جناب، اب بچوں کے ادب سے باہر بھی آ جائیں۔ آپ کی توجہ کے لئے اور بھی کئی میدان منتظر ہیں۔ آج کل کے بچے تو میرا خیال ہے ان کتابوں کے پاس بھی نہیں پھٹکتے ہوں گے۔ ہاں ہم جیسے ناسٹیلجیا کے مارے ہوئے لوگوں کے لئے ان میں کافی دلچسپی ہے۔
ارے نہیں
تلمیذ بھائی، اب ایسا بھی نہیں کہ آج کل کے بچے کتابوں سے بے گانہ ہوگئے ہیں۔ ہماری چھوٹی بٹیا خیر سے چوتھی کلاس کا امتحان دینے لگی ہیں لیکن عالم یہ ہے کہ انگریزی میں انہیں رولڈ ڈاہل بہت پسند ہے جس کی کئی کتابیں چاٹ گئی ہیں، آج کل ہیری پوٹر کے چوتھے سال کی کارستانیاں ان کی بغل میں رہتی ہے۔ اِدھر اشتیاق احمد کے بے شمار ناول ہضم کرچکی ہیں۔ہمیں فیروز سنز کی چھپی ہوئی ’’دنیا کے گرد اسی دن میں‘‘ (وہی پہلا ایڈیشن ) مل گیا تو وہ بھی ان کے حوالے کردی ہے، جسے شوق سے دیکھ رہی ہیں۔
جہاں تک
راشد اشرف بھائی کے اس نئے پیشن کا تعلق ہے، انہیں کرنے دیجیے۔ ہمیں تو لگتا ہے کہ یہ ان کے نئے مقالے کی تیاری ہے، ’’ستر کی دہائی میں بچوں کے ادب میں فیروز سنز کا کردار‘‘؟؟؟؟
غلام عباس صاحب کا انتخاب ’’ پھول: پچاس سالہ جلدوں کا انتخاب‘‘ پڑھیے تو محسوس ہوگا کہ موصوف نے کس قدر کمال خوبصورتی کے ساتھ ایک عہد کو محفوظ کردیا۔ آج کھلونا نئی دہلی یا بھائی جان کراچی ، یا غنچہ کراچی کے پرانے شمارے تک کسی کے پاس دستیاب نہیں ۔ فیروز سنز کی دکان میں لگنے والی آگ ہم پروانوں کے دل میں بھی بھڑک اُٹھی ہے۔ کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ کوئی منچلہ
راشد اشرف اس طرف بھی توجہ دے؟
صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لیے