تعلیم میںمسلمانوں کا پیچھے رہ جانا بھی اسی لیے ہے کہ انہیں ہندووں کے مقبالے میں اتنی سہولتیں نہیں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زینب ،
تعلیم کے لئیے سہولتوں کی کم بلکہ شوق اور لگن کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ اپنے پاکستان ہی کو دیکھ لیجئیے کہ آزادی کے ساٹھ سال بعد بھی تعلیم کا تناسب کتنا کم ہے ، یہاں تو نہیں کہا جا سکتا نا کہ ہماری حکومت تعلیم کے لئیے سہولتیں فراہم نہیں کر رہی۔ مسلمانوں میں جو لوگ شادیوں اور دعوتوں ، بسنتوں اور تہواروں ، ختنوں اور ختموں ، برسیوں اور عرسوں پر بے تحاشہ خرچ کرتے ہیں وہ اپنے بچوں کے سکول کے معمولی واجبات ادا کرتے ہوئے بھی غربت اور بے روزگاری کی لمبی لمبی داستانیں سناتے ہم نے خود دیکھے ہیں۔
اس کے برعکس عیسائی اور ہندو حتی کہ سکھ برادری کے لوگ بھی تعلیم کو ہم سے کہیں زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ آگے نکل گئے اور ہم ابھی تک افرنگیوں اور امریکیوں کو کوسنے دینے سے آگے نہ بڑھ سکے۔ میرا نائب بنگلہ دیشی ہے جو یہاں آنے سے پہلے بہت عرصہ کلکتہ اور ممبئی میں رہا ۔ وہ بتاتا ہے کہ ہندو خاندان اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئیے اپنے دیگر اخراجات میں کنجوسی کی حد تک کمی کر دیتا ہے لیکن ایک مسلمان خاندان اپنے تمام خرچے کھلے دل سے کرنے کے بعد اگر کچھ بچا پائے تو اپنی اولاد کی تعلیم پر خرچ کرتا ہے نہیں تو یہی بچے سڑکوں پر آوارہ پھرتے ہیں یا کسی گاڑی مکینک کی ورکشاپ میں کام کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اگرچہ اس قاعدے کا اطلاق تمام لوگوں پر نہیں ہوتا لیکن اس کو کسی حال میں جھٹلایا بھی نہیں جا سکتا۔
جہاں تک سہولتوں کی بات ہے یہاں کے جتنے بھارتی مسلمانوں سے میری بات ہوئی ہے انہوں نے کبھی اس بات کی شکایت نہیں کی کہ ان کو کسی اور برادری سے کم تعلیمی سہولتیں میسر ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ وہ لوگ بھارت کے مخلوط اور آزاد تعلیمی ماحول کے شاکی رہتے ہیں۔ لیکن دیکھا جائے تو اس کا حل بھی انہی کے ہاتھ میں ہے ۔ وہ خود سے ایسے تعلیمی ادارے بنا سکتے ہیں کہ جہاں کا ماحول مخلوط نہ ہو۔
ویسے ایک بات بتا دوں کہ بھارت کا نظام تعلیم اس وقت عیسائی مشنری کے ہاتھوں میں جا چکا ہے۔ بھارت کے صف اول کے قریب قریب تمام تعلیمی ادارے عیسائی مشنری کے انتظام میں ہیں۔ میرے کچھ دوست جو کہ ہندو ہیں خود اقرار کرتے ہیں کہ ان اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کی وجہ سے وہ اپنے دھرم سے زیادہ عیسائیت کے قریب آ چکے ہیں۔
آپ پونا ، ممبئی ، کلکتہ ، دہلی کے سکولوں اور کالجوں کی فہرست پر نظر ڈالئیے تو پتہ چلے گا کہ ان اہم شہروں میں کیا صورت حال ہے۔ ہاں ان مشنریوں کا رجحان مسلم اکثریت اور کٹڑ ہندو نظریات کی اکثریت رکھنے والے علاقوں کی طرف کم ہے ۔ کیوں کہ وہاں ان کو پسند نہیں کیا جاتا۔
اگرچہ مسلمانوں اور ہندوؤں کے قائم کردہ تعلیمی ادارے بھی وجود رکھتے ہیں لیکن ان کا معیار اور نظم و ضبط ان مشنری اداروں سے کم تر ہے۔
بھارت کی کچھ ریاستوں میں دینی مدارس بھی بہت اچھا کام کر رہے ہیں اور ان اسلامی مدارس میں ہندو طلباء و طالبات بھی تعلیم حاصل کرتے ہیں اور ان میں سے کچھ تو قرآن پاک بھی حفظ کرتے ہیں۔ طالبات مسلم عقیدے کی پیروی میں پردہ کرتی ہیں اور طلباء اسلامی شعائر کے مطابق اپنے روز مرہ کے اعمال سر انجام دیتے ہیں۔ اگر یہ مدارس حکومت کی امداد سے جدید اور فنی تعلیم میں بھی قدم بڑھائیں تو اس سے بھی بہتر کار کردگی دکھا سکتے ہیں۔ اور مسلمانوں میں تعلیم کے تناسب کو بہتر بنانے میں مدد گار ہو سکتے ہیں۔ اور سچ تو یہ ہے کہ اپنے ہاں کے دینی مدارس کو بھی ان سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔
قابلِ صد احترام جناب اعجاز اختر صاحب اس پر کچھ مزید لکھیں تو محفل کے اراکین کی معلومات میں گراں قدر اضافہ ہو گا۔