اس وقت محفل سلو تھی تو لکھ کر تصحیح کر رہا تھا تو نظر نہیں آیا یہ اوکے
الکھ نگری ممتاز مفتی کی تصنیف ہے اور جس طرح عقیدت کے شیرے میں انہوں نے قدرت اللہ شہاب کو لتھڑا ہوا دکھایا ہے، وہ چیز مجھے تو شہاب نامہ کا پارٹ ٹو دکھائی دیا ہے
تاریخی اہمیت غیرجانبداری سے پیدا ہوتی ہے، قدرت اللہ شہاب ہرگز غیر جانبدار نہیں تھے بلکہ آمرانِ وقت کے دست و بازو رہے ہیں
اس وقت محفل سلو تھی تو لکھ کر تصحیح کر رہا تھا تو نظر نہیں آیا یہ اوکے
الکھ نگری ممتاز مفتی کی تصنیف ہے اور جس طرح عقیدت کے شیرے میں انہوں نے قدرت اللہ شہاب کو لتھڑا ہوا دکھایا ہے، وہ چیز مجھے تو شہاب نامہ کا پارٹ ٹو دکھائی دیا ہے
تاریخی اہمیت غیرجانبداری سے پیدا ہوتی ہے، قدرت اللہ شہاب ہرگز غیر جانبدار نہیں تھے بلکہ آمرانِ وقت کے دست و بازو رہے ہیں
درست یہ بات کہ غیر جانبدارانہ رائے ہی قابل غور ہوتی ہے۔ شہاب صاحب غلام محمد سے لیکر یحی خان تک کے ساتھ کام کرتے رہے ۔ لیکن انہوں نے سب پر تنقید کی ہے البتہ ایوب خان کے اچھے کاموں کی تعریف بھی کی ہے۔ اس لئے مجھے وہ جانبدار نہیں لگے ۔ البتہ ان کا رجحان دائیں بازو کا طرف مائل رہا مگر وہ داڑھی والے مولوی نہیں تھے۔
میں نے شہاب نامہ اور لکھ نگری دونوں کا مطالعہ کیا ہے۔ الکھ نگری واقعی شہاب صاحب کی عقیدت سے بھری ہوئی ہے۔ مگر شہاب نامہ خود ستائشی سے بھری ہوئی نہیں لگی مجھے۔
آپ کو نجانے ایسا کیوں لگا !
درست یہ بات کہ غیر جانبدارانہ رائے ہی قابل غور ہوتی ہے۔ شہاب صاحب غلام محمد سے لیکر یحی خان تک کے ساتھ کام کرتے رہے ۔ لیکن انہوں نے سب پر تنقید کی ہے البتہ ایوب خان کے اچھے کاموں کی تعریف بھی کی ہے۔ اس لئے مجھے وہ جانبدار نہیں لگے ۔ البتہ ان کا رجحان دائیں بازو کا طرف مائل رہا مگر وہ داڑھی والے مولوی نہیں تھے۔
میں نے شہاب نامہ اور لکھ نگری دونوں کا مطالعہ کیا ہے۔ الکھ نگری واقعی شہاب صاحب کی عقیدت سے بھری ہوئی ہے۔ مگر شہاب نامہ خود ستائشی سے بھری ہوئی نہیں لگی مجھے۔
آپ کو نجانے ایسا کیوں لگا !
اس ضمن میں میں مشتاق احمد یوسفی کی تحریر کا حوالہ دوں گا جس میں انہوں نے کسی انگریز کا مقولہ نقل کیا تھا کہ وہ خود نوشت کو سوانح حیات کی بجائے مزاح کی الماری میں رکھتے ہیں (یا اسی طرح کی کوئی بات تھی)
اس ضمن میں میں مشتاق احمد یوسفی کی تحریر کا حوالہ دوں گا جس میں انہوں نے کسی انگریز کا مقولہ نقل کیا تھا کہ وہ خود نوشت کو سوانح حیات کی بجائے مزاح کی الماری میں رکھتے ہیں (یا اسی طرح کی کوئی بات تھی)
مسلمان عددی اقلیت ہیں جبکہ ہندو نفسیاتی اقلیت ہیں
کالم نگار | فتح محمد ملک ....دنیائے اسلام
بھارت کے نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کی ایک حالیہ رپورٹ کیمطابق گزشتہ بارہ برس کے دوران انجینئرنگ، ڈاکٹریٹ اور ایٹمی ٹیکنالوجی کے ہزاروں ہونہار مسلمان طالب علموں کو انتہا پسند ہندوﺅں نے جعلی پولیس مقابلوں میں موت کی نیند سُلا دیا ہے-
اِن گھناﺅنے جرائم کا ارتکاب اِس اندیشے کے پیشِ نظر کیا جا رہا ہے کہ کل یہ زیرِ تعلیم طلباءاپنی تعلیم کی تکمیل کے بعد سائنس و حکمت اور علم و فن کے شعبوں میں قائدانہ کردار ادا کر کے مسلمانوں کے علمی وقار کی سربلندی کی روشن مثالیں پیش کرینگے اور یوں بھارتی مسلمانوں کی عزت وعظمت کو چار چاند لگ جائینگے- سوال یہ ہے کہ اپنے ہموطنوں سے دشمنوں سے بھی بڑھ کر یہ بدترین سلوک کیوں کیا جا رہا ہے؟
اِس سوال کے جواب میں نکلتا ہوں تو مسلمانوں کے خلاف نفرت کی اس سیاست پر مجھے ایک بار پھر ذوالفقار علی بھٹو یاد آتے ہیں -لگ بھگ نصف صدی پیشتر بھٹو نے اپنی کتاب بعنوان The Myth of Independence (آزادی¿ِ موہوم) میں مسلمان اقلیت سے ہندو اکثریت کے خوف کا تجزیہ بہت خوبی کے ساتھ کر رکھا ہے -بھارت کے ساتھ پاکستان کے تنازعات کے اصل سبب کو بے نقاب کرتے وقت انھوں نے لکھا ہے کہ مسلمانوں نے برصغیر پر سات سو سال سے زیادہ عرصے تک حکومت کی اور بالآخر وہ ایک جداگانہ ، آزاد اورخود مختار پاکستان کے قیام کے خواب کو حقیقت بنانے میں کامیاب ہو گئے- بدقسمتی سے ہندوستانی ذہنیت مسلمانوں کی غلامی سے جنم لینے والے نفسیاتی امراض کا اب تک شکار چلی آتی ہے- پاک ہند تعلقات کی جڑوں تک رسائی کے لیے ہندوﺅں کی خوفزدگی کے اسباب کا تجزیہ کیاہے - اُن کے خیال میں ہندو اکثریت نفسیاتی طور پر اِس وہم میں مبتلا ہے کہ اگرمسلمان تعداد میں بہت کم ہونے کے باوجود ماضی کی صدیوں میں ہندو اکثریت پر حکمرانی کر سکتے تھے تو مستقبل میں ایسا کیوں نہیں ہو سکتے؟
بھٹو نے اپنی کتاب میں ہندو ذہنیت کا جو تجزیہ پیش کیا ہے خود چند ہندو دانشوروں نے بھی اُس کی تصدیق کی ہے- بابری مسجد کی تباہی کے باعث پھوٹ پڑنے والے فرقہ وارانہ فسادات کا تجزیہ کرتے وقت الیسٹریٹڈ ویکلی آف انڈیا نے دسمبر 1992ءمیں Start of a New Beginning کے عنوان سے ہندوﺅں اور مسلمانوں کا الگ الگ نقطہ نظر ایک ساتھ شائع کیا تھا۔ ہندوﺅں کا نقطہ نظر پیش کرتے ہوئے M V Kamath نے اپنے مضمون میں ہندو اکثریت پر مسلمان اقلیت کے غلبہ کے خوف کو مسجد کے انہدام اور فسادات کا اصل محرک بتایا ہے۔ اُن کا کہنا یہ ہے کہ۔ بابری مسجد کو منہدم کرنے والے ہندو جنونیوں کے وحشیانہ طرزِ عمل کے دفاع میں لکھے گئے اس مضمون کے مصنف نے بڑے دو ٹوک اور بے لاگ انداز میں تسلیم کیا ہے کہ بھارت میں آباد ہندو اکثریت دراصل نفسیاتی اقلیت ہے- گویا بھارت میں ہندو اکثریت مسلمان اقلیت کے خوف میں مبتلا ہے۔ اس دائمی خوف نے اُسے نفسیاتی اقلیت بنا کر رکھ دیا ہے اور وہ مارے خوف کے مسلمانوں کی تہذیبی ہستی کو مٹانے کی سعیِ مسلسل میں مبتلا چلی آ رہی ہے۔
مسلمانوں نے برصغیر پر سات سو سال سے زیادہ عرصے تک حکومت کی اور بالآخر وہ ایک جداگانہ ، آزاد اورخود مختار پاکستان کے قیام کے خواب کو حقیقت بنانے میں کامیاب ہو گئے
بھارت کے نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کی ایک حالیہ رپورٹ کیمطابق گزشتہ بارہ برس کے دوران انجینئرنگ، ڈاکٹریٹ اور ایٹمی ٹیکنالوجی کے ہزاروں ہونہار مسلمان طالب علموں کو انتہا پسند ہندوﺅں نے جعلی پولیس مقابلوں میں موت کی نیند سُلا دیا ہے-
نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کی ویبسائٹ پر بھی کوئی حوالہ نہیں ملا (جعلی پولیس مقابلوں کا ذکرہے لیکن بالخصوص مسلم طلبا کے بارے میں مجھے کچھ مواد نہیں مل سکا)
کالم نگار سے بھی رابطہ ممکن نہیں ہو سکا
میرے اس بیان کو تسلیم کرنے کی کچھ وجوہات تھیں
۱-انڈیا کی تاریخ کا مجموعی تاثر (ذرائع ابلاغ سے) ایسا ہےکہ مجھے ذاتی طور پر یہ درست معلوم ہوا تھا ( مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی تو جسٹس راجندرسچر نےرپورٹ میں بیان کی تھی )
۲-کچھ عرصہ پہلے انڈیا کی ایک مسلم کالمسٹ نے ایک ویبسائٹ پر کچھ ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا تھا
۳-پھر یہ پاکستان کے ایک قومی روزنامے میں شائع کردہ کالم میں بیان کی گئی بات تھی
بھارتی فوج کی سیالکوٹ کے چاروا سیکٹر پر بلااشتعال گولہ باری ، ماں بیٹی شہید،3 زخمی، بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر کی طلبی، پاکستان کا شدید احتجاج
12 اگست 2014
سیالکوٹ میں چاروا سیکٹر پر بھارتی سکیورٹی فورسز کی گولہ باری اور بلااشتعال فائرنگ سے خاتون اور اسکی بیٹی شہید، 3 زخمی ہوگئے، گولہ باری سے مسجد شہید اور 12 مویشی بھی مارے گئے، کئی گھروں کو بھی شدید نقصان پہنچا، چناب رینجرز کی بھرپور جوابی کارروائی سے بھارتی گنیں خاموش ہو گئیں ۔گزشتہ رات آٹھ بجے کے قریب بھارتی ذرائع کے مطابق دو روز سے وقفے وقفے سے جاری بھارتی جارحیت کے باعث سرحدی علاقوں کے مکین شدید خوف وہراس مبتلا ہوگئے دو روز قبل پاکستانی حدود میں داخل ہونے والے بھارتی اہلکار کو جذبہ خیر سگالی کے تحت واپس بھجوا دیا گیا تھا۔ پاکستانی حکام نے بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر کو دفتر خارجہ میں طلب کرکے احتجاجی مراسلہ انہیں دیا گیا ۔ دفتر خارجہ کے بیان کے مطابق بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر سے کہا گیا کہ بدقسمتی سے کنٹرول لائن پر یہ واقعات ایسے وقت میں ہورہے ہیں جب دونوں ممالک کی قیادت نے دوطرفہ تعلقات کو فروغ دینے کی خواہش ظاہر کررکھی ہے جس کے نتیجے میں خارجہ سیکرٹریوں کے مذاکرات کی راہ ہموار ہوئی۔ دریں اثناء ٹائمز آف انڈیا کے مطابق بھارتی فوج نے دعویٰ کیا ہے پاکستانی رینجرز نے گزشتہ شب آر ایس پورہ سیکٹر پر فائرنگ کرتے ہوئے 2 بی ایس ایف اہلکاروں سمیت 4 افراد زخمی کردیئے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق پاکستان بھارت خارجہ سیکرٹریوں کی رواں ماہ ہونے والی ملاقات میں بھارت کنٹرول لائن پر سیز فائر کی خلاف ورزیوں کا معاملہ اٹھائے گا۔ علاوہ ازیں جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق، سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ نے سیالکوٹ بارڈر پر بھارتی فوج کی بلااشتعال فائرنگ سے شہید اور زخمی ہونے والے پاکستانی شہریوں کے خاندانوں سے ہمدردی اور تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا بھارت آئے روز ہمارے شہریوں کو نشانہ بنا رہا ہے لیکن حکمرانوں نے بھارتی بالادستی کو قبول کرلیا۔
مجھے اعتراض موصوفہ کے نظریات پر نہیں کہ انہیں حق ہے کہ وہ جیسے چاہیں نظریات اختیار کریں اور مجھ سے اختلاف کریں اور اپنا نکتہ نظر بیان کریں۔ مجھے اعتراض ان کے انداز گفتگو پر ہے۔ اور یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ انہوں نے ایسی بدتمیزی سے بات کی ہو اور مجھ پر ذاتی حملے کئے ہوں۔ مزے کی بات یہ ہے وہ مجھ پر وہ نظریات بھی تھوپ رہی ہیں جن کا میں قائل ہی نہیں ہوں۔
اگر میں نے کبھی (کسی محفلین کے خلاف) ایسا بدتمیزی اور ذاتی حملوں والا انداز اختیار کیا ہو تو احباب جو سزا کہیں میں بھگتنے کے لئے تیار ہوں۔
لئیق صاحب
یہ تو میں نے آج دیکھا
کونسا نظریہ تھوپا ہے میں نے آپ پر ؟
اور کونسی بدتمیزی کی ہے ؟
اور ذاتی حملے ؟؟؟؟؟؟؟
حوالہ دیں ( اور یہ آپ کے بس کی بات نہیں کیونکہ آپ الزام تراشی پر جیتے ہیں دلیل اور حوالہ کبھی نہیں دے سکتے ہاں نیا الزام ضرور آئے گا اسکے جواب میں )
آپ شائد خود پرستی میں مبتلا ہیں اول تو میرے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ میں ایسی گھٹیا حرکتیں کروں اور اگر ہوتا بھی تو میں اسے کسی بہتر کام میں صرف کرنا زیادہ پسند کرتی ہوں ، تعصب اور تنگ نظری میرا شعبہ نہیں ہے جنکا ہے انہی کو مبارک ہو آپ یونہی پھلتے پھولتے رہیں منافرت کے ساتھ
لئیق صاحب
یہ تو میں نے آج دیکھا
کونسا نظریہ تھوپا ہے میں نے آپ پر ؟
اور کونسی بدتمیزی کی ہے ؟
اور ذاتی حملے ؟؟؟؟؟؟؟
حوالہ دیں ( اور یہ آپ کے بس کی بات نہیں کیونکہ آپ الزام تراشی پر جیتے ہیں دلیل اور حوالہ کبھی نہیں دے سکتے ہاں نیا الزام ضرور آئے گا اسکے جواب میں )
آپ شائد خود پرستی میں مبتلا ہیں اول تو میرے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ میں ایسی گھٹیا حرکتیں کروں اور اگر ہوتا بھی تو میں اسے کسی بہتر کام میں صرف کرنا زیادہ پسند کرتی ہوں ، تعصب اور تنگ نظری میرا شعبہ نہیں ہے جنکا ہے انہی کو مبارک ہو آپ یونہی پھلتے پھولتے رہیں منافرت کے ساتھ
دیکھئے محترمہ اگر اس دھاگے میں آپ یاسرپیرزادہ کے کالم کے بارے میں گفتگو کریں تو زیادہ مناسب ہے۔ اگر آپ مجھ سے ذاتی لڑائی جھگڑا یا ذاتیات پر بحث کو طول دینا چاہتی ہیں تو الگ سے دھاگہ کھول لیں یا ذاتی مراسلے میں بات کر لیں۔
دیکھئے محترمہ اگر اس دھاگے میں آپ یاسرپیرزادہ کے کالم کے بارے میں گفتگو کریں تو زیادہ مناسب ہے۔ اگر آپ مجھ سے ذاتی لڑائی جھگڑا یا ذاتیات پر بحث کو طول دینا چاہتی ہیں تو الگ سے دھاگہ کھول لیں یا ذاتی مراسلے میں بات کر لیں۔
لئیق صاحب
نیا دھاگہ کھول لوں بچگانہ باتوں کے لیے ؟؟؟؟؟
آپ صرف میرے سوالوں کے جواب دے دیں آپ نے سرعام الزام لگایا ہے اور جواب ذاتی مراسلے میں دینا چاہتے ہیں
مجھے نہیں لگتا کہ آپ کے پاس کوئی جواب ہے اس بےجا الزام تراشی کا اس لئے آپ کو مزید شرمندگی سے بچانے کے لئے میں اسے اگنور کر رہی ہوں
ویسے لئیق احمد صاحب میں نے آپ کے بارے میں ایک دلچسپ بات نوٹ کی ہے ۔ آپ نے یہاں کوئی خبر جب بھی شئیر کی ہے ۔ اس کے بعد فوراً آپ کا تبصرہ موجود ہوتا ہے ۔جو زیادہ تر آپ کے شئیر کردہ رحجان کی بھرپور غمازی کرتا ہے ۔ کوئی قاری دونوں چیزوں کے سامنے رکھ کر جب آپ سے کوئی سوال کرتا ہے تو آپ فوراً یو ٹرن لیکر اس تاثر کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جو آپ کے تبصرے کے نتیجے میں قائم ہوچکا ہوتا ہے کہ اس آرٹیکل یا خبر سے آپ سو فیصد متفق ہیں۔
اگر آپ اس کوفت سے بچنا چاہتے ہیں تو صرف خبر یا آرٹیکل شئیر کردیا کریں ۔ تبصرے سے گریز کریں کہ کوئی کسی غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوجائے ۔ بصورت دیگر پھر آپ سوالات اور تنقید کے لیئے تیار رہا کریں ۔
ویسے لئیق احمد صاحب میں نے آپ کے بارے میں ایک دلچسپ بات نوٹ کی ہے ۔ آپ نے یہاں کوئی خبر جب بھی شئیر کی ہے ۔ اس کے بعد فوراً آپ کا تبصرہ موجود ہوتا ہے ۔جو زیادہ تر آپ کے شئیر کردہ رحجان کی بھرپور غمازی کرتا ہے ۔ کوئی قاری دونوں چیزوں کے سامنے رکھ کر جب آپ سے کوئی سوال کرتا ہے تو آپ فوراً یو ٹرن لیکر اس تاثر کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جو آپ کے تبصرے کے نتیجے میں قائم ہوچکا ہوتا ہے کہ اس آرٹیکل یا خبر سے آپ سو فیصد متفق ہیں۔
اگر آپ اس کوفت سے بچنا چاہتے ہیں تو صرف خبر یا آرٹیکل شئیر کردیا کریں ۔ تبصرے سے گریز کریں کہ کوئی کسی غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوجائے ۔ بصورت دیگر پھر آپ سوالات اور تنقید کے لیئے تیار رہا کریں ۔
اگر آپ چند مثالیں دیکر وضاحت کریں تو زیادہ بہتر ہوگا۔
خبر تو خبر ہوتی ہے اس میں متفق یا غیر متفق کی ضرورت نہیں ہوتی البتہ پسندیدگی یا ناپسندیدگی ہو سکتی ہے۔
جہاں تک تجزیہ کی بات ہے تو ضروری نہیں ہوتا کہ میں سارے تجزیے سے اتفاق کروں ممکن ہے میں کسی حصے سے متفق ہوں اور کسی حصے سے غیر متفق۔
مثلاً اسی دھاگے کو لے لیں تو میں پورے بھارت کو انتہا پسند نہیں سمجھتا البتہ جو لوگ وہاں انتہا پسند ہیں ان سے خبردار رہنا ضروری سمجھتا ہوں۔
بعض اوقات کچھ لوگ خود اپنے تجربات کی بنیاد پر ہی کسی کے بارے میں کوئی رائے قائم کرلیتے ہیں جو اس نے بیان نہیں کی کوتی
مثلاً ایک دفعہ میرا بھائی جو ماشآاللہ ایم اے انگریزی لٹریچر اور حافظ قرآن ہے ۔ اس کی داڑھی بھی ہے ۔ اس نے ایک دفعہ سر راہ کسی سے ایک مطلوبہ گاڑی کا نمبر پوچھا جس سے پوچھا گیا تھا اس نے حسب عادت انگریزی میں بتایا۔ تھوڑی دور آگے جانے کے بعد وہ واپس آیا اور دوبارہ میرے بھائی کو اردو میں بتایا۔ محض داڑھی کی وجہ سے میرے بھائی کے بارے میں اس نے سوچا کہ یہ انگریزی نہیں جانتا۔
ایسی ہی اور مثالیں آپ نے خود دیکھی ہونگی
شاید آپ کو یوٹرن لگتا ہوگا عموماً میں اپنی رائے جلدی تبدیل نہیں کرتا کیونکہ جلدی میں کوئی رائے قائم نہیں کرتا البتہ وضاحت کی کوشش کرتا ہوں۔
میں یہ ہرگز نہیں سمجھتا کہ میں غلطیوں سے بالکل پاک ہوں
میں اپنی اصلاح کے لئے ہمیشہ کھلا ہوں مگر انداز اگر آپ کی طرح دوستانہ ہو تو زیادہ بہتر ہوگا
یہ اسی ٹاپک میں آپ کی پوسٹ کے بعد آپ کا فوری تبصرہ ہے ۔ پوسٹ نمبر2 اگر ہم پاکستانی دیانتداری کے ساتھ ملکی ترقی کے لئے کام کریں تو بھارتی انتہا پسندی ہمیں نقصان نہیں پہنچا سکے گی ۔ انشآاللہ
خبر تو خبر ہوتی ہے اس میں متفق یا غیر متفق کی ضرورت نہیں ہوتی البتہ پسندیدگی یا ناپسندیدگی ہو سکتی ہے۔
میرا خیال ہے کسی چیز کے بارے میں پسندیدگی یا ناپسندیگی ہی متفق یا غیر متفق ہونے کی نشاندہی ظاہر کرتی ہے ۔
لوگ مذہب کے بارے میں زیادہ حساس ہوتے ہیں تو اس حساسیت کو لیکر متفق ، غیر متفق اور پسندیدگی اور غیر پسندیدگی کا فرق وضع کرنے کی جسارت کرتا ہوں ۔ اگر پردے پر مذہب کا کوئی نکتہِ نظر بیان کرنے کی کوشش کرتا ہے تو آپ ذرا اس پر اپنی پسندیدگی اور ناپسندیگی کا اظہار کرکے دیکھیں ۔ معلو م ہوجائے گا کہ متفق ہونا اور غیر متفق ہونا کسے کہتے ہیں ۔
یہ اسی ٹاپک میں آپ کی پوسٹ کے بعد آپ کا فوری تبصرہ ہے ۔ پوسٹ نمبر2 اگر ہم پاکستانی دیانتداری کے ساتھ ملکی ترقی کے لئے کام کریں تو بھارتی انتہا پسندی ہمیں نقصان نہیں پہنچا سکے گی ۔ انشآاللہ
میں نے یہ پوسٹ دیکھ کر ہی اس کی مثال دی تھی اور کہا تھا "مثلاً اسی دھاگے کو لے لیں تو میں پورے بھارت کو انتہا پسند نہیں سمجھتا البتہ جو لوگ وہاں انتہا پسند ہیں ان سے خبردار رہنا ضروری سمجھتا ہوں۔" البتہ یہ ممکن ہے کہ میری مندرجہ بالا پوسٹ سے کوئی یہ سمجھے کہ میں پورے بھارت کو ہی انتہا سمجھتا ہوں۔ تو ایسی صورت میں بہتر یہی ہے کہ میں اس کی وضاحت کردوں لیکن اس وضاحت کو یوٹرن تو نہیں کہنا چاہئے۔
کبھی کبھی متفق اور غیر متفق ، پسندیدہ اور غیر پسندیدہ کے مترادف ہوتے ہیں لیکن ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا۔ مثلاً آج کے لانگ مارچ کے مخلص شرکاء کے جذبے کو میں پسند کرتا ہوں لیکن ان سے متفق نہیں ہوں۔
یہ اسی ٹاپک میں آپ کی پوسٹ کے بعد آپ کا فوری تبصرہ ہے ۔ پوسٹ نمبر2 اگر ہم پاکستانی دیانتداری کے ساتھ ملکی ترقی کے لئے کام کریں تو بھارتی انتہا پسندی ہمیں نقصان نہیں پہنچا سکے گی ۔ انشآاللہ
میرا خیال ہے کسی چیز کے بارے میں پسندیدگی یا ناپسندیگی ہی متفق یا غیر متفق ہونے کی نشاندہی ظاہر کرتی ہے ۔
لوگ مذہب کے بارے میں زیادہ حساس ہوتے ہیں تو اس حساسیت کو لیکر متفق ، غیر متفق اور پسندیدگی اور غیر پسندیدگی کا فرق وضع کرنے کی جسارت کرتا ہوں ۔ اگر پردے پر مذہب کا کوئی نکتہِ نظر بیان کرنے کی کوشش کرتا ہے تو آپ ذرا اس پر اپنی پسندیدگی اور ناپسندیگی کا اظہار کرکے دیکھیں ۔ معلو م ہوجائے گا کہ متفق ہونا اور غیر متفق ہونا کسے کہتے ہیں ۔
میں نے یہ پوسٹ دیکھ کر ہی اس کی مثال دی تھی اور کہا تھا
"مثلاً اسی دھاگے کو لے لیں تو میں پورے بھارت کو انتہا پسند نہیں سمجھتا البتہ جو لوگ وہاں انتہا پسند ہیں ان سے خبردار رہنا ضروری سمجھتا ہوں۔"
آپ کا یہ تبصرہ اس دھاگے پر مجھے کہیں نظر نہیں آیا ۔
اگر میری نظروں سے کسی وجہ سے اوجھل رہ گیا ہو تو برائے مہربانی اس پوسٹ کی نشاندہی کردیں ۔
البتہ یہ ممکن ہے کہ میری مندرجہ بالا پوسٹ سے کوئی یہ سمجھے کہ میں پورے بھارت کو ہی انتہا سمجھتا ہوں۔ تو ایسی صورت میں بہتر یہی ہے کہ میں اس کی وضاحت کردوں لیکن اس وضاحت کو یوٹرن تو نہیں کہنا چاہئے۔
آپ معلوم نہیں کس "مندرجہ بالا پوسٹ " کی بات کررہے ہیں ۔مگر میں نے آپ کے شروع کے تبصرے سے یہی ظاہر ہو رہا ہے کہ آپ پورے بھارت کو گھسیٹ رہے ہیں ۔ میں نے آپ کے اسی رحجان پر اشارہ کیا ہے ۔ بعد میں آپ نے کب اور کس پیرائے میں اپنی بات کی وضاحت کی ۔ اس سے میں لاعلم ہوں ۔
کبھی کبھی متفق اور غیر متفق ، پسندیدہ اور غیر پسندیدہ کے مترادف ہوتے ہیں لیکن ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا۔ مثلاً آج کے لانگ مارچ کے مخلص شرکاء کے جذبے کو میں پسند کرتا ہوں لیکن ان سے متفق نہیں ہوں۔
میں نے کہا ناں کہ آپ کے تبصرے تو ہوتے ہی ہیں بہت دلچسپ مگر آپ اکثر جو منطقیں بھی پیش کرتے ہیں ۔ وہ بھی سنہرے اقوال میں لکھے جانے کے قابل ہوتے ہیں ۔
مجھے سمجھایئے کہ ۔۔۔۔ میں اگر شراب کی لت پر اپنی پسندیدگی کا ا ظہارکروں مگر اس لت سے میرا متفق نہ ہونا کس بات کو ظاہر کرے گا ۔