جاسم محمد
محفلین
کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ: لیکن ڈیڑھ کروڑ کشمیریوں کا کیا ہوگا؟
06/08/2019 سید مجاہد علی
بھارت میں بی جے پی کی حکومت نے ایک صدارتی حکم کے ذریعے مقبوضہ کشمیر کے شہریوں کی وہ تمام آئینی مراعات ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جن کے تحت مقبوضہ کشمیر کو نیم خود مختار ریاست کی حیثیت حاصل تھی۔ بھارتی پارلیمنٹ اور حکومت کو ریاست کے بارے میں کسی قسم کی قانون سازی کرنے کا حق حاصل نہیں تھا۔ تاہم نریندر مودی حکومت کے اس اقدام کو کشمیری لیڈروں کے علاوہ بھارت کی اپوزیشن جماعتوں نے بھی مسترد کر دیا ہے ۔
کشمیر کے آخری مہاراجہ ہری سنگھ نے 1947 میں پاکستان کی طرف سے پشتون جتھوں کے حملہ سے پیدا ہونے والی صورت حال میں اکتوبر 1947 کو بھارت کے ساتھ الحاق کا معاہدہ کیا تھا۔ اس معاہدہ کے تحت خارجہ، خزانہ اور مواصلات کے علاوہ تمام اختیارات کشمیر اسمبلی کو حاصل رہے تھے اور بھارتی وفاق ان میں براہ راست مداخلت کرنے کا مجاز نہیں تھا۔ بعد میں مئی 1954 کو بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کی شق 3 کے تحت صدر جمہوریہ نے ایک آئینی حکم جاری کیا تھا جس میں راجہ ہری سنگھ کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کی تمام شقات کو آئین کا حصہ بنایا گیا تھا۔
اس صدارتی حکم نامہ میں آرٹیکل 370 میں شق 35 اے کا اضافہ بھی کیا گیا تھا جس کے تحت بھارت کے کسی شہری کو ریاستی حدود میں کوئی جائیداد خریدنے کا حق حاصل نہیں تھا۔ اس شق میں ریاست کی اسمبلی ہی یہ فیصلہ کرسکتی تھی کہ کون شخص کشمیر کا باشندہ ہے۔ اور اس حیثیت میں ریاست میں جائیداد خریدنے یا دیگر شہری حقوق استعمال کرنے کا حقدار بھی ہو سکتا تھا۔ کشمیریوں کے خصوصی حقوق کے حوالے سے یہ شق اس قدر جامع تھی کہ اس کی موجودگی میں بھارتی حکومت آئین کے آرٹیکل 352 کے تحت ریاست میں ایمرجنسی نافذ کرنے کی بھی مجاز نہیں تھی۔ اس کے علاوہ لوک سبھا کشمیر کے بارے میں کسی قسم کی کوئی قانون سازی نہیں کرسکتی تھی۔ جبکہ وفاقی حکومت کو ریاستی اسمبلی کی مرضی کے بغیر کوئی انتظامی فیصلہ کرنے کا اختیار بھی نہیں تھا۔
حکومت کے مشورہ سے بھارت کے صدر رام ناتھ کووند نے البتہ 5 اگست 2019 کا نیا آئینی حکم نامہ جاری کیا ہے جس کے تحت 14 مئی 1954 کو جاریکیے گئے حکم نامہ کو منسوخ کرتے ہوئے کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کردیا گیا ہے۔ یہ حکم آئین کے آرٹیکل 370 کی شق 3 کے تحت جاری ہؤا ہے۔ اس حکم کے ذریعے کشمیر کے بارے میں ایک تو 14 مئی 1954 کے آئینی حکم نامہ کو منسوخ کرکے اس کی جگہ نیا حکم نامہ نافذالعمل کیا گیا ہے۔ نئے صدارتی حکم میں آرٹیکل 370 میں کشمیر کی خصوصی حیثیت اور کشمیری باشندوں کی مراعات و حقوق بارے میں شامل کی گئی شق کی 35 اے بھی ختم کی گئی ہے۔ اسی شق کے تحت کشمیر کو انڈین یونین میں نیم خود مختاری اور کشمیری شہریوں کو خصوصی مراعات حاصل تھیں۔ دوئم صدارتی فرمان کے مطابق بھارتی آئین کی تمام شقات اپنی تمام ترامیم کے ساتھ ریاست جموں و کشمیر پر بھی لاگو ہوں گی۔ کشمیر کو کسی قسم کا کوئی اختصاص حاصل نہیں ہوگا۔
وزیر داخلہ امیت شاہ نے راجیہ سبھا میں نئے صدارتی حکم کی تفصیلات بتاتے ہوئے کشمیر کے معاملات طے کرنے کے لئے جموں و کشمیر کی تنظیم نو کا بل مجریہ 2019 متعارف کروایا گیا ہے۔ اس نئے قانون کے تحت مقبوضہ ریاست کو دو وفاقی اکائیوں میں تقسیم کیا جائے گا۔ ایک یونین اکائی کو جموں و کشمیر کا نام دیا گیا ہے جبکہ دوسری وفاقی اکائی لداخ پر مشتمل ہوگی۔ نئے بل میں بتایا گیا ہے کہ جموں و کشمیر کی اسمبلی ہو گی جبکہ لداخ کے نام سے بنائی جانے والی نئی وفاقی اکائی کی اسمبلی نہیں ہوگی۔
ان دونوں اکائیوں کے تمام انتظامی اختیارات لیفٹیننٹ جنرل کو سونپے جائیں گے۔ بھارتی لوک سبھا کو چونکہ کبھی بھی کشمیر کے معاملات میں قانون سازی اور فیصلے کرنے کا اختیار حاصل نہیں رہا، اس لئے نریندر مودی سرکار نے آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت صدر کو حاصل اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے سابقہ حکم منسوخ کرکے ریاست پر وفاقی کنٹرول نافذ کرنے اور کشمیری شہریوں کی مراعات ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
تاہم یہ حکم مئی 1954 میں جاری ہونے والے حکم ہی کی اس شق کے خلاف ہے جس کے تحت اس حکم میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کشمیر کی دستور ساز اسمبلی کی مرضی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ تاہم بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی دستور ساز اسمبلی 1956 میں تحلیل کردی گئی تھی جس کے بعد سے یہ اختیارات وفاقی حکومت نے استعمالکیے ہیں۔ بہر حال چونکہ یہ اختیارات استعمال کرتے ہوئے آئینی حکم نامہ کے بنیادی ڈھانچہ میں رد و بدل کرنے کی کوشش نہیں کی گئی تھی، اس لئے اس معاملہ پر کوئی احتجاج بھی سامنے نہیں آیا تھا۔ تاہم اب متعدد ماہرین قانون یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا حکومت آئین کے آرٹیکل 368 کے تحت آئینی ترمیمکیے بغیر یک طرفہ طور سے 1954 کے صدارتی حکم کو منسوخ کرسکتی ہے؟
بھارتی حکومت اور وزیر داخلہ امیت شاہ کا کہنا ہے کہ حکم چونکہ پوری یونین پر نافذ نہیں ہوتا بلکہ صرف کشمیر کے معاملات سے متعلق ہے اس لئے صدر جمہوریہ کے حکم نامہ کے ذریعے سابقہ صدارتی حکم نامہ منسوخ کرتے ہوئے کشمیر کو بھارت کا عملی انتظامی یونٹ بنایا جاسکتا ہے۔ البتہ یہ معاملہ اس قدر پیچیدہ اور متنازعہ ہے کہ اس پر بھارت کی سپریم کورٹ کو حتمی رائے دینا پڑے گی۔ سپریم کورٹ کے سامنے کشمیر کی حیثیت کے حوالے سے پہلے بھی متعدد پیٹیشنز زیر غور ہیں۔
اس معاملہ کے آئینی اور قانونی پہلو سے قطع نظر سیاسی اور انتظامی لحاظ سے یہ معاملہ بھارتی حکومت کے لئے لوہے کے چنے چبانے کے مترادف ہوگا۔ بھارت ایک طرف راجہ ہری سنگھ کے ساتھ ہونے والے معاہدہ کے تحت کشمیر کی خصوصی حیثیت برقرار رکھنے کا پابند ہے تو دوسری طرف اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت وہ کشمیر کو متنازعہ اور تصفیہ طلب معاملہ تسلیم کرچکا ہے۔ حال ہی میں جب وزیر اعظم عمران خان کی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ملاقات کے دوران کشمیر کے بارے میں سوال کیا گیا تو امریکی صدر نے کہا تھا کہ نریندر مودی ان سے کشمیر کے مسئلہ پر ثالثی کی درخواست کرچکے ہیں۔ اگرچہ بھارتی حکومت نے اس تبصرے کی تردید کردی تھی لیکن بھارت کے وزیر خارجہ سبرا منیم جے شنکر نے ایک بیان میں کشمیر کو متنازعہ علاقہ تسلیم کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ معاملہ پاکستان اور بھارت کے درمیان اعلان لاہور اور معاہدہ شملہ کے تحت بات چیت کے ذریعے ہی حل ہو سکتا ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کی ہدایت پر کشمیر کے بارے میں بھارتی صدر کا حکم نہ صرف لاہور اعلامیہ اور معاہدہ شملہ کی خلاف ورزی ہے بلکہ ہر عالمی فورم پر بھارت کی طرف سے کروائی گئی یقین دہانی کے بھی برعکس ہے۔ اسی لئے پاکستان نے بھارتی فیصلہ پر شدید احتجاج کرتے ہوئے اسے ہر مناسب فورم پر اٹھانے کا اعلان کیا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر کی صورت حال جاننے کے لئے ایک تحقیقاتی کمیشن روانہ کریں۔
بھارتی حکومت بھی اس معاملہ کی حساسیت اور سنگینی سے باخبر ہے لیکن اس کا خیال ہے کہ وہ طاقت کے زور پر کشمیری عوام اور ان کے لیڈروں کی آواز دبا لے گی۔ لیکن اس کے خوف اور بدحواسی کا یہ عالم ہے کہ گزشتہ روز کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا حکم جاری کرنے سے پہلے مقبوضہ کشمیر میں سخت سیکورٹی انتظاماتکیے گئے تھے۔ سیاحوں اور زائرین کو فوری طور سے ریاست سے نکلنے کا حکم دینے کے علاوہ لائن آف کنٹرول پر دباؤ بڑھا کر پاکستان کے رد عمل کو محدود کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اس وقت مقبوضہ کشمیر پوری طرح سیکورٹی فورسز کے قبضہ میں ہے اور سب کشمیر لیڈروں کو گرفتار یا نظر بند کردیا گیا ہے۔
بی بی سی کے نمائندے عامر پیرزادہ نے سری نگر سے بتایا ہے کہ ’ہم صبح سو کر اٹھے تو انٹرنیٹ غائب تھا اور موبائل فون کام نہیں کررہے تھے۔ کسی کو کچھ علم نہیں کہ کیا ہورہا ہے۔ شہر کی تمام بڑی سڑکیں بند ہیں اور جس طرف بھی نگاہ اٹھائی جائے مسلح فوجی دستے تعینات ہیں۔ لوگ بدحواس اور پریشان ہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ کیا ہونے والا ہے۔ اس وقت کشمیر میں خوف کی فضا ہے‘ ۔
یہ خوف کشمیری عوام سے زیادہ نریندر مودی کی حکومت کو لاحق ہے جو وادی میں پانچ لاکھ فوجیوں کی موجودگی کے باوجود وہاں پر آزادی کی تحریک کو دبانے میں ناکام رہی تھی۔ اب نئی صورت حال سے نمٹنے کے لئے 35 ہزار تازہ دم دستے مقبوضہ کشمیر بھیجے گئے ہیں۔ لیکن حکومت تادیر عوام کو گھروں میں بند رکھنے اور احتجاج کو دبانے میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔ مقبوضہ کشمیر کے جو لیڈر اس سے پہلے خصوصی آئینی تحفظ کی وجہ سے بھارت کے ساتھ الحاق کے حامی رہے ہیں، وہ بھی اب اپنی غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے کشمیریوں کے خلافکیے گئے اقدامات کو مسترد کررہے ہیں۔ مودی سرکار نے بھلے کشمیریوں کی خصوصی مراعات اور حقوق ختم کردیے ہوں لیکن اس اقدام سے ڈیڑھ کروڑ کشمیر ی باشندے اب زیادہ قوت اور ایکتا سے بھارتی استبداد کے خلاف آواز بلند کریں گے۔
مقبوضہ کشمیر کا معاملہ اب عالمی مباحثے میں سر فہرست ہے کیوں کہ نئی دہلی کی کوئی بھی عاقبت نا اندیشی برصغیر کی دو جوہری قوتوں کے درمیان تصادم کا سبب بن سکتی ہے جو عالمی امن کے لئے براہ راست خطرہ ہوگا۔ مودی سرکار نے صدارتی حکم میں اپنی انتہاپسندانہ ذہنیت کا اظہار تو کیا ہے لیکن وہ اس چنگاری سے بھڑکنے والی آگ سے نمٹنے کی سکت نہیں رکھتی۔ شق 35 اے کے خاتمہ سے نئی دہلی حکومت نے کشمیر کی سرزمین پر ضرور تسلط حاصل کرنے کی کوشش کی ہے لیکن وادی میں آباد ڈیڑھ کروڑ کشمیریوں کے دل اب بھی آزادی اور خود مختاری کے لئے دھڑکتے ہیں۔ آزادی کے اس جذبہ کو کوئی حکم نامہ یا فوجی طاقت دبانے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔
06/08/2019 سید مجاہد علی
بھارت میں بی جے پی کی حکومت نے ایک صدارتی حکم کے ذریعے مقبوضہ کشمیر کے شہریوں کی وہ تمام آئینی مراعات ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جن کے تحت مقبوضہ کشمیر کو نیم خود مختار ریاست کی حیثیت حاصل تھی۔ بھارتی پارلیمنٹ اور حکومت کو ریاست کے بارے میں کسی قسم کی قانون سازی کرنے کا حق حاصل نہیں تھا۔ تاہم نریندر مودی حکومت کے اس اقدام کو کشمیری لیڈروں کے علاوہ بھارت کی اپوزیشن جماعتوں نے بھی مسترد کر دیا ہے ۔
کشمیر کے آخری مہاراجہ ہری سنگھ نے 1947 میں پاکستان کی طرف سے پشتون جتھوں کے حملہ سے پیدا ہونے والی صورت حال میں اکتوبر 1947 کو بھارت کے ساتھ الحاق کا معاہدہ کیا تھا۔ اس معاہدہ کے تحت خارجہ، خزانہ اور مواصلات کے علاوہ تمام اختیارات کشمیر اسمبلی کو حاصل رہے تھے اور بھارتی وفاق ان میں براہ راست مداخلت کرنے کا مجاز نہیں تھا۔ بعد میں مئی 1954 کو بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کی شق 3 کے تحت صدر جمہوریہ نے ایک آئینی حکم جاری کیا تھا جس میں راجہ ہری سنگھ کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کی تمام شقات کو آئین کا حصہ بنایا گیا تھا۔
اس صدارتی حکم نامہ میں آرٹیکل 370 میں شق 35 اے کا اضافہ بھی کیا گیا تھا جس کے تحت بھارت کے کسی شہری کو ریاستی حدود میں کوئی جائیداد خریدنے کا حق حاصل نہیں تھا۔ اس شق میں ریاست کی اسمبلی ہی یہ فیصلہ کرسکتی تھی کہ کون شخص کشمیر کا باشندہ ہے۔ اور اس حیثیت میں ریاست میں جائیداد خریدنے یا دیگر شہری حقوق استعمال کرنے کا حقدار بھی ہو سکتا تھا۔ کشمیریوں کے خصوصی حقوق کے حوالے سے یہ شق اس قدر جامع تھی کہ اس کی موجودگی میں بھارتی حکومت آئین کے آرٹیکل 352 کے تحت ریاست میں ایمرجنسی نافذ کرنے کی بھی مجاز نہیں تھی۔ اس کے علاوہ لوک سبھا کشمیر کے بارے میں کسی قسم کی کوئی قانون سازی نہیں کرسکتی تھی۔ جبکہ وفاقی حکومت کو ریاستی اسمبلی کی مرضی کے بغیر کوئی انتظامی فیصلہ کرنے کا اختیار بھی نہیں تھا۔
حکومت کے مشورہ سے بھارت کے صدر رام ناتھ کووند نے البتہ 5 اگست 2019 کا نیا آئینی حکم نامہ جاری کیا ہے جس کے تحت 14 مئی 1954 کو جاریکیے گئے حکم نامہ کو منسوخ کرتے ہوئے کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کردیا گیا ہے۔ یہ حکم آئین کے آرٹیکل 370 کی شق 3 کے تحت جاری ہؤا ہے۔ اس حکم کے ذریعے کشمیر کے بارے میں ایک تو 14 مئی 1954 کے آئینی حکم نامہ کو منسوخ کرکے اس کی جگہ نیا حکم نامہ نافذالعمل کیا گیا ہے۔ نئے صدارتی حکم میں آرٹیکل 370 میں کشمیر کی خصوصی حیثیت اور کشمیری باشندوں کی مراعات و حقوق بارے میں شامل کی گئی شق کی 35 اے بھی ختم کی گئی ہے۔ اسی شق کے تحت کشمیر کو انڈین یونین میں نیم خود مختاری اور کشمیری شہریوں کو خصوصی مراعات حاصل تھیں۔ دوئم صدارتی فرمان کے مطابق بھارتی آئین کی تمام شقات اپنی تمام ترامیم کے ساتھ ریاست جموں و کشمیر پر بھی لاگو ہوں گی۔ کشمیر کو کسی قسم کا کوئی اختصاص حاصل نہیں ہوگا۔
وزیر داخلہ امیت شاہ نے راجیہ سبھا میں نئے صدارتی حکم کی تفصیلات بتاتے ہوئے کشمیر کے معاملات طے کرنے کے لئے جموں و کشمیر کی تنظیم نو کا بل مجریہ 2019 متعارف کروایا گیا ہے۔ اس نئے قانون کے تحت مقبوضہ ریاست کو دو وفاقی اکائیوں میں تقسیم کیا جائے گا۔ ایک یونین اکائی کو جموں و کشمیر کا نام دیا گیا ہے جبکہ دوسری وفاقی اکائی لداخ پر مشتمل ہوگی۔ نئے بل میں بتایا گیا ہے کہ جموں و کشمیر کی اسمبلی ہو گی جبکہ لداخ کے نام سے بنائی جانے والی نئی وفاقی اکائی کی اسمبلی نہیں ہوگی۔
ان دونوں اکائیوں کے تمام انتظامی اختیارات لیفٹیننٹ جنرل کو سونپے جائیں گے۔ بھارتی لوک سبھا کو چونکہ کبھی بھی کشمیر کے معاملات میں قانون سازی اور فیصلے کرنے کا اختیار حاصل نہیں رہا، اس لئے نریندر مودی سرکار نے آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت صدر کو حاصل اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے سابقہ حکم منسوخ کرکے ریاست پر وفاقی کنٹرول نافذ کرنے اور کشمیری شہریوں کی مراعات ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
تاہم یہ حکم مئی 1954 میں جاری ہونے والے حکم ہی کی اس شق کے خلاف ہے جس کے تحت اس حکم میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کشمیر کی دستور ساز اسمبلی کی مرضی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ تاہم بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی دستور ساز اسمبلی 1956 میں تحلیل کردی گئی تھی جس کے بعد سے یہ اختیارات وفاقی حکومت نے استعمالکیے ہیں۔ بہر حال چونکہ یہ اختیارات استعمال کرتے ہوئے آئینی حکم نامہ کے بنیادی ڈھانچہ میں رد و بدل کرنے کی کوشش نہیں کی گئی تھی، اس لئے اس معاملہ پر کوئی احتجاج بھی سامنے نہیں آیا تھا۔ تاہم اب متعدد ماہرین قانون یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا حکومت آئین کے آرٹیکل 368 کے تحت آئینی ترمیمکیے بغیر یک طرفہ طور سے 1954 کے صدارتی حکم کو منسوخ کرسکتی ہے؟
بھارتی حکومت اور وزیر داخلہ امیت شاہ کا کہنا ہے کہ حکم چونکہ پوری یونین پر نافذ نہیں ہوتا بلکہ صرف کشمیر کے معاملات سے متعلق ہے اس لئے صدر جمہوریہ کے حکم نامہ کے ذریعے سابقہ صدارتی حکم نامہ منسوخ کرتے ہوئے کشمیر کو بھارت کا عملی انتظامی یونٹ بنایا جاسکتا ہے۔ البتہ یہ معاملہ اس قدر پیچیدہ اور متنازعہ ہے کہ اس پر بھارت کی سپریم کورٹ کو حتمی رائے دینا پڑے گی۔ سپریم کورٹ کے سامنے کشمیر کی حیثیت کے حوالے سے پہلے بھی متعدد پیٹیشنز زیر غور ہیں۔
اس معاملہ کے آئینی اور قانونی پہلو سے قطع نظر سیاسی اور انتظامی لحاظ سے یہ معاملہ بھارتی حکومت کے لئے لوہے کے چنے چبانے کے مترادف ہوگا۔ بھارت ایک طرف راجہ ہری سنگھ کے ساتھ ہونے والے معاہدہ کے تحت کشمیر کی خصوصی حیثیت برقرار رکھنے کا پابند ہے تو دوسری طرف اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت وہ کشمیر کو متنازعہ اور تصفیہ طلب معاملہ تسلیم کرچکا ہے۔ حال ہی میں جب وزیر اعظم عمران خان کی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ملاقات کے دوران کشمیر کے بارے میں سوال کیا گیا تو امریکی صدر نے کہا تھا کہ نریندر مودی ان سے کشمیر کے مسئلہ پر ثالثی کی درخواست کرچکے ہیں۔ اگرچہ بھارتی حکومت نے اس تبصرے کی تردید کردی تھی لیکن بھارت کے وزیر خارجہ سبرا منیم جے شنکر نے ایک بیان میں کشمیر کو متنازعہ علاقہ تسلیم کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ معاملہ پاکستان اور بھارت کے درمیان اعلان لاہور اور معاہدہ شملہ کے تحت بات چیت کے ذریعے ہی حل ہو سکتا ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کی ہدایت پر کشمیر کے بارے میں بھارتی صدر کا حکم نہ صرف لاہور اعلامیہ اور معاہدہ شملہ کی خلاف ورزی ہے بلکہ ہر عالمی فورم پر بھارت کی طرف سے کروائی گئی یقین دہانی کے بھی برعکس ہے۔ اسی لئے پاکستان نے بھارتی فیصلہ پر شدید احتجاج کرتے ہوئے اسے ہر مناسب فورم پر اٹھانے کا اعلان کیا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر کی صورت حال جاننے کے لئے ایک تحقیقاتی کمیشن روانہ کریں۔
بھارتی حکومت بھی اس معاملہ کی حساسیت اور سنگینی سے باخبر ہے لیکن اس کا خیال ہے کہ وہ طاقت کے زور پر کشمیری عوام اور ان کے لیڈروں کی آواز دبا لے گی۔ لیکن اس کے خوف اور بدحواسی کا یہ عالم ہے کہ گزشتہ روز کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا حکم جاری کرنے سے پہلے مقبوضہ کشمیر میں سخت سیکورٹی انتظاماتکیے گئے تھے۔ سیاحوں اور زائرین کو فوری طور سے ریاست سے نکلنے کا حکم دینے کے علاوہ لائن آف کنٹرول پر دباؤ بڑھا کر پاکستان کے رد عمل کو محدود کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اس وقت مقبوضہ کشمیر پوری طرح سیکورٹی فورسز کے قبضہ میں ہے اور سب کشمیر لیڈروں کو گرفتار یا نظر بند کردیا گیا ہے۔
بی بی سی کے نمائندے عامر پیرزادہ نے سری نگر سے بتایا ہے کہ ’ہم صبح سو کر اٹھے تو انٹرنیٹ غائب تھا اور موبائل فون کام نہیں کررہے تھے۔ کسی کو کچھ علم نہیں کہ کیا ہورہا ہے۔ شہر کی تمام بڑی سڑکیں بند ہیں اور جس طرف بھی نگاہ اٹھائی جائے مسلح فوجی دستے تعینات ہیں۔ لوگ بدحواس اور پریشان ہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ کیا ہونے والا ہے۔ اس وقت کشمیر میں خوف کی فضا ہے‘ ۔
یہ خوف کشمیری عوام سے زیادہ نریندر مودی کی حکومت کو لاحق ہے جو وادی میں پانچ لاکھ فوجیوں کی موجودگی کے باوجود وہاں پر آزادی کی تحریک کو دبانے میں ناکام رہی تھی۔ اب نئی صورت حال سے نمٹنے کے لئے 35 ہزار تازہ دم دستے مقبوضہ کشمیر بھیجے گئے ہیں۔ لیکن حکومت تادیر عوام کو گھروں میں بند رکھنے اور احتجاج کو دبانے میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔ مقبوضہ کشمیر کے جو لیڈر اس سے پہلے خصوصی آئینی تحفظ کی وجہ سے بھارت کے ساتھ الحاق کے حامی رہے ہیں، وہ بھی اب اپنی غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے کشمیریوں کے خلافکیے گئے اقدامات کو مسترد کررہے ہیں۔ مودی سرکار نے بھلے کشمیریوں کی خصوصی مراعات اور حقوق ختم کردیے ہوں لیکن اس اقدام سے ڈیڑھ کروڑ کشمیر ی باشندے اب زیادہ قوت اور ایکتا سے بھارتی استبداد کے خلاف آواز بلند کریں گے۔
مقبوضہ کشمیر کا معاملہ اب عالمی مباحثے میں سر فہرست ہے کیوں کہ نئی دہلی کی کوئی بھی عاقبت نا اندیشی برصغیر کی دو جوہری قوتوں کے درمیان تصادم کا سبب بن سکتی ہے جو عالمی امن کے لئے براہ راست خطرہ ہوگا۔ مودی سرکار نے صدارتی حکم میں اپنی انتہاپسندانہ ذہنیت کا اظہار تو کیا ہے لیکن وہ اس چنگاری سے بھڑکنے والی آگ سے نمٹنے کی سکت نہیں رکھتی۔ شق 35 اے کے خاتمہ سے نئی دہلی حکومت نے کشمیر کی سرزمین پر ضرور تسلط حاصل کرنے کی کوشش کی ہے لیکن وادی میں آباد ڈیڑھ کروڑ کشمیریوں کے دل اب بھی آزادی اور خود مختاری کے لئے دھڑکتے ہیں۔ آزادی کے اس جذبہ کو کوئی حکم نامہ یا فوجی طاقت دبانے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔