بچوں کی تخلیقی صلاحیتیں(بیدار کرنےکی تجاویز)

داؤد صاھب نے نائی،سبزی والا،ٹرین ڈرائیور،پائلٹ،انجینئر،ڈاکٹر،ایک ہی وقت میں صبح کے وقت میں ائیر فورس میں،دوپہر کو نیوی میں اور شام کو آرمی میں ہؤا کروں گا۔ مما بس میں نے سوچ لیا ہے کہ میں نے یہ تینوں ہی پیشے اپنانے ہیں۔ دن کےتین حصوں میں تین پروفیشن۔
بس میں نے تو وزیرِاعلیٰ ہی بننا ہے۔ بس اب آخری ہے۔
کینٹ کا چیف
ایمن نے بھی ڈھیروں پیشوں کے بعد آج کل سائنسدان بننے پر زور دیا ہؤا ہے۔
ماشاء اللہ ، بچوں کے نام بہت خوبصورت ہیں،
داود صاحب سے یہ بھی پوچھ کر بتائیں کہ ان تین پیشوں کو ایک وقت میں کیسے ہینڈل کرنا ہے، بچے تو سوال کرتے ہی ہے، ہمیں بھی بچوں کی سوچ ابھارنے کے لیے ان کے ساتھ، مکالمہ یا بحث کرنی چاہیے، ان کو چھوٹے چھوٹے مسائل کا حل بتانے کی بجائے، ان کو معلومات فراہم کر یں کہ حل کی طرف وہ خود جائیں،
اور ایمن صاحبہ سے سوال ہے کہ سائنسدان ہی کیوں، ڈاکٹر یا استاد کیوں نہیں، آخر اس سائنسدانی کے علم میں ایسا کیا ہے
 

جاسمن

لائبریرین
محمدداؤد کو چونکہ تینوں شعبے پسند ہیں ۔ اس لئے اُنھیں سمجھ نہیں آتی کہ کس کو چھوڑیں اور کس کو اپنائیں۔ ایمن نے حال ہی میں سائنسدانوں کی کہانیاں مجھ سے سُنی ہیں اس لئے بہت متاثر ہیں۔ اس سے پہلے وہ استاد اور پھر ڈاکٹر بننا چاہتی تھیں۔ اور ایک وقت ایسا بھی تھا کہ ان کا موڈ کچھ بھی بننے کا نہیں تھا۔جب کوئی پوچھتا کہ کیا بننا ہے( میں تو انھیں یہی بتاتی ہوں کہ یہ صرف فیلڈز کا انتخاب ہے،جبکہ ہماری زندگی کا مقصد اللہ کی رضا ہے) تو شانِ بے نیازی سے ارشا دہوتا"کچھ نہیں"۔
 
بچوں کی بوریت، تخلیقی صلاحیت میں اضافہ

ایک ماہرِ تعلیم کے مطابق بچوں کو بوریت کا شکار ہونے دینا چاہیے تاکہ ان میں پیدائشی تخلیقی صلاحیت کی نشوونما ہو سکے۔

ڈاکٹر ٹریسا بیلٹن نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عام رواج یہ ہے کہ بچوں کو مسلسل متحرک رہنا چاہیے لیکن یہ بچوں میں تخلیقی صلاحیت پیدا ہونے کی راہ میں رکاوٹ کا سبب بنتا ہے۔
انہوں نے مصنفہ میرا سیال اور فن کار گرسن پیری کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کس طرح سے بوریت نے بچپن میں ان کی تخلیقی صلاصیتوں میں اضافہ کیا۔
سیال کا کہنا ہے کہ بوریت نے ان کو مصنفہ بنا دیا جبکہ پیری کے مطابق وہ ایک’تخلیقی کیفیت‘ تھی۔

یونیورسٹی آف ایسٹ اینگلیا کے سکول آف ایجوکیشن میں سینئیر محقق ڈاکٹر ٹریسا نے متعدد مصنفین، فنکاروں اور سائنسدانوں کے انٹرویوز کیے تاکہ ان کی زندگیوں میں بوریت کے اثرات کا جائزہ لیا جا سکے۔

انہوں نے مصنفہ سیال کا ایک چھوٹے سے گاؤں میں گزرے بچپن کے بارے میں سنا جس میں کچھ اضطراب بھی تھا۔
ڈاکٹر بیلٹن کے مطابق’ کچھ کرنے کے لیے نہیں تھا تو اس سے ان کی حوصلہ افزائی ہوئی کہ وہ لوگوں سے بات چیت کریں اور نئی سرگرمیوں کے بارے میں سوچا اور دوسری صورت میں وہ ایسا نہیں کر سکتی تھیں۔‘
’بوریت کا تعلق اکیلے پن سے ہوتا ہے اور اپنی زندگی کے ابتدائی ایام میں گھنٹوں کھڑکی سے باہر کھیتوں،درختوں اور تبدیل ہوتے موسموں کو دیکھا۔‘
’لیکن اس میں اہم یہ ہے کہ بوریت نے ان انہیں مصنفہ بنا دیا ۔انہوں نے بچپن میں اپنے پاس ڈائری رکھنا شروع کر دی اور اس میں اپنے مشاہدے قلم بند کرنے شروع کیے، نظمیں لکھنا شروع کیں، کہانیاں، برائیوں کے بارے میں لکھنا شروع کیا اور بعد میں ان تمام چیزوں کو مصنفہ بننے سے منسوب کرتی ہیں۔‘

ڈاکٹر ٹرسیا نے اس کے ساتھ خبردار بھی کیا کہ تخلیقی ہونے کے عمل کا تعلق اندرونی تحریک سے بھی ہے۔

قدرتی ناگواری ایک خلاء پیدا کرتی ہے اور ہم اسے پُر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کچھ نوجوان جنہیں اندازہ نہیں ہوتا کہ اندرونی طور پر تخلیقی بوریت سے کیسے نمٹنا ہے تو وہ اس صورت میں بسوں کے شیشے توڑنا شروع کر دیتے ہیں یا گاڑی میں تفریح کے لیے باہر نکل جاتے ہیں۔

ڈاکٹر ٹرسیا نے اس سے پہلے ٹیلی ویژن اور ویڈیو کے بچوں پر اثرات کا مطالعہ کیا تھا، ان کا کہنا ہے کہ’ جب بچوں کے پاس کچھ کرنے کو نہیں ہوتا تو فوری طور پر ٹی وی، کمپیوٹر آن کر لیتے ہیں کسی کو فون کر لیا یا سکرین پر دیکھنے سے متعلق کوئی کام کرنا شروع کر دیتے ہیں اور ان چیزوں پر صرف ہونے والے وقت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

’بچوں کو رک کر وقت کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھنا چاہیے، وقت کا تصور کرنا اور اپنے خیالات کے عمل کا تعاقب کرنا، یا اپنے تجربات کو کھیل یا اپنے ارد گرد کے مشاہدے سے یکساں کر سکتے ہیں
 

arifkarim

معطل
بچوں کی بوریت، تخلیقی صلاحیت میں اضافہ

ایک ماہرِ تعلیم کے مطابق بچوں کو بوریت کا شکار ہونے دینا چاہیے تاکہ ان میں پیدائشی تخلیقی صلاحیت کی نشوونما ہو سکے۔

ڈاکٹر ٹریسا بیلٹن نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عام رواج یہ ہے کہ بچوں کو مسلسل متحرک رہنا چاہیے لیکن یہ بچوں میں تخلیقی صلاحیت پیدا ہونے کی راہ میں رکاوٹ کا سبب بنتا ہے۔
انہوں نے مصنفہ میرا سیال اور فن کار گرسن پیری کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کس طرح سے بوریت نے بچپن میں ان کی تخلیقی صلاصیتوں میں اضافہ کیا۔
سیال کا کہنا ہے کہ بوریت نے ان کو مصنفہ بنا دیا جبکہ پیری کے مطابق وہ ایک’تخلیقی کیفیت‘ تھی۔

یونیورسٹی آف ایسٹ اینگلیا کے سکول آف ایجوکیشن میں سینئیر محقق ڈاکٹر ٹریسا نے متعدد مصنفین، فنکاروں اور سائنسدانوں کے انٹرویوز کیے تاکہ ان کی زندگیوں میں بوریت کے اثرات کا جائزہ لیا جا سکے۔

انہوں نے مصنفہ سیال کا ایک چھوٹے سے گاؤں میں گزرے بچپن کے بارے میں سنا جس میں کچھ اضطراب بھی تھا۔
ڈاکٹر بیلٹن کے مطابق’ کچھ کرنے کے لیے نہیں تھا تو اس سے ان کی حوصلہ افزائی ہوئی کہ وہ لوگوں سے بات چیت کریں اور نئی سرگرمیوں کے بارے میں سوچا اور دوسری صورت میں وہ ایسا نہیں کر سکتی تھیں۔‘
’بوریت کا تعلق اکیلے پن سے ہوتا ہے اور اپنی زندگی کے ابتدائی ایام میں گھنٹوں کھڑکی سے باہر کھیتوں،درختوں اور تبدیل ہوتے موسموں کو دیکھا۔‘
’لیکن اس میں اہم یہ ہے کہ بوریت نے ان انہیں مصنفہ بنا دیا ۔انہوں نے بچپن میں اپنے پاس ڈائری رکھنا شروع کر دی اور اس میں اپنے مشاہدے قلم بند کرنے شروع کیے، نظمیں لکھنا شروع کیں، کہانیاں، برائیوں کے بارے میں لکھنا شروع کیا اور بعد میں ان تمام چیزوں کو مصنفہ بننے سے منسوب کرتی ہیں۔‘

ڈاکٹر ٹرسیا نے اس کے ساتھ خبردار بھی کیا کہ تخلیقی ہونے کے عمل کا تعلق اندرونی تحریک سے بھی ہے۔

قدرتی ناگواری ایک خلاء پیدا کرتی ہے اور ہم اسے پُر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کچھ نوجوان جنہیں اندازہ نہیں ہوتا کہ اندرونی طور پر تخلیقی بوریت سے کیسے نمٹنا ہے تو وہ اس صورت میں بسوں کے شیشے توڑنا شروع کر دیتے ہیں یا گاڑی میں تفریح کے لیے باہر نکل جاتے ہیں۔

ڈاکٹر ٹرسیا نے اس سے پہلے ٹیلی ویژن اور ویڈیو کے بچوں پر اثرات کا مطالعہ کیا تھا، ان کا کہنا ہے کہ’ جب بچوں کے پاس کچھ کرنے کو نہیں ہوتا تو فوری طور پر ٹی وی، کمپیوٹر آن کر لیتے ہیں کسی کو فون کر لیا یا سکرین پر دیکھنے سے متعلق کوئی کام کرنا شروع کر دیتے ہیں اور ان چیزوں پر صرف ہونے والے وقت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

’بچوں کو رک کر وقت کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھنا چاہیے، وقت کا تصور کرنا اور اپنے خیالات کے عمل کا تعاقب کرنا، یا اپنے تجربات کو کھیل یا اپنے ارد گرد کے مشاہدے سے یکساں کر سکتے ہیں


یہ نئی ریسرچ درست ہے۔ دراصل بوریت ہی انسان میں نئی تخلیقی سوچ کو پیدا کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ لیکن اسکے لئے والدین کا ساتھ ضروری ہے۔ وگرنہ لڑکوں میں یہ بوریت اکثر اوقات تشدد، توڑ پھوڑ اور دیگر شدت پسند تفریحات میں بدل سکتی ہے۔
 
موجودہ دور میں بہت کم بچے تخلیقی ذہن رکھتے ہیں کہ سمارٹ فون اور ٹیبلٹ نے ان کو صرف اور صرف کھیلوں پر لگا دیا ہے۔
اس بارے میں کچھ معلومات
برطانوی محققین ایک مطالعہ شروع کرنے والے ہیں جس کا مقصد یہ پتہ چلانا ہے کہ آیا موبائل فونز اور دیگر وائرلیس آلات بچوں کی ذہنی نشوونما متاثر کرتے ہیں یا نہیں۔ دنیا بھر میں یہ اپنی نوعیت کی سب سے بڑی تحقیق ہو گی۔

اسے ’ادراک، بلوغت اور موبائل فونز‘ کا مطالعہ یا ’ایس سی اے ایم پی‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ تحقیق ادراک کے عوامل یعنی یادداشت اور توجہ پر فوکس کرے گی۔ ان صلاحیتوں کی نشو و نما بلوغت تک جاری رہتی ہے۔ یہ وہ عمر ہوتی ہے، جب نوجوانوں کے پاس ذاتی فون آ جاتا ہے اور وہ اس کا استعمال شروع کر دیتے ہیں۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق صحت پر موبائل فونز کی ریڈیائی شعاعوں کے منفی اثرات کا کوئی مدلّل ثبوت نہیں ہے۔ چونکہ آج تک کیے جانے والے سائنسی مطالعات کا موضوع ’بالغ افراد اور دماغی سرطانوں کے ممکنہ خطرات‘ رہے ہیں، اسی وجہ سے سائنسدان بے یقینی کا شکار ہیں کہ آیا بچوں کے دماغ کی نشو و نما بالغوں کے دماغ سے زیادہ غیرمحفوظ ہو سکتی ہے یا نہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ بچوں کا اعصابی نظام ابھی نمو پا رہا ہوتا ہے۔

اس مطالعے کے محققین میں سے ایک امپیریئل کالج لندن کے سینٹر برائے ماحول و صحت کے سربراہ پال ایلیٹ ہیں۔ وہ کہتے ہیں:’’آج تک جو سائنسی شواہد دستیاب ہیں، وہ اطمینان بخش ہیں اور ان سے موبائل فون کے استعمال سے ریڈیو فریکوئنسی ویوز اور بالغوں میں دماغی سرطان کے درمیان تعلق دکھائی نہیں دیتا، اس تجزیے کی بنیاد دس سال سے کم عرصے تک موبائل فون استعمال کرنے والے بالغوں پر ہے۔‘‘

پال ایلیٹ کا کہنا ہے:’’لیکن طویل عرصے تک بھاری استعمال اور بچوں کے استعمال کے حوالے سے دستیاب شواہد محدود اور غیر واضح ہیں۔‘‘
 
امجد اسلام امجد
قدرت نے انسانی ذہن کو جن چند خصوصی صلاحیتوں سے نوازا ہے ان میں سے ایک قوت متخیلہ بھی ہے جس کی کوکھ سے ادب اور زندگی کے ایک اہم جزو یعنی Fantasy نے جنم لیا ہے۔ یوں دیکھا جائے تو Fantasy اور انسان کا جنم جنم کا ساتھ ہے البتہ وقت کے ساتھ اتنا فرق ضرور پڑا ہے کہ سائنس کے فروغ سے پہلے انسان کی Fantasies ایک تصوراتی ماضی سے وابستہ ہوتی تھیں اور آج کا انسان انھیں ایک تصوراتی مستقبل کے حوالے سے دیکھتا ہے یعنی اگلے وقتوں کی طلسم ہوش ربا اور آج کی جدید سائنس فکشن فلم Avatar اصل میں ایک ہی تصویر کے دو رخ ہیں۔

کسی معاشرے کی عمومی اور ذہنی تعمیر و تشکیل کا دارومدار اس بات پر بھی ہوتا ہے کہ اس کے بچے کس طرح کے خواب دیکھتے ہیں، کن باتوں کے بارے میں سوچتے ہیں اور کن چیزوں سے متاثر ہوتے ہیں۔ Unseen کی حیرت اور Quest for Knowledge ہی مل جل کر ان رویوں کی تشکیل کرتے ہیں جن سے خواب دیکھنے والے فن کار اور ان خوابوں کو عملی شکل دینے والے سائنسدان پیدا ہوتے ہیں۔ سو دیکھنے والی بات یہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کو کیا دے رہے ہیں؟ اس سوال کا اطلاق اسکول، معاشرے اور گھر تینوں پر ایک ساتھ ہوتا ہے۔ وہ کہانیوں کے کردار (Syndrella’ Tome & Jerry, Lion King, Superman, Spiderman, Batman) وغیرہ وغیرہ ہوں یا ان سے متعلق کہانیاں اور ان میں استعمال ہونے والی زبان یہ سب بچوں کے ذہنوں پر ایسے اثرات مرتب کرنے کا وسیلہ بنتے ہیں جن سے ان کے اندر ایڈونچر، طاقت، دلچسپی، حیرت اور غیر فطری تصورات کے لیے جگہ پیدا ہوتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تصورات کی نوعیت کے اعتبار سے اکیسویں صدی کا بچہ بیسویں صدی کے بچے سے آگے ہے کہ اب وہ کہانیوں سے صرف لطف اندوز ہی نہیں ہوتا بلکہ اپنے آپ کو ان سے Relate کرکے بھی دیکھتا ہے مثال کے طور پر (کم از کم برصغیر کی حد تک) سوتیلی ماں یعنی Step Mother کا کردار بچوں کے لیے لکھی یا بنائی گئی درسی کہانیوں کا ایک مخصوص کردار ہے جو انھیں اسکول کی ابتدائی جماعتوں میں پڑھائی جاتی ہیں۔ یہ سوتیلی ماں عام طور پر کہانی کے محبوب اور مظلوم کردار پر ہمہ وقت ظلم و ستم کرتی دکھائی جاتی ہے۔ چند عشرے قبل تک یہ کردار صرف ایک حقیقی صورتحال کی نمائندگی کرتا تھا مگر آج کا بچہ اس میں استعاراتی معنی بھی پیدا کر لیتا ہے۔ اس ضمن میں ایک دلچسپ واقعہ میرے ذاتی مشاہدے میں بھی آیا ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ میری نواسی آئتین علی جب پانچ برس کی تھی تو والد کی مختلف شہروں میں ٹرانسفر کی وجہ سے ایک برس میں اسے تین اسکول بدلنے پڑے، ظاہر ہے بچوں کے لیے ہم جماعتوں اور ٹیچرز کی یہ تبدیلی جذباتی حوالے سے بہت متاثر کن ہوتی ہے سو میں نے محض اسے بہلانے کے لیے اس کے ساتھ فون پر اِدھر اُدھر کی باتیں شروع کر دیں جن میں سے ایک یہ بھی تھی کہ تمہاری نئی ٹیچر کیسی ہیں؟ چند لمحے سوچنے کے بعد اس نے جواب دیا ، ’’نانا مجھے تو وہ کوئی Step Teacher لگتی ہیں‘‘

اب اس Step Teacher سے جس طرح اس نے متعلقہ ٹیچر کے انداز، اسلوب، سخت گیری اور عمومی تاثر کا نقشہ کھینچا ہے وہ بے حد دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ بالخصوص ان تمام بڑوں کے لیے کچھ سوال بھی کھڑے کر رہا ہے جو ان بچوں کی نصابی اور ہم نصابی کتابیں لکھنے یا شائع کرنے سے کسی نہ کسی طرح متعلق ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس مسئلے پر بھی غور و فکر ضروری ہے کہ Audio Video Aids کی افراط نے لفظوں سے متعلق تصورات میں معافی کی بہت سی نئی جہتیں پیدا کر دی ہیں اور اب ہمیں ان کو بھی ساتھ لے کر چلنا پڑے گا اور واضح رہے کہ یہ کوئی آسان کام نہیں کیونکہ اس کا تعلق ایک بہت بڑی بزنس مارکیٹ سے ہے اور اس مارکیٹ پر قابض لوگ بچوں کو قومی اور انسانی سرمایہ نہیں بلکہ محض ایک ’’گاہک‘‘ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ایک ایسا گاہک جس کی ضد بڑے بڑے اصول پسندوں اور تہذیبی رویوں کے ماہر دانش وروں کی مزاحمت کو سیلاب کے پانی کی طرح اپنے ساتھ بہا لے جاتی ہے۔ آپ کسی کھلونوں کی دکان پر جا کر شو کیس میں رکھے گئے کھلونوں کی نوعیت ساخت، کشش اور قیمت پر ایک نظر ڈالیے آپ پر یہ حقیقت ایک لمحے میں کھل جائے گی کہ یہ انڈسٹری کس قدر طاقتور اور ہوشیار ہے۔

غیر ملکی اور تہذیبی اعتبار سے مختلف معاشروں کے تخلیق کردہ کردار آج ہمارے بچوں کے لیے ایک آئیڈیل کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ کتاب کارٹون ٹی وی اور فلم چاروں سطحوں پر یہ بار بار ان کے سامنے لائے جاتے ہیں اور ان کی وساطت سے کھلونا ساز کمپنیاں اور بچوں کے ملبوسات اور جوتے تیار کرنے والے سرمایہ دار ایک ایسا ماحول پیدا کر دیتے ہیں جس کے غبار میں صارف معاشروں کا مقامی کلچر، قومی تاریخ، فوک لور اور نظریاتی آورش سب کچھ راکھ کا ڈھیر بن جاتے ہیں۔ بلا شبہ اس کے پس منظر میں ہمارے جیسے صارف معاشروں کی جہالت، پسماندگی اور ترقی کی دوڑ میں بروقت اور مؤثر انداز میں شامل نہ ہونا بہت اہم اور حقیقی عناصر ہیں لیکن انھیں تقدیر کا لکھا سمجھ کر ہتھیار ڈال دینا بھی کوئی مناسب اور عقل مندی کی بات نہیں اس میں بھی شک نہیں کہ ٹیکنالوجی کی ترقی کو روکنا کسی انسان یا قوم کے بس کی بات نہیں لیکن اس کے ساتھ Co-Exist کرنے کے راستے تو نکالے جا سکتے ہیں اپنے بچوں کے ذہن، ماحول، وسائل اور ترجیحات کو سامنے رکھ کر ایسے اقدام تو کیے جا سکتے ہیں جن کی بدولت وہ ان تہذیبی، سماجی اور تاریخی روایات کے ساتھ بھی رشتہ آرا رہ سکیں جو ہمارے ہونے کی پہچان ہیں بچوں کے دلچسپ اور معلومات افزا گیت بالخصوص نرسری Rhymes اور کہانیاں اردو اور دیگر پاکستانی زبانوں میں کیوں نہیں لکھی جا سکتیں، کیوں بچوں کے لیے ایسی کتابیں، کارٹون، ٹی وی سیریلز اور فلمیں نہیں بنائی جا سکتیں جو تکنیک کے اعتبار سے جدید اور مواد Content اور کرداروں کے اعتبار سے ہمارے اپنے معاشرے کی نمائندہ ہوں! مقبول کارٹون اور بچوں کے لیے تیار کی گئی نمائندہ فلموں کے تراجم اس اردو میں کیوں نہیں کیے جا سکتے جو ہم بولتے اور لکھتے ہیں! ماضی قریب میں ٹی وی کے کچھ موسیقی کے پروگرام اور ڈرامہ سیریل بچوں میں بے حد مقبول رہے ہیں ان کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کر کے ان سلسلوں کو استحکام کیوں نہیں دیا جا سکتا!

سوال تو اور بھی بہت سے ہیں لیکن روایتی تنقید میں الجھنے سے بہتر ہے کہ کچھ مثبت اشاریوں پر توجہ دی جائے۔ گزشتہ چند برسوں سے بچوں کے لیے اردو میں تیار کی جانیوالی کتابوں میں معیار اور مقدار دونوں اعتبار سے بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔ فیروز سنز، آکسفورڈ یونیورسٹی پریس، سنگ میل پبلی کیشنز اور جہانگیر بکس سمیت بہت سے اداروں نے تسلسل سے خوبصورت اور دیدہ زیب کتابیں پیش کی ہیں لیکن ان میں شامل بیشتر اوریجنل یا ترجمہ شدہ مواد انگریزی یا دیگر یورپی زبانوں سے لیا گیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پیشکش میں تو دل کھول کر جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کیا جائے مگر کہانیوں، گیتوں اور کرداروں میں ’’مقامیت‘‘ پر خصوصی توجہ دی جائے۔ زکوٹا جن اور Spider,Bat یا کسی اور Man کو ملا کر ایسے کردار تخلیق کیے جائیں جن میں ماضی، حال و مستقبل تینوں زبانوں کی جھلک موجود ہو کہ Fantasy کسی خاص زمانے کے تابع نہیں ہوتی۔ اڑن قالین اور خلائی جہاز دونوں کی تشکیل ایک ہی سوچ سے ہوئی ہے۔ ساحری جادوگر اور Bionic Man ایک ہی تصور کے دو مختلف نام ہیں۔

ضروری ہے کہ بچوں کی کہانیوں اور ان میں موجود مافوق الفطرت کرداروں میں موجود تشدد، جدید اسلحے کے بے محابا استعمال، دہشت انگیزی اور طاقت کے ذریعے دوسروں کو زیر کرنے کے منفی رجحانات کی جگہ حق اور باطل کی تفریق اور حق کی فتح کے لیے امن، دوستی، بھائی چارے نیکی اور انصاف کے اصولوں کو فروغ دینے والا مواد تخلیق کیا جائے تا کہ ہمارے بچے بہتر، متوازن مزاج اور حق پرست انسان بن سکیں اور ان کا آئیڈیل تباہی اور بربادی پیدا کرنے والے روبوٹس کے بجائے اس طرح کے انسان ہوں جنھیں رب کریم نے احسن التقویم کا درجہ عطا کیا ہے۔
 
تخیل کی قوت
ہم کیا بن سکتے ہیں اور کیا کرسکتے ہیں، اس کا فیصلہ خود ہمارا تخیل کرتا ہے
عاطف مرزا

134299-Imaginationpower-1370194608-772-640x480.JPG

ہم کیا بن سکتے ہیں اور کیا کرسکتے ہیں، اس کا فیصلہ خود ہمارا تخیل کرتا ہے۔ فوٹو: فائل
کسی شہر میں ایک گمنام آرٹسٹ رہتا تھا۔ وہ کوئی ایسا فنی شہ پارہ نہیں بناسکا تھا جو اس کی کامیابی کی بنیاد بنتا۔
ایک دن اس نے ایک مفلس شخص دیکھا جس کا چہرہ افسردگی اور پریشان حالی کی منہ بولتی تصویر تھا۔ اس کی آنکھوں میں مایوسی ہی مایوسی تھی۔ آرٹسٹ کے ذہن میں ایک عجیب سا خیال آیا، اس نے اس مفلس شخص کو اپنے سامنے بٹھایا اور اپنے رنگوں سے اس کی تصویر بنانے لگا۔
آرٹسٹ نے تصویر میں اس شخص کے چہرے کو ایسا روشن اور تروتازہ بنایا کہ وہ پر عزم اور پروقار دکھائی دینے لگا۔ اس کی آنکھوں میں اس نے امید کی چمک پیدا کردی۔ جب آرٹسٹ نے اس شخص کو تصویر دکھائی تو وہ حیران رہ گیا کہ کیا وہ ایسا بھی دکھائی دے سکتا ہے۔ آرٹسٹ نے اسے کہا وہ اسے ایسے شخص کے طور پر ہی دیکھ رہا ہے۔ مفلس شخص نے فیصلہ کیا وہ اپنی زندگی بدلے گا اور کامیاب اور خوشحال انسان بنے گا۔ اس نے ذہن کے فریم سے اپنی تصویر ہٹا دی اور اس کی جگہ آرٹسٹ کی بنائی ہوئی نئی تصویر فٹ کردی۔ ایک دن وہ شخص اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔
آرٹسٹ نے ایک بہترین فنی شہ پارہ بنالیا، اس کے ساتھ ساتھ اس نے ایک انسانی زندگی کو بھی ایک شاہکار میں بدل دیا تھا۔ ہم کیا بن سکتے ہیں اور کیا کرسکتے ہیں۔ اس کا فیصلہ اس بات سے ہوتا ہے کہ ہمارا اپنے بارے میں کیا تصور ہے۔ اس تصور کو سیلف امیج کہا جاتا ہے۔ تخیل انسان کی اہم ترین صلاحیت ہے۔ انسان اپنے ذات کے بارے میں جو تخیل قائم کرتا ہے اسی کے مطابق زندگی گزارتا ہے اور کامیابی حاصل کرتا ہے۔
کامیابی کا نقطہ آغاز یہ ہے کہ انسان اپنا سیلف امیج بڑے سے بڑا رکھے۔ عام لوگ اپنی اہلیت اور صلاحیت سے کم سطح پر زندگی گزارتے رہتے ہیں۔ اسی لیے وہ حقیقی اطمینان، خوشی اور کامیابی نہیں حاصل کر پاتے۔ خاص لوگ خود سے بڑی توقعات وابستہ کرتے ہیں۔ اپنے ذہن میں خود کو کامیاب ہوتا دیکھتے ہیں۔ اس تصویر کو ذہن میں دھندلا نہیں ہونے دیتے اور پھر اپنے عزم اور ثابت قدمی سے اپنی منزل حاصل کرلیتے ہیں۔ عام لوگ خود پر اعتماد نہیں رکھتے، ٹال مٹول سے کام لیتے ہیں، بہانے تراشتے ہیں اور حالات کے مکمل سازگار ہونے کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ وہ تنقید اور مسترد کیے جانے کے خوف میں مبتلا رہتے ہیں۔ کسی بھی ناکامی سے بچنے کے لیے وہ اپنے اہداف نیچے سے نیچے رکھنے لگتے ہیں۔
316.jpg

ہمارے اردگرد ایسی کئی کہانیاں ہیں جن میں لوگوں نے اپنے ذہنوں میں اپنے لیے بہترین تصورات قائم کیے اور پھر انہیں حاصل کرلیا۔ ایسی مثالیں بزنس، آرٹ، سائنس، سیاست، ادب اور کھیل سمیت سب شعبوں میں موجود ہیں۔ دنیا کی معروف کمپیوٹر کمپنی آئی بی ایم، 1925ء میں ایک چھوٹی سی کمپیوٹر کمپنی تھی۔ اس کے چیئرمین نے اس کمپنی کے نام کے ساتھ انٹرنیشنل کے لفظ کا اضافہ کردیا۔ وہ اسے ایک عالمی کمپنی بنانے کا خواب دیکھ رہا تھا۔ لوگ حیران تھے یہ چھوٹی سی کمپنی عالمی سطح پر اپنی شناخت کیسے قائم کرسکتی ہے۔ لیکن ٹائم واٹسن اپنے خواب کو حقیقت بنانے میں کامیاب ہوگیا اور آئی بی ایم ایک عالمی کمپنی بن گئی۔
ڈائلمر نے 1890ء میں اپنی فیملی کو ایک پوسٹ کارڈ لکھا اور اس پر ایک تین کونوں والا ستارہ بنایا۔ اس نے انہیں لکھا کہ وہ ایک بڑا کام کرے گا اور یہ ستارہ اس کی پہچان بنے گا۔ اس نے اپنی بات سچ کر دکھائی۔ اس نے اپنے دوست کے ساتھ مل کر دنیا کی ایک بڑی کمپنی مرسڈیز کی بنیاد رکھی اور وہ ستارہ اس کی پہچان بنا۔
کمپیوٹر آج ہماری زندگی کا اہم حصہ ہے۔ اس کی ایجاد کے ابتدائی دنوں میں ایسا کوئی تصور نہیں تھا کہ اسے عام لوگ استعمال کریں گے۔ بل گیٹس نے ایسا ممکن کردکھایا۔ جب وہ یونیورسٹی کا طالب علم تھا تو وہ اپنے ذہن میں ایک سافٹ ویئر کی تصویر بنایا کرتا تھا جس کی مدد سے عام لوگ بھی کمپیوٹر استعمال کرسکیں۔ اس نے اپنی اس ذہنی تصویر کو کاغذ پر منتقل کیا اور ایک ایسا سافٹ ویئر تخلیق کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ بل گیٹس نے معروف کمپنی مائیکروسافٹ کی بنیاد رکھی۔ اس کا شمار دنیا کے مؤثر ترین افراد میں کیا جاتا ہے۔
imagination.jpg

1957ء میں ایک 10 سالہ بچے نے فٹ بال کا عظیم کھلاڑی بننے کا خواب دیکھا۔ وہ غریب والدین کا بیٹا تھا، فاقوں کے باعث ہڈیوں کی بیماری کا شکار بھی ہوا۔ یہ لڑکا اس وقت کے ایک بڑے کھلاڑی جم برائون سے ملنے کے لیے گھر سے نکل۔ا اس کے پاس میچ کا ٹکٹ خریدنے کے لیے پیسے نہیں تھے لیکن وہ کسی نہ کسی طرح اس بڑے کھلاڑی کا آٹو گراف لینے میں کامیاب ہوگیا۔ اس لڑکے نے جم برائون سے کہا کہ میں ایک دن تمہارے تمام ریکارڈ توڑ دوں گا۔ اس لڑکے کا نام اوجے سمپسن تھا اور ایک دن اس نے جم برائون کے بیشتر ریکارڈ توڑ دیئے۔
اسی طرح کی ایک اور کہانی ایک طالب علم کے بارے میں ہے جب اس نے یونیورسٹی میں داخلہ لیا تو اس کے پاس ایک دھات کا بنا علامتی نشان تھا۔ وہ اس کا نقش ہر وقت اپنے ذہن میں رکھتا تھا مگر اس کے بارے میں کسی سے بات نہیں کرتا تھا۔ یونیورسٹی میں تعلیمی سفر کے اختتام پر اسے بہترین طالب علم کا ایوارڈ دیا گیا۔ جب وہ انعام وصول کرنے سٹیج پر جارہا تھا تو وہ علامتی نشان اس کی جیب میں تھا۔ یہ نشان درحقیقت اس ایوارڈ کے پہلے حرف پر مشتمل تھا۔ یہ طالب علم کو سارے تعلیمی سفر میں یہ یاد دلاتا رہا کہ اس نے سب سے بڑا ایوارڈ حاصل کرنا ہے۔
تخیل جب منفی انداز میں کام کرتا ہے تو ہم صرف پریشان ہوتے ہیں اور کام سے پہلے ہی ناکامی تسلیم کرلیتے ہیں۔ تخیل جب مثبت انداز میں کام کرتا ہے تو ہم خواب دیکھتے ہیں، بڑے منصوبے بناتے ہیں، خود سے بڑی توقعات وابستہ کرتے ہیں اور تخلیق کرنے لگتے ہیں۔ تمام انسانی ترقی تخیل کی کرشمہ سازی کا نتیجہ ہے۔ بلند حوصلہ لوگ اپنے ذہن میں کسی شے کا مثالی روپ بناتے ہیں اور پھر اسے حقیقت بنادیتے ہیں۔ بے شمار ایجادات، تصانیف، سافٹ ویئر، پراڈکٹس اور تخلیقات اسی طریقے سے ہمارے سامنے آتی ہیں۔ کسی شے یا منصوبے کا مثالی روپ ہمارے ذہن میں جتنا زیادہ واضح ہوگا اسے حاصل کرنا اتنا ہی آسان ہوجاتا ہے۔
کامیاب انسان اپنے ذہن میں خوبصورت اور حیرت انگیز تصویریں بنانے میں مصروف رہتا ہے۔ وہ چشم تصور سے دیکھتا ہے کہ وہ اپنا مقصد حاصل کرچکا ہے یا اپنی منزل پر پہنچ چکا ہے۔ اس کے ذہن میں بسنے والی تصویریں اسے پیشگی مشاہدہ کرواتی ہیں کہ اس کا خواب حقیقت بن چکا ہے۔ اس کا آئیڈیا زبردست نتائج پیدا کرچکا ہے یا اس کا پراجیکٹ کامیابی سے مکمل ہوچکا ہے۔
416.jpg

آپ کا تخیل آپ کی ذاتی تجربہ گاہ ہے۔ آپ یہاں کاموں کی پیشگی مشق کرسکتے ہیں، خود کو راستے میں آنے والی رکاوٹیں عبور کرتا ہوا دیکھ سکتے ہیں۔ اس تجربہ گاہ میں آپ امکانات کو حقیقت بنتا ہوا بھی دیکھ سکتے ہیں۔ آرکیٹکٹ بھی اپنے ذہن میں عمارت کا خاکہ بناتا ہے اسے کاغذ پر منتقل کرتا ہے اور پھر ایک دن وہ عمارت حقیقت بن جاتی ہے۔ کئی ایسے مصنفین ہیں اپنے کام کے آغاز میں چشم تصور سے اپنی کتاب کو مقبولیت حاصل کرتا ہوا دیکھتے ہیں اور ایک دن وہ اپنی تخلیق دنیا کے سامنے لے آتے ہیں۔ ایک نامور آرٹسٹ کا کہنا تھا کہ وہ خواب دیکھتا ہے اور پھر اس خواب کو حقیقی رنگوں سے پینٹ کردیتا ہے۔
جن لوگوں کو کم عمری میں تخیل کی قوت سے کام لینا سکھا دیا جاتا ہے ان کے لیے زندگی میں کامیابی حاصل کرلینا آسان بن جاتا ہے۔ بچوں سے جب آئیڈیل لوگوں کے بارے میں بات کی جاتی ہے یا انہیں عظیم داستانیں یا کتابیں پڑھنے کی طرف راغب کیا جاتا ہے تو اس کا مقصد بھی یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے ذہنوں میں رول ماڈل کا تصور قائم کرلیں۔ اچھے خاندانوں میں والدین اپنے بچوں سے اعلیٰ توقعات وابستہ کرلیتے ہیں۔ سمجھدار اساتذہ بھی اپنے طالب علموں سے اعلیٰ توقعات وابستہ کرتے ہیں۔ یہی توقعات نوجوانوں کو یاد دلاتی ہیں کہ انہیں حالات کا مقابلہ کرنا ہے اور کامیابی حاصل کرنا ہے۔
جو لوگ اپنے تخیل کو مضبوط بنانے کی جستجو میں رہتے ہیں وہ ایسا مطالعہ کرتے ہیں جو ان میں کامیابی حاصل کرنے کا جوش پیدا کرتا ہے۔ وہ ایسی تصویروں اور آرٹیکلز کو سنبھال لیتے ہیں جو ان کے تخیل کی دنیا کو روشن، واضح اور رنگین بناسکتے ہوں۔ وہ ایسے لوگوں سے ملتے ہیں جو انہیں ایک اعلیٰ زندگی گزارنے کا حوصلہ اور امید دیتے ہیں۔ تخیل آپ کا اہم اثاثہ ہے۔ یہ آپ کے لیے حیرت انگیز کام کرسکتا ہے۔ زندگی میں کوئی بڑا مقصد طے کرلیجیے۔ اسے پوری توجہ دیں۔ خود کو کامیابی کے روپ میں دیکھیں۔ ذہن میں موجود اس تصور سے نظریں نہ ہٹائیں، اگر آپ ایسا کرسکیں تو آپ کو شاندار کامیابی حاصل کرنے سے کوئی روک نہیں سکتا۔
(مضمون نگار سپیکر اور ٹرینر ہیں، نوجوانوں کے لیے مثبت نفسیات، تخلیقی صلاحیت، ہیومن پوٹینشنل جیسے موضوعات پر لکھتے ہیں)
 
لکھی لکھائی باتوں کی اہمیت، افادیت اپنی جگہ ۔۔۔ دیکھنا یہ ہے کہ تخلیقی صلاحیت ہے کیا چیز یا عمل یا رویہ؟

خاص طور پر چھوٹے بچوں کی عادات اور رویوں کا مطالعہ خود کیجئے اور اپنے مشاہدات کو ذہن نشین کرتے جائیے یا لکھتے بھی جائیے تو کوئی قباحت نہیں۔ میرا خیال ہے کہ تین ماہ کی عمر کو پہنچ کر بچہ ماحول پر اپنا ردِ عمل ظاہر کرنے لگتا ہے۔ تب سے سکول جانے کی عمر تک کے معمولات اس مشاہدے کے لئے اہم ترین ہو سکتے ہیں۔ اس عرصے میں ’’تجربات‘‘ کی ضرورت نہیں، مشاہدہ اور اس کا تجزیہ کافی ہو گا۔

فی الحال یہ کام کیجئے، باقی پھر سہی ان شاء اللہ۔
 

الشفاء

لائبریرین
عائلی زندگی میں بچوں کی صحیح تربیت و آبیاری کرنا شائد سب سے مشکل و اہم ترین کام ہے۔
حدیث کا مفہوم ہے کہ باپ اپنی اولاد کو جو کچھ دے سکتا ہے اس میں سب سے بہترین تحفہ اچھے آداب سکھانا ہے۔۔۔ورنہ تو

معصوم امنگیں جھول رہی ہیں دلداری کے جھولوں میں
یہ کچی کلیاں کیا جانیں کب کھلنا کب مرجھانا ہے۔
 
کیا آپ اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے واقف ہيں ؟
تحریر:وقاص علی ارشاد
تخلیقی صلاحیت کسی کی میراث نہیں ،ذہن کا مثبت استعمال کرنا سیکھئے ،
صرف 6 بنیادی اصولوں پر عمل کر کے آپ بھی تخلیقی سوچ کے مالک بن سکتے ہیں
سائنسی ایجادات نے ہماری زندگی کے ہر پہلو کو متاثر کیا ہے ،گزشتہ برسوں کے مقابلے میں آج سائنسی ایجادات کی بدولت زندگی نہایت سہل اور آسان سے آسان تر ہو تی جارہی ہے ۔ چاہے گھریلو کا م ہوں یا بڑے پیمانے پر کارخانوں کے معمولات ہر شعبہ ہائے زندگی میں نت نئی سائنسی ایجادات اورآلات کی آمد نے انسان کی زندگی کو بہت آرام پہنچایا ہے اور بلا شبہ ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ معاشرے کی ترقی میں سائنسی ایجادات نے ایک اہم کردار ادا کیا ہے ۔۔معاشرتی ترقی کی بہترین مثال جاپان کے جدیدترین ٹیکنالوجی سے تیار کر دہ روبوٹس ہیں جن کو دنیا بھر میں شہرت ملی ۔اس کے ساتھ ساتھ صنعتوں میں ٹیکنالوجی کی آمد نے بھی تہلکہ مچایا ہے اور اس ٹیکنالوجی کی بدولت ہی آج معاشی ترقی عروج پر ہے ۔
ان سائنسی آلات کی تخلیق کے پیچھے جن افراد کا ہاتھ ہے ان کی فہرست بہت طویل ہے ۔دنیا بھر میں ٹیکنالوجی کے موجدین نے اپنی لگن اور جستجوکے باعث دنیا میں اپنی موجودگی اور اہمیت کو اجاگر کیا اور ان کی ایجاد کردہ تخلیقات کی بدولت انسانی تہذیب کی ترقی کے نئے دروازے کھلی۔معاشرے کے ایک عام فرد کے لئے یقینا یہ موجد باعث حیرت ہوں گے اور معاشرہ میں بسنے والا ہر عام فرد ضرور یہ سوچتا ہوگا کہ ایسی کون سی صلاحیت ہے جس کی بنا پر معاشرے میں بسنے والے یہ لوگ عظیم تخلیقات کے موجد بن جاتے ہیں ۔
سائنسدانو ں کی متفقہ رائے ہے کہ ہر انسان سوچنے ، سمجھنے اور محسوس کرنے کی صلاحیت رکھتاہے اگر و ہ ان صلاحیتوں کو بروقت اور صیح معنوں میں استعمال کرے تو کامیابی اور دولت اس کے قدم چومے گی ۔برطانیہ کے ایک عام شہری کا قصہ زیر غور لائیں ۔جان کاتھوپ جو کہ لندن کا رہائشی تھا اس کو اپنے وسیع و عریض لان کی صفائی اور پودوں کی تراش خراش میں سخت دقت کا سامنا تھا ۔وہ اپنے ویکیوم کلینرvacuum cleaner)کے ذریعے جب بھی اپنے لان کی صفائی شروع کرتا تو دو مسئلے ہمیشہ اس کی راہ میں رکاوٹ بنتے ۔پہلا مسئلہ تو یہ پیدا ہوتا کہ اس کے ویکیوم کلینر کے پنکھے میں گیلے پتے پھنس جاتے اور یہ پتے کلینر کو جام کردیتے جبکہ دوسری طرف کلینر کا بیگ جب بھرجاتا تو ویکیوم کلینر صفائی کرنا بند کردیتا۔جان کے نزدیک یہ بہت مشکل کام تھا ۔جب بھی جان کا اس مسئلے سے واسطہ پڑتا وہ پریشان ہوجاتا ۔ایک ایسے ہی دن جب جان کے لئے ویکیوم کلینو سے مزید کام لینا مشکل ہوگیا اور وہ مکمل طور پر ہمت ہار چکا تو وہ مایوس ہو کر اپنے لان میں بسکٹوں کے ساتھ چائے نوش کرنے لگا ۔چائے پیتے پیتے وہ سوچ میں گم ہوگیا اور بالآخر اس کو مسئلے کا حل مل گیا اور کچھ عرصہ بعد جان نے اپنے دیرینہ مسئلے سے چھٹکارہ پالیا ۔جان نے اپنے ویکیوم کلینر میں ایک اضافی پائپ کا اضافہ کیا جس کے ذریعے سے گارڈن کا تمام کچرا الگ سے منسلک ایک چیمبر میں جمع ہوجاتا اور پھر نہ جان کے ویکیوم کلینر میں گیلے پتے پھنستے اور نہ ہی جان کو بیگ بھرجانے کی شکایت ہوتی ۔آج دنیا بھر میں جان کی تخلیق کردہ ایجاد کو استعمال کیا جا تا ہے جس کے باعث گھنٹوں کا کام منٹوں میں مکمل ہو جاتا ہی۔
کیا کبھی آپ نے سوچا کہ آپ بھی کسی ایسی چیز کے موجد ہو سکتے ہیں؟
؎؎؎کائنات میں اگر کوئی چیز سب سے زیادہ حیر ت کا سبب ہے تووہ ’’دماغ ‘‘ ہے ۔ حالیہ ایک تحقیق سے پتا چلا ہے کہ دماغ ایک سیکنڈ میں 400کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے 10لاکھ نیورونز الیکڑوکمیکل سگنلز کے ذریعے دماغ اور جسم کے دیگر حصوں سے رابطے کا کام کر تاہے ۔
آپ لوگوں نے بے شمار کامیاب ترین لوگوں کی سوانح حیات کا روز مطالعہ کیا ہو گا ، جو کبھی کسی پسماندہ گائوں یا کسی شہر میں گم نام زندگی بسر کر رہے تھے لیکن صرف اس وقت تک جب انہوںنے کچھ کر گزرنے کی کوشش نہیں کی تھی ۔
کیا کبھی آپ نے غور کیا کہ اپنے دماغ کو استعمال کر کے آ پ اپنے کئی مسائل کا حل تلاش کر سکتے ہیں؟
زیڈ ایکس (ZX)سیریز کمپیوٹر کے موجد سرکلائیو سن کلیئر بلا ناغہ ورزش کر تے ہیں ۔ انہوںنے اپنی تخلیق کر دہ کمپیوٹر کی کامیابی میں ورزش کو سنگ میل قرار دیا ۔ انہوں نے بتایا کہ جب آپ ورزش کرتے ہیں تو دماغ ایک خاص پر سکون کیفیت میں چلا جا تاہے اس کیفیت میں انسان کا دماغ مثبت اور بہتر انداز میں کام کر تا ہے تخلیقی خیالات جنم دینا شروع کر دیتا ہی۔ انہوں نے بتایا کہ عموماً لوگ ورزش کو جسم مضبوط بنانے کیلئے کر تے ہیں جن کامقصد محض زیادہ سے زیادہ اپنے جسم کو مشقت میں ڈالنا ہو تا ہے جس کی وجہ سے دن بھر جسم میں درد محسوس کر تے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ورزش کرتے وقت اپنے ذہن اور جسم کو پر سکون رکھیں اور حسین مناظر سے لطف اندوز ہوں۔ سن کلیئر کو اس وقت شدید اضطراب کا سامنا کر نا پڑا جب وہ یہ سوچ رہا تھا کہ وہ اپنی موٹر سائیکل کے ٹائرز میں کاربن فائبر کا استعمال کر ے یا میگنیشم کا۔ سن کلیئر نے بتایا کہ مجھے میرے سوال کا جواب ورزش کے دوران آیا۔ اس سے مجھے پتہ چلا کہ میں اگر اپنے دماغ کا استعمال پرسکون انداز سے کروں تو میں اپنے مسائل کا حل باآسانی تلاش کرسکتا ہوں۔
اپنا قلم اور ڈائری ہر وقت تیار رکھیں
آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر سوسن گرین فیلڈ ، جنہوں نے اپنی تصنیفThe Human Brain"لکھی ہے کا کہنا ہے کہ انسان کا دماغ ایک خاص کیفیت اور انداز میں کام کر تا ہے اور کسی وقت بھی اہم نوعیت کے مسائل کا حل پیش کر دیتا ہے ۔ انہوںنے کہا ایک محتاط اندازے کے مطابق کسی پر یشانی کا حل ہو یا تخلیقی خیالات کی آمد عموماً کسی کام کے دوران یا رات بستر میں نیم غنودگی کی حالات میں ظہور پزیر ہو تے ہیں ۔اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ آپ مسئلے کے حل یا تخلیقی خیالات پر نیند کو اہمیت دیتے ہیں اور اسطر ح صبح کی آمد کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیںاور ایک خواب کی طرح خیال بھی اپنی ایک مدہم سی تصویر چھوڑ جا تاہے ۔بیک اسٹریچر ایجاد کرکے عالمی شہرت حاصل کرنے والے موجد نیل سمر اپنے کامیاب تجربے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ایک رات جب میں اپنے بستر پر نیم سرگوشی کی حالت میں تھاکہ اچانک میرے دماغ میں بیک اسڑیچر ایجاد کرنے کے خیال نے جنم لیا اور میں نے اپنے بستر چھوڑ کر قلم اور کاپی پر اپنے خیالات کو تفصیل سے لکھ لیااور یہ ہی میر ی کامیابی کی پہلی سیڑھی تھی۔نیل سمر کا طریقہ کار ہمارے معاشرے میں عیب کا باعث سمجھا جاسکتا ہے کیونکہ آک کل کے زمانے میں کاغذ اور قلم کا رواج ختم ہوتا جارہا ہے اور اگر کوئی شخص اپنے پاس کاغذاور قلم رکھتا ہے تو اس کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے مگر ہمیں نیل سمر کے جذبے کو اپنانے کی ضرورت ہے کیونکہ اس کے پاس موجود کاغذ اور قلم کی ہی بدولت وہ اپنے خیال کو تحریری شکل میں لکھنے میں کامیاب ہوگیا اور اسی کی بدولت اس نے بیک اسٹریچر جیسی بہترین ایجاد دنیا میں پیش کی۔

تنقید کامیابی کی ضمانت ہے
دنیا کے کامیاب اشخاص کی شخصیت کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان اشخاص نے ہر مقام پرمثبت تنقید کا سامنا کیا۔ مثبت تنقید آپ کے خیالات کو مزید نکھار سکتی ہے ۔ اپنے خیالات کو دیگر دوست و احبا ب سے شیئر کریں ان کے منفی اور مثبت پہلوئوں پر نظر ثانی کریں اور اپنے دوست کی تنقید کو سمجھنے کی کوشش کر یں اور کوئی حل تلاش کریں ۔ اگر کوئی آپ کے خیالات پر تبصرہ کرنے کو تیار ہوتا ہے تو اس کا مطلب وہ شخص آپ کے خیالات میں دلچسپی رکھتا ہی۔پام اور فل رچرڈسن ایک کامیاب شادی شدہ زندگی گزاررہے ہیں ۔اپنی پیشہ وارانہ زندگی سے رٹیائرڈ ہونے کے بعد دونوں نے اپنی اعلیٰ صلاحیتوں کو ضائع نہیں ہونا دیا اور اپنے تجربے کی بنیاد پر انہوںنے میڈیکل سائنس سے منسلک ایک آلہء ایجاد کیا۔ پام کہتا ہے کہ میں ہر صبح فل کے ساتھ اپنے خیالات پر بحث کر تا ہوں۔ اس نے کہا کہ میرا مزاج فل کے مقابلے میں بہت مختلف ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ جو میں نے سوچ لیا اسکو با آسانی کیا جا سکتا ہے جبکہ فل بنیادی طور پر ٹیکنیکل شخصیت کی حامل ہے وہ ان مسائل کی جانب میر ی توجہ دلاتی ہے اس طرح ہم کسی حتمی فیصلہ پر پہنچ جا تے ہیں۔ پام نے کہا کہ بعض اوقات میرے خیالات کا نا سر ہو تا ہے اور نہ ہی پیر لیکن میں ان خیالات کو قید نہیں کر سکتا ۔ ہم دنوں میڈیکل کے مختلف آلات پر بحث کر تے ہیں اور آخر کار اپنے مسئلے کا حل تلاش کرلیتے ہیں اسطرح ہمارا وقت برباد ہونے سے بچ جا تا ہے اور تھوڑے وقت میں ہی بہتر انداز میں کام سر انجام ہو جا تاہے ۔

ماحول کی تبدیلی بھی کار آمد ہو سکتی ہے
سر کلائیو سن کلیئر جو کہ zeta 3کے بھی موجد ہیں نے بتایاکہ جب کبھی میں دوسری جگہ جاتا ہوں یعنی کسی دوسرے شہریا ساتھ والے ٹائون میں تو عموماً میرے ذہین میں مختلف خیالات جنم لیتے ہیں۔ انہوںنے بتایاکہ سائیکل کے ساتھ منسلک zeta 3کا الیکڑونک آلہ بنانے کا خیال مجھے ہانگ کانگ سے لندن جاتے ہوئے آیا۔ پروفیسر گرین فیلڈ کے مطابق ماحول کی تبدیلی انسان کو دو بارہ زندہ کر دیتی ہے اور وہ اپنے اردگر د کی چیزوں کو باغور جائز ہ لیتا ہے جس کی وجہ سے دماغ کی اس خاص کیفیت میں خیالات کے آمد بھی ہو جاتی ہی۔

یقین کیجئے آپ کر سکتے ہیں، وہ سب کچھ جوآپ سوچتے ہیں

یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ انسانی دماغ کچھ مخصوص گھنٹے کام نہیں بلکہ انسانی زندگی کے آخری سانس تک اسکا دماغ کام کر تا ہے ۔ انسان اپنی ذمے داری سے اگر بے نیاز ہو جائے تو دماغ کو بھی زنگ لگ جا تا ہی۔ لیکن اگر وہ معاشرتی مسائل کے حل یا کسی گھریلومیشن کی ا یجاد کیلئے اپنے زہین پرزور دیتا ہے تو مسلسل محنت کے بعد وہ اپنے مسائل کا حل تلاش کر لیتا ہے ۔ وہ حل معاشرتی مسائل ہو یا کسی مشین یا آلہٰ کی ایجاد۔ اسکو ٹ لینڈ اور یو کے کے نامور بزنس مین بیری جنز کو اس وقت سخت تشویش ہو ئی جب ایک بلڈنگ کے ایک فولر پر اچانک آگ بڑھ ک اٹھی اور یکھتے ہی دیکھتے پورے فلور کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ فائر بریگیڈ کی آمد سے قبل بے شمار لو گ لقمہ اجل بن چکے تھی۔ اس المناک وااقعے کے کچھ روز بعد بیری اپنیکمرہ خوابگواہ میں ٹیلی ویژن دیکھ رہا تھا کہ اچانک اس کے ذہن میں ایک خیال نے جنم لیا جس نے بیری کو ایک کامیاب بزنس مین بنادیا۔ بیری کے ideaکے متعلق سوال کیا تو اس نے کہا کہ گزشتہ دونوں ایک حادثے میں آگ سے ہلاک ہونے والی کی بڑی تعداد نے میری شخصیت کو بہت متاثر کیا اور میں سوچ میں رہتا تھا کہ کوئی ایسا طریقہ ہو نا چاہئے جس سے لوگ اپنی جان بچا سکیںناکہ فائر بریکیڈ کے آنے کا انتظار کریں۔ بیری نے بتایا کہ میں نے ٹیلی ویژن پر ایک جادوگر کو دیکھا جو ٹیلی اسکوف کو کھینج کر کھول اور بند کر رہا تھا یہ ہی وقت تھا جب میں نے ایسی سیڑی بنائی جو کو باآسانی کھول اور بند کیا جاسکے جو ایک بیڈ کے نیچے آرام سے آسکے۔
لندن کے تخلیقی مضامین پر مشتمل میگزین کے ایڈیٹر ڈیوڈ وارڈل کا کہنا ہے کہ:
’’ہر وہ شخص جو کسی بھی چیز میں بہتری پیدا کرنے کے لئے تخلیقی سوچ رکھتا ہے وہ موجد ہے "
 
لکھی لکھائی باتوں کی اہمیت، افادیت اپنی جگہ ۔۔۔ دیکھنا یہ ہے کہ تخلیقی صلاحیت ہے کیا چیز یا عمل یا رویہ؟

خاص طور پر چھوٹے بچوں کی عادات اور رویوں کا مطالعہ خود کیجئے اور اپنے مشاہدات کو ذہن نشین کرتے جائیے یا لکھتے بھی جائیے تو کوئی قباحت نہیں۔ میرا خیال ہے کہ تین ماہ کی عمر کو پہنچ کر بچہ ماحول پر اپنا ردِ عمل ظاہر کرنے لگتا ہے۔ تب سے سکول جانے کی عمر تک کے معمولات اس مشاہدے کے لئے اہم ترین ہو سکتے ہیں۔ اس عرصے میں ’’تجربات‘‘ کی ضرورت نہیں، مشاہدہ اور اس کا تجزیہ کافی ہو گا۔

فی الحال یہ کام کیجئے، باقی پھر سہی ان شاء اللہ۔
محترم آسی صاحب،
تخلیقی صلاحیت ایک سوچ یا اسے نتیجہ میں پیدا ، ایک رویہ کا نام ہے (میرے خیال میں)
آپ کی باتیں بالکل بجا ہیں، بے شک تجربات کی ضرورت نہیں ،
لیکن ہمیں ( والدین ) کو اپنا رویہ درست کر نے کی ضرورت ہے ، ورنہ والدیں کا نا مناسب رویہ ایک ذہین اور تخلیقی صلاحیت کے حامل بچے کو کند ذہن اور محدود ذہنیت تک لے جائے گا۔
کسی مناسب وقت میں ان شا اللہ اس لڑی کے مراسلوں کا ایک خلاصہ بنانے کی کوشش کروں گا،ابھی تو مزید مواد شامل کرنے کی سوچ ہے
 

قیصرانی

لائبریرین
آپ کی پوسٹ میں چند باتیں وضاحت طلب ہیں
۔وہ اپنے ویکیوم کلینرvacuum cleaner)کے ذریعے جب بھی اپنے لان کی صفائی شروع کرتا تو دو مسئلے ہمیشہ اس کی راہ میں رکاوٹ بنتے ۔پہلا مسئلہ تو یہ پیدا ہوتا کہ اس کے ویکیوم کلینر کے پنکھے میں گیلے پتے پھنس جاتے اور یہ پتے کلینر کو جام کردیتے جبکہ دوسری طرف کلینر کا بیگ جب بھرجاتا تو ویکیوم کلینر صفائی کرنا بند کردیتا۔جان کے نزدیک یہ بہت مشکل کام تھا ۔جب بھی جان کا اس مسئلے سے واسطہ پڑتا وہ پریشان ہوجاتا ۔ایک ایسے ہی دن جب جان کے لئے ویکیوم کلینو سے مزید کام لینا مشکل ہوگیا اور وہ مکمل طور پر ہمت ہار چکا تو وہ مایوس ہو کر اپنے لان میں بسکٹوں کے ساتھ چائے نوش کرنے لگا ۔چائے پیتے پیتے وہ سوچ میں گم ہوگیا اور بالآخر اس کو مسئلے کا حل مل گیا اور کچھ عرصہ بعد جان نے اپنے دیرینہ مسئلے سے چھٹکارہ پالیا ۔جان نے اپنے ویکیوم کلینر میں ایک اضافی پائپ کا اضافہ کیا جس کے ذریعے سے گارڈن کا تمام کچرا الگ سے منسلک ایک چیمبر میں جمع ہوجاتا اور پھر نہ جان کے ویکیوم کلینر میں گیلے پتے پھنستے اور نہ ہی جان کو بیگ بھرجانے کی شکایت ہوتی ۔آج دنیا بھر میں جان کی تخلیق کردہ ایجاد کو استعمال کیا جا تا ہے جس کے باعث گھنٹوں کا کام منٹوں میں مکمل ہو جاتا ہی۔
ویکییوم کلینئر سے باغ کی صفائی؟
ایک رات جب میں اپنے بستر پر نیم سرگوشی کی حالت میں تھا
نیم سرگوشی کا عالم سے کیا مراد ہے؟
 
میں سمجھتا ہوں کہ ’’تخلیقی عمل‘‘ کا پہلا مرحلہ مشاہدہے
محترم آسی صاحب،
تخلیقی صلاحیت ایک سوچ یا اسے نتیجہ میں پیدا ، ایک رویہ کا نام ہے (میرے خیال میں)
آپ کی باتیں بالکل بجا ہیں، بے شک تجربات کی ضرورت نہیں ،
لیکن ہمیں ( والدین ) کو اپنا رویہ درست کر نے کی ضرورت ہے ، ورنہ والدیں کا نا مناسب رویہ ایک ذہین اور تخلیقی صلاحیت کے حامل بچے کو کند ذہن اور محدود ذہنیت تک لے جائے گا۔
کسی مناسب وقت میں ان شا اللہ اس لڑی کے مراسلوں کا ایک خلاصہ بنانے کی کوشش کروں گا،ابھی تو مزید مواد شامل کرنے کی سوچ ہے

بسا اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ کسی موضوع پر جمع کردہ مواد یا تو ہماری توجہ کو تقسیم کر دیتا ہے، یا پھر ہم جزوی طور پر اس کے زیرِ اثر آ جاتے ہیں اور ہمارا اپنا نکتہء نظر بھی اگر کوئی ہو تو تشکیک کا شکار ہو جاتا ہے۔

انسان اتنی سادہ چیز بھی نہیں۔ وہ جسے احسن تقویم کا درجہ عطا کیا گیا ہے، آخر اس میں ایسا کچھ رکھا تو گیا ہے نا! دنیا میں پیدا ہونے والا ہر انسان اپنی شخصیت رکھتا ہے، آپ اس کو انفرادیت کہہ لیجئے۔ ایک ہی گھر میں ایک ہی جوڑے کی اولاد، ایک جیسے ماحول میں پلنے والے کئی کئی اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ والدین کے بارے میں حسنِ ظن رکھتے ہوئے عرض کروں گا کہ وہ اپنے کسی بھی بچے کو نظرانداز نہیں کرتے اور نہ ان میں کوئی امتیازی سلوک روا رکھتے ہیں۔ سب کچھ مل ملا کے بچے کی ایک شخصیت بنتی ہے اور اس کے مطابق والدین کے رویے میں فرق واقع ہو جانا بھی بعید از قیاس نہیں۔ دوسری اہم بات ہر بچے کی ذہنی صلاحیت ہے، وہ بھی یکساں نہیں ہوتی۔ اور بھی کئی عناصر ہیں کہ ایک جیسے حالات میں ہر فرد کا ردِ عمل ایک سا نہیں ہوتا۔ اس لئے میں نہیں سمجھتا کہ ہم کوئی ایسا تھمب رول بنا سکتے ہیں، جو تمام افراد پر یکساں طور پر مؤثر ہو گا۔

موضوع بڑا ہے، فی الحال یہی کچھ؛ پھر اگر موقع ملا تو مزید معروضات پیش کروں گا۔
 
شعور کیا ہے اور اس کے پیمانے کیا ہیں؛ یہ بجائے خود ایک بہت بڑا موضوع ہے۔ اس سے اگلا سوال یہ بنتا ہے کہ بچے کی عمر اور ماحول اور شعور کا آپس میں کیا تال میل ہے۔ یہاں ان مباحث کا موقع نہیں ہے۔

بچہ اپنی عمر اور ماحول کے مطابق جوں جوں شعور حاصل کرتا جاتا ہے وہ فطرت کی نقالی کرتا ہے، اپنے ماں باپ بہن بھائیوں کی زبان سیکھتا ہے، بولتا ہے؛ غوں غاں سے توتلے الفاظ اور اشارے اور پھر محض اسماء یا متفرق الفاظ اور پھر ادھ پکے جملے، پھر مکمل جملے۔ ہم تب بچے کو گرامر تو نہیں پڑھا رہے ہوتے۔ ایک دو سال کی بچی کپڑے کی ایک چھوٹی کی پٹی لے کر اس کو دوپٹے کے انداز میں اوڑھنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس سے بھی آسان مظہر بچے کا پہلے گھٹنوں کے بل اور پھر پاؤں پاؤں چلنا ہے، پھر وہ بھاگنے دوڑنے لگتا ہے۔ فطرت کی یہ نقالی بھی تو ایک تخلیقیت ہے۔
رہی بات والدین کی اس ذمہ داری کی کہ وہ بچے میں تخلیقی صلاحیت کی نشو و نما کریں۔ بجا! ضرور کریں مگر میں والدین کے مالی، معاشی، معاشرتی، علمی، تہذیبی، تعلیمی، ذہنی حالات و مقام کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتا، اور نہ اس ماحول کو جس میں بچہ پروان چڑھ رہا ہے۔ ظاہر ہے پہلے اس کی اپنی شخصیت کی تعمیر ہو گی پھر وہ مرحلہ آئے گا جہاں وہ کسی ایسی بات، عمل، رویے کا اظہار کر سکے جسے عرفِ عام میں تخلیقیت کا نام دیا جاتا ہے۔
 
ایک اور بات واضح طور پر سمجھنے کی ہے کہ تخلیق کا مادہ ہر انسان میں ہوتا ہے، اور اس کا اظہار ہر فرد اپنے اپنے میدانِ عمل میں کرتا بھی ہے، سطح اس کی جو بھی ہو۔ چلئے صاحب! موجد ہونا تخلیقی صلاحیت کا بین ثبوت مان لیجئے، اس کے علاوہ بھی تو بہت کچھ ہے، جیسے ادب ہے، دیگر فنونِ لطیفہ ہیں، لوگوں سے ملنے برتنے کا فن ہے، یہاں تک کہ ایک شخص جو فراڈ کرتا ہے، لوگوں کو دھوکا دیتا ہے وہ بھی تخلیق کار ہے۔ تخلیق کار تو وہ اوباش نوجوان بھی ہے جو لڑکیوں کو پھانستا ہے، کوئی ڈھنگ کوئی طریقہ تو اس نے بھی وضع کیا ہو گا جیسے ایک فراڈیے نے کیا ہے۔
سو، یہاں ہمیں مثبت اور منفی رویوں کو بھی سامنے رکھنا ہو گا۔ اور ان وسائل کو بھی اور مواقع کو بھی جو ایک تخلیق کار کو میسر آتے ہیں اور ان وسائل اور مواقع کو کام میں لانے کی اخلاقیات کو بھی کم از کم میں تو نظر انداز نہیں کر سکتا۔
 
بہت ہی قابل محترم آسی صاحب، خاکسار، تو آپ کے سامنے طفل مکتب بھی نہیں، بس ایک کوشش ہے، آپ کے توجہ کا بہت مشکور ہوں، میں کوشش کروں گا کچھ ترتیب دینے کی، باقی اب اصل کام آپ کے ذمہ ہوگا،
بہت خوشی ہوئی آپ کے یہ تینوں مراسلے پڑھ کر،آپ نے بہت اہم نقاط پر بات کی ہے میری کچھ گزارشات ہیں
بسا اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ کسی موضوع پر جمع کردہ مواد یا تو ہماری توجہ کو تقسیم کر دیتا ہے، یا پھر ہم جزوی طور پر اس کے زیرِ اثر آ جاتے ہیں اور ہمارا اپنا نکتہء نظر بھی اگر کوئی ہو تو تشکیک کا شکار ہو جاتا ہے۔
1- اس پر سوچ رہا ہوں کہ کہ معاملہ کیسا ہے،اس پر پہلے غور نہیں کیا کبھی ۔ لیکن عادت سے مجبور ہوں کہ کسی بات یا تصور کے تما م پہلو دیکھنے کی کوشش ہوتی ہے ، ہاں اس کا نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ بعض اوقت دلچسپی ختم ہو جاتی ہے، یا کچھ اور کام درمیاں مین آپڑتا ہے۔۔۔ لیکں اب آپ ساتھ ہیں ذرا توجہ کرتے رہیے تو کچھ مفید باتیں ترتیب پا ہی جائیں گی ان شاء اللہ-
۔ والدین کے بارے میں حسنِ ظن رکھتے ہوئے عرض کروں گا کہ وہ اپنے کسی بھی بچے کو نظرانداز نہیں کرتے اور نہ ان میں کوئی امتیازی سلوک روا رکھتے ہیں۔
2-پھر کسی حد تک اختلاف کی جسارت، میرا مشاہدہ قطعا مختلف ہے، تدریس کے دوران اور ماحول میں اکثر لاپروا والدیں دیکھے ہیں، جن کو تربیت کے بنیادی اصولوں کا پتا ہی نہیں اور بوجوہ انتہا درجے کی لاپروائی ہے
 
۔
۔ میرا مشاہدہ قطعا مختلف ہے، تدریس کے دوران اور ماحول میں اکثر لاپروا والدیں دیکھے ہیں، جن کو تربیت کے بنیادی اصولوں کا پتا ہی نہیں اور بوجوہ انتہا درجے کی لاپروائی ہے

آپ نے تو اپنے سوال کا آدھا جواب خود ہی دے دیا۔ باقی آدھا میں پہلے عرض کر چکا:
’’۔۔۔ ۔۔۔ مگر میں والدین کے مالی، معاشی، معاشرتی، علمی، تہذیبی، تعلیمی، ذہنی حالات و مقام کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتا،‘‘
 
آپ کی بات بالکل بجا، سر آنکھوں پر کہ، میں معاملے کو تھوڑا مختلف نظر سے دیکھ رہا ہوں ،آپ اجمالی طور پر بات کر رہے ہیں جبکہ فدوی معاملے کو بنیادی طور پر دیکھ رہا ہے اور یہی تھوڑا سا اختلاف رائے ہے

جب معاملہ کی بنیادی نوعیت ہو تو اختلافات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے ۔
جس طرح مالی، معاشی، معاشرتی، علمی، تہذیبی، تعلیمی، ذہنی حالات و مقام کے اختلافات کے باوجود بچوں کو مدرسہ بھیجنا ، ان میں ایک مشترک قدر ہے اسی طرح ان میں بچوں کی تربیت کی بنیادی اصولوں کی آگاہی بھی مشترک قدر ہو سکتی ہے،

اسلام ، مسلم کے مالی، معاشی، معاشرتی، علمی، تہذیبی، تعلیمی، ذہنی حالات و مقام کے اختلافات کے باوجود اپنے بنیادی احکام سب پر لاگو قرار دیتا ہے، اور ان بنیادی احکام میں ان اختلافات کو نظر انداز کر دیتا ہے مثلا نماز پڑھنا ( بنیادی ) سب پر لاگو رہے گا، ، ہاں کونسا لباس پہنے، مسجد کیسی ہو، ان باتوں میں مالی، معاشی، معاشرتی، علمی، تہذیبی، تعلیمی، ذہنی حالات و مقام کے اختلافات کو مدنظر رکھا جاتا ہے اور اجازت ہے
 
آپ کی بات بالکل بجا، سر آنکھوں پر کہ، میں معاملے کو تھوڑا مختلف نظر سے دیکھ رہا ہوں ،آپ اجمالی طور پر بات کر رہے ہیں جبکہ فدوی معاملے کو بنیادی طور پر دیکھ رہا ہے اور یہی تھوڑا سا اختلاف رائے ہے

جب معاملہ کی بنیادی نوعیت ہو تو اختلافات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے ۔
جس طرح مالی، معاشی، معاشرتی، علمی، تہذیبی، تعلیمی، ذہنی حالات و مقام کے اختلافات کے باوجود بچوں کو مدرسہ بھیجنا ، ان میں ایک مشترک قدر ہے اسی طرح ان میں بچوں کی تربیت کی بنیادی اصولوں کی آگاہی بھی مشترک قدر ہو سکتی ہے،

اسلام ، مسلم کے مالی، معاشی، معاشرتی، علمی، تہذیبی، تعلیمی، ذہنی حالات و مقام کے اختلافات کے باوجود اپنے بنیادی احکام سب پر لاگو قرار دیتا ہے، اور ان بنیادی احکام میں ان اختلافات کو نظر انداز کر دیتا ہے مثلا نماز پڑھنا ( بنیادی ) سب پر لاگو رہے گا، ، ہاں کونسا لباس پہنے، مسجد کیسی ہو، ان باتوں میں مالی، معاشی، معاشرتی، علمی، تہذیبی، تعلیمی، ذہنی حالات و مقام کے اختلافات کو مدنظر رکھا جاتا ہے اور اجازت ہے

دیکھئے، دیکھئے، دیکھئے! کیا ہم موضوع کو پھیلا نہیں رہے؟
بات چلی تھی تخلیقی صلاحیتوں کو جِلا بخشنے سے! کہ وہاں کون کون سے عوامل کس کس سطح پر کیا کردار ادا کرتے ہیں۔ میں نے ابھی تک صرف یہ عرض کیا ہے کہ فطرت نے انسان کے اندر یہ صلاحیت رکھ دی ہے جس کا اظہار بہت بچپنے سے شروع ہو جاتا ہے۔ اگلی بات ہم کھلونوں اور تخیلات کی کریں گے، اور پھر شاید اختراعات کی یا کوئی اور۔ ۔۔۔ ۔۔۔ وقت ملتا ہے تو مزید عرض کرتا ہوں۔
 
Top