بڑھتے ہوئے بچوں کے معاملات و مسائل اور ان کا حل

عثمان

محفلین
کل چھ کلاسیں لینا ہیں۔ سائنس، لٹریچر، ریاضی ہر سال لازمی ہیں۔

سوشل سٹڈیز چار میں سے تین سال لازمی ہے۔ اس سال امریکی حکومت و سیاست کا اے پی (ایڈوانسڈ پلیسمنٹ) کورس لیا جا سکتا ہے۔

ورلڈ لینگویج ایک ہی زبان کے دو سال لازمی ہیں۔ بیٹی کے سکول میں فرنچ، ہسپانوی، جاپانی اور لاطینی زبان لی سکتے ہیں۔ چونکہ بیٹی پہلے سے فرنچ لے رہی ہے اس لئے وہی جاری رکھے گی۔

اس کے علاوہ میوزک کے کئی ٹریک ہیں: بینڈ، آرکسٹرا اور کوائر۔

ڈرامہ، ڈرائنگ پینٹنگ اور ڈیجٹل آرٹ کے کورس بھی ہیں۔

کیرئر اینڈ ٹیکنیکل ٹریکس میں کمپیوٹر سائنس، ہیلتھ کیئر، انجنیئرنگ اور بزنس کے ٹریکس ہیں۔
پروگرام کا نام کیا ہے؟
کیا آئی بی وہاں مقبول ہے؟
 

جاسمن

لائبریرین
چند دن پہلے سولہ سترہ سال کے دو لڑکے گاڑی میں دیکھے۔ ان میں سے ایک گاڑی بھی چلا رہا تھا اور سگریٹ بھی پی رہا تھا۔
میرے جیسا انسان ہر بار نئے سرے سے حیران ہوتا ہے۔
 

جاسمن

لائبریرین
اب بچے جس عمر میں ہیں، ان کی باتیں بہت مختلف ہوتی جا رہی ہیں۔ اور واقعی وہی مسائل سامنے آ رہے ہیں جن سے مجھے ڈر لگتا تھا/ہے۔
معلومات کا ملنا۔ ایسی معلومات جو اس عمر میں قطعا نہیں ملنی چاہیئں۔
ہمارا اپنے بچوں کو ٹی وی اور نیٹ جیسی چیزوں سے مختلف انداز سے محفوظ رکھنے کی کوششوں کا کیا فائدہ جب ان کے تعلیمی اداروں میں دوسرے بچے ان کی معلومات میں اضافہ کرنے پہ تُلے ہوئے ہیں۔ لڑکوں کو بھی بچانا چاہیے لیکن معصوم بچیاں جو ابھی گڑیوں کے ساتھ کھیلتی ہیں۔ جن کی فرمائشیں گڑیا کے برتن، فرنیچر اور گڑیا کے کپڑوں سے آگے نہیں بڑھتیں۔۔۔۔ان کی معلومات میں اضافہ!!
استغفراللہ۔
مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ اُس لڑکی کی امی کو بتاؤں یا نہ بتاؤں جو میری بچی کی ہم جماعت ہے اور اپنی اکیڈمی سے غلط باتیں جان کر اپنی ہم جماعت ساتھیوں کو بتا رہی ہے۔
آج بھی میں اس معاملہ کو سوچتی رہی۔
پہلے وہ صرف لڑکوں کی باتیں کرتی تھی۔ یہاں تک پھر بھی قابلِ برداشت تھا۔ فلاں ایسے۔ فلاں ویسے۔ اسے دیکھو۔ اس کا نام یہ ہے۔ وہ فلاں جماعت میں ہے۔ فلاں اور فلاں کا چکر ہے۔ فلاں فلم وغیرہ۔
لیکن اب بات حد سے بڑھ چکی ہے۔ مجھے بہت شدید غصہ ہے۔
اور مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ اس کی امی سے بات کروں؟
کروں رو کن الفاظ میں، کیسے؟
 
اب بچے جس عمر میں ہیں، ان کی باتیں بہت مختلف ہوتی جا رہی ہیں۔ اور واقعی وہی مسائل سامنے آ رہے ہیں جن سے مجھے ڈر لگتا تھا/ہے۔
معلومات کا ملنا۔ ایسی معلومات جو اس عمر میں قطعا نہیں ملنی چاہیئں۔
ہمارا اپنے بچوں کو ٹی وی اور نیٹ جیسی چیزوں سے مختلف انداز سے محفوظ رکھنے کی کوششوں کا کیا فائدہ جب ان کے تعلیمی اداروں میں دوسرے بچے ان کی معلومات میں اضافہ کرنے پہ تُلے ہوئے ہیں۔ لڑکوں کو بھی بچانا چاہیے لیکن معصوم بچیاں جو ابھی گڑیوں کے ساتھ کھیلتی ہیں۔ جن کی فرمائشیں گڑیا کے برتن، فرنیچر اور گڑیا کے کپڑوں سے آگے نہیں بڑھتیں۔۔۔۔ان کی معلومات میں اضافہ!!
استغفراللہ۔
مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ اُس لڑکی کی امی کو بتاؤں یا نہ بتاؤں جو میری بچی کی ہم جماعت ہے اور اپنی اکیڈمی سے غلط باتیں جان کر اپنی ہم جماعت ساتھیوں کو بتا رہی ہے۔
آج بھی میں اس معاملہ کو سوچتی رہی۔
پہلے وہ صرف لڑکوں کی باتیں کرتی تھی۔ یہاں تک پھر بھی قابلِ برداشت تھا۔ فلاں ایسے۔ فلاں ویسے۔ اسے دیکھو۔ اس کا نام یہ ہے۔ وہ فلاں جماعت میں ہے۔ فلاں اور فلاں کا چکر ہے۔ فلاں فلم وغیرہ۔
لیکن اب بات حد سے بڑھ چکی ہے۔ مجھے بہت شدید غصہ ہے۔
اور مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ اس کی امی سے بات کروں؟
کروں رو کن الفاظ میں، کیسے؟
آپی جی بہتر عمل تو یہی ہے کہ سب سے پہلے اس ادارے کے ذمےدار سے بات کی جائے اور اس کی معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے تمام تفصیل بتادی جائے تاکہ دیگر بچوں کو اس اخلاقی برائی سے بچایا جا سکے اور ساتھ کے ساتھ ادارے کے منتظم سے یہ بھی درخواست کی جائے کہ وہ اخلاقی برائیوں میں مبتلا بچوں کے والدین کو اسکول میں طلب کریں اور ان کے بچوں کے بارے میں والدین کو مطلع کریں اور ان کو وارننگ بھی دیں ۔
اگر آپ باذات خود اس بچی کے والدین سے ملنا چاہ رہی ہیں تو شاید یہ مناسب نہیں ہوگا ۔ہو سکتا ہے کہ وہ ڈھٹائی کامظاہرہ کرتے ہوئے اپنی بچی کو معصوم قرار دیتے ہوئے آپ کو الٹا ہی سنا ڈالیں۔آپ نے جو بچی کے بارے میں بتایا ہے تو اس سے ہمیں یہی اندازہ ہو رہا ہے کہ والدین اولاد کے تربیت کے معاملے میں لاپرواہ قسم کے ہیں ۔
 

جاسمن

لائبریرین
عدنان!
یہ آپ نے اچھا مشورہ دیا ہے۔
اس طرح کے واقعات میرے بھتیجے کے ساتھ پیش آرہے تھے۔ ایک لڑکا بیہودہ باتیں کرتا تھا۔ جماعت میں ہی شروع باتیں کرنے لگ جاتا۔ میرا بھتیجا بہت پریشان تھا۔ میں نے استانیوں اور سیکشن ہیڈ کو بھی بتایا۔ لیلن کچھ نہیں ہوا۔ جب کئی بار میں نے جا جا کے بات کی تو سیکشن ہیڈ چڑنے لگی۔ کہتیں تو کچھ نہیں تھیں لیکن ان کی شکل دیکھ کے خود میں ہی شرمندہ ہوگئی۔ پھر میں نے بھتیجے کو علیحدہ سمجھایا۔ اُس لڑکے کے بڑے بھائی کو سکول میں پکڑ کے سمجھایا۔ پھر اس لڑکے کو ڈھونڈا ایک دن اور اسے پیار اور دھمکی دونوں سےسمجھایا۔
لیکن یہ کوئی ایک دن کا معاملہ نہیں ہے۔ اب تو یہ روزانہ کے معاملات ہیں۔
میرے بیٹے کے ساتھ بھی ایسا ہوا۔ شاید چھٹی یا ساتویں میں ایک ہم جماعت اونچا بول بول کے سب کی معلومات میں اضافہ کرتا تھا۔ اس کی شکایت کی۔ اس نے ایک بار ہال میں ایک پروگرام کے دوران محمد کے ساتھ غلط حرکت کی کوشش کی تو محمد نے شور مچا دیا۔ جس کا میں نے انھیں بتایا ہوا تھا۔ اسے سکول سے نکالا گیا۔
اب بھی میرا وہی بھتیجا کہتا ہے کہ اماں سکول کا ماحول بہت خراب ہے۔ لڑکے بہت گندی باتیں کرتے ہیں۔ اور آپس میں بھی غلط ہیں۔ نیز نشہ بھی کرتے ہیں۔ جبکہ یہ سکول بہترین سکول ہے اور یہاں بظاہر بہت اچھے خاندانوں کے بچے پڑھتے ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ اماں ہم کب تک ایسی باتوں سے بچیں۔ ہر طرف ایسے لڑکے بکھرے ہیں۔
سکول تبدیل کرنا مسئلہ کا حل نہیں۔ کہ ہر جگہ ایسے مسائل کا سامنا ہے۔ آخر کیا کریں۔
بہرحال اس لڑکی کے سلسلہ میں تو سوموار کو جاتی ہوں سکول ان شاءاللہ تعالی۔
 
عدنان!
یہ آپ نے اچھا مشورہ دیا ہے۔
اس طرح کے واقعات میرے بھتیجے کے ساتھ پیش آرہے تھے۔ ایک لڑکا بیہودہ باتیں کرتا تھا۔ جماعت میں ہی شروع باتیں کرنے لگ جاتا۔ میرا بھتیجا بہت پریشان تھا۔ میں نے استانیوں اور سیکشن ہیڈ کو بھی بتایا۔ لیلن کچھ نہیں ہوا۔ جب کئی بار میں نے جا جا کے بات کی تو سیکشن ہیڈ چڑنے لگی۔ کہتیں تو کچھ نہیں تھیں لیکن ان کی شکل دیکھ کے خود میں ہی شرمندہ ہوگئی۔ پھر میں نے بھتیجے کو علیحدہ سمجھایا۔ اُس لڑکے کے بڑے بھائی کو سکول میں پکڑ کے سمجھایا۔ پھر اس لڑکے کو ڈھونڈا ایک دن اور اسے پیار اور دھمکی دونوں سےسمجھایا۔
لیکن یہ کوئی ایک دن کا معاملہ نہیں ہے۔ اب تو یہ روزانہ کے معاملات ہیں۔
میرے بیٹے کے ساتھ بھی ایسا ہوا۔ شاید چھٹی یا ساتویں میں ایک ہم جماعت اونچا بول بول کے سب کی معلومات میں اضافہ کرتا تھا۔ اس کی شکایت کی۔ اس نے ایک بار ہال میں ایک پروگرام کے دوران محمد کے ساتھ غلط حرکت کی کوشش کی تو محمد نے شور مچا دیا۔ جس کا میں نے انھیں بتایا ہوا تھا۔ اسے سکول سے نکالا گیا۔
اب بھی میرا وہی بھتیجا کہتا ہے کہ اماں سکول کا ماحول بہت خراب ہے۔ لڑکے بہت گندی باتیں کرتے ہیں۔ اور آپس میں بھی غلط ہیں۔ نیز نشہ بھی کرتے ہیں۔ جبکہ یہ سکول بہترین سکول ہے اور یہاں بظاہر بہت اچھے خاندانوں کے بچے پڑھتے ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ اماں ہم کب تک ایسی باتوں سے بچیں۔ ہر طرف ایسے لڑکے بکھرے ہیں۔
سکول تبدیل کرنا مسئلہ کا حل نہیں۔ کہ ہر جگہ ایسے مسائل کا سامنا ہے۔ آخر کیا کریں۔
بہرحال اس لڑکی کے سلسلہ میں تو سوموار کو جاتی ہوں سکول ان شاءاللہ تعالی۔
آپی طلب علموں کو صاٖف ستھرا تعلیمی ماحول فراہم کرنا تعلیمی ادارے کی اولین ترجہی بنتی ہے مگر موجود دور میں یہ تعلیمی ادارے درحقیقت تجارتی مراکز بنتے جارہے ہیں ۔ جدید تعلیمی نظام کے نام پر اخلاقی برائیاں عام نظر آتی ہیں ۔جہاں آپ کا بھتیجا اور آپ کا صاحبزادے زیر تعلیم ہیں اور اس ادارے میں اس طرح کا معاملات ہیں اور منتظمین کوئی ایکشن لیتے نظر نہیں آرہے تو بہتر تو یہی ہے کہ ان دونوں صاحبزادوں کو کسی دوسرے تعلیمی ادارے میں ایڈمیشن کرادیا جائے ۔ساتھ ساتھ دونوں کو اس بات کی تاکید کرتی رہیں کہ جہاں تک ممکن ہو ایسے لڑکوں سے خود کو محفوظ رکھیں ۔
 

جاسمن

لائبریرین
عدنان!
ہمارے ہاں زیادہ تر سکولز کوٹھیوں میں بنے ہوئے ہیں۔ بہت کم سکولز واقعی اپنی عمارت اور کھیلنے کے میدان رکھتے ہیں اور میرے بچوں اور بھتیجوں کا سکول ایک بہت اچھے ادارے کا ایسا ہی سکول ہے۔ انتظامیہ میں کبھی کیسے لوگ آجاتے ہیں اور کبھی کیسے۔
میرے بیٹے کے معاملہ میں تو اُس بچے کو سکول ہی سے نکال دیا گیا۔ اور یہ بہت اچھا ہوا۔
بھتیجے کے معاملات ذرا پیچیدہ ہیں۔ سکول وہی ہے۔ بہرحال اللہ سے جب دعا کرتی ہوں تو بچوں کے اچھے دوستوں، اچھے ماحول، اچھے اساتذہ، اچھے ساتھی اور اچھے تعلیمی اداروں کی دعا بھی کرتی ہوں۔
اللہ قبول فرمائے۔ آمین!
 

جاسمن

لائبریرین
میں نے ایک بات اپنے شاگردوں کو اور بچوں کو ہمیشہ سکھائی ہے کہ برائی جتنی بھی طاقتور ہوجائے، اگر آپ اچھائی کے راستے پہ ہیں تو پھر اچھائی کو اُس برائی سے زیادہ طاقتور ہونا چاہیے۔ جب لوگ برائی نہیں چھوڑتے تو آپ ان کی برائی کے مقابلہ میں اپنی اچھائی کیوں چھوڑتے ہیں؟ آپ کو ان سے زیادہ مستقل مزاج ہونا چاہیے۔
 

زیک

مسافر
چند دن پہلے سولہ سترہ سال کے دو لڑکے گاڑی میں دیکھے۔ ان میں سے ایک گاڑی بھی چلا رہا تھا اور سگریٹ بھی پی رہا تھا۔
میرے جیسا انسان ہر بار نئے سرے سے حیران ہوتا ہے۔
سولہ سال کی عمر میں یہاں ڈرائیونگ لائسنس مل جاتا ہے۔ 15 سال کی عمر میں گاڑی چلانا سیکھ سکتے ہیں۔ میری بیٹی کچھ ماہ میں سیکھنا شروع کرے گی
 

ام اویس

محفلین
جاسمن
پاکستان کا ماحول گذشتہ کچھ ہی سالوں میں بہت تیزی سے بدلا ہے بلکہ پاکستان کا ہی نہیں ساری دنیا میں بدلاؤ آیا ہے جس سے معاشرتی اقدار خطرے میں پڑ گئ ہیں ۔ پہلے جن موضوعات پر بچوں سے بات کرتے سخت شرم محسوس ہوتی تھی ، ڈھکے چھپے انداز میں بات سمجھا دی جاتی تھی اور بچے سمجھ بھی جاتے تھے اب بالکل واضح طور پر بات کرنی پڑتی ہے ۔ یہ ضروری بھی ہے بچے کو جو مسئلہ درپیش ہو اس کے بارے میں اس کو مکمل معلومات دینا ، اس کی اچھائی برائی سے پوری طرح آگاہ کرنا بہت اہمیت رکھتا ہے ۔ اس معاملے میں بالکل شرم کرنے کی ضرورت نہیں ۔ بچوں کو ناصرف یہ کہ ہر طرح کی معلومات دیں بلکہ انہیں ان سے اعتماد سے نبٹنا بھی سکھائیں ۔ ان میں ہمت ہونی چاہیے کہ غلط بات کو برداشت نہ کریں اور فورا رد کردیں
 

ام اویس

محفلین
لیکن اکثر پاکستانیوں میں یہ دیکھا ہے کہ وہ معلومات روکنے ہی کی کوشش کرتے ہیں دینے کی نہیں۔
جو والدین اپنی اولاد کی صحیح تربیت پر توجہ کرتے ہیں وہ انہیں ہر طرح کی معلومات دیتے ہیں ۔ بس افسوس تو اس بات پر ہے کہ والدین کی اکثریت اپنے فرائض سے لاپرواہ ہو چکی ہے
 
Top