فرقان احمد
محفلین
چین تو ہمیں بھول بسر گیا تھا؛ یہ بھی تو اس قضیے کا ایک فریق ہے یا بن چکا ہے۔چین نے بھارت کےاس فیصلہ کو رد کیا ہے۔
China calls UT status for Ladakh ‘unacceptable’, triggers India’s sharp response
چین تو ہمیں بھول بسر گیا تھا؛ یہ بھی تو اس قضیے کا ایک فریق ہے یا بن چکا ہے۔چین نے بھارت کےاس فیصلہ کو رد کیا ہے۔
China calls UT status for Ladakh ‘unacceptable’, triggers India’s sharp response
کشمیر کا مسئلہ دوطرفہ ہے۔ عمران خان اپنی طرف سے بھارت کو مذاکرات کی میز پر لانے کی ہر ممکن کوشش کر چکے ہیں۔ اگر وہ نہیں آنا چاہتے تو یہ ان کا مسئلہ ہے۔ پاکستان کانہیں۔کشمیر کا مسئلہ کب حل کرنا ہے؟
پاکستان نے فاٹا کو 72 سال بعد اپنے صوبائی نظام میں ضم کیا ہے۔ یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ تھا۔ اس پر افغانستان نے شور مچایا لیکن ہمیں کچھ فرق پڑا؟سال تو آپ کی حکومت کو بھی ہو گیا ہے، جو شکوہ آپ کر رہے ہیں اسے اپنی گریبان میں بھی جھانک کر دیکھیں۔ آپ نے اقتدار میں آنے کے بعد سے اب تک کتنی سنجیدہ کوششیں کیں اس قانون کو ختم ہونے سے روکنے کی؟ نواز شریف کو کب تک مورد الزام ٹھہراتے رہیں گے؟ نواز شریف کی نا اہلی ثابت کرنے سے آپ کی اہلیت ثابت نہیں ہو جائے گی۔ ایک بار یاد دہانی ضروری ہے کہ اب آپ اقتدار میں ہیں، اپوزیشن میں نہیں!
یہ بہانے نہیں چلیں گے، جو الزام ماضی کی حکومتوں پہ لگاتے رہے ہیں وہ آپ کے لیے بھی اتنے ہی ویلڈ ہیں۔ لہذا اپنی قابلیت دکھائیں اور کشمیر کا مسئلہ حل کر کے دکھائیں۔کشمیر کا مسئلہ دوطرفہ ہے۔ عمران خان اپنی طرف سے بھارت کو مذاکرات کی میز پر لانے کی ہر ممکن کوشش کر چکے ہیں۔ اگر وہ نہیں آنا چاہتے تو یہ ان کا مسئلہ ہے۔ پاکستان کانہیں۔
او بھئی وہ نواز شریف کی نواسی کی شادی پر صرف کھانا کھانے آیا تھا ڈپلومیسی کرنے نہیں۔یہ مانیں نہ مانیں آپ کی مرضی ہے کہ یہ نواز شریف کی ڈپلومیسی کی جیت تھی کہ مودی خود ادھر آ گیا تھا، آپ کو تو وہ بالکل اہمیت نہیں دیتا!
یہی مسئلہ کشمیر کا واحد مستقل حل ہے۔ اور مشرف و واجپائی آگرہ سمٹ میں اس پر کافی حد تک رضامند بھی ہو چکے تھے۔ بس درمیان میں کچھ بھارتی مطالبات (داؤد ابراہیم کی واپسی) نہ آتے اور مشرف ان مطالبات پر عسکری اکڑ نہ دکھاتا تو یہ مسئلہ ماضی کا قصہ بن جاتا۔خوابوں اور خواہشات کو ایک طرف رکھ دیا جائے اور منطقی لحاظ سے، معروضی طور پر، جائزہ لیا جائے تو دونوں اقوام، یعنی کہ، پاکستان و ہندوستان، اپنے زیرِ قبضہ علاقوں کا ایک انچ تک چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ اس لیے، بعض صاحبانِ دانش نے ان ایٹمی قوتوں کو یہ یہی سجھایا تھا کہ کنٹرول لائن کو ہی بین الاقوامی سرحد تسلیم کر لیا جائے تو مناسب رہے گا۔ ہماری دانست میں، اس مسئلے کا یہ ایک 'آبرو مندانہ' حل ہے تاہم، شاید یہ حل، کشمیریوں کے لیے قابل قبول نہ ہو گا؛ گو کہ یہ حل ایسا ناپائیدار ہرگز نہ ہے۔ دونوں اطراف کے کشمیریوں کو اگر ویزے کے بغیر کشمیر میں جانے کی اجازت دے دی جائے تو شاید یہ حل قابل قبول بن جائے، مگر یہ بھی تو ایک خواب ہی ہے!
نواز واجپائی اور مشرف واجپائی میں جو مشترک بات ہے، وہ واجپائی اور امن کی خواہش ہے۔ واجپائی سے بہت کچھ لیا جا سکتا تھا۔ وہ ہندو انتہا پسندوں کا نمائندہ تھا، مگر بظاہر، امن کا پرچارک۔ اب ہمارے پاس نواز و مشرف کی جگہ خان صاحب ہیں اور واجپائی کی جگہ مودی نے سنبھال لی ہے۔ دیکھیے، یہ کیا رنگ دکھلاتے ہیں؟ خطے میں امن کی خواہش کوئی جرم نہیں ہے تاہم اسے جرم بنا دیا گیا ہے۔یہی مسئلہ کشمیر کا واحد مستقل حل ہے۔ اور مشرف و واجپائی آگرہ سمٹ میں اس پر کافی حد تک رضامند بھی ہو چکے تھے۔ بس درمیان میں کچھ بھارتی مطالبات (داؤد ابراہیم کی واپسی) نہ آتے اور مشرف ان مطالبات پر عسکری اکڑ نہ دکھاتا تو یہ مسئلہ ماضی کا قصہ بن جاتا۔
خیر واجپائی-نواز شریف یا واجپائی-مشرف امن کا واحد موقع نہیں جو گنوا دیا گیا۔ اس سے قبل تاشقند معاہدہ اور شملہ معاہدہ میں بھی یہی تاریخ دہرائی گئی تھی۔ بھارت کے ساتھ ان تاریخی معاہدوں میں کشمیر مسئلہ کو سنجیدگی سے حل کرنے کی کوئی کوشش ہی نہیں کی گئی۔ یاد رہے کہ اُس وقت دونوں اطراف دائیں بازو کے مذہبی جنونیوں کا سیاست میں کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ اگر اس وقت دونوں ممالک کی لبرل جماعتیں کشمیر پر کوئی امن معاہدہ نہ کر سکی تو آجکل کے جنونی ماحول میں کیا ہوگا؟نواز واجپائی اور مشرف واجپائی میں جو مشترک بات ہے، وہ واجپائی اور امن کی خواہش ہے۔ واجپائی سے بہت کچھ لیا جا سکتا تھا۔ وہ ہندو انتہا پسندوں کا نمائندہ تھا، مگر بظاہر، امن کا پرچارک۔ اب ہمارے پاس نواز و مشرف کی جگہ خان صاحب ہیں اور واجپائی کی جگہ مودی نے سنبھال لی ہے۔ دیکھیے، یہ کیا رنگ دکھلاتے ہیں؟ خطے میں امن کی خواہش کوئی جرم نہیں ہے تاہم اسے جرم بنا دیا گیا ہے۔
واجپائی کون تھا؟ ہندو انتہاپسندوں کا نمائندہ، تاہم امن کا پرچارک، کم از کم بظاہرتو یہی صورت تھی۔ اس کے مقابلے میں، جو بھی لیڈر شپ پہلے تھی، چاہے وہ جس قدر زیرک ہو، یا بعد میں آئی، وہ اس طور کشمیر کے مسئلے کو بوجوہ نہ سلجھا سکتی تھی ماسوائے نریندرا مودی کے، تاہم، وہ امن کا ہرگز پرچارک نہ ہے۔ اور ادھر، نواز شریف اور بعد ازاں، مشرف جو کہ اسٹیبلشمنٹ کا نمائندہ بھی تھا، یہ معاملہ نپٹا سکتا تھا۔ بہرصورت، دیکھتے ہیں، فی الوقت، امن کی بات کرنا کمزوری کی علامت ہے اور ہمیں ریٹنگز سے ہی لہو لہان کر دیا جائے گا، اس لیے چپ بھلی ہے صاحب!خیر واجپائی-نواز شریف یا واجپائی-مشرف امن کا واحد موقع نہیں جو گنوا دیا گیا۔ اس سے قبل تاشقند معاہدہ اور شملہ معاہدہ میں بھی یہی تاریخ دہرائی گئی تھی۔ بھارت کے ساتھ ان تاریخی معاہدوں میں کشمیر مسئلہ کو سنجیدگی سے حل کرنے کی کوئی کوشش ہی نہیں کی گئی۔ یاد رہے کہ اُس وقت دونوں اطراف دائیں بازو کے مذہبی جنونیوں کا سیاست میں کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ اگر اس وقت دونوں ممالک کی لبرل جماعتیں کشمیر پر کوئی امن معاہدہ نہ کر سکی تو آجکل کے جنونی ماحول میں کیا ہوگا؟
میں ایک بار یورپ کے دورہ پر تھا۔ جرمنی اور فرانس کی سرحد پر دونوں اطراف سے آئے لوگ ایک ریسٹورانٹ میں اکٹھے تناول فرما رہے تھے۔بہرصورت، دیکھتے ہیں، فی الوقت، امن کی بات کرنا کمزوری کی علامت ہے
غالباً کھانا تو مودی کو پورے بھارت میں ملنا بند ہو گیا جو اس نے نواز شریف کے گھر کی راہ لی۔
دیکھیں تعلقات ممالک کے درمیان ہوتے ہیں شخصیات کے مابین نہیں۔ اسرائیل اور امریکہ کی حکومتیں بدلتی رہتی ہیں۔ جس مرضی پارٹی کا وزیر اعظم یا صدر آجائے۔ دونوں ممالک کے تعلقات خراب نہیں ہوتے۔ یہ ایک بہترین دو طرفہ ڈوپلومیسی کی مثال ہے۔غالباً کھانا تو مودی کو پورے بھارت میں ملنا بند ہو گیا جو اس نے نواز شریف کے گھر کی راہ لی۔
بھائی یہی اطوار ہوتے ہیں ڈپلومیسی کے، ہمسایہ ممالک سے تعلقات ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے آپ اور آپ کے پڑوسی کے درمیان۔ ایک طرف آپ جرمنی اور فرانس کی ہمسائے گیری کی مثال دے رہے ہیں اور دوسری طرف اسی بات سے منحرف ہو رہے ہیں۔ کیا فرانسیسوں اور جرمنی والوں کو چائے اپنے ملک نہیں ملتی؟ بات محض کھانا کھانے یا چائے پینے کی نہیں ہے بلکہ بات تعلقات کی ہے۔ اگر تعلقات اچھے تھے تو وہ آیا تھا، آپ کا تو وہ فون ہی نہیں اٹھاتا۔ یہ تصاویر اور مودی کا شریک ہونا بہتر تعلقات کی گواہی دیتا ہے۔
اب بس یہ کہنا رہ گیا ہے کہ ورلڈ وار ون اور ٹو بھی نواز شریف کی وجہ سے ہوئی تھی۔ حد ہے بھئی شخصیت پرستی کی۔
ممالک شخصیات کے بغیر ہی چلتے ہوں گے۔ ارے بھئی، ان اہم شخصیات کے میل جول سے ریاستیں ایک دوسرے کے قریب آتی ہیں۔ میاں صاحب کا اپنا ایک طریقہ تھا۔ اسی طرح، وہ بہانے سے واجپائی کو بھی لے آئے تھے اور پہلی بار ایک انتہاپسند ہندو رہنما نے پاکستان کو دل سے تسلیم کرنے اور دیرینہ تنازعات کو حل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ تاہم، آپ کی اپنی مجبوریاں ہیں کہ آپ نے اپنی پارٹی کا کسی نہ کسی طور دفاع کرنا ہے۔ ہمیں معلوم ہے؛ سو لگے رہیے! بیچتے رہیے، انصافی منجن!دیکھیں تعلقات ممالک کے درمیان ہوتے ہیں شخصیات کے مابین نہیں۔ اسرائیل اور امریکہ کی حکومتیں بدلتی رہتی ہیں۔ چاہے جو مرضی وزیر اعظم یا صدر آجائے۔ دونوں ممالک کے تعلقات خراب نہیں ہوتے۔ یہ ایک بہترین ڈوپلومیسی کی مثال ہے۔
سٹیٹس کے درمیان تعلقات سٹیٹس ایکٹرز کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ اوبامہ اور ٹرمپ کی پالیسیز میں فرق واضح ہے۔ جیسے سٹیٹ ایکٹرز انٹرنیشنل ایرینا میں پرفارم کریں گے تعلقات اسی نسبت سے ہوں گے۔ سٹیٹس کے تعلقات سٹیٹ ایکٹرز سے مشروط ہوتے ہیں۔دیکھیں تعلقات ممالک کے درمیان ہوتے ہیں شخصیات کے مابین نہیں۔ اسرائیل اور امریکہ کی حکومتیں بدلتی رہتی ہیں۔ جس مرضی پارٹی کا وزیر اعظم یا صدر آجائے۔ دونوں ممالک کے تعلقات خراب نہیں ہوتے۔ یہ ایک بہترین دو طرفہ ڈوپلومیسی کی مثال ہے۔
دوسری طرف اگر مودی اور نواز شریف کی جندال بزنس ٹائیکون کی توسط سے ذاتی دوستی ہے تو اس کا ہم نے اچار ڈالنا ہے
واجپائی کا تو خیر ایٹمی دھماکوں کے بعد آنا بنتا تھا۔ اسوقت شدید عالمی دباؤ تھا کہ دونوں ممالک اب مل بیٹھ کر تنازعات کو حل کریں اور اپنے ایٹمی تنصیبات کم سے کم کرنے کی کوشش کریں۔ نیز بھارت و پاکستان پر اقتصادی پابندیاں بھی لگی ہوئی تھیں۔ممالک شخصیات کے بغیر ہی چلتے ہوں گے۔ ارے بھئی، ان اہم شخصیات کے میل جول سے ریاستیں ایک دوسرے کے قریب آتی ہیں۔ میاں صاحب کا اپنا ایک طریقہ تھا۔ اسی طرح، وہ بہانے سے واجپائی کو بھی لے آئے تھے اور پہلی بار ایک انتہاپسند ہندو رہنما نے پاکستان کو دل سے تسلیم کرنے اور دیرینہ تنازعات کو حل کرنے کا اعلان کیا تھا۔
اور، اس کے کچھ دیر بعد، آپ یہ سب کچھ بھلا چکے ہوں گے۔ ہم کہہ چکے ہیں کہ آپ کا اوتار آپ کے لیے مصیبت کا باعث بنتا جاتا ہے۔واجپائی کا تو خیر ایٹمی دھماکوں کے بعد آنا بنتا تھا۔ اسوقت شدید عالمی دباؤ تھا کہ دونوں ممالک اب مل بیٹھ کر اپنے تنازعات حل کریں اور اپنے ایٹمی تنصیبات کم سے کم کرنے کی کوشش کریں۔ نیز بھارت و پاکستان پر اقتصادی پابندیاں بھی لگی ہوئی تھیں۔
اگر مشرف کارگل کا محاذ نہ کھولتے تو کوئی بعید نہیں آج مسئلہ کشمیر حل ہو چکا ہوتا۔
اگر نواز شریف نے کوئی اچھا کام کیا ہے جیسے بجلی کے منصوبے، سڑکیں، پل بنانا۔ واجپائی سے امن مذاکرات کی کوشش کرنا تو اسے محض پارٹی بغض کی وجہ سے نہ سراہنا بھی "ناانصافی" ہو گیاور، اس کے کچھ دیر بعد، آپ یہ سب کچھ بھلا چکے ہوں گے۔ ہم کہہ چکے ہیں کہ آپ کا اوتار آپ کے لیے مصیبت کا باعث بنتا جاتا ہے۔
مہربانی ہے جناب کی، کوٹ لکھپت کی طرف رخ کر کے مراسلے کو ہوا میں اُچھال دیجیے۔اگر نواز شریف نے کوئی اچھا کام کیا ہے جیسے بجلی کے منصوبے، سڑکیں، پل بنانا، بھارت سے امن مذاکرات کی کوشش کرنا تو اس کو نہ سراہنا بھی "ناانصافی" ہو گی
ایک میان میں دو تلواریں نہیں رہ سکتی۔ اگر نواز شریف نے اپنے اچھے کاموں سے ملک و قوم کی خدمت کی ہے۔ تو اپنے برے کاموں سے اسے ناقابل تلافی نقصان بھی پہنچایا ہے:مہربانی ہے جناب کی، کوٹ لکھپت کی طرف رخ کر کے مراسلے کو ہوا میں اُچھال دیجیے۔