ کریں گے اور بتائیں کہ بلوچ اس وقت حالت جنگ میں ہیں آئندہ اس علاقے میں تبلیغ کیلئے نہیں آئیں گے۔ کیونکہ تبلیغی جماعت کی آمد کے ساتھ ہی ان کیلئے مشکلات اور مسائل میں اضافہ ہوتا ہے ایک غیر یقینی سی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے اور ان حالات میں ہمارے لئے کسی پر بھی بھروسہ کرنا ممکن نہیں آئندہ تبلیغی جماعت اس علاقے کی جانب نہ بھیجنے کی یقین دہانی پر انہیں گلی کے مقام پر صبح تین بجے کے قریب چھوڑا گیا جہاں سے میری سربراہی میں لیویز کی ٹیم گئی اور انہیں یہاں جھاؤ لے آئی تحصیلدار کے مطابق تبلیغی جماعت کے رہا ہونے والے افراد نے بتایا کہ اغواء کاروں نے انہیں کسی قسم کے تشدد کا نشانہ نہیں بنایا دشوار گذار پہاڑی راستوں سے انہیں ایک جگہ لے جایا گیاجو جنگل کی طرح تھی وہاں انہیں رکھا گیا اغوا ء کئے جانے والے تمام افراد کا تعلق صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقے بنوں سے ہے جن میں گل اختر ،خلیل الرحمن ،شلیل الرحمن ،نصر اللہ خان ،سخی مرجان ،اختر جان ،نوروز علی خان ،میر سید شاہ شامل ہیں جن کی بحفاظت رہائی کے بعد ان کی مقامی جماعت کے ذمہ داران کے حوالے کردیا گیا ہے ۔
 
Top