ناصر علی مرزا
معطل
خاکسار کا مقصد ایسی تجاویز پر بات کرنا ہے کہ جن سے بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو بیدار کیا جا سکے
http://nawa-e-islam.com/?p=3198
بچوں کی تخلیقی صلاحیتیں
تخلیقی قوت کسی میں بھی پیدا کی جاسکتی ہے
بچوں کی نفسیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ تخلیق کی قوت پیدائشی نہیں، یہ کسی میں بھی پیدا کی جاسکتی ہے، اس بارے میں امریکا کی مشہور یونیورسٹی میری لینڈ کی ماہر نفسیات ایلس ٹیسن کہتی ہیں۔ ” تخلیق کے بارے میں اکثر یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ ایک مستحکم اور کسی قدر پراسرار صفت ہے جو صرف بعض خوش نصیب لوگوں کو حاصل ہوتی ہے لیکن تحقیق نے ثابت کردیا ہے کہ تخلیقی قوت کسی میں بھی پیدا کی جاسکتی ہے۔“
اس تحقیق سے ماں باپ اور اسکولوں کی ذمے داری میں اضافہ ہوگیا ہے جب ان کے بچوں کے لئے تخلیقی قوت کے تمام راستے کھلے ہیں تو ان پر لازم ہے کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت ایسے انداز میں کریں کہ ان کی تخلیقی قوت بیدار ہو جائے۔
تخلیق ہے کیا؟
مگر سوال یہ ہے کہ تخلیق ہے کیا؟تخلیق کے معنی ہیں نئی چیز بنانا۔ اس لحاظ سے تخلیق کار کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ وہ نئی باتیں، نئے طریقے ، نئے راستے سوچنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس میں جستجو کا مادہ ہوتا ہے۔ اس کی خیالی تصویر بنانے کی قوت قوتِ متخیلہ بہت تیز ہوتی ہے۔ اس کی سوچ میں رکاوٹ نہیں آتی۔ وہ جمالیات کی حس کا مالک ہوتا ہے۔ وہ من موجی اور جذباتی ہوتا ہے اور فرسودہ طریقوں کو دوہرانے سے اجتناب کرتا ہے۔یہ تمام باتیں ہر بچے میں موجود ہوتی ہیں ۔ نہ صرف بڑے بچے بلکہ چھوٹے بچوں میں بھی یہ تمام باتیں ہوتی ہیں ۔ وہ ہر چیز ہر کام کو بغور دیکھتے ہیں ۔ ٹوہ لگاتے ہیں۔ کریدتے ہیں ۔ چھوتے ،سونگھتے ہیں۔ سوچتے ہیں، کھلونوں سے باتیں کرکے اپنے احساسات کا اظہار کرتے ہیں ۔ اسے اپنی اسکیمیں بتاتے ہیں ۔ ایک چیزمیں کئی چیزیں ڈال کر دیکھتے ہیں کہ اس سے اب کیا بنے گا۔ ایک رنگ میں کئی رنگ ملاتے ہیں ۔ وہ چیزوں کو کبھی علیحدہ رکھتے ہیں تو کبھی ڈھیر لگا لیتے ہیں ۔ کبھی تقسیم کرتے ہیں تو کبھی چھپا دیتے ہیں یعنی تمام امکانات پر غور کرتے ہیں ۔ گویا ہر بچہ اپنے آپ میں فلاسفر، تجزیہ نگار اور تخلیق کار ہوتا ہے
تخلیقی صلاحیت کو پابند کرنے کی غلطی
۔اس کی تخلیقی صلاحیت کو پابند کرنے کی غلطی اکثر والدین سے سرزد ہوتی ہے۔ مثلاً میرے ایک دوست ہیں شرافت علی، ان کے دو بچے ہیں ۔ میں انہیں بڑا ذہین سمجھتا تھا۔ کیوں کہ وہ باتیں بھی گہری کرتے تھے اور ڈرائینگ تو مت پوچھئے ، ایسی عمدہ تصویریں بناتے تھے کہ بس دیکھتے رہ جائیں ۔ عید کی آمد آمد تھی۔ شرافت علی نے بچوں سے کہا کہ اس بار ہم تمہارے ڈیزائن کردہ کارڈ اپنے دوستوں رشتے داروں کو بھیجیںگے۔ چار بائی چھ انچ کے گتے پر سرخ اور سبز رنگ سے پہاڑی اور ندی کی ایک تصویر بناﺅ۔ ندی میں کشتی بھی دکھانا۔بس یہیں پر انہوں نے غلطی کردی تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بچوں نے تصویر تو بنادی مگر اس میں وہ بات پیدا نہ ہو سکی جس کے وہ متلاشی تھے۔ دراصل انہوں نے بچوں کو پابندیوں میں جکڑ کر ان کے ذوق تخلیق کو قتل کردیا۔ یہی تجزیہ برینڈیز یونیورسٹی کی ماہر نفسیات پروفیسر ٹریسا امابیل کا بھی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ بچوںکو پابندیوں میں جکڑنے سے ان کا ذوق تخلیق متاثر ہوتا ہے۔ وہ کبھی آگے نہیں بڑھ سکتے
۔بچوں کی تخلیق کو بیدار کرنے کا فارمولا
۔کام میں وابستگی ، لگن ، جوش اور آزادی یہ چیزیں تخلیق کے عمل کو آگے بڑھاتے ہیں ، کامیابی دلاتی ہیں ۔ اگر نکتہ چینی کی ضرورت ہو تو حوصلہ افزائی اور مدد دینے کی نیت سے کریں۔ ماں باپ کا فرض ہے کہ وہ بچوں کے تجسس کو قائم رکھیں۔ جستجو ، تلاش اور نئی بات معلوم ہونے اور نیا کام کرنے کی بے حد خوشی ہوتی ہے۔بچوں کی تخلیق کو بیدار کرنے کا فارمولا ہے جستجو، تلاش، جوش وخروش ، لگن، آزادی اور خوش دلی ۔ بچوں میں کھلنڈرا پن اور مزاح بدرجہ اتم موجود ہیں ۔ اگر آپ کارٹون دیکھتے وقت بچوں کو دیکھیں تو آپ نے دیکھا ہوگا کہ وہ الٹی سیدھی باتوں اور حماقتوں کو دیکھ کرخوش ہوتے ہیں ۔ تبصرہ کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ اگر میں ہوتا تو یوں کردیتا۔ بچوں کی اس روح کو زندہ رکھنا ضروری ہے۔ بے جا پابندیاں بچوں کی نشوونما پر اثر انداز ہوتی ہیں
۔ماں باپ ہی بچوں کے لئے ماڈل ہوتے ہیں ۔ اگر والد صاحب جھنجھلاجھنجھلا کر کہیں کہ تم ہی نے بچے کو بگاڑا ہے۔ بچوں کوپالنا اور دیکھنا میرا کام نہیں، اگر ہر وقت ان کی پیشانی پر تیوری ہو اور بیگم صاحبہ سے بات بات پر الجھیں اور بیگم صاحبہ خود جوالا مکھی بنی رہیں ۔ بات بے بات پر غصہ نکالیں تو بچوں کا ذوق تخلیق کیا بیدار ہوگا۔ ان میں ذوق تخریب پیدا ہونا شروع ہو جائے گا۔ماں باپ خوش مزاج ، زندہ دل، بچوں میں دلچسپی لینے والے ہوں تو ان کے بچے ترقی کے زینے طے کرتے چلے جاتے ہیں بچے تو پودے ہیں، کھاد ڈالی جائے، پانی دیا جائے اور پودے کا خاص خیال رکھا جائے تو وہ پودا پھلتا پھولتا ہے۔ہر بچے میں تخلیق کا مادہ ہوتا ہے۔ ان میں ذوق تجسس، جوش و خروش اور کام میں لگن پیدا کی جائے تو ان کے اندر کا تخلیق کار بیدار ہو تا چلا جاتا ہے اس لئے ہر ماں باپ کو چاہیے کہ بچوں کومشورہ دیں، رہنمائی کریں لیکنہمت افزاءکے لہجے میں ۔ پیار کے ساتھ احتیاط کے ساتھ۔
http://nawa-e-islam.com/?p=3198
بچوں کی تخلیقی صلاحیتیں
تخلیقی قوت کسی میں بھی پیدا کی جاسکتی ہے
بچوں کی نفسیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ تخلیق کی قوت پیدائشی نہیں، یہ کسی میں بھی پیدا کی جاسکتی ہے، اس بارے میں امریکا کی مشہور یونیورسٹی میری لینڈ کی ماہر نفسیات ایلس ٹیسن کہتی ہیں۔ ” تخلیق کے بارے میں اکثر یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ ایک مستحکم اور کسی قدر پراسرار صفت ہے جو صرف بعض خوش نصیب لوگوں کو حاصل ہوتی ہے لیکن تحقیق نے ثابت کردیا ہے کہ تخلیقی قوت کسی میں بھی پیدا کی جاسکتی ہے۔“
اس تحقیق سے ماں باپ اور اسکولوں کی ذمے داری میں اضافہ ہوگیا ہے جب ان کے بچوں کے لئے تخلیقی قوت کے تمام راستے کھلے ہیں تو ان پر لازم ہے کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت ایسے انداز میں کریں کہ ان کی تخلیقی قوت بیدار ہو جائے۔
تخلیق ہے کیا؟
مگر سوال یہ ہے کہ تخلیق ہے کیا؟تخلیق کے معنی ہیں نئی چیز بنانا۔ اس لحاظ سے تخلیق کار کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ وہ نئی باتیں، نئے طریقے ، نئے راستے سوچنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس میں جستجو کا مادہ ہوتا ہے۔ اس کی خیالی تصویر بنانے کی قوت قوتِ متخیلہ بہت تیز ہوتی ہے۔ اس کی سوچ میں رکاوٹ نہیں آتی۔ وہ جمالیات کی حس کا مالک ہوتا ہے۔ وہ من موجی اور جذباتی ہوتا ہے اور فرسودہ طریقوں کو دوہرانے سے اجتناب کرتا ہے۔یہ تمام باتیں ہر بچے میں موجود ہوتی ہیں ۔ نہ صرف بڑے بچے بلکہ چھوٹے بچوں میں بھی یہ تمام باتیں ہوتی ہیں ۔ وہ ہر چیز ہر کام کو بغور دیکھتے ہیں ۔ ٹوہ لگاتے ہیں۔ کریدتے ہیں ۔ چھوتے ،سونگھتے ہیں۔ سوچتے ہیں، کھلونوں سے باتیں کرکے اپنے احساسات کا اظہار کرتے ہیں ۔ اسے اپنی اسکیمیں بتاتے ہیں ۔ ایک چیزمیں کئی چیزیں ڈال کر دیکھتے ہیں کہ اس سے اب کیا بنے گا۔ ایک رنگ میں کئی رنگ ملاتے ہیں ۔ وہ چیزوں کو کبھی علیحدہ رکھتے ہیں تو کبھی ڈھیر لگا لیتے ہیں ۔ کبھی تقسیم کرتے ہیں تو کبھی چھپا دیتے ہیں یعنی تمام امکانات پر غور کرتے ہیں ۔ گویا ہر بچہ اپنے آپ میں فلاسفر، تجزیہ نگار اور تخلیق کار ہوتا ہے
تخلیقی صلاحیت کو پابند کرنے کی غلطی
۔اس کی تخلیقی صلاحیت کو پابند کرنے کی غلطی اکثر والدین سے سرزد ہوتی ہے۔ مثلاً میرے ایک دوست ہیں شرافت علی، ان کے دو بچے ہیں ۔ میں انہیں بڑا ذہین سمجھتا تھا۔ کیوں کہ وہ باتیں بھی گہری کرتے تھے اور ڈرائینگ تو مت پوچھئے ، ایسی عمدہ تصویریں بناتے تھے کہ بس دیکھتے رہ جائیں ۔ عید کی آمد آمد تھی۔ شرافت علی نے بچوں سے کہا کہ اس بار ہم تمہارے ڈیزائن کردہ کارڈ اپنے دوستوں رشتے داروں کو بھیجیںگے۔ چار بائی چھ انچ کے گتے پر سرخ اور سبز رنگ سے پہاڑی اور ندی کی ایک تصویر بناﺅ۔ ندی میں کشتی بھی دکھانا۔بس یہیں پر انہوں نے غلطی کردی تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بچوں نے تصویر تو بنادی مگر اس میں وہ بات پیدا نہ ہو سکی جس کے وہ متلاشی تھے۔ دراصل انہوں نے بچوں کو پابندیوں میں جکڑ کر ان کے ذوق تخلیق کو قتل کردیا۔ یہی تجزیہ برینڈیز یونیورسٹی کی ماہر نفسیات پروفیسر ٹریسا امابیل کا بھی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ بچوںکو پابندیوں میں جکڑنے سے ان کا ذوق تخلیق متاثر ہوتا ہے۔ وہ کبھی آگے نہیں بڑھ سکتے
۔بچوں کی تخلیق کو بیدار کرنے کا فارمولا
۔کام میں وابستگی ، لگن ، جوش اور آزادی یہ چیزیں تخلیق کے عمل کو آگے بڑھاتے ہیں ، کامیابی دلاتی ہیں ۔ اگر نکتہ چینی کی ضرورت ہو تو حوصلہ افزائی اور مدد دینے کی نیت سے کریں۔ ماں باپ کا فرض ہے کہ وہ بچوں کے تجسس کو قائم رکھیں۔ جستجو ، تلاش اور نئی بات معلوم ہونے اور نیا کام کرنے کی بے حد خوشی ہوتی ہے۔بچوں کی تخلیق کو بیدار کرنے کا فارمولا ہے جستجو، تلاش، جوش وخروش ، لگن، آزادی اور خوش دلی ۔ بچوں میں کھلنڈرا پن اور مزاح بدرجہ اتم موجود ہیں ۔ اگر آپ کارٹون دیکھتے وقت بچوں کو دیکھیں تو آپ نے دیکھا ہوگا کہ وہ الٹی سیدھی باتوں اور حماقتوں کو دیکھ کرخوش ہوتے ہیں ۔ تبصرہ کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ اگر میں ہوتا تو یوں کردیتا۔ بچوں کی اس روح کو زندہ رکھنا ضروری ہے۔ بے جا پابندیاں بچوں کی نشوونما پر اثر انداز ہوتی ہیں
۔ماں باپ ہی بچوں کے لئے ماڈل ہوتے ہیں ۔ اگر والد صاحب جھنجھلاجھنجھلا کر کہیں کہ تم ہی نے بچے کو بگاڑا ہے۔ بچوں کوپالنا اور دیکھنا میرا کام نہیں، اگر ہر وقت ان کی پیشانی پر تیوری ہو اور بیگم صاحبہ سے بات بات پر الجھیں اور بیگم صاحبہ خود جوالا مکھی بنی رہیں ۔ بات بے بات پر غصہ نکالیں تو بچوں کا ذوق تخلیق کیا بیدار ہوگا۔ ان میں ذوق تخریب پیدا ہونا شروع ہو جائے گا۔ماں باپ خوش مزاج ، زندہ دل، بچوں میں دلچسپی لینے والے ہوں تو ان کے بچے ترقی کے زینے طے کرتے چلے جاتے ہیں بچے تو پودے ہیں، کھاد ڈالی جائے، پانی دیا جائے اور پودے کا خاص خیال رکھا جائے تو وہ پودا پھلتا پھولتا ہے۔ہر بچے میں تخلیق کا مادہ ہوتا ہے۔ ان میں ذوق تجسس، جوش و خروش اور کام میں لگن پیدا کی جائے تو ان کے اندر کا تخلیق کار بیدار ہو تا چلا جاتا ہے اس لئے ہر ماں باپ کو چاہیے کہ بچوں کومشورہ دیں، رہنمائی کریں لیکنہمت افزاءکے لہجے میں ۔ پیار کے ساتھ احتیاط کے ساتھ۔