الف نظامی
لائبریرین
’یہ ان لوگوں کا احسان ہے کہ ہمیں یہاں رہنے دے رہے ہیں‘۔گجرات کے پنچ محل ضلع کے پنڈر واڑہ گاؤں کے شیخ فیض محمد بھائی کے یہ الفاظ گجرات کے مسلمانوں کی بے بسی کے عکاس ہیں۔
گودھرا کے واقعہ کے بعد گجرات میں ہندوؤں اور مسلمانوں میں خلیج بہت وسیع ہو گئی ہے۔
سٹیزنز فار پیس اینڈ جسٹس کے رئیس خان کہتے ہیں کہ یہاں جو بھی حکومتیں رہی ہیں انہوں نے مسلمانوں کا امیج دہشت گردی و جرائم سے منسلک کر دیا ہے۔
گجرات کے مسلمان شہروں، قصبوں اورگاؤں ہر جگہ خوفزدہ رہتے ہیں۔ رفتہ رفتہ ان کی بستیاں افلاس زدہ ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ ریاست میں ہندو اکثر مقامات پر مسلمانوں کو اپنی آبادیوں میں رہنے کی اجازت نہیں دیتے۔
سماجی کارکن حنیف لکڑ والا کہتے ہیں کہ ریاست میں بہت منظم طریقے سے مسلمانوں کو اقتصادی طور پر تباہ کر دیا گیا ہے۔ ’ویشنو ہندو پریشد پمفلٹ جاری کرتی ہے۔ جن میں ان اشیاء اور برانڈز کے نام لیے جاتے ہیں جن کمپنیوں کے مالک مسلمان ہيں اور ہندوؤں سے کہا جاتا ہے کہ وہ یہ اشیاء نہ خریدیں‘۔
یہاں کی حکومتوں نے مسلمانوں کا امیج دہشت گردی و جرائم سے منسلک کر دیا ہے۔
دلچسپ پہلو یہ ہے کہ گجرات میں گودھرا کے واقعے اور فسادات کو پانچ برس گزر چکے ہیں لیکن حکومت کی طرف سے ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی ہے۔
دانشور گھنشام شاہ کہتے ہیں ’جو کچھ یہاں ہوا ہے وہ ایک منظم اور سوچا سمجھا سیاسی مشن تھا۔ لیکن اس میں وسیع تر سماج شامل نہیں تھا‘۔
ان کا کہنا تھا ’جب تک مودی کی حکومت ہے اور ان کا خوف برقرار ہے کوئی سامنے نہیں آئے گا‘۔
’نانا وتی کمیشن‘ میں مسلم متاثرین کی نمائندگي کرنے والے وکیل اور حقوق انسانی کے کارکن مکل سنہا کہتے ہیں ’سماج پوری طرح سنگھ پریوار کے رنگ ميں رنگ چکا ہے۔ یہاں قانون کی بالادستی نہیں ہے۔ اتنے بھیانک واقعات اور خونریزی کے باوجود ایک ہزار سے زيادہ مسلمانوں کو قتل کرنے والے آزاد گھوم رہے ہیں‘۔
جو کچھ یہاں ہوا ہے وہ ایک منظم اور سوچا سمجھا سیاسی مشن تھا
مسٹر سنہا کہتے ہیں ’یہ ایک منظم عمل ہے۔ یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنا دیا جائے‘۔
’ایکشن ایڈ‘ کی ذکیہ جوہر بھی مکل سنہا سے اتفاق کرتی ہيں۔ ’گجرات ميں خوف کا یہ عالم ہے کہ مودی کی فاشسٹ پالسیوں کے خلاف مزاحمت کے راستے بند ہوتے جا رہے ہیں‘۔
بڑودہ کے معروف دانشور جے ایس بندوق والا اس صورت حال سے نا امید ہوتے جا رہے ہيں۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تک مسلمان اپنی معاشی حالت بہتر نہیں کرتے اور جلد سے جلد تعلیم یافتہ نہيں ہوتےگجرات میں ان کے لیے حالات تبدیل نہیں ہو سکتے‘۔
فسادات کے دوران بندوق والا کا مکان ہندو بلوائيوں نے جلا کر راکھ کر دیا تھا۔ تجزیہ کار اور حقوق انسانی کی تنظیمں گجرات کی صورتِ حال کو ’گجرات تجربہ‘ قرار دیتی ہیں اور بہت سے لوگ یہ خدشہ ظاہر کرتے ہیں کہ اسی طرح کا تجربہ دیگر ریاستوں میں بھی کیا جانے والا ہے۔
بحوالہ بی بی سی اردو
بحوالہ بی بی سی اردو