غدیر زھرا
لائبریرین
بچے کا ذہن جتنی کتابوں میں بٹ گیا
مجبور باپ اتنے عذابوں میں بٹ گیا
اب حقِ ملکیت تو فقط ندّیوں کو ہے
سرسبز کھیت کتنے دوآبوں میں بٹ گیا
مٹی کا جسم تیرنے اترا تھا جھیل میں
جب ڈوبنے لگا تو حبابوں میں بٹ گیا
وہ شہر جو کہ مرکزِ عالم نگاہ تھا
بھونچال آ گیا تو خرابوں میں بٹ گیا
میں نے تو اہلِ قریہ سے پوچھا تھا گھر کا حال
میرا سوال کتنے سوالوں میں بٹ گیا
ننھی سی خواہشوں کا گلا گھونٹ کر صبا
انساں طلسمِ صبر کے خوابوں میں بٹ گیا
(سبطِ علی صبا)