قیصرانی
لائبریرین
اگرچہ بچوں کو پوری طرح علم نہیں ہوتا لیکن عام طور پر بھولی بھالی یا ڈرا دینے والی باتیں کرتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ دوسروں سے سیکھی ہوئی باتیں دہراتے ہوں۔ بعض اوقات ہمارے سامنے ایسی باتیں آ جاتی ہیں کہ جن کو نظر انداز کرنا یا جن کی وضاحت کر پانا ہمارے لئے مشکل تر ہو جاتا ہے کیونکہ وہ اتنی ڈراونی ہوتی ہیں۔
ذیل میں سنگل ڈیڈ لافنگ بلاگ سے لی گئی تحاریر کا مجموعہ ہے:
ایک صبح تین سالہ بیٹی بہت تھکی ہوئی دکھائی دے رہی تھی۔ میں نے پوچھا کہ نیند کیسی رہی۔ اس نے جواب دیا کہ ساری رات دادا جان گدگدی کرتے رہے۔ میں بالکل بھی نہیں سو پائی۔ اس بچی کا دادا آٹھ سال قبل فوت ہو چکا تھا اور بیٹی کی ملاقات اپنے دادا سے کبھی نہیں ہوئی تھی۔ نہ ہی میں نے کبھی بچی کو بتایا تھا کہ دادا کی عادت تھی کہ وہ بچوں کو گدگدی کر کے بیدار کرتے تھے۔
ایک روز چھوٹا بیٹا اچانک میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے سکون سے اور مزے سے بولا۔ امی پریشان نہ ہوں۔ میں آپ کو کبھی نہیں قتل کروں گا۔
میرے میاں سفر پر تھے اور مین اپنے تین سالہ بچے کے ساتھ گھر پر اکیلی تھی۔ سارے گھر کی روشنیاں گل تھیں اور پورے گھر پر سناٹا طاری تھا کہ میرے بچے نے سرگوشی کی۔ شکر ہے کہ آپ کو میں وہیں لے آیا جہاں میں چاہ رہا تھا۔ اب میں آپ کو کھاؤں گا۔
میری بہترین سہیلی لیزا کے انتقال کے وقت میں حاملہ تھی۔ جب میری یہ بیٹی تین سال کی ہوئی تو میں نے اسے ایک دن بہت زور سے ہنستے سنا۔ جب اس کے پاس جا کر میں نے پوچھا کہ اتنی ہنسی کیوں آ رہی ہے تو اس نے جواب دیا کہ امی دیکھیں، آنٹی لیزا مسلسل اپنے چہرے کے تائثرات بگاڑ رہی ہیں اور مجھے بہت ہنسی آ رہی ہے۔ میں نے اپنی بیٹی کو لیزا کے بارے کبھی ایک لفظ بھی نہیں بیان کیا تھا۔
جب میری بیٹی چار سال کی تھی تو میں نے اسے گانا گاتے سنا۔ یہ وہی گانا تھا جو میں نے اپنے بچپن میں گایا کرتی تھی۔ جب میں نے حیران ہو کر اس سے پوچھا کہ تمہیں یہ گانا کیسے آتا ہے تو وہ مزے سے بولی کہ نانی اماں سے سیکھا ہے۔ نانی اماں یعنی میری امی بچی کی پیدائش سے بھی چھ سال پہلے فوت ہو گئی تھیں۔
جب بیٹی کو سلا رہی تھی تو اس نے خوفزدہ آواز میں پوچھا کہ فرش پر پیڈسٹل فین کے پاس جو مردہ انکل پڑے ہیں، اسے کیوں گھور رہے ہیں۔ اس وقت ہم کمرے میں دو ہی ماں بیٹیاں تھیں۔ آج بھی میں اس پیڈسٹل فین کو نہیں دیکھ سکتی۔
جب ہمارا بیٹا تین سال کا ہوا تو ہمیں بتا چلا کہ ہمارے علاوہ اس کے اور بھی ماں باپ تھے اور وہ ہمیں کہیں سڑک کے کنارے ملا تھا اور ہم نے اسے اپنا بیٹا بنا لیا تھا۔ اس نے یہ بھی پورے یقین سے بتایا کہ اس کے پچھلے ماں باپ مر چکے تھے اور اس کی چھوٹی بہن بھی تھی اور وہ بھی مر چکی تھی۔
تین سالہ بچے نے بتایا کہ امی امی، آپ میری اب تک کی سب سے اچھی امی ہیں۔ جب میں نے ہنس کر کہا کہ بیٹا میں ہی تمہاری واحد ماں ہوں تو اس نے فوراً جواب دیا کہ وہ ساری امیاں بھی یہی کہتی تھیں۔
اصل اقتباسات اس صفحے پر موجود ہیں جن کا میں نے ترجمہ اور تلخیص کی ہے
ذیل میں سنگل ڈیڈ لافنگ بلاگ سے لی گئی تحاریر کا مجموعہ ہے:
ایک صبح تین سالہ بیٹی بہت تھکی ہوئی دکھائی دے رہی تھی۔ میں نے پوچھا کہ نیند کیسی رہی۔ اس نے جواب دیا کہ ساری رات دادا جان گدگدی کرتے رہے۔ میں بالکل بھی نہیں سو پائی۔ اس بچی کا دادا آٹھ سال قبل فوت ہو چکا تھا اور بیٹی کی ملاقات اپنے دادا سے کبھی نہیں ہوئی تھی۔ نہ ہی میں نے کبھی بچی کو بتایا تھا کہ دادا کی عادت تھی کہ وہ بچوں کو گدگدی کر کے بیدار کرتے تھے۔
ایک روز چھوٹا بیٹا اچانک میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے سکون سے اور مزے سے بولا۔ امی پریشان نہ ہوں۔ میں آپ کو کبھی نہیں قتل کروں گا۔
میرے میاں سفر پر تھے اور مین اپنے تین سالہ بچے کے ساتھ گھر پر اکیلی تھی۔ سارے گھر کی روشنیاں گل تھیں اور پورے گھر پر سناٹا طاری تھا کہ میرے بچے نے سرگوشی کی۔ شکر ہے کہ آپ کو میں وہیں لے آیا جہاں میں چاہ رہا تھا۔ اب میں آپ کو کھاؤں گا۔
میری بہترین سہیلی لیزا کے انتقال کے وقت میں حاملہ تھی۔ جب میری یہ بیٹی تین سال کی ہوئی تو میں نے اسے ایک دن بہت زور سے ہنستے سنا۔ جب اس کے پاس جا کر میں نے پوچھا کہ اتنی ہنسی کیوں آ رہی ہے تو اس نے جواب دیا کہ امی دیکھیں، آنٹی لیزا مسلسل اپنے چہرے کے تائثرات بگاڑ رہی ہیں اور مجھے بہت ہنسی آ رہی ہے۔ میں نے اپنی بیٹی کو لیزا کے بارے کبھی ایک لفظ بھی نہیں بیان کیا تھا۔
جب میری بیٹی چار سال کی تھی تو میں نے اسے گانا گاتے سنا۔ یہ وہی گانا تھا جو میں نے اپنے بچپن میں گایا کرتی تھی۔ جب میں نے حیران ہو کر اس سے پوچھا کہ تمہیں یہ گانا کیسے آتا ہے تو وہ مزے سے بولی کہ نانی اماں سے سیکھا ہے۔ نانی اماں یعنی میری امی بچی کی پیدائش سے بھی چھ سال پہلے فوت ہو گئی تھیں۔
جب بیٹی کو سلا رہی تھی تو اس نے خوفزدہ آواز میں پوچھا کہ فرش پر پیڈسٹل فین کے پاس جو مردہ انکل پڑے ہیں، اسے کیوں گھور رہے ہیں۔ اس وقت ہم کمرے میں دو ہی ماں بیٹیاں تھیں۔ آج بھی میں اس پیڈسٹل فین کو نہیں دیکھ سکتی۔
جب ہمارا بیٹا تین سال کا ہوا تو ہمیں بتا چلا کہ ہمارے علاوہ اس کے اور بھی ماں باپ تھے اور وہ ہمیں کہیں سڑک کے کنارے ملا تھا اور ہم نے اسے اپنا بیٹا بنا لیا تھا۔ اس نے یہ بھی پورے یقین سے بتایا کہ اس کے پچھلے ماں باپ مر چکے تھے اور اس کی چھوٹی بہن بھی تھی اور وہ بھی مر چکی تھی۔
تین سالہ بچے نے بتایا کہ امی امی، آپ میری اب تک کی سب سے اچھی امی ہیں۔ جب میں نے ہنس کر کہا کہ بیٹا میں ہی تمہاری واحد ماں ہوں تو اس نے فوراً جواب دیا کہ وہ ساری امیاں بھی یہی کہتی تھیں۔
اصل اقتباسات اس صفحے پر موجود ہیں جن کا میں نے ترجمہ اور تلخیص کی ہے