بھارتی مسلمانوں کا قتل عام

یہ موضوع بھارتی مسلمانوں‌کے قتل عام سے کنی کاٹ کر اسلامی تاریخ میں داخل ہو گیا۔ کوئی صاحب گجرات میں قتل عام کے ذمہ دار حکومت میں شامل اہلکاروں کے بارے میں بتائیں گے؟ کل کتنے لوگ اس قتل عام کا شکار ہوئے؟ کیا یہ بھارتی حکومت کی پالیسی لگتی ہے؟ ابرار حسین صاحب کا اس موضوع پر کوئی تبصرہ نہیں؟ لگتا ہے ان کی صرف دور کی نگاہ تیز ہے :)
 

ساجد

محفلین
جی ضرور ۔ ہم بھی منتظر ہیں کہ اربابِ نظر اپنی تحقیق و تدقیق کا کچھ خلاصہ اس بارے میں پیش فرمائیں۔
 
تہلکہ ڈاٹ کام کی ایک مشہور رپورٹ منظر عام پر آئی ہے جس سے یہ معاملہ ایک بار پھر زیر بحث آیا ہے اگر وہ رپورٹ یہاں شائع کر دی جائے تو کافی اہم معلومات مل سکتی ہے۔
 
بی بی سی اردو کے شکیل اختر کی رپورٹ


ہندوستان کی حکومت نے تین سال قبل گجرات میں ہونے والے مذہبی فسادات میں ہلاک ہونے والوں کی تفصیلات بتائی ہیں۔

حکومت کا کہنا ہے کہ ان فسادات میں ایک ہزار سے زیادہ افراد مارے گئے تھے جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔

داخلی امور کے وزیر مملکت سری پرکاش جیسوال نے پارلیمنٹ میں ایک تحریری جواب میں بتایا ہے کہ گودھرا کے واقعے کے بعد ریاست بھرکے فسادات میں مجموعی طور پر 790 مسلم اور 258 ہندو مارے گیے تھے۔ دو سو تیس افراد اب بھی لا پتہ ہیں۔

مسٹر جیسوال نے بتایا کہ ہلاکتوں کے علاوہ ڈھائی ہزار سے زیادہ افراد زخمی ہوئے تھے۔ ان تفصیلات کے مطابق فسادات میں 919 عورتیں بیوہ ہوئیں اورچھ سو سے زیادہ بچے یتیم ہوئے۔

داخلی امور کے وزیر نے اپنے تحریری جواب میں مزید بتایا کہ فسادات سے متاثرہ افراد کی آباد کاری کے لیے ریاستی حکومت نے دو سو کروڑ روپے سے زیادہ کی امداد دی۔

یہ تمام تفصیلات گجرات کی ریاستی حکومت کی فراہم کی ہوئی معلومات کی بنیاد پر دی گئی ہیں۔ گجرات حکومت ابتداء سےیہ کہتی رہی ہے کہ فسادات میں تقریبا ایک ہزار افراد مارے گیے تھے۔ لیکن حقوق انسانی کی تنظیموں اور دیگر غیر سرکاری ادارے ہلاکتوں کی تعداد تقریباً دوہزار بتا تے رہے ہیں۔

یہ تنظیمیں مودی حکومت پر تفریق کا الزام لگاتی رہی ہیں اور انکا کہنا ہے کہ مسلمانوں کی ہلاکتوں کے سلسلے میں ایک بھی ملزم کو سزا نہیں ملی ہے۔گجرات میں احمدآباد سمیت مہسانہ، گودھرا، پنچ محل اور آنند کے متعدد گاؤں میں فسادات کے بعد مسلمان اپنے گھروں کو نہیں لوٹ سکے ہیں۔
 

زینب

محفلین
ایک بار پھر سے موضوع کو اصل بات سے ہٹا کے کہاں سے کہاں پہنچا دیا گیا۔۔۔۔۔۔۔

مسلمانوں کے اس قتل عام میں 2000 کے قریب مسلمان مارے گئے اس وقت کے وزیراعلیٰ نریندر مودی کی نگرانی اور پولیس کی موجودگی میں مسلمانوں کو سر عام قتل کیا گیا۔۔۔۔۔پولیس میں اکژریت ہندووں کی تھی۔۔ اسی لیے انہوں نے کسی قسم کی روکاوٹ کھڑی نہیں کی نا ہی مسلمانوں کو ہندووں کے ظلم سے بچانے کے لیے کچھ کیا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"مودی" نے ان ہندووں کا پھولوں‌کے ہار پہنا کر استقبال کیا اور شاباشی دی جو مسلمانوں کا قتل عام کر کے لوٹے تھے۔۔۔۔۔وشو ہندو پریشت جو کے "انتہا پسند" اور مسلمانوں کی انتہا درجے کی دشمن جماعت ہے کے ایک اہم لیڈر نے Tv رپوٹر جو کے تحقیقات کے لیے انتہا پسندوں کے ساتھ ان کا ساتھی بن کے رہ رہا تھا نے خفیہ کیمرے سے شوٹ کی گئی ویڈیو میں اس لیڈر کو کہتے /قبول کرتے دیکھایا گیا ہے کی اس نے خود بم تیار کیے اور سارا اسلحہ فراہم کیا مسلمانوں کو قتل کرنے کے لیے۔۔۔۔جس میں مودی نے ان کا پورا پورا ساتھ دیا۔۔۔۔۔۔۔نہتے مسلمانوں کو زندا جلا دیا گیا انہیں ان کے گھروں میں بند کر کے گھروں‌کو اگ لگا دی گئی جس سے مسلمان اپنے ہی گھروں‌مین جل کے مرے۔۔۔۔یہاں تک کے عورتوں اور مسلمان بچوں کو بھی نہیں بخشا ۔گیا۔۔۔۔۔۔۔اب تازہ ترین وشو ہندو پریشت کا کہنا یہ ہے کہ پاکستان کرکٹ تیً جو کہ کل بھارت رونہ ہونے والی ہے اس کے بار میں کہتے ہیں کہ۔"سٹیڈیم کو بم سے آڑا دیا جائے گا جہاں پاک ٹیم میچ کھیلنے والی ہے۔۔۔۔یہ وہی جماعت ہے جس نے ایک بار پاک ٹیم کے دورہ بھارت کے دوران سٹیڈیم کی پچ بھی اکھیڑ دی تھی۔۔۔۔۔۔۔یہ اہی "سیکیولر بھارت مھان ہے جہاں مسلمانوں کو گاے زبح کرنے کے جرم مٰیں گائے کی ہی طرح زبح کر دیا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔مسمانوں کو گائے کی قربانی کی اجازت نہیں ۔انہیں اس جرم مٰیں گھر بار چھوڑ کے جانے پے مجبور کیا جاتا ہے۔۔۔۔۔
میری معلومات اتنی ہی ہیں اب اس مسئلے پر یعنی مسلمانوں پر ہندووں کے مظلم پے مزید روشنی "ابرار حسین " ڈالیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔امید ہے ابرار صاحب ہماری معلومات مٰین اضافے کے لیے بہتر مواد لایں گے۔۔۔۔۔۔اپ کو یہاں اس ٹاپک پے دعوت دی جاتی ہے ابرار صاحب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
میں محض اتنا کہنا چاہوں گا کہ قانونی تحفظ بہر حال مسلمانوں کو حاصل ہے۔ لیکن اس میں بھی دو رائے نہیں کہ بابری مسجد کے زمانے سے ہندوتوا والے گروہ فعال ہو گئے ہیں جن کا مقصد محض اسلام دشمنی ہے، اور کہیں کہہیں اور کبھی کبھی یہ لوگ حکومت بھی بنا لیتے ہیں تو اپنی من مانی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس لئے الزام ساری حکومت کو دینا غلط ہے۔ اور ہاں، محض کچھ علاقوں میں گو کشی ممنوع ہے۔ یہاں آندھرہ پردیش، مہا راشٹر بہار بنگال وغیرہ بیشتر ریاستوں میں گائے کھلے عام ملتی ہے بازار میں بھی اور عیدِ قرباں میں بھی ذبح کی جاتی ہے۔
ہاں، جب قانون میں بھی فرقہ واریت در آئے تو پھر مسلمانوں کو مکمل انصاف ملے، اس پر سوالیہ نشان ضرور لگ سکتا ہے۔ اور یہاں اکثر فیصلے ووٹ بینک کی وجہ سے ہوتے ہیں، اس لئے مودی جیسے حاکموں کے خلاف فیصلے موقوف کر دئے جاتے ہیں۔ دیکھیں بکرے کی ماں کب تک خیر مناتی ہے۔ عوام الناس میں بہر حال اس قدر فرقہ واریت اب تک نہیں ہے۔ کم از کم میرے ساتھ تو نا انصافی نہیں ہوئی ہے کبھی محض مسلمان ہونے کی وجہ سے۔ بلکہ اپنے شعبے میں میرا ایک مقام مانا جاتا ہے۔
 

ساجد

محفلین
میں محض اتنا کہنا چاہوں گا کہ قانونی تحفظ بہر حال مسلمانوں کو حاصل ہے۔ لیکن اس میں بھی دو رائے نہیں کہ بابری مسجد کے زمانے سے ہندوتوا والے گروہ فعال ہو گئے ہیں جن کا مقصد محض اسلام دشمنی ہے، اور کہیں کہہیں اور کبھی کبھی یہ لوگ حکومت بھی بنا لیتے ہیں تو اپنی من مانی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس لئے الزام ساری حکومت کو دینا غلط ہے۔ اور ہاں، محض کچھ علاقوں میں گو کشی ممنوع ہے۔ یہاں آندھرہ پردیش، مہا راشٹر بہار بنگال وغیرہ بیشتر ریاستوں میں گائے کھلے عام ملتی ہے بازار میں بھی اور عیدِ قرباں میں بھی ذبح کی جاتی ہے۔
ہاں، جب قانون میں بھی فرقہ واریت در آئے تو پھر مسلمانوں کو مکمل انصاف ملے، اس پر سوالیہ نشان ضرور لگ سکتا ہے۔ اور یہاں اکثر فیصلے ووٹ بینک کی وجہ سے ہوتے ہیں، اس لئے مودی جیسے حاکموں کے خلاف فیصلے موقوف کر دئے جاتے ہیں۔ دیکھیں بکرے کی ماں کب تک خیر مناتی ہے۔ عوام الناس میں بہر حال اس قدر فرقہ واریت اب تک نہیں ہے۔ کم از کم میرے ساتھ تو نا انصافی نہیں ہوئی ہے کبھی محض مسلمان ہونے کی وجہ سے۔ بلکہ اپنے شعبے میں میرا ایک مقام مانا جاتا ہے۔
محترم اعجاز اختر صاحب ،
مجھے آپ کی بات سے اتفاق ہے ۔ یہاں بھی میرے جن دوستوں کا تعلق بھارت سے ہے وہ بھی یہی بتاتے ہیں۔ اور ان کے مطابق مسلمانوں سے نا انصافی کا ایک سبب ان کا تعلیمی میدان میں پیچھے رہ جانا بھی ہے جس کا فائدہ دیگر لوگ اٹھاتے ہیں۔
لیکن مجھے یہ بھی کہنے دیجئیے کہ بھارت کی کم و بیش ہر حکومت ہی انتہا پسند ہندوؤں کی خوشامدی پر مجبور رہتی ہے جس کی وجہ سے وہ نہ چاہتے ہوئے بھی مسلمانوں سے ہاتھ کر ہی جاتی ہے۔
یہ بات ماننے میں مجھے کوئی باک نہیں کہ مجموعی طور پر صورتحال بہتر ہوئی ہے اور عوام کی سطح پر نہ صرف بھارت کی حد تک انتہا پسندی میں کمی ہوئی ہے بلکہ پاکستان کے بارے میں بھی عوامی رویہ بہتر ہوا ہے۔ اور شرپسندوں کا تو کام ہی شر پسندی ہے ان کو ہم کیا کہہ سکتے ہیں۔
 

زینب

محفلین
تعلیم میں‌مسلمانوں کا پیچھے رہ جانا بھی اسی لیے ہے کہ انہیں ہندووں کے مقبالے میں اتنی سہولتیں نہیں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

ساجد

محفلین
تعلیم میں‌مسلمانوں کا پیچھے رہ جانا بھی اسی لیے ہے کہ انہیں ہندووں کے مقبالے میں اتنی سہولتیں نہیں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زینب ،
تعلیم کے لئیے سہولتوں کی کم بلکہ شوق اور لگن کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ اپنے پاکستان ہی کو دیکھ لیجئیے کہ آزادی کے ساٹھ سال بعد بھی تعلیم کا تناسب کتنا کم ہے ، یہاں تو نہیں کہا جا سکتا نا کہ ہماری حکومت تعلیم کے لئیے سہولتیں فراہم نہیں کر رہی۔ مسلمانوں میں جو لوگ شادیوں اور دعوتوں ، بسنتوں اور تہواروں ، ختنوں اور ختموں ، برسیوں اور عرسوں پر بے تحاشہ خرچ کرتے ہیں وہ اپنے بچوں کے سکول کے معمولی واجبات ادا کرتے ہوئے بھی غربت اور بے روزگاری کی لمبی لمبی داستانیں سناتے ہم نے خود دیکھے ہیں۔
اس کے برعکس عیسائی اور ہندو حتی کہ سکھ برادری کے لوگ بھی تعلیم کو ہم سے کہیں زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ آگے نکل گئے اور ہم ابھی تک افرنگیوں اور امریکیوں کو کوسنے دینے سے آگے نہ بڑھ سکے۔ میرا نائب بنگلہ دیشی ہے جو یہاں آنے سے پہلے بہت عرصہ کلکتہ اور ممبئی میں رہا ۔ وہ بتاتا ہے کہ ہندو خاندان اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئیے اپنے دیگر اخراجات میں کنجوسی کی حد تک کمی کر دیتا ہے لیکن ایک مسلمان خاندان اپنے تمام خرچے کھلے دل سے کرنے کے بعد اگر کچھ بچا پائے تو اپنی اولاد کی تعلیم پر خرچ کرتا ہے نہیں تو یہی بچے سڑکوں پر آوارہ پھرتے ہیں یا کسی گاڑی مکینک کی ورکشاپ میں کام کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اگرچہ اس قاعدے کا اطلاق تمام لوگوں پر نہیں ہوتا لیکن اس کو کسی حال میں جھٹلایا بھی نہیں جا سکتا۔
جہاں تک سہولتوں کی بات ہے یہاں کے جتنے بھارتی مسلمانوں سے میری بات ہوئی ہے انہوں نے کبھی اس بات کی شکایت نہیں کی کہ ان کو کسی اور برادری سے کم تعلیمی سہولتیں میسر ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ وہ لوگ بھارت کے مخلوط اور آزاد تعلیمی ماحول کے شاکی رہتے ہیں۔ لیکن دیکھا جائے تو اس کا حل بھی انہی کے ہاتھ میں ہے ۔ وہ خود سے ایسے تعلیمی ادارے بنا سکتے ہیں کہ جہاں کا ماحول مخلوط نہ ہو۔
ویسے ایک بات بتا دوں کہ بھارت کا نظام تعلیم اس وقت عیسائی مشنری کے ہاتھوں میں جا چکا ہے۔ بھارت کے صف اول کے قریب قریب تمام تعلیمی ادارے عیسائی مشنری کے انتظام میں ہیں۔ میرے کچھ دوست جو کہ ہندو ہیں خود اقرار کرتے ہیں کہ ان اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کی وجہ سے وہ اپنے دھرم سے زیادہ عیسائیت کے قریب آ چکے ہیں۔
آپ پونا ، ممبئی ، کلکتہ ، دہلی کے سکولوں اور کالجوں کی فہرست پر نظر ڈالئیے تو پتہ چلے گا کہ ان اہم شہروں میں کیا صورت حال ہے۔ ہاں ان مشنریوں کا رجحان مسلم اکثریت اور کٹڑ ہندو نظریات کی اکثریت رکھنے والے علاقوں کی طرف کم ہے ۔ کیوں کہ وہاں ان کو پسند نہیں کیا جاتا۔
اگرچہ مسلمانوں اور ہندوؤں کے قائم کردہ تعلیمی ادارے بھی وجود رکھتے ہیں لیکن ان کا معیار اور نظم و ضبط ان مشنری اداروں سے کم تر ہے۔
بھارت کی کچھ ریاستوں میں دینی مدارس بھی بہت اچھا کام کر رہے ہیں اور ان اسلامی مدارس میں ہندو طلباء و طالبات بھی تعلیم حاصل کرتے ہیں اور ان میں سے کچھ تو قرآن پاک بھی حفظ کرتے ہیں۔ طالبات مسلم عقیدے کی پیروی میں پردہ کرتی ہیں اور طلباء اسلامی شعائر کے مطابق اپنے روز مرہ کے اعمال سر انجام دیتے ہیں۔ اگر یہ مدارس حکومت کی امداد سے جدید اور فنی تعلیم میں بھی قدم بڑھائیں تو اس سے بھی بہتر کار کردگی دکھا سکتے ہیں۔ اور مسلمانوں میں تعلیم کے تناسب کو بہتر بنانے میں مدد گار ہو سکتے ہیں۔ اور سچ تو یہ ہے کہ اپنے ہاں کے دینی مدارس کو بھی ان سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔
قابلِ صد احترام جناب اعجاز اختر صاحب اس پر کچھ مزید لکھیں تو محفل کے اراکین کی معلومات میں گراں قدر اضافہ ہو گا۔
 

فرید احمد

محفلین
بندہ گجرات ، انڈیا ہی کا رہنے والا ہے ۔
جو کچھ بی بی سی کے حوالہ سے اور تہلکہ ڈاٹ کوم کے حوالہ سے کہا گیا اس میں نیا کچھ نہیں ۔
یہ باتیں یہاں سب کو ، ہند مسلم سب کو معلوم ہے ۔ اور اس کو ذہن نشین رکھ کر ہی دونوں زندگی گذارتے ہیں ۔
فساد کرنے سے پہلے ہندو پولس سے اتاق کر ہی لیتے ہیں ، علاقہ کے رکن اسمبلی اور پولس افسران سے سب طے ہو جاتا ہے ۔
مقابلہ میں اگر کبھی مسلمان اترتے ہیں تو یہ جان سمجھ کر ہی کہ ہماری پشت پر کوئی نہیں ، اگر کھڑکی سے منہ نکال کر روڈ پر نظر بھی کی تو جیل یقینی ہے ، اور یہ سمجھ کر ہی سب کرتے ہیں ۔ جیل میں بھی جاتے ہیں ، برسوں سزا کاٹ کر نکلتے ہیں ، اور باہر کے لوگ حتی الامکان مدد کرتے ہیں ۔

وزیر اعلی نریندر مودی اولا Rsss کے داخلی کارندے تھے ، ان کا کام بی جے پی کے لیے مقامی طورپر ماحول تیار کرنا ، جیتنے والوں اور حکومرت کرنے والوں کے مسائل کو پارٹی کی سطح پر حل کرنا ۔ براہ راست حکومت کرنا ان کا کام نہ تھا۔
مگر گجرات بی جے پی اور Rsss اور اس کے رہبر " اسرائیل " کے لیے پورے ہندستان کی تجربہ گاہ ہے ۔ اس لیے پھر ایک خاص تجربہ کرنے کے لیے ان کو میدان میں لایا گیا ۔
انہوں نے آگر چند ہی مہینوں میں وہ کام آسانی سے کر دکھایا ۔ قتل عام میں حکومت ، پولس ، اور عوام سب ملوث ہوئے ، اطمینان سے ۔ اس پر کسی کو آج تک خوف نہیں ،
بڑے شہروں میں مسلمانوں کے شاپنگ سینٹر ، شو روم اور دکانیں گاڑیا بھر بھر کر مالداروں نے لوٹی نہیں ، بلکہ خالی کیں ۔ اس کے فوٹو بھی اخبارات اور ٹی وی میں آئے ۔ حد یہ کہ اخبارات کے مزاحیہ نگار اس موضوع پر کئی متعدد مضامین بھی لکھتے رہے ۔
اور اس سب کے باجود پورے گجرات کے مسلمان عاجز ، ہندستان کے مسلمان عاجز ، مرکزی سرکار خاموش ۔

ایسا ہی جیسا کہ

اسرائیل کے ظلم پر عرب ممالک خاموش ۔
یہاں کے باخبر لوگ اس کو مکمل طورپر اسرائیل کی رہ نمائی میں کی گئی کاروائی سمجھتے ہیں ۔
شاید کوئی اس کو مبالغہ سمجھے ۔ لیکن یہ حقیقت اس لیے ہے کہ بی جے پی کے تمام اراکین اسمبلی
تمام عہدےداران حتی کہ انتہائی آخری سطح کے ذمہ داران بھی اسرائیل کے دورہ کر چکے ہیں ۔اور یہ خبریں اخبار کے کونہ میں چھپتی ہے ، سرورق کی زینت نہیں بنتی ۔
خیر اس وقت حکومت گجرات کے نشانہ پر علماء اول درجہ پر ہیں ۔
اس وقت پندرہ بیس انتہائی نوجوان اور قابل صلاحیت علماء حکومت گجرات کی قید میں ہے ۔ بلا قصور و جرم ۔
کدا خیر کرے ۔
 

ساجد

محفلین
اور اس سب کے باجود پورے گجرات کے مسلمان عاجز ، ہندستان کے مسلمان عاجز ، مرکزی سرکار خاموش ۔
جی ، فرید احمد صاحب ، میں نے بھی آپ کی بیان کردہ بات کا اظہار کیا تھا کہ بھارت کی ہر حکومت ہندو شدت پسندوں کے آگے جھکنے پر مجبور رہتی ہے۔
اب اس کے سیاسی عوامل تو بھارت کے باسی بہتر بتا سکتے ہیں۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ مسلمانوں کی سیاسی ، معاشی اور تعلیمی کمزوری ان انتہا پسندوں کے لئیے مسلمانوں کو تر نوالہ بناتی ہے۔
 
افواہوں میں یہ افواہیں گرم ہیں کہ اس میں بھارت سرکار بھی شامل ہے ۔ ابھی تک اس مسلمانوں کے قتل عام کے ہندوستانی واقعے پر ابرار حسین صاحب کے مضامین اور خبروں کے طومار نظر نہیں آرہے، کچھ تشنگی سی محسوس ہورہی ہے۔ لگتا ہے کہ یہ "برار ہاسن " ہیں جو ابرار حسن کے نام سے لکھتے ہیں۔ جس طرح میرے لئے 'سب سے پہلے پاکستان' ہے۔ برار ہاسن کے لئے 'سب سے پہلے ہندوستان' ہے۔ ورنہ اتنے مسلمانوں کا قتل، تہلکہ ڈاٹ کام اور بی بی سی کی خبریں اور ہمارے برار ہاسن ندارد؟۔۔۔۔ چہ معنی دارد؟ :)
 

زینب

محفلین
ہا ہا ہا ہا سر جی اس ٹاپک کو بدل کر "لال مسجد "رکھیں پھر دیکھیں ابرار صاحب کی آمد۔۔۔۔۔:grin::grin:
 

الف عین

لائبریرین
ابرار صاحب لگتا ہے کہ یہاں کافی مقبول رہے ہیں، افسوس کہ میں ان سے واقف نہیں تھا، کسی اور نے جب مجھے اس طرف متوجہ کیا تو مججے معلوم ہوا کہ میرے علاوہ بھی اور کوئی حیدر آباد سے یہاں رکن ہیں۔ لیکن ان کی پوسٹس میں نے نہیں دیکھیں تھیں، شایاد محض دین و مذہب کے تنوں بانوں میں وہ حصۃ لیتے تھے۔ خیر اس سے قطع نظر۔۔۔۔
اس میں کوئی حرج نہیں کہ کسی پاکستانی کے لئے اول پاکستان ہوگا۔ اور یہ بات میرے یا کسی بھی ہندوستانی یا کسی اور ملک کے باشندے کے لئے کیوں ہو؟؟ اگر ہو تو یہ غداری ہی کہا جائے گا۔ اسلام کی حد تک میں مانتا ہوں کہ آپ ( مطلب ہندوستانی یا پاکستانی) کی ترجیح ہو سکتی ہے۔ لیکن ملک ست تعلق ضاطر تو اسی ملک کے باشندے کے لئے ہی متوقع ہوگا نا۔۔۔ ہاں جو غیر مقیم پاکستانی یا ہندوستانی ہیں، وہ چاہے اپنے وطن سے قطع تعلق بھی کر لیں تب بھی ان کی وفاداری اپنے ملک سے برقرار رہتی ہے، وہ چاہے این آر آئیز یاں یا این آر پیز۔ (nri/nrp).
میرا مطلب ہے کہ بے چارے ابرار کو ہی کیوں بدنام کیا جا رہا ہے۔ ممکن ہے کہ وہ ادھر آن لائن آئے ہی نہ ہوں۔ میں خود سیاست اور دین کے متنازعی مسئلوں کے موضوعات میں جھانکتا بھی نہیں!!
 

قیصرانی

لائبریرین
میرا مطلب ہے کہ بے چارے ابرار کو ہی کیوں بدنام کیا جا رہا ہے۔ ممکن ہے کہ وہ ادھر آن لائن آئے ہی نہ ہوں۔ میں خود سیاست اور دین کے متنازعی مسئلوں کے موضوعات میں جھانکتا بھی نہیں!!
استاد محترم، بات صرف اتنی سی ہے کہ یہ محترم ابرار صاحب صرف معدودے چند موضوعات پر ہی حصہ لیتے ہیں اور ان کا طرز گفتگو ایسا ہوتا ہے کہ گفتگو بظاہر پاکستان اور انڈیا کے مابین گفتگو بن جاتی ہے۔ اس وجہ سے، ورنہ ہمارے لئے تمام ممبران یکساں محترم ہیں اور ان کی ذاتی رائے کو ہم قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ لیکن چند موضوعات ایسے ہوتے ہیں کہ ان پر بار بار اور ایک خاص ہی نکتہ نگاہ سے روشنی ڈالنے کی کوشش کی جائے تو پھر اس کا مطلب کچھ اور ہی نکلتا ہے
 

زینب

محفلین
ابرار صاحب لگتا ہے کہ یہاں کافی مقبول رہے ہیں، افسوس کہ میں ان سے ہے، وہ میرا مطلب ہے کہ بے چارے ابرار کو ہی کیوں بدنام کیا جا رہا ہے۔ ممکن ہے کہ وہ ادھر آن لائن آئے ہی نہ ہوں۔ میں خود سیاست اور دین کے متنازعی مسئلوں کے موضوعات میں جھانکتا بھی نہیں!!

"بےچارے"ابرار صاحب پاکستانی اور پاکستانیوں کے خلاف بہت کھل کے اظہار خیال کرتے ہیں اسی لیے انہیں دعوت دی کہ ہم بھی دیکھیں کتنے سیکولر ہیں جناب،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
سیکولر تو بزعمِ خود میں بھی ہوں زینب۔۔۔
اور سیکولرزم میں یہ شامل نہیں کہ سارے ممالک کے باسیوں کو گالیوں سے نوازا جائے۔
 

زینب

محفلین
سیکولر تو بزعمِ خود میں بھی ہوں زینب۔۔۔
اور سیکولرزم میں یہ شامل نہیں کہ سارے ممالک کے باسیوں کو گالیوں سے نوازا جائے۔


انکل جی میرا مطلب بھی یہی ہے کہ اگر ہم دوسروں کی غلطیاں بڑھا چڑھا کے کہتے ہیں اور گھڑے مردے اخھڑتے ہیں تو ہمت سے اپنی غلطیان بھی مان لینی چاہیں۔۔۔۔اپ سیکولر ہیں پر سب لوگوں کی سوچ ایک جیسی نہیں ہوتی ابرار حسین کو یہاں بلانے کا مطلب یہ تھا کہ اگر وہ کھلے دل سے مشرف کو یزید کہتے ہیں اور ہم سن بھی لیتے ہیں تو نیریندر مودی کو وہ کیا کہیں گے۔۔۔۔۔
 
Top