بچوں کا اسکول میں داخلہ

لاریب مرزا

محفلین
ویسے یہ دلچسپ صورت حال ہے

پری نرسری یا پلے گروپ
نرسری
پریپ
اور پھر پہلی کلاس

اسکول والوں‌ کے لیے تو دلچسپ ہے ہی لیکن والدین کے معاشی نکتہ نظر سے دیکھیں تو صرف بوجھ ہے۔
جی!! یہ بات آپ کی بالکل درست ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ صرف بزنس ہے۔ انہیں بچوں کے مستقبل سے کچھ لینا دینا نہیں ہوتا۔ لیکن ہم جس سسٹم میں ہیں وہ ایک باقاعدہ سسٹم ہے۔ ہم لوگ منظم طریقے سے کام کرتے ہیں اور ہم ایک ایک طالب علم کے لیے جواب دہ ہوتے ہیں۔بچوں کا مستقبل ہاتھ میں لینا بہت بڑی ذمہ داری ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
جی!! یہ بات آپ کی بالکل درست ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ صرف بزنس ہے۔ انہیں بچوں کے مستقبل سے کچھ لینا دینا نہیں ہوتا۔ لیکن ہم جس سسٹم میں ہیں وہ ایک باقاعدہ سسٹم ہے۔ ہم لوگ منظم طریقے سے کام کرتے ہیں اور ہم ایک ایک طالب علم کے لیے جواب دہ ہوتے ہیں۔بچوں کا مستقبل ہاتھ میں لینا بہت بڑی ذمہ داری ہے۔
پھر اس سسٹم میں طبقۂ امرا ہی کے بچے ہونگے یقینا۔ ویسے عمومی بات ہو رہی ہے :)
 

لاریب مرزا

محفلین
افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں‌ زیادہ تر بلکہ حد سے بھی زیادہ اسکول اسی قسم کے ہیں۔ اور جو ایسے نہیں ہیں ان کی فیس مڈل کلاس طبقے کی پہنچ سے باہر ہے۔

اور مزید افسوس کی بات یہ ہے کہ بچے اسکول میں تعلیم لینے جاتے ہیں نا کہ "ہوم ورک" لینے :)
ہمارے یہاں بچوں کو "ہوم ورک" نہیں دیا جاتا۔ :) اور نیا کام تو بالکل بھی نہیں۔
ایسے سکولز بھی بند ہو جائیں تو لوگ کہاں بھیجیں گے بچوں کو تعلیم کے لیے.. ہونا یہ چاہیے کہ تمام سکولز کو کم از کم اپنے اساتذہ کو ٹرینڈ کرنا چاہیے۔ اور جہاں تک ممکن ہو سکے یا جتنے وسائل مہیا ہوں ان کے مطابق اچھی تعلیم دینے کی کوشش کرنی چاہیے۔
 

زیک

مسافر
جی میں‌ بھی کچھ یہی عرض کہہ رہا تھا کہ بچے کو گھر میں تعلیم دی جائے ظاہر ہے اس میں لکھنا بھی شامل ہے۔ میں نے اپنے دو بچوں کو لگ بھگ چار ساڑھے چار سال کی عمر میں داخل کروایا تھا پریپ کلاس میں۔ درمیان والے کو پلے گروپ میں داخل کروا دیا تھا ساڑھے تین سال کی عمر میں اور اسی کا تجربہ سب سے خراب رہا۔ اور معذرت کے ساتھ، پاکستان کے طول و عرض میں، گلی گلی محلے محلے میں سو کالڈ انگلش میڈیم آکسفورڈ سلیبس والے پرائیوٹ اسکولز فقط پیسہ بنانے کی فیکڑیاں ہیں۔
میری بیٹی نے دو سال کی عمر میں "سکول" جانا شروع کیا تھا۔ مگر اس کی وجہ ہماری جاب کی مجبوری تھی۔ ہم نے پوری کوشش کی تھی کہ ایسے ڈے کیئر یا پری سکول بھیجیں جہاں کھیل کود اور سوشل سکلز پر توجہ زیادہ ہو اور پڑھائی پر کم۔

جب 5 سال کی عمر میں کنڈرگارٹن داخل کرایا تو انہوں نے کوئی سو سائٹ ورڈز کا ٹیسٹ لیا۔ مجھے ابھی بھی یاد ہے کہ اس ٹیسٹ میں بیٹی آخر سے دوسرے نمبر پر تھی کہ اسے شاید تیس الفاظ کی پہچان تھی۔

کنڈرگارٹن کے اختتام تک وہ کتابیں پڑھ رہی تھی اور اب گفٹڈ پروگرام میں اگلے سال کا کورس پڑھتی ہے۔
 
آخری تدوین:

زیک

مسافر
سوال یہ ہے کہ پانچ سال کی عمر میں کونسی جماعت میں داخلہ کرائیں گے؟؟ کیونکہ والدین اپنے بچوں کو گھر میں زبانی بہت کچھ کروا لیتے ہیں لیکن لکھنا بچوں کو نہیں آتا.. پھر چار پانچ سال کی عمر میں جب بچے سکول آتے ہیں تو والدین یہ تقاضا کرتے ہیں کہ چاہے بچے ٹیسٹ پاس کر سکے ہیں یا نہیں، چونکہ ان کی عمر زیادہ ہو گئی ہے سو پریپ کلاس میں ہی بٹھایا جائے۔ اس طرح بچے کی بنیاد خراب ہوتی ہے۔
آغاز میں بچے کو ٹیسٹ کی بنیاد پر نہیں بلکہ عمر کے حساب سے کلاس میں داخل کرنا چاہیئے کہ اے بی سی اور گنتی تو وہ آسانی سے سیکھ لیتا ہے مگر سوشل سکلز میں چھوٹے بچوں میں بہت فرق ہوتا ہے
 

محمد وارث

لائبریرین
میری بیٹی نے دو سال کی عمر میں "سکول" جانا شروع کیا تھا۔ مگر اس کی وجہ ہماری جاب کی مجبوری تھی۔ ہم نے پوری کوشش کی تھی کہ ایسے ڈے کیئر یا پری سکول بھیجیں جہاں کھیل کود اور سوشل سکلز پر توجہ زیادہ ہو اور پڑھائی پر کم۔

جب 5 سال کی عمر میں کنڈرگارٹن داخل کرایا تو انہوں نے کوئی سو سائٹ ورڈز کا ٹیسٹ لیا۔ مجھے ابھی بھی یاد ہے کہ اس ٹیسٹ میں بیٹی آخر سے دوسرے نمبر پر تھی کہ اسے شاید تیس الفاظ کی پہچان تھی۔

کنڈرگارٹن کے اختتام تک وہ کتابیں پڑھ رہی تھی اور اب گفٹڈ پروگرام میں اگلے سال کا کورس پڑھتی ہے۔"
پاکستان میں ڈے کیئر اسکول وغیرہ کا تصور شاید ابھی نہیں ہے اگر کہیں ہوگا بھی تو خال خال کہ پاکستان میں زیادہ تر مائِیں جابز نہیں کرتیں اور جو کرتی بھی ہیں وہ بھی بچوں کو دیگر رشتے داروں کے پاس چھوڑ جاتی ہیں۔

پاکستان کے تعلیمی نظام کا اللہ ہی حافظ ہے۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی ایک خبر چل رہی تھی کسی بچی نے نویں دسوں میں 99 فیصد سے بھی زائد نمبر حاصل کیے تھے شاید 525 میں سے 524۔ یعنی نمبروں کا تو یہ حال ہے اور تعلیم کے معیار کا یہ کہ اپنے نصاب سے ہٹ کر لوگ دو چار جملے بھی اچھے طریقے سے نہیں لکھ سکتے۔
 

لاریب مرزا

محفلین
آغاز میں بچے کو ٹیسٹ کی بنیاد پر نہیں بلکہ عمر کے حساب سے کلاس میں داخل کرنا چاہیئے کہ اے بی سی اور گنتی تو وہ آسانی سے سیکھ لیتا ہے مگر سوشل سکلز میں چھوٹے بچوں میں بہت فرق ہوتا ہے

آغاز میں( پلے گروپ) کوئی ٹیسٹ نہیں ہوتا۔ ٹیسٹ صرف نرسری اور پریپ کلاس کے لیے ہوتا ہے۔ کیونکہ اگر بچے کو سلیبس نہ آتا ہو تو ہم داخلہ نہیں کرتے ان جماعتوں میں..
 

زیک

مسافر
پاکستان میں ڈے کیئر اسکول کا وغیرہ کا تصور شاید ابھی نہیں ہے اگر کہیں ہوگا بھی تو خال خال کہ پاکستان میں زیادہ تر مائِیں جابز نہیں کرتیں اور جو کرتی بھی ہیں وہ بھی بچوں کو دیگر رشتے داروں کے پاس چھوڑ جاتی ہیں۔
یہاں جو مائیں (یا باپ) گھر پر ہوں تو بچے چار پانچ سال کی عمر تک گھر ہی رہتے ہیں۔
 

لاریب مرزا

محفلین
یعنی نمبروں کا تو یہ حال ہے اور تعلیم کے معیار کا یہ کہ اپنے نصاب سے ہٹ کر لوگ دو چار جملے بھی اچھے طریقے سے نہیں لکھ سکتے۔
ایسا اس صورت میں ہوتا ہے جب بچوں کو صرف رٹا لگوایا جائے اور creative work نہ کروایا جائے۔ اور زیادہ تر سکولز میں ایسا ہی ہو رہا ہے۔
 

زیک

مسافر
آغاز میں( پلے گروپ) کوئی ٹیسٹ نہیں ہوتا۔ ٹیسٹ صرف نرسری اور پریپ کلاس کے لیے ہوتا ہے۔ کیونکہ اگر بچے کو سلیبس نہ آتا ہو تو ہم داخلہ نہیں کرتے ان جماعتوں میں..
پہلی جماعت کے لئے بھی پڑھائی سے زیادہ سوشل سکلز اہم ہیں۔
 

sami

محفلین
میرے خیال سے بھی عمر چار سال۔وگرنہ آجکل تو معصوم بچوں کو مشینوں کی مانند تعلیم کے نام پر اٹھک بیٹھک کروائی جارہی ہے اور تعلیم ایک مفید کاروبار بنی ہوئی ہے۔
میں حیران ہوتا ہوں جب بچوں کو صبح سے لے کر رات گئے تک سکول ، ٹیوشن سنٹر یا مدرسے کے چکر کاٹتے دیکھتا ہوں۔اس سب میں ان کی اپنی زندگی یعنی ان کا بچپن کہاں چلا جاتا ہے۔ اس کا جواب میرے پاس نہیں ہے۔
انہوں نے دنیاوی مال و متاع کے جمع کرنے کے شوق میں ہمارے بچوں کا بچپن برباد کر دیا ہے
 
ہوم اسکولنگ سب سے بہتر مگر سب سے مہنگی ہے
اگر والدین پیسہ کمانے کے بجاے پآنچ سے دس سال تک بچے پر توجہ دیں تو یہ دونوں کی بہتری کے لیے ہوگا
پاکستان میں کوئی ٹیچر ٹریننگ نہیں ہے
 
آخری تدوین:

فرحت کیانی

لائبریرین
میری بیٹی آنے والے ماہ کی 22 تاریخ کو ماشاءاللہ 2 سال کی ہوجائے گی۔
ابھی وہ اچھے خاصے الفاظ درست و غلط تلفظ کے ساتھ بول لیتی ہے۔
جیسے مما، بابا، دادی، نانی، پانی اور کئی جملے
جیسے چھوڑ دو، مجھے یہ کرنا ہے وغیرہ وغیرہ

بیگم کا کہنا ہے کہ اسے آنے والے کچھ ماہ میں اسکول لگا دینا چاہیے۔ تاکہ ان کا ذہن ابھی سے مثبت سرگرمیوں کی طرف مائل ہوسکے۔
جبکہ خود میرا ماننا ہے کہ ابھی اس کی عمر کافی کم ہے۔ اور اسکول میں داخلہ ساڑھے سے 4 سال کی عمر تک ہونا چاہیے۔ جب تک اسے گھر میں ہی مزید تربیت دی جائے۔

آپ لوگوں کے خیال میں بچوں کے لیے اسکول میں داخلے کی مناسب عمر کیا ہونی چاہیے؟
کیا ہو گیا ہے فہیم. دو سال کوئی عمر نہیں ہے بچوں کو اتنی مشقت میں ڈالنے والی. ڈے کیئر بھیجنا ہے تو اور بات ہے لیکن وہ بھی اس صورت میں کہ والدین کے کام پر جانے کی وجہ سے بچوں کو گھر سنبھالنے والا کوئی نہ ہو ورنہ ابتدائی چار سے پانچ سال بچوں کا اپنے ماحول سے سیکھنا ہی اصل سیکھنا ہے اور یہی وقت والدین کے ساتھ strong bonding کے لیے بہترین ہے. بچے کی رسمی تعلیم شروع کروانے کی بہترین عمر ساڑھے چار سے زیادہ ہے. باقی رہی کچھ سیکھنے کی بات تو آج کل کیا مشکل ہے.ماشاءاللہ آپ خود اور یقینا آپ کی بیگم اس قابل ہیں کہ بچی کو ابتدائی چیزیں خود سیکھا سکیں اور اگر آپ خصوصی طور پر لکھنا پڑھنا سکھانا چاہتے ہیں تو بازار میں بہت سا مواد موجود ہے. بلاکس خریدیں اور اسے پہچان کروائیں کھیل کھیل میں. لکھنا سکھانا ہے تو پھر بازار ہی سے ابتدائی قاعدے خرید جن میں بچوں کو پہلے لائنیں لگانا وغیرہ سکھایا جاتا ہے. ٹریسنگ کروائیں. یہ جو پلے گروپ والے بھاری بھرکم رقم چارج کرتے ہیں وہ بھی یہی کام کرتے ہیں. اور ابھی تو آپ کی بیٹی اتنی چھوٹی ہے کہ اس کی پنسل پر گرفت بھی بہت کم ہو گی.
اس سب کے علاوہ میرا مشورہ. پلے ڈو لے کر دیں. اس سے کھیلتی رہے..مختلف چیزیں بنائے لیکن کسی بڑے کی موجودگی میں. اس سے اس کے ہاتھوں اور انگلیوں کے مسلز مضبوط ہوں گے جو بعد میں اس کو پنسل درست پکڑنے میں مدد دیں گے. باقی آہستہ آہستہ بلاکس، تصویروں ، ویڈیوز وغیرہ کے ذریعے پہچان کروائیں. مختلف رنگوں، اشکال، آوازوں وغیرہ کی. تین برس کی ہو جایے تو پھر کوئی قاعدہ لیں اور اسے ٹریسنگ کروائیں. جب ہاتھ کی گرفت بہتر ہو تو چھوٹے چھوٹے وائٹ بورڈ اور مارکرز ملتے ہیں اسے لے دیں اور فری ہنیڈ اسے لائینیں لگانے دیں. چار سال کے بعد سکول میں ڈالنے کا سوچیے گا. میں تو خیر 5 سال کے حق میں ہوں.
ایک اور بات..ہم بچے کو 2 سال کی عمر میں گھر سے نکالتے ہیں اور وہ پھر کبھی گھر نہیں ملتا. بچے کو اس کا بچپن انجوائے کرنے سی پلیز. ہمارے پاکستان میں ابتدائی جماعتوں کا تصور بہت غلط سمجھا جاتا ہے. اور ہم سب بھیڑ چال کا شکار ہیں. پاگلوں کی طرح پیسہ لٹائے جا رہے ہیں اور سکولوں والے ہمیں دونوں ہاتھوں سے لوٹے جا رہے ہیں.
 

فرحت کیانی

لائبریرین
تین ساڑھے تین سال کی عمر کا بچہ چھوٹا ہوتا ہے، سب سے پہلا مسئلہ تو اسے سکول بھیجنے ہی کا ہوتا ہے جو کہ میرے بچے کے ساتھ بھی ہوا۔ اس کے بعد پلے گروپ کا نام تو پاکستانیوں‌ نے لے لیا ہے لیکن جو اصل کانسپٹ ہوتا ہے وہ نہیں لیا، کھیل کھیل میں تعلیم دینا اور بات ہے اور تعلیم کو کھیل بنا دینا دوسری، بس اسی سے مسائل پیدا ہوئے۔
یہی بات. ہمارے یہاں پرائمری اور ایلیمنڑی کلاسز میں بچے پر اتنا پریشر ہوتا ہے کہ الاماں. ہم نے بچوں کو نمبروں کی دوڑ میں ایسا گھما دیا ہے کہ تعلیم کو کھیل ہی بنا دیا ہے.
اتفاق کی بات آج ہی ایک میٹنگ میں بڑے صاحب کے ساتھ اسی موضوع پر بحث ہو گئی کہ 'آکسفورڈ یونیورسٹی پریس' کا نصاب لگا لینا کوالٹی ایجوکیشن کی ضمانت نہیں ہے. ہمارے یہاں rat race جاری ہے ہر سطح پر. نقصان صرف اور صرف بچے کا ہو رہا ہے.
 

فرحت کیانی

لائبریرین
افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں‌ زیادہ تر بلکہ حد سے بھی زیادہ اسکول اسی قسم کے ہیں۔ اور جو ایسے نہیں ہیں ان کی فیس مڈل کلاس طبقے کی پہنچ سے باہر ہے۔

اور مزید افسوس کی بات یہ ہے کہ بچے اسکول میں تعلیم لینے جاتے ہیں نا کہ "ہوم ورک" لینے :)
ہوم ورک بھی وہ جسے کروانے کے لیے آپ کا اعلی تعلیم یافتہ ہونا یا امیر ہونا بہت ضروری ہے تا کہ ٹیوٹر بلوا سکیں. اور جب بچہ کچھ نہ کر پائے تو والدین کو سکول بلا کر persecute کیا جاتا ہے.اللہ کے بندو اگر والدین خود ہی سب کچھ پڑھا سکتے تو سکولز کیوں بنتے بھلا.
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ہوم اسکولنگ سب سے بہتر مگر سب سے مہنگی ہے
اگر والدین پیسہ کمانے کے بجاے پآنچ سے دس سال تک بچے پر توجہ دیں تو یہ دونوں کی بہتری کے لیے ہوگا
پاکستان میں کوئی ٹیچر ٹریننگ نہیں ہے
ہوم سکولنگ واقعی بہترین ہے لیکن اس کے والدین کو اس کی سمجھ اور ان کے پاس اس کا وقت ہونا بہت ضروری ہے جو فی الحال ہمارے ملک میں ممکن نہیں. اکا دکا لوگ البتہ ابھی بھی اس تصور کو آگے لے کر چل رہے ہیں.
ٹیچر ٹریننگ بھی اب پاکستان میں کافی آگے جا چکے ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں تعلیمی اداروں میں اکثریت پرائیویٹ اداروں کی ہے جن کا بنیادی مقصد پیسہ کمانا ہے اور اس کے لیے جتنی لش پش زیادہ اتنا ہی عوام آپ کے پیچھے بھاگے گی.
 

فہیم

لائبریرین
تمام دوستوں کا بے حد شکریہ۔
خود میرا بھی یہی ماننا ہے کہ آج کل پاکستان میں جو پرائیوٹ اسکولز ہیں وہ بس پیسہ کمانے کی کمپنیاں ہیں اور بچوں پر کم عمری میں ہی حد سے زیادہ بوجھ ڈالنے کی وجہ بھی۔

میرا ارادہ بھی اپنی بچی کو چار سال کے بعد ہی اسکول کرانے کا تھا آپ کی باتوں سے میری اس سوچ کو مزید تقویت ملی ہے:)
 

فہیم

لائبریرین
دو سال کی عمر تو بہت کم ہے فہیم، کوئی خدا کا خوف کریں اور اپنی بیگم صاحبہ کو بھی سمجھائیں، ابھی تو بچے کے ڈائپرز کا خرچہ ختم نہیں ہوا ہوگا کہ آپ سکول کی طرف دیکھنا شروع ہو گئے :)

آج کل ساڑھے تین سال کی عمر سے بچوں کو "پلے گروپ" میں لے لیتے ہیں، لیکن میرا مشورہ یہی ہے کہ ایسا نہ کریں، یہ بچے پر بے جا بوجھ ہوگا۔ مناسب ہوگا کہ بٹیا رانی کو ابھی گھر ہی میں‌ تعلیم دی جاِئے اور چار سے پانچ سال کی عمر کے درمیان سکول میں داخل کروایا جائے۔
بیگمات کی نفسیات کے متعلق ہمارا اپنا خیال ہے کہ انہیں دوسرے سب کی باتیں سمجھ آجاتی ہیں۔
نہیں آتیں تو بچارے شوہروں کی باتیں ہی ان کی سمجھ دانی میں نہیں سما پاتیں:)
 
Top