تخیل کی قوت
ہم کیا بن سکتے ہیں اور کیا کرسکتے ہیں، اس کا فیصلہ خود ہمارا تخیل کرتا ہے
عاطف مرزا
ہم کیا بن سکتے ہیں اور کیا کرسکتے ہیں، اس کا فیصلہ خود ہمارا تخیل کرتا ہے۔ فوٹو: فائل
کسی شہر میں ایک گمنام آرٹسٹ رہتا تھا۔ وہ کوئی ایسا فنی شہ پارہ نہیں بناسکا تھا جو اس کی کامیابی کی بنیاد بنتا۔
ایک دن اس نے ایک مفلس شخص دیکھا جس کا چہرہ افسردگی اور پریشان حالی کی منہ بولتی تصویر تھا۔ اس کی آنکھوں میں مایوسی ہی مایوسی تھی۔ آرٹسٹ کے ذہن میں ایک عجیب سا خیال آیا، اس نے اس مفلس شخص کو اپنے سامنے بٹھایا اور اپنے رنگوں سے اس کی تصویر بنانے لگا۔
آرٹسٹ نے تصویر میں اس شخص کے چہرے کو ایسا روشن اور تروتازہ بنایا کہ وہ پر عزم اور پروقار دکھائی دینے لگا۔ اس کی آنکھوں میں اس نے امید کی چمک پیدا کردی۔ جب آرٹسٹ نے اس شخص کو تصویر دکھائی تو وہ حیران رہ گیا کہ کیا وہ ایسا بھی دکھائی دے سکتا ہے۔ آرٹسٹ نے اسے کہا وہ اسے ایسے شخص کے طور پر ہی دیکھ رہا ہے۔ مفلس شخص نے فیصلہ کیا وہ اپنی زندگی بدلے گا اور کامیاب اور خوشحال انسان بنے گا۔ اس نے ذہن کے فریم سے اپنی تصویر ہٹا دی اور اس کی جگہ آرٹسٹ کی بنائی ہوئی نئی تصویر فٹ کردی۔ ایک دن وہ شخص اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔
آرٹسٹ نے ایک بہترین فنی شہ پارہ بنالیا، اس کے ساتھ ساتھ اس نے ایک انسانی زندگی کو بھی ایک شاہکار میں بدل دیا تھا۔ ہم کیا بن سکتے ہیں اور کیا کرسکتے ہیں۔ اس کا فیصلہ اس بات سے ہوتا ہے کہ ہمارا اپنے بارے میں کیا تصور ہے۔ اس تصور کو سیلف امیج کہا جاتا ہے۔ تخیل انسان کی اہم ترین صلاحیت ہے۔ انسان اپنے ذات کے بارے میں جو تخیل قائم کرتا ہے اسی کے مطابق زندگی گزارتا ہے اور کامیابی حاصل کرتا ہے۔
کامیابی کا نقطہ آغاز یہ ہے کہ انسان اپنا سیلف امیج بڑے سے بڑا رکھے۔ عام لوگ اپنی اہلیت اور صلاحیت سے کم سطح پر زندگی گزارتے رہتے ہیں۔ اسی لیے وہ حقیقی اطمینان، خوشی اور کامیابی نہیں حاصل کر پاتے۔ خاص لوگ خود سے بڑی توقعات وابستہ کرتے ہیں۔ اپنے ذہن میں خود کو کامیاب ہوتا دیکھتے ہیں۔ اس تصویر کو ذہن میں دھندلا نہیں ہونے دیتے اور پھر اپنے عزم اور ثابت قدمی سے اپنی منزل حاصل کرلیتے ہیں۔ عام لوگ خود پر اعتماد نہیں رکھتے، ٹال مٹول سے کام لیتے ہیں، بہانے تراشتے ہیں اور حالات کے مکمل سازگار ہونے کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ وہ تنقید اور مسترد کیے جانے کے خوف میں مبتلا رہتے ہیں۔ کسی بھی ناکامی سے بچنے کے لیے وہ اپنے اہداف نیچے سے نیچے رکھنے لگتے ہیں۔
ہمارے اردگرد ایسی کئی کہانیاں ہیں جن میں لوگوں نے اپنے ذہنوں میں اپنے لیے بہترین تصورات قائم کیے اور پھر انہیں حاصل کرلیا۔ ایسی مثالیں بزنس، آرٹ، سائنس، سیاست، ادب اور کھیل سمیت سب شعبوں میں موجود ہیں۔ دنیا کی معروف کمپیوٹر کمپنی آئی بی ایم، 1925ء میں ایک چھوٹی سی کمپیوٹر کمپنی تھی۔ اس کے چیئرمین نے اس کمپنی کے نام کے ساتھ انٹرنیشنل کے لفظ کا اضافہ کردیا۔ وہ اسے ایک عالمی کمپنی بنانے کا خواب دیکھ رہا تھا۔ لوگ حیران تھے یہ چھوٹی سی کمپنی عالمی سطح پر اپنی شناخت کیسے قائم کرسکتی ہے۔ لیکن ٹائم واٹسن اپنے خواب کو حقیقت بنانے میں کامیاب ہوگیا اور آئی بی ایم ایک عالمی کمپنی بن گئی۔
ڈائلمر نے 1890ء میں اپنی فیملی کو ایک پوسٹ کارڈ لکھا اور اس پر ایک تین کونوں والا ستارہ بنایا۔ اس نے انہیں لکھا کہ وہ ایک بڑا کام کرے گا اور یہ ستارہ اس کی پہچان بنے گا۔ اس نے اپنی بات سچ کر دکھائی۔ اس نے اپنے دوست کے ساتھ مل کر دنیا کی ایک بڑی کمپنی مرسڈیز کی بنیاد رکھی اور وہ ستارہ اس کی پہچان بنا۔
کمپیوٹر آج ہماری زندگی کا اہم حصہ ہے۔ اس کی ایجاد کے ابتدائی دنوں میں ایسا کوئی تصور نہیں تھا کہ اسے عام لوگ استعمال کریں گے۔ بل گیٹس نے ایسا ممکن کردکھایا۔ جب وہ یونیورسٹی کا طالب علم تھا تو وہ اپنے ذہن میں ایک سافٹ ویئر کی تصویر بنایا کرتا تھا جس کی مدد سے عام لوگ بھی کمپیوٹر استعمال کرسکیں۔ اس نے اپنی اس ذہنی تصویر کو کاغذ پر منتقل کیا اور ایک ایسا سافٹ ویئر تخلیق کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ بل گیٹس نے معروف کمپنی مائیکروسافٹ کی بنیاد رکھی۔ اس کا شمار دنیا کے مؤثر ترین افراد میں کیا جاتا ہے۔
1957ء میں ایک 10 سالہ بچے نے فٹ بال کا عظیم کھلاڑی بننے کا خواب دیکھا۔ وہ غریب والدین کا بیٹا تھا، فاقوں کے باعث ہڈیوں کی بیماری کا شکار بھی ہوا۔ یہ لڑکا اس وقت کے ایک بڑے کھلاڑی جم برائون سے ملنے کے لیے گھر سے نکل۔ا اس کے پاس میچ کا ٹکٹ خریدنے کے لیے پیسے نہیں تھے لیکن وہ کسی نہ کسی طرح اس بڑے کھلاڑی کا آٹو گراف لینے میں کامیاب ہوگیا۔ اس لڑکے نے جم برائون سے کہا کہ میں ایک دن تمہارے تمام ریکارڈ توڑ دوں گا۔ اس لڑکے کا نام اوجے سمپسن تھا اور ایک دن اس نے جم برائون کے بیشتر ریکارڈ توڑ دیئے۔
اسی طرح کی ایک اور کہانی ایک طالب علم کے بارے میں ہے جب اس نے یونیورسٹی میں داخلہ لیا تو اس کے پاس ایک دھات کا بنا علامتی نشان تھا۔ وہ اس کا نقش ہر وقت اپنے ذہن میں رکھتا تھا مگر اس کے بارے میں کسی سے بات نہیں کرتا تھا۔ یونیورسٹی میں تعلیمی سفر کے اختتام پر اسے بہترین طالب علم کا ایوارڈ دیا گیا۔ جب وہ انعام وصول کرنے سٹیج پر جارہا تھا تو وہ علامتی نشان اس کی جیب میں تھا۔ یہ نشان درحقیقت اس ایوارڈ کے پہلے حرف پر مشتمل تھا۔ یہ طالب علم کو سارے تعلیمی سفر میں یہ یاد دلاتا رہا کہ اس نے سب سے بڑا ایوارڈ حاصل کرنا ہے۔
تخیل جب منفی انداز میں کام کرتا ہے تو ہم صرف پریشان ہوتے ہیں اور کام سے پہلے ہی ناکامی تسلیم کرلیتے ہیں۔ تخیل جب مثبت انداز میں کام کرتا ہے تو ہم خواب دیکھتے ہیں، بڑے منصوبے بناتے ہیں، خود سے بڑی توقعات وابستہ کرتے ہیں اور تخلیق کرنے لگتے ہیں۔ تمام انسانی ترقی تخیل کی کرشمہ سازی کا نتیجہ ہے۔ بلند حوصلہ لوگ اپنے ذہن میں کسی شے کا مثالی روپ بناتے ہیں اور پھر اسے حقیقت بنادیتے ہیں۔ بے شمار ایجادات، تصانیف، سافٹ ویئر، پراڈکٹس اور تخلیقات اسی طریقے سے ہمارے سامنے آتی ہیں۔ کسی شے یا منصوبے کا مثالی روپ ہمارے ذہن میں جتنا زیادہ واضح ہوگا اسے حاصل کرنا اتنا ہی آسان ہوجاتا ہے۔
کامیاب انسان اپنے ذہن میں خوبصورت اور حیرت انگیز تصویریں بنانے میں مصروف رہتا ہے۔ وہ چشم تصور سے دیکھتا ہے کہ وہ اپنا مقصد حاصل کرچکا ہے یا اپنی منزل پر پہنچ چکا ہے۔ اس کے ذہن میں بسنے والی تصویریں اسے پیشگی مشاہدہ کرواتی ہیں کہ اس کا خواب حقیقت بن چکا ہے۔ اس کا آئیڈیا زبردست نتائج پیدا کرچکا ہے یا اس کا پراجیکٹ کامیابی سے مکمل ہوچکا ہے۔
آپ کا تخیل آپ کی ذاتی تجربہ گاہ ہے۔ آپ یہاں کاموں کی پیشگی مشق کرسکتے ہیں، خود کو راستے میں آنے والی رکاوٹیں عبور کرتا ہوا دیکھ سکتے ہیں۔ اس تجربہ گاہ میں آپ امکانات کو حقیقت بنتا ہوا بھی دیکھ سکتے ہیں۔ آرکیٹکٹ بھی اپنے ذہن میں عمارت کا خاکہ بناتا ہے اسے کاغذ پر منتقل کرتا ہے اور پھر ایک دن وہ عمارت حقیقت بن جاتی ہے۔ کئی ایسے مصنفین ہیں اپنے کام کے آغاز میں چشم تصور سے اپنی کتاب کو مقبولیت حاصل کرتا ہوا دیکھتے ہیں اور ایک دن وہ اپنی تخلیق دنیا کے سامنے لے آتے ہیں۔ ایک نامور آرٹسٹ کا کہنا تھا کہ وہ خواب دیکھتا ہے اور پھر اس خواب کو حقیقی رنگوں سے پینٹ کردیتا ہے۔
جن لوگوں کو کم عمری میں تخیل کی قوت سے کام لینا سکھا دیا جاتا ہے ان کے لیے زندگی میں کامیابی حاصل کرلینا آسان بن جاتا ہے۔ بچوں سے جب آئیڈیل لوگوں کے بارے میں بات کی جاتی ہے یا انہیں عظیم داستانیں یا کتابیں پڑھنے کی طرف راغب کیا جاتا ہے تو اس کا مقصد بھی یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے ذہنوں میں رول ماڈل کا تصور قائم کرلیں۔ اچھے خاندانوں میں والدین اپنے بچوں سے اعلیٰ توقعات وابستہ کرلیتے ہیں۔ سمجھدار اساتذہ بھی اپنے طالب علموں سے اعلیٰ توقعات وابستہ کرتے ہیں۔ یہی توقعات نوجوانوں کو یاد دلاتی ہیں کہ انہیں حالات کا مقابلہ کرنا ہے اور کامیابی حاصل کرنا ہے۔
جو لوگ اپنے تخیل کو مضبوط بنانے کی جستجو میں رہتے ہیں وہ ایسا مطالعہ کرتے ہیں جو ان میں کامیابی حاصل کرنے کا جوش پیدا کرتا ہے۔ وہ ایسی تصویروں اور آرٹیکلز کو سنبھال لیتے ہیں جو ان کے تخیل کی دنیا کو روشن، واضح اور رنگین بناسکتے ہوں۔ وہ ایسے لوگوں سے ملتے ہیں جو انہیں ایک اعلیٰ زندگی گزارنے کا حوصلہ اور امید دیتے ہیں۔ تخیل آپ کا اہم اثاثہ ہے۔ یہ آپ کے لیے حیرت انگیز کام کرسکتا ہے۔ زندگی میں کوئی بڑا مقصد طے کرلیجیے۔ اسے پوری توجہ دیں۔ خود کو کامیابی کے روپ میں دیکھیں۔ ذہن میں موجود اس تصور سے نظریں نہ ہٹائیں، اگر آپ ایسا کرسکیں تو آپ کو شاندار کامیابی حاصل کرنے سے کوئی روک نہیں سکتا۔
(مضمون نگار سپیکر اور ٹرینر ہیں، نوجوانوں کے لیے مثبت نفسیات، تخلیقی صلاحیت، ہیومن پوٹینشنل جیسے موضوعات پر لکھتے ہیں)