بچوں میں تخلیقی صلاحتیں بیدار کریں (روحہ شہزادی‘بہاولپور)
تحریر کے پیرا گراف کی ترتیب میں کچھ تبدیلی کی گئ ہے
ربط
ہر بچہ اپنے ذہن میں ایک
تخلیقی دنیا آباد رکھتا ہے‘ سمجھدار والدین کو چاہیے کہ اس خیالی کارخانے کو مثبت ایندھن فراہم کرتے رہیں‘ بچے کیلئے غیرمشروط محبت سب سے بڑا تحفہ ہے۔ بچے کی صلاحیتوں کو آزادی کے ساتھ پروان چڑھانے کیلئے ضروری ہے کہ انہیں شکست قبول کرنے کا حوصلہ اور دوبارہ کوشش کرنے کی ترغیب ملے‘ سیکھنے سے مراد محض ایک مخصوص سبق کو ذہن نشین کرنا ہرگز نہیں۔
بچوں کی صلاحیتیں نکھارنے کیلئے ان کی
خیالی دنیا آباد کیجئے۔ یہ خیالی پلاو دراصل بچوں کی اصل کیفیات کو باہر نکالتا ہے۔ مندرجہ ذیل عوامل بچوں کی بہترین صلاحیتوں کو جلابخشے ہیں۔ تخیل کی آبیاری اپنے بچوں کے اندر تخیل کی صلاحیت کو بیدار کرنے کیلئے انہیں مناسب وقت دیجئے۔کھانے کے اوقات‘ تفریح کے اوقات‘ بچوں کے خاص مواقع جیسے سالگرہ وغیرہ فیملی کے ساتھ گزارئیے بالخصوص سوتے وقت اور ہوم ورک کے وقت والدین کی موجودگی بچوں کی ذہنی صلاحیتوں کو بہت زیادہ بڑھاتی ہے اور ان کی شخصیت میںنکھار پیدا کرتی ہے۔
تنہائی تخلیق کاری کیلئے کچھ وقت کی تنہائی بہت موثر ہے‘ یہ وقفہ چھوٹے بچوں میں کم اور بڑوں میں زیادہ دیا جاسکتا ہے۔ ان تنہا اوقات میں بچہ اپنے ذہن سے کچھ ایسی کار گزاریاں کرتا ہے جو مستقبل میں اس کی صلاحیتوں کو نکھار دیتی ہیں لیکن یہ یاد رہے کہ تنہائی کسی منفی کارکردگی کو نہ پھلنے پھولنے دے۔
تخلیقی ماحول کیسے قائم کیا جائے چاندانی رات میں اختر شماری کیجئے‘ بچے سے کہیے کہ اگر آسمان کا چاند زمین پر آجائے تو؟ اگر ستارے پیڑ پر اگنے لگیں تو؟ ہر بچہ اپنے ذہن کے مطابق ان سوالات کا جواب دے گا۔
بول چال چھوٹے بچوں سے سادہ جملے بولئے اور انہیں بولنے پر اکسائیے جیسے آپ تنہا ہوں یا سفر میں ہوں تو نئے الفاظ استعمال کیجئے۔ بڑے بچوں کو ثقیل جملے سنائیے جیسے کالے بادلوں نے سائے کی چھتری ٹانگ دی وغیرہ۔ کتاب بچوں سے کہانیاں سنیے اور ان کی ایک کتاب بنائیے‘ چھٹیوں میں یہ نانانانی کیلئے ایک بہترین تحفہ ہے۔چھٹیوں کی یادداشت محفوظ کیجئے۔ بچوں سے متعلق خبروں کا اخبار مرتب کیجئے۔ مزاح نگاری کیجئے جیسے اگر میرے انکل درخت پر لٹک جائیں آگے بچوں کی سوچ سنئے‘ ہر موقع کو پرتخیل بنائیے جیسے شاپنگ ٹرالی دراصل عمرو کی زنبیل ہے وغیرہ۔
تجدیدی سوچ کو پروان چڑھائیے کوشش کیجئے کہ بچہ ہر چیز کو اس کی اصل حقیقت سے الگ کرکے کچھ خیالی پیکر تراشے اس عمل میں ریاضی کے اصول فائدہ مند مانے گئے ہیں۔ ماہر نفسیات کے مطابق گنتی شمار کرنااور چیزوں کی اشکال ساخت پہچانا ایک تخلیقی ذہن کو زور آور بناتا ہے جیسے ”گنتی کیجئے“ہر چیز کی تعداد شمار کرائیے مثلا ً سیڑھیاں‘ استعمال کے برتن وغیرہ ۔ ریاضی کے مسائل حساب کتاب کے چھوٹے چھوٹے مسائل بیان کیجئے جیسے دھوبی کا حساب گھر کا خرچ وغیرہ بچوں سے حل کرائیے۔
بچوں میںصحیح سوال کرنے کی روش بیدار کیجئے۔ یاد رکھئے آپکا بچہ ہر ممکن طور پر قابل ہے اس کو ضرورت ہے آپ کی روزانہ کے معمولات سے فراغت کی ۔تھوڑا وقت سربراہی کیلئے۔تنہا مصائب سے مقابلہ کرنے کی۔چیزوں کی صحیح شناخت کی۔اپنی عمر کے مطابق وسائل کی۔کچھ لمحے تنہائی کے۔پھر یقینا ان میں سے کچھ ادیب ہیں کچھ نقاد کچھ سائنسدان اور کار جہاں دراز ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بچوں کی
شخصیت کو متوازن بنانے کیلئے انہیں تعمیری مشورے دیں‘ اگر ایک کام کو غلط یا برا کہیں تو ساتھ صحیح اور اچھے کام کی بھی نشاندہی بھی کریں اس طرح ایک مثبت ذہن تیار ہوگا‘ ذہنی صحت اور توازن کی بنیاد پڑے گی تو بچے ذہنی طور پر زیادہ توانا ہونگے
بچے سب کو پیارے ہوتے ہیں‘ پیار محبت کی شدت ہی کا ایک پہلو یہ ہے کہ ہم ان کی ضرورت سے زیادہ دیکھ بھال اور نگرانی کرتے ہیں‘ چاہتے ہیں ان کو کسی قسم کا ضرر نہ پہنچے‘ وہ جذباتی طور پر بھی صحت مند رہیں اور جسمانی و ذہنی طور پر بھی‘ ان کا کردار اور ان کی عادات اچھی ہوں اور وہ بڑے ہوکر ایک متوازن انسان بن کر ایک کامیاب اور بے مثال زندگی بسر کریں لیکن
اس خواہش میں شدت کا نتیجہ بیشتر اوقات یہ ہوتا ہے کہ ہم بچوں کو متوازن بنانے کی کوشش میں خود متوازن نہیں رہتے جس کے باعث اکثر تربیت کیلئے غیرموزوں طریقے اپنالیے جاتے ہیں ان میں سے ایک منفی اور دوسرا تحکم‘ یہ دونوں تعمیر کے نہیں تخریب کے انداز ہیں جو تربیت اور شخصیت کی تعمیر کیلئے سخت مضر ہیں۔
ٹین ایج کے مسائل
بچوں کو عمر کے اس دور میں جسے ٹین ایج کہا جاتا ہے والدین کی توجہ اور سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ٹین ایج بچے اپنی پہچان بنانا چاہتے ہیں گھر سے باہر کی دنیا میں انہیں بڑے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘ پڑھائی کے مسائل ‘ امتحان کا دباو ‘ پڑھنے کے بعد کیا کرنا ہے‘ کیا بننا ہے اور اس طرح کے دیگر بہت سے مسائل میں انہیں والدین کی اخلاقی مدد کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے والدین کا فرض ہے کہ وہ بچوں کو پہلے سے تیار کریں‘ ان کے ساتھ بیٹھیں‘ باتیں کریں‘ مضامین کے انتخاب میں ان کی زیادہ سے زیادہ مدد کریں‘ کیریئر بنانے میں ان کی رہنمائی کریں۔ ان کے ساتھ دوستانہ برتاو رکھیں لیکن ان کے لئے کسی پیشے کا انتخاب زبردستی نہ کریں ان کے رجحان کے خلاف کیریئر کا انتخاب نہ کریں اس کے علاوہ یہ دیکھیں ان کے دوست کیسے ہیں‘ ان کو بتائیں کہ وہ اپنی فرینڈشپ کو کیسے برقرار رکھ سکتے ہیں‘ بچوں کی اپنی ایک شخصیت ہوتی ہے ان کی شخصیت کو سمجھنے کی کوشش کریں ان کو مناسب آزادی ضرور دیجئے تاکہ وہ اپنی اصلی شخصیت کو ظاہر کرسکیں‘ اگر ان کے مسائل کا حل نہیں ملے گا تو وہ غلط راستے پر چل پڑیں گے وہ سگریٹ نوشی اور دیگر نشہ آور اشیاءکا استعمال شروع کرسکتے ہیں
آپ بچوں کی شخصیت کو دبائیں نہیں اور
نہ ہی اپنی شخصیت کو ان پر مسلط کریں۔ ان کی شخصیت آپ سے مختلف بھی ہوسکتی ہے اور آپ سے اچھی بھی‘ جہاں تک ممکن ہو اپنے ”بڑے پن“ کو کام میں نہ لائیں بچے سے معمول کے لہجے میں بات کریں۔ بات چیت اور روئیے میں غصے‘ جھنجھلاہٹ‘ اکتاہٹ اور چڑچڑے پن کا اظہار نہ کریں۔ بچے ماں باپ سے ہی سیکھتے ہیں ان کی ہی نقل کرتے ہیں‘ ہر کام میں ویسا ہی ردعمل ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں جیسا کہ آپ کرتے ہیں۔ آپ کے روئیے میں درشتگی کے ساتھ ساتھ ضرورت سے زیادہ نرمی اور لجاجت بھی نہیں ہونی چاہیے۔
ہر بچے میں اپنی صلاحیتوں کے استعمال کی تمام تر امکانی قوتیں موجود ہوتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان پوشیدہ خزانوں کو دریافت کرکے ان کو ان کے اصل مقام تک پہنچایا جائے۔ یوں تو ہم زندگی کے تمام معاملات میں جمہوریت اور آزاد رائے کو نافذ کرنا چاہتے ہیں لیکن افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ ہم میں سے
بیشتر والدین بچوں کی پرورش کے معاملے میں آمرانہ روش اختیار کرلیتے ہیں اس طرح دراصل
ہم اپنی ناآسودہ خواہشات کی تکمیل چاہتے ہیں لیکن کیا یہ طریقہ درست ہے؟