بڑھتے ہوئے بچوں کے معاملات و مسائل اور ان کا حل

یاز

محفلین
کھانے کے بعد دوست آفر کریں تو سگریٹ لے لیتا ہوں۔ خود سے ڈبیا صرف ایک ہی بار خریدی ہے۔
میرے کچھ دوست بھی اکثر سگریٹ نوشی چھوڑتے رہتے ہیں، جس کا عملی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ خود سے خرید کر سگریٹ نہیں پینا، ویسے مل جائے تو مضائقہ نہیں۔
 

عثمان

محفلین
میرے کچھ دوست بھی اکثر سگریٹ نوشی چھوڑتے رہتے ہیں، جس کا عملی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ خود سے خرید کر سگریٹ نہیں پینا، ویسے مل جائے تو مضائقہ نہیں۔
کھانا اگر زیادہ کھایا ہو تو ایک سگریٹ پینے سے آپ خود کو بہت ہلکا اور بہتر محسوس کرتے ہیں۔ عموماً اسی افادیت کے مدنظر سگریٹ سے استفادہ کیا ہے۔
 

عباس اعوان

محفلین
حقہ کے کش تو بچپن میں اپنے دادا جان کے ساتھ بیٹھ کر لگا لیا کرتا تھا۔ تاہم الحمدللہ آج تک سگریٹ کے ایک کش سے بھی بچا رہا۔
واہ، کیا پر ہیز ہے۔۔۔۔۔
گویا:
(نیازی صاحب سے معذرت کے ساتھ)
رس گلے کھا لیتا ہوں، چائے کو چھوڑ دیتاہوں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
چلیں بڑھتے ہوئے بچوں اور "سگریٹوں" کے مسائل ایک ساتھ ہی زیرِ بحث آ گئے یہاں۔

میرا بڑا بیٹا آج کل اپنی ماں پر اپنی اہمیت جتاتا ہے کہ میری عمر میں بابا نے سگریٹ پینے شروع کر دیے تھے، دیکھا میں کتنا اچھا ہوں۔ اور میں ڈر جاتا ہوں کہ ابھی دو تین ماہ بعد جب یہ کالج میں پہنچے گا تو میری ڈگر پر چلنا نہ شروع کر دے!
 
آخری تدوین:
یہاں ایک معلوماتی مضمون اسی موضوع کے مطابق ملا پیش خدمت ہے۔
مواصلاتی دور میں تربیت کے بدلتے انداز اور والدین کو درپیش چیلنجز - Opinions - Dawn News
بدلتے وقت کے ساتھ زمانہ بدلا، زمانے کے تقاضے بدلے اور ساتھ ہی بچوں کی پرورش، ان کی تربیت کے انداز اور اس سے وابستہ چیلنجز بھی۔

اس برق رفتار مسابقتی دور میں نئے زمانے کے والدین کا سب سے سخت مقابلہ ذرائع ابلاغ سے ہے اور ان میں سرِفہرست ٹی وی، کمپیوٹر، موبائل فون اور ٹیبلیٹز ہیں جو ابتداء میں بچوں کو مصروف رکھنے، توجہ بٹانے، معلومات، تفریح طبع اور رابطے کی غرض سے تھمائے جاتے ہیں لیکن دھیرے دھیرے بچوں کو اُن کی عادت اور پھر لت پڑجاتی ہے، جس سے چھٹکارے کی بظاہر کوئی تدبیر نظر نہیں آتی۔

سچ پوچھیں تو آج کے دور میں بیشتر والدین کا دیرینہ سوال یہی ہے کہ آخر کریں تو کرین کیا؟ آخر کس طرح اپنے بچوں کو موبائل، ٹی وی اور کمپیوٹر اسکرین کی قید سے آزاد کرکے فطرت اور رشتوں کے قریب لایا جائے؟

مگر سچ تو یہ ہے کہ موجودہ مواصلاتی دور میں، ان مشینوں پر انحصار، انتخاب نہیں مجبوری بن چکا ہے۔ علم سے لے کر کھیل، بینکاری سے لے کر خرید و فروخت، امتحان سے لے کر داخلے اور دوستی سے لے کر رشتے ناتے اور شادیاں تک اب ڈیجیٹل میڈیا کے محتاج نظر آتے ہیں، ایسے میں اس طلسم ہوشربا سے مکمل کنارہ کشی تو ممکن نہیں۔ ہاں مگر کچھ ٹوٹکے ایسے ضرور ہیں جن کو آزما کر اسکرین کے اس بے قابو جن کو اپنا تابع کیا جاسکتا ہے۔

اس حوالے سے سب سے ضروری بات یہ ہے کہ والدین بذاتِ خود مثال بنیں اور اپنے اسکرین ٹائم کو محدود کریں۔ یہ ہرگز ممکن نہیں کہ دفتر اور خانگی مصروفیات کے بعد آپ خود تو موبائل فون، کمپیوٹر اور ٹی وی پروگراموں میں آسودگی تلاش کرتے رہیں اور اپنے بچوں سے علم دوستی، کتب بینی اور صحت مند مشاغل کی توقع رکھیں۔ اگر آپ واقعی چاہتے ہیں کہ آپ کے بچے کھلی ہوا میں کھیلیں کودیں، ورزش کریں، پودوں اور جانوروں سے پیار کریں اور انسانوں کے درمیان وقت گزاریں تو پہلے خود آپ کو اس صحت مند طرزِ زندگی کو مستقل بنیادوں پر اپنانا ہوگا۔

نیز بحیثیتِ والدین، نئی دور کی ٹیکنالوجی سے آگاہی اور اپنے بچوں کو دیے گئے آلات سے واقفیت بھی بے حد ضروری ہے۔ کوشش کریں کہ موبائل، کمپیوٹر اور ٹیبلیٹ کو بچوں کی ذاتی ملکیت میں نہ دیں بلکہ ان کے ساتھ شیئر کریں اور ان کی حفاظتی سیٹنگ اور پروٹوکول سے مکمل واقفیت رکھیں۔ انٹرنیٹ پر موجود غیر معیاری، غیر اخلاقی ویب سائٹس کو اپنے اور بچوں کے آلات پر لاک رکھیں، اور ان پلیٹ فارمز پر معلوماتی، دلچسپ اور انٹرایکٹیو مشاغل اور کھیلوں میں بچوں کے ساتھ مل جل کر حصہ لیں۔

اکثر والدین کا شکوہ یہ ہوتا ہے کہ بچے گھنٹوں اسکرین کے سامنے گزار دیتے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ کس مشغلے میں؟ اگر تو یہ گھنٹے آن لائن مطالعے، تبادلۂ خیال اور تخلیقی اور سائنسی صلاحیتوں کی جلاء میں گزارے جارہے ہیں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں، لیکن اکثر ڈیجیٹل میڈیا کا استعمال وقت گزاری، دل لگی، گیمنگ اور گپ شپ تک محدود ہوتا ہے جس کا منہ بولتا ثبوت فیس بک، فیس ٹائم، انسٹاگرام، ٹوئٹر، ٹمبلر اور آن لائن گیمز کی بڑھتی مانگ ہے۔ یہی سبب ہے کہ آئے دن نت نئے ایپس مارکیٹ میں آرہے ہیں اور ان کے استعمال میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے۔

اکثر والدین ان کے استعمال سے تو کجا، ان کے نام تک سے مانوس نہیں ہوتے۔ ایسے میں ان کے پاس آن لائن تباہ کاریوں کی جانچ کا واحد معیار گھڑی کی بھاگتی سوئیاں ہوتی ہیں جن کو جیسے ڈیجیٹل میڈیا پر بیٹھتے ہی پَر لگ جاتے ہیں۔ ایسے میں اس نشے کو قابو میں کرنے کا ہر ہتھیار، خواہ وہ روک ٹوک ہو، ڈانٹ پھٹکار ہو یا پہرے داری، سود مند ثابت نہیں ہوتی۔

شہرۂ آفاق محقق، سونیا لیوینگ اسٹون کے مطابق اب سوال یہ نہیں ہے کہ نوجوان اور بچے سوشل و ڈیجیٹل میڈیا استعمال کریں یا نہیں، سوال یہ ہے کہ کیسے، کتنی دیر اور کس مقصد کے لیے؟

اس سلسلے میں ایک جوتا سب پر فٹ کے مصداق، آن لائن موجودگی کو گھنٹوں میں ناپنے کے بجائے، اس کا مقصد، معیار، ضرورت اور پس منظر سے واقفیت اشد ضروری ہے تاکہ آنے والے تکنیکی دور کے لیے مستقبل کے معماروں کو تیار کیا جاسکے، لیکن ساتھ ساتھ انہیں انٹرنیٹ پر ہونے والے جرائم، شرانگیزی اور خطرات سے آگاہ اور محفوظ رکھنا بھی انتہائی ضروری ہے۔

اس تناظر میں برطانیہ اور امریکہ میں ہونے والی متفرق، حالیہ تحقیق کے مطابق، اکثر والدین کا اس بات پر اصرار ہے کہ کم سے کم 13 اور زیادہ سے زیادہ 16 سال کے بچوں کے سوشل میڈیا استعمال کو والدین کی رضامندی اور اجازت سے مشروط کیا جائے تاکہ بلیو ویل جیسے مہلک آن لائن گیمز کے ہاتھوں نوجوانوں میں خودکشی اور خود اذیتی کے رحجانات پر قدغن لگائی جاسکے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جو والدین انٹرنیٹ پر سرگرم ہوتے ہیں، وہ اپنے بچوں میں اس کے بڑھتے استعمال سے زیادہ خائف نظر آتے ہیں اور آن لائن ڈیٹا اور ان کی ذاتی معلومات اور نقل و حرکت کے تحفظ کو لاحق خطرات کے حوالے سے بھی اکثر تشویش میں مبتلا ہوتے ہیں، غالباً اس کی ایک بڑی وجہ ان کے ذاتی تجربات اور آن لائن پرائیویسی مسائل ہیں۔

یوں دیکھا جائے تو ساری دنیا بشمول یورپ، ایشیاء، افریقہ، آسٹریلیا اور امریکا میں اس معاملے پر گہری تشویش ہے اور ڈیجیٹل دور میں پیرنٹننگ کے گوناگوں چیلنجز کا مشاہدہ اور سدِباب کرنے کے لیے ریاستی سطح پر ادارے سرگرم نظر آتے ہیں۔

پاکستان میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق انٹرنیٹ پر 7 سے 17 سال کے بچوں کو متعدد بار بدسلوکی، نفرت آمیز پیغامات اور تحقیر کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو اکثر انہیں مایوسی، خوف اور عدم تحفظ کا شکار کردیتا ہے۔ ساری دنیا کی طرح پاکستان میں میں آن لائن جرائم اور بُلینگ Bullying کے واقعات میں گزشتہ 8 برسوں میں تقریباً دُگنا اضافہ ہوا ہے۔

یونیورسٹی کی سطح پر کی گئی ایک تحقیق کے مطابق، لگ بھگ ہر دوسرا نوجوان، بچپن یا نوعمری میں رنگ، نسل، زبان، جنس، قومیت، مذہب اور شخصی حوالے سے انٹرنیٹ اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر عصبیت اور ناروا سلوک کا شکار ہوتا ہے۔ تاہم اکثریت اسے آن لائن زندگی کا معمول قرار دیتی ہے اور شاذ و نادر اس حوالے سے کسی رسمی شکایت یا قانونی چارہ جوئی کا سوچتے ہیں۔

سچ تو یہ ہے کہ بیشتر پاکستانی ملک میں رائج سائبر کرائم بل اور سیل سے قطعاً لاعلم ہیں اور جو واقفیت رکھتے ہیں وہ اس کی افادیت سے خائف نظر آتے ہیں۔ بقول ایک طالبہ کہ ہم فیس بک پر اپنا اکاؤنٹ ہیک کرکے ہراساں کرنے کی شکایت لے کر کیا گئے کہ تفتیشی افسر کی دست درازیوں کا شکار ہونے لگے گویا نماز بخشواے گئے تھے، روزے گلے پڑگئے۔

بقول شخصے اب کبوتر کی طر ح آنکھیں بند کرنے اور شتر مرغ کے مصداق ریت کے اندر سر دے کے سائبر بائیکاٹ کا وقت گیا۔ آج دور ہے امکان کی اس دنیا کو اپنے بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ مل جل کر اس جام جہاں نما کو سمجھنے، سیکھنے اور کھوجنے کی تاکہ دنیا کے علوم و فنون کے در ہم پر وا ہوجائیں اور ہم اسے اپنی اور دوسروں کی بہتری کے لیے استعمال کرسکیں نا کہ اس کے ہاتھوں استعمال ہوکر زندگی سے ہی دور ہوجائیں۔
 

فاتح

لائبریرین
تجربہ کار ای سموکر کو ٹیگ کرتے ہیں مزید معلومات فراہم کرنے کے لیے۔ فاتح بھائی
ای سموکنگ یا vaping بھی نقصان دہ اور مضر صحت شے ہے۔ ہاں! اکثر سائنسی تحقیقات میں اسے "سگریٹ کی نسبت" قدرے کم مضر مانا گیا ہے کیونکہ اس میں کچھ جل نہیں رہا ہوتا بلکہ عمل تبخیر (vaporization) سے مائع کو بخارات میں تبدیل کیا جاتا ہے۔
شیشہ میں نے صرف ایک مرتبہ پیا تھا دبئی میں تقریباً 15 سال پہلے اور میں یہ نہیں جانتا کہ شیشے میں کچھ جلتا ہےیا اس میں بھی تبخیر کا عمل ہوتا ہے۔ اس لیے میں اس پر رائے دینے سے قاصر ہوں۔
 
آخری تدوین:

عباس اعوان

محفلین
شیشہ میں نے صرف ایک مرتبہ پیا تھا دبئی میں تقریباً 15 سال پہلے اور میں یہ نہیں جانتا کہ شیشے میں کچھ جلتا ہےیا اس میں بھی تبخیر کا عمل ہوتا ہے۔ اس لیے میں اس پر رائے دینے سے قاصر ہوں۔
شیشے میں بھی کوئلہ ہی جلتا ہے۔ تمباکو کی جگہ ماڈرن شیشے میں کوئلہ اور فلیور جلایا جاتا ہے، اور پھر اس دھویں کو پانی سے گزار کر سانس کے ذریعے پھیپھڑوں میں بھرا جاتا ہے۔
یہ دھواں بھی ظاہری سی بات ہے،بہت مضر صحت ہو تا ہے۔
 

زیک

مسافر
ہائی سکول میں کونسے کورس لئے جائیں یہ اتنا مشکل مرحلہ نہیں جتنا کالج میں ہوتا ہے لیکن پھر بھی سوچ بچار مانگتا ہے۔ آج کل ہم اسی چکر میں ہیں کہ لازمی کلاسیں کس لیول کی منتخب کریں اور ایلیکٹو کونسی لیں۔
 

عثمان

محفلین
ہائی سکول میں کونسے کورس لئے جائیں یہ اتنا مشکل مرحلہ نہیں جتنا کالج میں ہوتا ہے لیکن پھر بھی سوچ بچار مانگتا ہے۔ آج کل ہم اسی چکر میں ہیں کہ لازمی کلاسیں کس لیول کی منتخب کریں اور ایلیکٹو کونسی لیں۔
آپشنز کیا ہیں ؟
 

زیک

مسافر
کل چھ کلاسیں لینا ہیں۔ سائنس، لٹریچر، ریاضی ہر سال لازمی ہیں۔

سوشل سٹڈیز چار میں سے تین سال لازمی ہے۔ اس سال امریکی حکومت و سیاست کا اے پی (ایڈوانسڈ پلیسمنٹ) کورس لیا جا سکتا ہے۔

ورلڈ لینگویج ایک ہی زبان کے دو سال لازمی ہیں۔ بیٹی کے سکول میں فرنچ، ہسپانوی، جاپانی اور لاطینی زبان لی سکتے ہیں۔ چونکہ بیٹی پہلے سے فرنچ لے رہی ہے اس لئے وہی جاری رکھے گی۔

اس کے علاوہ میوزک کے کئی ٹریک ہیں: بینڈ، آرکسٹرا اور کوائر۔

ڈرامہ، ڈرائنگ پینٹنگ اور ڈیجٹل آرٹ کے کورس بھی ہیں۔

کیرئر اینڈ ٹیکنیکل ٹریکس میں کمپیوٹر سائنس، ہیلتھ کیئر، انجنیئرنگ اور بزنس کے ٹریکس ہیں۔
 
Top