جاسم محمد
محفلین
آپ کو شاید کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔ کٹر مذہبی لوگ اپنے اچھے برے کی تمیز نہیں رکھتے۔ ان کو ہمہ وقت بس یہ فکر لاحق ہوتی ہے کہ آیا ایوان میں قانون سازی عین شریعت کے مطابق ہو رہی ہےیا نہیں؟ کیا اس قانون سازی سے معاشرہ پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، اس کی بالکل کوئی پرواہ نہیں کرتے۔واقعی مذہبی لوگ ہر بری بات کا جواز مذہب میں تلاش کرنے میں ماہر ہیں لیکن مغرب کی نقل کر کے بچوں کو مارنا نہیں چھوڑ سکتے
ضیاء دور میں عین شرعی اسلامی حدود آرڈیننس نافذ کرنے کے بعد جو سنگین صورتحال ملک میں پیدا ہوئی تھی۔ اس سے بھی سبق نہیں سیکھتے۔ صحیح ڈھیٹ لوگ ہیں۔
والد سے قصاص کا حکم اور نیا پاکستانی قانونمعلوم ہوتا ہے کہ ترمیمی بل کے مرتبین کو ماں، باپ، بیٹا، بیٹی کے فطری پیار محبت اور شفقت کے رشتوں کا پوری طرح ادراک ہی نہیں- انہوں نے اسے سانپ اور سنپولیوں کا رشتہ سمجھ لیا ہے- کہا جاتا ہے کہ مادہ سانپ اپنے بچوں کی پیدائش پر ہی حیوانی بھوک مٹانے کی خاطر خاصی تعداد میں ان کو ہڑپ کرجاتی ہے- ماں باپ اور اولاد کو وہ شاید اسی طرح کی مخلوق سمجھتے ہین- معلوم نہیں ہمارے دور جدید کے ان خود ساختہ فقیہان مجلس شوری (پارلیمنٹ) کو یہ استحقاق کہاں سے حاصل ہوگیا کہ وہ قرآن و سنت اور آئین پاکستان کے خلاف قانون سازی کریں- یہ دین و آئین اور اسلام کے خلاف بغاوت ہے- کتاب زندہ قرآن حکیم کی موجودگی میں ایسی اپنی موت آپ ہی مرجائيں گی-