ناصر علی مرزا
معطل
یہ پیرا گراف اس مراسلہ کا مقصد واضح کرتا ہے، اصل بات تو عنوان سے ہی واضح تھی بھارت۔ایک چہرہ یہ بھی ہے!...ذراہٹ کے۔۔۔ ، کہ یاسر پیرزادہ کے اس مراسلہ کا مقصد ان لوگوں کو سیکولر بھارت کا اصل چہرہ دکھانا مقصود تھا جو کہ نام نہاد امن کی آشا سے بہت ہی زیادہ متاثر ہوگئے ہیں یا تھے۔بھارت۔ایک چہرہ یہ بھی ہے!...ذراہٹ کے۔۔۔ ۔۔یاسر پیر زادہ
’’سیکولر‘‘ بھارت کا یہ وہ چہرہ ہے جو عام طور پر ہمیں دکھائی نہیں دیتا اور اس کی دو وجوہات ہیں ۔پہلی ،ہمارے ہاں بھارتی نیوز چینلز پر پابندی ہے جس وجہ سے ہم بھارتی میڈیا میں پاکستان کے خلاف پھیلائی جانے والی شر انگیزی دیکھ ہی نہیں پاتے ،اس کے بر عکس ہم بھارتی ٹی وی کے وہ پروگرام پاکستان میں دکھاتے ہیں جو سیکولر بھارت کی تصویر کشی کرتے ہیں ‘جیسے ’’کون بنے گا کروڑ پتی ‘‘ یا کچھ ایسے مزاحیہ شو یا گلوکاری اور ناچ گانے کے مقابلے کے پروگرام جن میں اکثر پاکستانی فنکار شرکت کرتے ہیں اور بھارتی میزبانوں سے داد پاتے ہیں۔ان پروگراموں میں وہی گھسے پٹے فقرے سننے کو ملتے ہیںکہ ’’دونوں دیشوںکی جنتا میں بہت پیار ہے، ہمارے بیچ لکیر کھنچ گئی لیکن ہمارا من ایک ہے ،آپ اور ہم تو ایک ہی جیسے ہیں ، اینڈ آل دیٹ ربش۔سو ہمیں یہ اندازہ ہی نہیں ہو پاتا کہ اصل میں بھارت کے عوام ہم سے کتنا ’’پیار ‘‘ کرتے ہیں ‘اگر دہلی جیسے شہر کے الٹرا ماڈرن تعلیمی ادارے کے نونہالو ں کا یہ حال ہے تو کٹڑ متعصب بھارتی ہمارے بارے میں کیا رائے رکھتا ہے یہ جاننے کے لئے کسی جوتشی کی ضرورت نہیں۔
!
میرے ذاتی رائے میں نہ تو تمام یا زیادہ تر انڈین ہندو افراد (عام حالات میں ) ہی تشدد پسند ہیں نہ ہی تمام یا زیادہ تر مسلم افراد - اکثریت کو تو اپنی روزی روٹی کے لالے پڑے رہتے ہیں، یہ مکروہ کام دوںوں اطراف کچھ سیاستدانوں یا کچھ نام نہاد مذہبی راہنماوں کا ہے ( عالمی سماج بھی ) کہ عوام کے جذبات کو ابھارتے ہیں اور اپنا الو سیدھا کرتے ہیں
ایک دھاگے میں تو آپ کسی کی توہین دیکھ کر اس کو نا پسند کریں اور پھر یہ کام خود کر دیں - دوسرا افسوس ہے کہ ایک بندہ آپ کی رائے سے متفق نہیں تو آپ نامناسب الفاظ سے نواز دیں -رائے کے اختلاف کو رائے کا اختلاف سمجھ کر بات ہی مناسب لگتی ہے -
مومن کو نصیحت فائدہ دیتی ہے،