بڑھتی آبادی کا خطرہ… تصویر کا دوسرا رخ

بڑھتی آبادی کا خطرہ… تصویر کا دوسرا رخ
یا
آبادی کا بم، محض مغربی پراپیگنڈہ

تخلیق کی قوت:
فطرت میں ارتقا کی قوت محرکہ تخلیق کی تحریک ہے۔ یہ تخلیق نسل کی ہو سکتی ہے فن اور ادب کی ہو سکتی ہے، سائنس اور ٹیکنالوجی میں ہو سکتی ہے اور یہ تخلیق کلچر اور تہذیب کی ہو سکتی ہے۔ تخلیقی قوتیں ہر سمت میں اپنا کردار ادا کرتی رہتی ہیں اور فطرت ان میں خوب تر کے انتخاب میں ارتقا پذیر رہتی ہے۔ انواعِ حیات کی کتنی نسلیں عملِ ارتقا کے دوران معدوم ہو چکی ہیں جن کی نشانیاں اب صرف ان کے حجری ڈھانچوں (Fossils) میں پائی جاتی ہیں۔ معدوم ہونے والی نسلیں تخلیق ہونے والی نئی نسلوں کے لئے صرف پُل کا کام دیتی ہیں۔
 
ارتقا کا عمل:
ارتقا کی چوٹی پر نسلیں ارتقا میں غیر تخلیقی نسلوں کا رستہ روک کر انہیں معدوم ہونے پر مجبور کر دیتی ہیں۔ جس طرح آج بنی نوعِ انسان کے ارتقا نے جنگلی حیات کو معدوم ہونے کے خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔ جس طرح انسانوں میں ترقی یافتہ اقوام غیر ترقی یافتہ اقوام کے ارتقا کا رستہ روکے بیٹھی ہیں۔
 
ترقی یافتہ اور پسماندہ نسلوں کا ارتقا
اس پس منظر میں دیکھا جائے تو ترقی یافتہ نسلوں کے ارتقا اور پسماندہ نسلوں کے ارتقا کے قوانین ایک دوسرے کی ضد پر آ جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر معیشت کے میدان میں ترقی یافتہ اقوام کے ارتقا کا انحصار ان کی برآمدات کے زیادہ سے زیادہ فروغ پر ہو چکا ہے اور برآمدات کا یہ فروغ درآمدات کرنے والے ممالک کی تخلیقی صلاحیتوں کے ابھرنے میں بُری طرح مانع ہے۔ اگر وہ تقی یافتہ اقوام کی برآمدات کے بدل خود تیار کرتے ہیں تو تو ترقی یافتہ اقوام کا ارتقا رُک جاتا ہے۔ اور اگر وہ غیر ملکی برآمدات پر گزارا کرتے ہیں تو ان کی تخلیقی صلاحیتیں پسماندہ رہنے کی وجہ سے ان کے وجود کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔ اس لئے ترقی یافتہ اور پسماندہ ممالک کے ارتقا میں تضاد اوقر تخالف کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ برآمدات کے جو قوانین کمزور ممالک کو کمزور تر کر دیتے ہیں، بعینہٖآبادی میں اضافے کے شور کے پیچھے ترقی یافتہ ممالک کے اغراض و مقاصد پسماندہ ممالک کے اغراض و مقاصد سے مختلف ہیں۔
 
آبادی میں اضافہ اور سامراجیت:
پسماندہ دنیا کی آبادی میں اضافے کے سامراجی مفادات پر بہت سے مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ مثلاً وسائل کی کمی، غیر ترقی یافتہ ہونے کی وجہ سے پھیلتا ہوا سماجی اضطراب، سامراج کے استحصالی مفادات کو اپنی زد میں لے لیتا ہے۔ آبادی کے وسیع حصوں میں پھیلتی ہوئی بغاوتوں کو قابو میں لانا مشکل ہو جاتا ہے۔ سامراج کو بہت سارے بین الاقوامی وسائل سے محروم ہونے کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔ پھیلتے ہوئے مقامی مناقشوں سے عالمی تجارت میں کساد بازاری آ جاتی ہے۔ سرد بازاری سے ترقی یافتہ اقوام کی پیداوار کا عالمی نظام بری طرح متأثر ہوتا ہے۔
 
آبادی کا ارتقا:
"عناصرِ فطرت میں آبادی" میں اضافہ کو عالمی ارتقا میں انجن کی حیثیت حاصل ہے۔ سائنس دانوں کی تحقیق ہے کہ بارہ ہزار قبل مسیح میں کل دنیا کی آبادی ایک کروڑ نفوس پر مشتمل تھی۔ ۱۶۵۰؁ء میں یہ آبادی ساڑھے چون کروڑ ہو گئی۔ ۱۷۵۰؁ء میں یہ تعداد ۷۲ کروڑ اسی لاکھ اور ۱۸۵۰؁ء میں یہ تعداد ایک ارب سترہ کروڑ دس لاکھ تھی۔ ۱۹۵۰؁ء میں یہ آبادی دو ارب پچاس کروڑ تھی۔ ابتدائی انسان جب شکار پر گزارہ کرتا تھا اس کو کئی کئی دن فاقے کرنے پڑتے تھے۔ آٹھ مربع میل پر مشتمل شکار گاہ سال میں صرف ۲۰۰ آدمیوں کی کفالت کر سکتی تھی۔ پھر جب انسان نے زراعت کاری سیکھ لی تو ناقص آلاتِ کشاورزی کے باوجود آٹھ مربع میل کا رقبہ چار ہزار آدمیوں کی کفالت کر سکتا تھا۔ پھر صنعتی دور آیا تو اتنا ہی رقبہ لاکھوں انسانوں کی کفالت کرنے لگا۔ اگر غذائیت کی توانائی کو کیلوریوں میں ناپا جائے تو آج ایک فرد قدیم انسان سے سینکڑوں گنا زیادہ خوش خوراک ہے۔
 
آبادی اور ارضی وسائل:
آبادی کا تعلق ارضی وسائل سے بہت گہرا ہے۔ ۱۸۳۰؁ء میں ماہرِ ارضیات چارلس لائل نے یہ نظریہ پیش کیا کہ زمین کے خدوخال ناقابلِ حل معمہ نہیں۔ زمین پر پہاڑ، وادیاں، صحرا، دریا، جھیلیں اور ساحل اپنی اشکال مسلسل تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ دریا پہاڑوں کو کھرچ کھرچ کر وادیاں بنا دیتے ہیں۔ پہاڑ، بارشوں کے پانیوں، ریت اور آندھیوں کے ریگمال سے گھس گھس کر پہاڑیوں اور ریگستانوں میں تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔
 
ڈارون اور مالتھوس کا نظریہ: اس نظریہ نے ڈارون کو بڑا انسپائر کیا اور اسے خیال آیا کہ اگر آج کی زمین قدیم زمین سے مختلف ہے تو اس پر حیات بھی قدیم سے مختلف ہو گی۔ اس تحقیق سے ڈارون نے انواعِ حیات کا ارتقائی نظریہ پیش کیا جس نے علمی دنیا میں تلاطم برپا کر دیا۔ ڈارون کو اپنے نظریۂ ارتقا میں ماہرِمعاشیات تھامسمالتھوس کے نظریات سے بھی مدد ملی۔ مالتھوس نے اپنی تحقیق "آبادی کے قوانین (An Essay on Principles of Populations)" میں یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ انسانی آبادیمیں اضافہ، وسائلِ خوراک میں اضافے سے کئی گنا زیادہ ہوتا ہے۔ مالتھوس کا نظریہ تھا کہ وسائلِ حیات میں اضافہ ۱، ۲، ۳، ۴، ۵، … کے تسلسل سے ہوتا ہے جبکہ آبادی میں اضافہ ۱، ۲، ۴، ۸، ۱۶، … کے تسلسل سے ہوتا ہے۔ آبادی اور وسائل میں شرحِ اضافہ کی غیر متناسب دوڑ سے وسائل آبادی سے پیچھے رہ جاتے ہیں اور وسائلِ حیات کے لئے جدل (competition) برپا ہو جاتا ہے۔ ڈاروناپنے نظریہ ارتقائے انسانی (Evolution Theory of Mankind) میں اسی اصول کو بنیاد بنا کر جہد البقا(struggle for Survival)، نیچرل سلیکشن (natural selection) اور خوب تر کی بقا (survival of the fittest) کے اصول وضع کر کے انواعِ حیات (Diversity of Life) میں ارتقا کا جواز پیش کیا۔ مالتھوس کا خیال تھا کہ اگر آبادی پر مصنوعی کنٹرول لاگو نہ کیا گیا تو وسائل کی قلت سے "آبادی کا بم" پھٹ کر ٹکراؤ کی بھیانک صورتیں پیدا کرتا رہے گا اور اس ٹکراؤ میں وسائل کا بے شمار زیاں ہوتا رہے گا۔
 
آبادی کوئی بے کار شے نہیں:
ہم آبادی میں اضافے سے نظریہ مالتھوس اور نظریہ ڈارون کے مطابق خوف زدہ ہیں کہ وسائل اتنی تیزی سے نہیں بڑھتے جتنی تیزی سے آبادی بڑھتی ہے۔ لہٰذا جدید ہلاکت خیز ہتھیاروں سے مسلح تصادم، مناقشے اور جنگیں اس کرۂ ارض کو ہی نیست و نابود کر دیں گی۔ اس پسِ منظر میں اگر آبادی پر خود ساختہ کنٹرول نافذ نہ کیا گیا تو بقا کو مکمل فنا کا خطرہ لاحق ہے۔ لیکن ارتقا کی سائنس کا منطرنامہاس سے مختلف تصویر پیش کرتا ہے۔ دنیا کی کوئی چیز بے کار نہیں بلکہ صرف اس کے سائنس مصرف کی تلاش مطلوب ہے۔ اسی طرح انسانی آبادی کوئی بے کار شے نہیں لیکن کار آمد اسے صرف سائنسی مصرف ہی بنا سکتا ہے۔
 
آبادی اور ٹیکنالوجی:
سائنس کے اصولوں کے مطابق آبادی میں اضافہ ٹیکنالوجی میں اضافے کو جنم دیتا ہے۔ انسانی تاریخ کے آغاز میں آٹھ مربع میل کا رقبہ جسے انسان شکار کے لئے استعمال کرتا تھا وہ بہت تھوڑے انسانوں کی کفالت کر سکتا تھا۔ لیکن جب انسان نے آبادی کے فروغ سے مجبور ہو کر زراعت کاری کی تکنیک دریافت کر لی تو وہی آٹھ مربع میل کا رقبہ سینکڑوں گنا زیادہ آبادی کے لئے کفیل ہو گیا۔ پھر زرعی ٹیکنالوجی نے زیادہ آبادی پیدا کی تو زیادہ آبادی نے صنعتی ٹیکنالوجی کو پیدا کر کے مزید آبادی کی کفالت کی گنجائش پیدا کر لی۔ ٹیکنالوجی سے وسائلِ حیات کو ترقی ملتی ہے۔ اور آج وہ دور ہے کہ مالتھوس کے نظریہ کے خلاف وسائل کے فروغ کے لئے ٹیکنالوجی کی ترقی میں اضافے کی شرح ۱، ۲، ۴، ۸، ۱۶، … کے حساب سے آبادی کے اضافے کے راست متناسب ہو چکی ہے۔ یہ آبادی کا اضافہ ہی ہے کہ جو ٹیکنالوجی کی طلب میں اضافہ کر تا ہے۔ اور دوسری طرف یہ ٹیکنالوجی کا اضافہ ہی ہے جو اپنی ضروریات کے لئے آبادی میں اضافے کو جنم دیتا ہے۔ یہ ارتقا کا بنیادی قانون ہے کہ آبادی، وسائل اور ٹیکنالوجی ایک توازن سے دوسرے توازن اور دوسرے سے تیسرے کی طرف لڑھکتے رہتے ہیں۔ جب کوئلہ ختم ہو گیا تو تیل آ گیا۔ تیل کم ہوا تو ایٹمی توانائی آ گئی۔ ایٹمی توانائی میں کمی آئی تو شمسی توانائی آ گئی۔ جب کپڑے کے لئے روئی کم ہو گئی تو کپڑا بنانے کے لئے مصنوئی دھاگا آ گیا۔ جب گھی کم ہوا تو مصنوعی گھی آ گیا۔ آج انسانی غذا کے کتنی اجزا مثلاً کاربوہائڈریٹس، وٹامنز، روغنیات، اور پروٹین وغیرہ مصنوعی طور پر تیار ہو رہے ہیں۔ آج جنیٹکانجینئرنگ نے اناج اور گوشت کے ذخیروں میں کتنے گنا اضافہ کیا ہے۔ ڈیری فارمنگ، ماہی پروری، مرغ بانی کی صنعتیں کتنی ترقی کر چلی ہیں۔ یہ سب ٹیکنالوجی کے کمالات اور خود ٹیکنالوجی انسانی آبادی میں اضافے کا کمال ہے۔
 
انسانی محنت کے کارنامے:
انسانی محنت کا ذخیرہ جتنا بڑا ہو گا، مشینی ترقی اُتنی ہی زیادہ ہو گی۔ ترقی یافتہ اقوام نے پسماندہ دنیا کی محنت استعمال میں لا کر مشینی ترقی میں اضافہ کیا ہے کیونکہ یہ محنت ہی ہے جو مشینوں کی صورت میں مادی روپ دھار لیتی ہے۔ یہ محنت ہی ہے جس سے مشینوں کو فیڈکر کے پیداوار (yield) میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ یہ محنت ہی ہے جو ٹیکنالوجی کو بنیادیں فراہم کرتی ہے۔ آج دنیا نے ٹیکنالوجی میں جتنی ترقی کی ہے اگر دنیا کی آبادی نصف کر دیں تو ترقی بھی نصف رہ جائے کیونکہ جب صارفین ختم ہو جائیں تو تجارتی آمدنی ختم ہو جائے۔ اگر تجارتی آمدنی ختم ہو جائے تو ٹیکنالوجی کی تحقیق کے لئے فنڈز ختم ہو جائیں۔ اگر فنڈز ختم ہو جائیں تو ٹیکنالوجی کا ارتقا ختم ہو جائے گا۔
 
انسانی محنت کے کارنامے:
انسانی محنت کا ذخیرہ جتنا بڑا ہو گا، مشینی ترقی اُتنی ہی زیادہ ہو گی۔ ترقی یافتہ اقوام نے پسماندہ دنیا کی محنت استعمال میں لا کر مشینی ترقی میں اضافہ کیا ہے کیونکہ یہ محنت ہی ہے جو مشینوں کی صورت میں مادی روپ دھار لیتی ہے۔ یہ محنت ہی ہے جس سے مشینوں کو فیڈکر کے پیداوار (yield) میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ یہ محنت ہی ہے جو ٹیکنالوجی کو بنیادیں فراہم کرتی ہے۔ آج دنیا نے ٹیکنالوجی میں جتنی ترقی کی ہے اگر دنیا کی آبادی نصف کر دیں تو ترقی بھی نصف رہ جائے کیونکہ جب صارفین ختم ہو جائیں تو تجارتی آمدنی ختم ہو جائے۔ اگر تجارتی آمدنی ختم ہو جائے تو ٹیکنالوجی کی تحقیق کے لئے فنڈز ختم ہو جائیں۔ اگر فنڈز ختم ہو جائیں تو ٹیکنالوجی کا ارتقا ختم ہو جائے گا۔
 
انسان اور تسخیرِ فطرت:
انسان تسخیرِ فطرت کر رہا ہے۔ وہ مصنوعی موسم اور مصنوعی وسائل پیدا کر رہا ہے۔ موسموں اور وسائل کی صناعی سے چاند،مریخ، زہرہ اور مشتری میں آبادکاری کے امکانات روشن ہو رہے ہیں۔ ان سیاروں کو آباد کرنے کے لئے پتہ نہیں کتنی آبادیاں درکار ہیں۔
؎ عروجِ آدمِ خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارہ مہِ کامل نہ بن جائے۔
 
دنیا کا قیمتی سرمایہ:
دنیا کا سب سے قیمتی سرمایہ انسان ہے۔ اس کے دو ہاتھ اور ایک دماغ کائنات کی سب سے بڑی صنعت ہے۔ اس کو بے کار سمجھ کر مٹا دینا دنیا کا سب سے بڑا زیاں ہے۔
 
آبادی کا سائنسی مصرف:
آبادی کو سائنسی مصرف میں لایا جائے تو یہ قدرت کا سب سے عظیم عطیہ ہے۔ اگر اسے بیکار سمجھ کر اس سے جان چھڑائی جائے تو یہ دنیا کا اذیت ناک عذاب ہے۔ آبادی کم کرنا کسی مسئلے کا حل نہیں۔ چین کی آبادی جب چالیس کروڑ تھی تو یہ ساری دنیا کا محتاج تھا جبکہ آج اس کی آبادی ایک سو بیس کروڑ ہے تو وہ ساری دنیا سے با وقار قوم ہے کیونکہ آبادی کو سائنسی مصرف میں لایا گیا ہے۔ افریقہ کی آبادی کم کر کے ایک لاکھ کر لو اور ان کے نظریات اور روایات جوں کی توں رہنے دو تو اس تھوڑی سی آبادی کے وسائل بھی جوں کے توں ہی رہیں گے۔ مسائل حل کرنے کے لئے ضرورت آبادی گھٹانے کی نہیں بلکہ نظریات اور ثقافتی روایات سائنٹفک بنانے کی ہے، ضرورت لوگوں کو ثقافتی پسماندگی کی دلدل سے نکالنے کی ہے، ضرورت انسانی وسائل کو سائنسی مصرف میں لانے کی ہے۔ آبادی کی کوالٹی بہتر کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ محنت درکار ہے۔ محنت کے ذخیرے کا انحصار آبادی کی مقدار پر ہوتا ہے۔
 
آبادی اور سماجی انقلاب:
دنیا کی آبادی میں اضافہ نہ ہوتا تو دنیا میں کوئی سماجی انقلاب نہ آتا۔ دنیا میں آزادی کی طرف سفر ممکن نہ ہوتا۔ خوب سے خوب تر کے مزے نہ ہوتے۔ جدید زمانہ ٹیکنالوجی کے انقلاب کا زمانہ ہے۔ ٹیکنالوجی نے جو سفر پہلے زمانے میں صدیوں میں طے کئے اب وہ دہائیوں میں طے ہو رہے ہیں۔
 
ٹیکنالوجی کی ترقی:
ٹیکنالوجی کی شرحِ نمو آبادی کی شرحِ نمو سے آگے نکل رہی ہے۔ ٹیکنالوجی وسائل کی شرحِ نمو میں تیزی لا رہی ہے۔ ٹیکنالوجی اور وسائل کی شرحِ نمو اگر آبادی کو پیچھے چھوڑ دے تو یہ خود سائنسی ارتقا کے زوال کی علامت ہو گی۔ ٹیکنالوجی کے ارتقا نے کتنے جانوروں کے بوجھ سے وسائلِ حیات کو ہلکا کر دیاہے۔ یہ سب وسائل اب انسان کے لئے بچا لئے گئے ہیں۔ نیوکلیئر، جینیٹکس، الیکٹرونکس، لیزر، کمپیوٹر اور خلائی ٹیکنالوجی سے نئے وسائل کیلئے اب کتنی راہیں روشن ہو چکی ہیں۔
 
آبادی کے مسائل کا حل:
آبادی کے مسائل میں الجھاؤ غلط سیاست کی پیداوار ہے۔ سیاست میں حاکمانہ رعب دعب کے لئے دوسروں کو دبانے، کسنے اور کچلنے کے رجحانات پیدا ہوتے ہیں۔ وسائل پر حاکمانہ تسلط اور دوسروں کی محرومی سے اپنی کبریائی اور بڑائی کو ناپنا کلچر کے بُرے دنوں کی نشانیاں ہیں۔ آج کے دور میں بچوں اور بوڑھوں کو سٹیٹ پراپرٹی قرار دے کر عظیم مقاصد حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ بچوں کے لئے اعلیٰ سے اعلیٰ اور سستی سے سستی تعلیم کا اہتمام ریاست کا فریضہ ہے اور بوڑھوں کو تحفظ فراہم کر کے عوام میں تحفظ کا احساس پیدا کرنا، کہ عدم تحفظ کے احساسات کے زیرِ سایہ پرورش پانے والے جلب زر اور نفسا نفسی کے رجحانات سے نجات حاصل کر کے ملک کو صنعتی امن فراہم ہو سکے۔
 

عسکری

معطل
کافی دلچسپ لگا۔ شکریہ
اور خآصہ جاھلانہ بھی

دنیا کی آبادی
world_population_1050_to_2050.jpg


یہ ایک خطرے کی گھنٹی نہیں بلکہ اب حقیقت مین بم بن چکا ہے ساری دنیا کساد بازاری بھوک غربت افلاس خؤد کشیوں جرائم سے اٹی پڑی ہے ۔ ہر ملک کی اقتصادیات پر شدید مندی کے سائے منڈلا رہے ہین ۔ کچھ سول وار کی بھینٹ چڑھ فئے تو کچھ اس سولی پر لٹکنے والے ہین لیکن اب بھی ملائیت کو وہی استعمار سازش اور یہود ہنود ہی نظر آ رہے ہیں جبکہ باہر نکلو تو ہمارے اپنے ملک کے کروڑؤں عوام کے پاس پہننے کو کپڑے ہین نا کھانے کو روٹی ۔ یہ وہی پاکستان ہے جہاں ہر چیز وافر تھی جب آبادی 10 کروڑ تھی ۔ اب کیا بچا ہے کوئی جواب دے گا ؟ سوائے انسانوں کے ایک جنگل کے جن کا نا کوئی مستقبل ہے نا ہی کسی سنہرے مستقبل کی امید

دنیا کو مارو گولی ہمارے اپنے ملک کو ہی دیکھ لو ۔ ان کو زندگی دینے سے پہلے کسی نے سوچا تھا ان کو کیا کھلایا پلایا جائے گا اور کونسے وسائل کے دم پر ان کو دنیا مین لایا گیا ؟


Causes-of-poverty-in-Pakistan.jpg


poverty12.jpg


2008-10-16-10-3-4-0565b556bc9944688a2c1dbcd89e5059-0565b556bc9944688a2c1dbcd89e5059-1.jpg


poverty-in-pakistan-21.jpg



anak_pakistan_korbanbanjir.jpg



poverty-in-pakistan2.jpg


Pakistani-poor-people.jpg
 
Top