بھارت کا مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم، 2 حصوں میں تقسیم کرنے کا اعلان

جاسم محمد

محفلین
کتنی ہی باتیں بتائی جاسکتی ہیں۔ انہوں نے کہا میں نے ورلڈکپ جیتا، اس پر اب تک قائم ہیں۔ کہا یونیورسٹی بنائی اس پر قائم ہیں۔ کہا اسپتال بنایا اس پر قائم ہیں۔ اور تو اور یہ کہا کہ ان سب کو رلاؤں گا، اس پر تو جی جان سے قائم ہیں اور ہر روز ایک نئی شان سے قائم ہوتے ہیں۔ اب آپ نہ ماننا چاہیں تو جاسم صاحب بیچارے زبردستی تو نہیں منوا سکتے نا آپ سے۔:)
بقول شخصے بڑے لیڈر کی نشانی ہی یہ ہے کہ وہ اپنی اصل منزل تک پہنچنے کیلئے یوٹرن لیتا ہے :)
 

رانا

محفلین
بقول شخصے بڑے لیڈر کی نشانی ہی یہ ہے کہ وہ اپنی اصل منزل تک پہنچنے کیلئے یوٹرن لیتا ہے :)
اس سے اختلاف نہیں کہ سوچ سمجھ کر دیانتداری کے ساتھ ایک فیصلہ لیا جائے اور آنے والے حالات فیصلے کو غلط ثابت کریں تو رجوع کرلیا جائے۔ یہ واقعی اچھے لیڈر کی ایک عمدہ اور قابل ستائش خوبی ہے۔
لیکن پوری طرح غوروفکر کرنے کی زحمت ہی نہ کی جائے اور سطحی فیصلے لے کر پھر وقت انہیں غلط ثابت کرے اور ایسے واقعات بار بار ہوں تو دراصل وقت لیڈرشپ کی بصیرت پر سوال اٹھا رہا ہوتا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
کشمیر کا تشخص تبدیل کرنے کے بھارتی اقدام کی مخالفت کرتے ہیں، چینی وزیر خارجہ
ویب ڈیسک 18 منٹ پہلے
1775786-china-1565635120-353-640x480.jpg

بھارتی آئین میں تبدیلی اور کشمیر کا تشخص تبدیل کرنا علاقائی کشیدگی کی وجہ بنا ہے، چینی وزیر خارجہ وانگ ژی

بیجنگ: چینی وزیر خارجہ وانگ ژی کا کہنا ہے کہ کشمیر کا تشخص تبدیل کرنے کے بھارتی اقدام کی مخالفت کرتے ہیں۔

چینی وزیر خارجہ وانگ ژی نے بھارتی ہم منصب سے ملاقات کی جس میں ان کا کہنا تھا کہ پاک بھارت کشیدگی پر گہری نظررکھے ہوئے ہیں، چین صورتحال کو پیچیدہ بنانے والے یکطرفہ بھارتی اقدام کو تسلیم نہیں کرتا، پاکستان اور بھارت مسائل کا پرامن حل نکالیں جب کہ امید ہے بھارت خطے کے امن واستحکام کے لیے تعمیری کردارادا کرے گا۔

چینی وزیر خارجہ نے کہا کہ چین کو کشمیر کی صورتحال اور پاک بھارت کشیدگی پر شدید تشویش ہے، بھارت باہمی اعتماد کے لیے اقدامات کرے، بھارتی اقدام نے چین کی سالمیت اور مفادات کو نقصان پہنچایا، بھارتی آئین میں تبدیلی، کشمیر کا تشخص تبدیل کرنا علاقائی کشیدگی کی وجہ بنا ہے۔

چینی وزیر خارجہ وانگ ژی نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان سرحدی تحفظ، امن وسلامتی کے لیے معاہدہ موجود ہے، سرحدی علاقوں میں غیر ضروری مداخلت نہیں چاہتے جب کہ کشمیر کا تشخص تبدیل کرنے کے اقدام کی مخالفت کرتے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
مسئلہ کشمیر۔ نہ بساط نہ اختیار ۔ ناقابل اشاعت کالم
10/08/2019 عمار مسعود



اس بات کو تسلیم کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ کشمیر کے مسئلے کا پر امن تصفیہ ہی خطے میں ترقی کی ضمانت ہے۔ قریبا ستر برس سے یہ مسئلہ اس خطے کی سلامتی کے لئے آتش فشاں بنا ہوا ہے۔ اسی انسانی المیے کی وجہ سے دونوں نیوکلیئر پاورز ہر وقت جنگ کے دھانے پر کھڑی رہتی ہیں۔ اسی قضیے کی وجہ سے دونوں ممالک میں ترقی کی بہت سی راہیں مسدود ہو چکی ہیں۔ اسی تنازعے کی وجہ سے تعلیم صحت اور سماجی ترقی ان دوممالک میں مفقود ہے۔

دہائیوں اس قضیے میں الجھنے کے بعد بھی کسی ملک کے ہاتھ کچھ نہیں آیا۔ دونوں ممالک میں دفاعی اخراجات اس متوقع جنگ کے نام پر ہی بڑھائے جاتے ہیں۔ اگر اس تنازعے کا پرامن حل ہو جائے تو یہ نہ صرف اس خطے کے لئے بلکہ بین الا قوامی امن عامہ کے لئے نہایت سود مند ہو گا۔ اس سے خطے میں امن ہو گا، ترقی ہو گی اور سماجی بہبود پر خرچ کرنے کے لئے رقم بھی بچے گی۔ غربت کے مارے ان دو ممالک کو اس حوالے سے ہر ممکن کوشش کرنا ہو گی۔ لیکن اس ”حل میں کشمیریوں کی رائے کو اہمیت دینا ہو گی۔ ایسا حل جو مزید اختلافات کا باعث بنے وہ ان ممالک کی سلامتی کومخدوش کر دے گا۔ حل ایسا ہونا چاہیے کہ جس سے دونوں ممالک کے علاوہ کشمیریوں کی بھی حق تلفی نہ ہو۔

کشمیر پر بھارت کے حالیہ بہیمانہ اقدامات پر ہر پاکستانی شہری کو غم ہے۔ اس خاموشی پر بھی غم ہے جو ہماری طرف سے اختیار کی جا رہی ہے۔ سوال صرف اتنا ہے کہ اگر یہی ہونا تھا اور اسی حل کو ہم نے راضی بہ رضا تسلیم کر لینا تھا تو پھر اسے انیس سو اڑتالیس میں ہی تسلیم کر لینا چاہیے تھا۔ اگر یہی ہونا تھا تو اتنے برس پاکستانیوں کو کشمیر کی آزادی کی ترانے کیوں سنوائے تھے، کشمیر میں ماتم کرتی ہوئی عورتوں کے مناظر کیوں دکھائے تھے۔

جنازوں پر روتے ہو بزرگوں کیوں دکھائے گئے۔ نہتی بچیاں مسلح بھارتی فوجیوں پر پتھراؤ کرتی کیوں دکھائی گئِیں، کشمیر کو پاکستان کہ شہ رگ کیوں کہا گیا۔ کشمیر میں ہونے والی جنگ آزادی کے حوالے سے ہمارے سینے کیوں گرمائے گئے۔ یوم کشمیر کیوں اتنے جوش و خروش سے منایا گیا۔ اب جب کئی نسلوں کی وابستگی اس سرزمیں کشمیر سے ہو گئی ہے تو پھر انیس سو اڑتالیس والے حل پر کیوں اکتفا کر لیا گیا۔ یہ کام کئی دہائیوں پہلے کیوں نہیں کیا گیا۔ میرے وطن کی کئی نسلیں تعلیم سے کیوں محروم رہیں، کیوں انہیں صحت کی سہولیات نہیں ملیں، کیوں یہ ملک ترقی نہ کر سکا۔

قومی اسمبلی میں کشمیر کے موضوع پر دھواں دھار بحث ہوئی۔ لیڈر آف دی اپوزیشن جناب شہباز شریف نے حکومت وقت سے نہایت دردمندانہ لہجے میں تمام اختلافات بھال کر کشمیر کے مسئلے پر حکومت کو مکمل تعاون کا یقین دلایا۔ جواب میں وزیر اعظم کہاں پیچھے رہنے والے تھے انہوں نے اسی دبنگ لہجے میں کہا کہ مجھے تعاون نہیں تجاویز چاہئیں۔ کیا آپ چاہتے ہیں ہم بھارت کے خلاف جنگی محاذ کھول دیں؟ جنگ کا آغاز کر دیں؟

اسمبلی کی اس کارروائی کو دیکھ کر بچوں کا وہ کھیل یاد آگیا جس میں ایک بچے کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی جاتی اور اسے دوسروں کو پکڑنے پر مامور کیا جاتا ہے۔ اس دفعہ المیہ یہ ہے کہ دونوں بچوں کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہے اور دونوں نہ جانے کس کو پکڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دونوں کے ہاتھ میں کچھ نہیں آ رہا اور دونوں ہی ”پکڑ لیا، پکڑ لیا“ کا شور مچا رہے ہیں۔

اس لئے کہ اس فیصلے کو منسوخ یا منظور کرنے میں دونوں بے اختیار نہیں۔ بدقسمتی سے یہ منصب کبھی بھی سول قیادت کو نہیں سونپا گیا۔ ووٹ سے منتخب لوگوں کو کبھی اس کا اختیار نہیں دیا کہ وہ خارجہ پالیسی میں کوئی رائے دے سکیں۔ ہم نے کب ہتھیار ڈالنے ہیں، کب ہتھیار اٹھانے ہیں، کب کسی ملک کو اپنے صوبہ بنانے کا خواب دیکھنا ہے، کب چین کے ساتھ یاری لگانی ہے، کب ایران کے ساتھ اختلاف پیدا کرنا ہے، کب جہاد کے لئے چندے کی صندوقچیوں کو ملک کی ہر دکان کے باہر رکھنا ہے، کب اسی جہاد سے منکر ہو جانا ہے، کب بھارت کے وزیر اعظم کے ملک میں آنے کو غداری کہنا ہے اور کب مودی کو مسلسل کالیں کرنے کو خارجہ پالیسی کہنا ہے۔

کب ایران سے تعلقات کے بارے میں بات کرنے کوفرقہ واریت کہنا ہے اور کب عمران خان کے ایران سے متعلق بیان پر ان کے قصیدے گانے ہیں۔ کب کسی وزیر اعظم پر کشمیر کے بورڈ ہٹانے پرغداری کی تہمت لگانی ہے اور کب کشمیر پر بھارتی تسلط پر خا موش رہنا ہے۔ کب فلسطین کی آزادی کے لئے ملک بھر سے ڈنڈا بردار نوجوانوں کی ریلیاں نکالنی ہیں، کب یمن میں ہونے والے مظالم پر چپ سادھ لینی ہے۔ کب امریکہ کو صہیونی طاقت کہنا ہے اور کب ٹرمپ سے ملاقات کے لئے شہزادوں کی مدد حاصل کرنی ہے۔

کب مذہبی بنیادوں پر نکالے گئے جلوسوں میں موٹر سائیکلوں کو نذر آتش کرنا ہے کب پرامن مظاہرے کرنا ہے۔ کب دہشت گردی کے بین الا قوامی ملزمان کو سر آنکھوں پر بٹھانا ہے اور کب انہیں جیل کی ہوا لگوانی ہے۔ کب بھارت کے ساتھ تجارت کو ملک دشمنی کہنا ہے کب تجارتی معاہدوں کے لئے تعلقات کی پینگیں بڑھانا ہے۔ کب ڈان لیکس کے بہانے حکومتوں کو تختہ مشق بنانا ہے اور کب عمران خان کے امریکہ میں اسامہ بن لادن والے بیان پر چپ رہنا ہے۔

کب فاطمہ جناح کو غدار کہنا ہے اور کب مادر ملت کی یاد میں اعزازی ٹکٹ کا اجراء کرنا ہے۔ کب اکہتر کی جنگ کا ملبہ مجیب الرحمن پر ڈالنا ہے اور کب اسے بھٹو کی سازش کہنا ہے۔ کب بگڑتی معشیت کا ملبہ گذشتہ حکومتوں پر ڈالنا ہے اور کب اسی ابتر معشت کو ”نیا پاکستان“ کہنا ہے۔ کب مدرسوں پر چھاپے مارنے ہیں اور کب انہیں فنڈنگ مہیا کرنی ہے۔ کب آپریشن ضرب عضب شروع کرنا ہے اور کب آپریشن ضرب قلم کا آغاز کرنا ہے۔ کب نوجوانوں کو بد راہ کہنا ہے اور کب انہیں انٹرنی بنا کر گالی گلوچ سکھانا ہے۔

کب کس چینل کو محب وطن قرار دینا ہے اور کب کس چینل کو ملک دشمن قرار دینا ہے۔ کب صحافیوں کی تصویروں پر لال دائرے لگا کر انہیں اینٹی سٹیٹ قرار دینا ہے اور کب کس صحافی کو تمغہ حسن کارکردگی سے نوازنا ہے۔ کب کس پر کفر کا فتوی لگنا ہے اور کب کسی کے تعویذوں پر ایمان لانا ہے۔ کب کسی وزیر اعظم کو پھانسی پر لٹکانا ہے کب کسی وزیر اعظم کی کن پٹی پر پستول رکھ کر ملک بدر کرنا ہے، کب کس منتخب وزیر اعظم کے ہاتھ میں پکڑے جام والی تصویر کو وائرل کروانا ہے اور کب کسی ڈکٹیٹر کی کتوں کے ساتھ تصویر کھنچوا کر فرنٹ پیج پر لگوا کر ماڈریشن کا درس دینا ہے۔

کب نیب کے ذریعے انتقام لینا ہے اور کب اسی محکمے کے سربراہ کی ایک واہیات وڈیو سرعام لانی ہے۔ کب اخباروں کے دفتر جلانے ہیں، کب سارے ملک سے اخبار کی کاپیاں غائب کرنی ہیں اور کب انہیں اخباروں میں شہہ سرخیاں لگوا کر اپنے لئے رائے عامہ ہموار کرنی ہے۔

ان تمام فیصلوں میں سول حکومت کا کبھی کوئی اختیار نہیں رہا۔ یہ فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں۔ عمران خان اور شہباز شریف کی شعلہ بیانی اپنی جگہ مگر یہ معاملہ ان کی دسترس سے باہر ہے۔ اب جو کچھ ہو رہا اس میں بس اتنا سمجھ لیجیے کہ شہباز شریف اور عمران کی وہ حیثیت ہے جیسے دو بچے آنکھوں پر پٹی باندھے ایک دوسرے کو پکڑ رہے ہیں۔ نہ کسی کو کچھ سجھائی دے رہا ہے، نہ کسی کو کچھ دکھائی دے رہا ہے۔ نہ کسی کے پاس کوئی اختیار ہے نہ کسی کی کوئی بضاعت ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
پاکستان نے مقبوضہ کشمیر پر سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کی درخواست کردی
ویب ڈیسک ایک گھنٹہ پہلے
1776170-shahmehmood-1565717204-171-640x480.jpg

پاکستان نے بھارت کے غیر آئینی اقدام کے خلاف سلامتی کونسل کو خط لکھ دیا (فوٹو: فائل)

اسلام آباد: پاکستان نے بھارت کے کشمیر سے متعلق غیر آئینی اقدامات کے خلاف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے رجوع کرتے ہوئے ہنگامی اجلاس بلانے کی درخواست کردی۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے سلامتی کونسل کے صدر کو خط لکھا ہے جس میں انہوں نے مسئلہ کشمیر پر ہنگامی اجلاس بلانے کی درخواست کر دی۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس، نیشنل سیکیورٹی کمیٹی اور کابینہ نے مسئلہ کشمیر پر سلامتی کونسل جانے کا فیصلہ دیا ہے جب کہ معاملہ سلامتی کونسل لے جانے سے قبل چین سے مشاورت کے لیے دورہ کیا جس پر چینی حکام نے پاکستان کو اپنی مکمل حمایت کا یقین دلایا کیوں کہ چین سمجھتا ہے کہ بھارت کا حالیہ اقدام غیر آئینی، یک طرفہ اوراقوام متحدہ کی قراردادوں کے منافی ہے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہم نے آج سیکیورٹی کونسل کے صدر کو خط ارسال کر دیا ہے جو کہ اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے بھیجا ہے، ہم نے درخواست کی ہے کہ یہ خط فی الفور سیکیورٹی کونسل کے تمام اراکین تک پہنچایا جائے خط میں سیکیورٹی کونسل کا خصوصی اجلاس طلب کرنے اور بھارت کے غیر قانونی اقدامات کو زیر بحث لانے کی درخواست کی ہے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ بھارت کے ان اقدامات نے نہ صرف خطے بلکہ عالمی امن کو خطرے میں ڈالا ہے، طاقت کے ذریعے کشمیریوں کی حق خود ارادیت کی تحریک کو کچلنا خام خیالی ہے، یہ اقدام کشمیریوں کی فلاح و بہبود کے لیے ہے تو نو دنوں سے کرفیو کیوں مسلط ہے؟ کئی دہائیوں سے تعینات 7 لاکھ فوج کشمیریوں کو زیر نہیں کرسکی تو ایک لاکھ 80 ہزار کی نئی کمک بھی ناکام ٹھہرے گی۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہندوستان یہ سمجھتا ہے کہ وہ ان ہتھکنڈوں سے کشمیریوں کی آواز کو دبالے گا تو یہ اس کی غلط فہمی ہے اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ 35 اے کے خاتمے سے مسلمانوں کو اقلیت میں تبدیل کردے گا تو یہ اس کی بھول ہے کشمیری اس اقدام کو تسلیم کریں گے اور نہ پاکستان کو یہ قابلِ قبول ہیں، بھارت نے یہ اقدام اٹھا کر بہت بڑی حماقت کی ہے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ مجھے خدشہ ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں نئے قتل عام کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، تشویش یہ ہے کہ بھارت توجہ ہٹانے کے لیے پلوامہ طرز کی کوئی بھی حرکت کرسکتا ہے اس صورتحال کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے ہم نے سیکیورٹی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا ہے، ہم اپنے دفاع میں ہرحد تک جا سکتے ہیں اور 27 فروری کو اس کا عملی مظاہرہ ہوچکا ہے۔

شاہ محمود نے کہا کہ کل وزیر اعظم عمران خان مظفر آباد میں پاکستان کا موقف آزاد کشمیر کے منتخب نمائندوں کے سامنے رکھیں گے اور کل پورے پاکستان میں کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی ہوگا جب کہ 15 اگست کو تاریخ کو یوم سیاہ ہو گا اور دنیا دیکھے گی کہ ہر دار الخلافہ میں ان اقدامات کے خلاف آواز بلند ہو گی، شاہ محمود نے کہا کہ کشمیریوں کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ آپ تنہا نہیں ہیں ہم آپ کے ساتھ ہیں۔
 
پاکستان نے مقبوضہ کشمیر پر سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کی درخواست کردی
ویب ڈیسک ایک گھنٹہ پہلے
1776170-shahmehmood-1565717204-171-640x480.jpg

پاکستان نے بھارت کے غیر آئینی اقدام کے خلاف سلامتی کونسل کو خط لکھ دیا (فوٹو: فائل)

اسلام آباد: پاکستان نے بھارت کے کشمیر سے متعلق غیر آئینی اقدامات کے خلاف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے رجوع کرتے ہوئے ہنگامی اجلاس بلانے کی درخواست کردی۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے سلامتی کونسل کے صدر کو خط لکھا ہے جس میں انہوں نے مسئلہ کشمیر پر ہنگامی اجلاس بلانے کی درخواست کر دی۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس، نیشنل سیکیورٹی کمیٹی اور کابینہ نے مسئلہ کشمیر پر سلامتی کونسل جانے کا فیصلہ دیا ہے جب کہ معاملہ سلامتی کونسل لے جانے سے قبل چین سے مشاورت کے لیے دورہ کیا جس پر چینی حکام نے پاکستان کو اپنی مکمل حمایت کا یقین دلایا کیوں کہ چین سمجھتا ہے کہ بھارت کا حالیہ اقدام غیر آئینی، یک طرفہ اوراقوام متحدہ کی قراردادوں کے منافی ہے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہم نے آج سیکیورٹی کونسل کے صدر کو خط ارسال کر دیا ہے جو کہ اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے بھیجا ہے، ہم نے درخواست کی ہے کہ یہ خط فی الفور سیکیورٹی کونسل کے تمام اراکین تک پہنچایا جائے خط میں سیکیورٹی کونسل کا خصوصی اجلاس طلب کرنے اور بھارت کے غیر قانونی اقدامات کو زیر بحث لانے کی درخواست کی ہے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ بھارت کے ان اقدامات نے نہ صرف خطے بلکہ عالمی امن کو خطرے میں ڈالا ہے، طاقت کے ذریعے کشمیریوں کی حق خود ارادیت کی تحریک کو کچلنا خام خیالی ہے، یہ اقدام کشمیریوں کی فلاح و بہبود کے لیے ہے تو نو دنوں سے کرفیو کیوں مسلط ہے؟ کئی دہائیوں سے تعینات 7 لاکھ فوج کشمیریوں کو زیر نہیں کرسکی تو ایک لاکھ 80 ہزار کی نئی کمک بھی ناکام ٹھہرے گی۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہندوستان یہ سمجھتا ہے کہ وہ ان ہتھکنڈوں سے کشمیریوں کی آواز کو دبالے گا تو یہ اس کی غلط فہمی ہے اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ 35 اے کے خاتمے سے مسلمانوں کو اقلیت میں تبدیل کردے گا تو یہ اس کی بھول ہے کشمیری اس اقدام کو تسلیم کریں گے اور نہ پاکستان کو یہ قابلِ قبول ہیں، بھارت نے یہ اقدام اٹھا کر بہت بڑی حماقت کی ہے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ مجھے خدشہ ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں نئے قتل عام کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، تشویش یہ ہے کہ بھارت توجہ ہٹانے کے لیے پلوامہ طرز کی کوئی بھی حرکت کرسکتا ہے اس صورتحال کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے ہم نے سیکیورٹی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا ہے، ہم اپنے دفاع میں ہرحد تک جا سکتے ہیں اور 27 فروری کو اس کا عملی مظاہرہ ہوچکا ہے۔

شاہ محمود نے کہا کہ کل وزیر اعظم عمران خان مظفر آباد میں پاکستان کا موقف آزاد کشمیر کے منتخب نمائندوں کے سامنے رکھیں گے اور کل پورے پاکستان میں کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی ہوگا جب کہ 15 اگست کو تاریخ کو یوم سیاہ ہو گا اور دنیا دیکھے گی کہ ہر دار الخلافہ میں ان اقدامات کے خلاف آواز بلند ہو گی، شاہ محمود نے کہا کہ کشمیریوں کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ آپ تنہا نہیں ہیں ہم آپ کے ساتھ ہیں۔

پاکستان کی گزشتہ فوجی حکومتوں کے دور میں ہمیشہ امریکہ سے تعلقات بہت بہتر ہوئے ہیں

  • ایوب خان کے دور میں پاکستان سیٹو اور سینٹو کا ممبر بنا، امریکہ کو بڈھ بیر اڈا دیا، نتیجے کے طور پر خوشحالی کے دس سال کا جشن منایا گیا
  • ضیاء الحق کے دور میں امریکہ کے لیے افغانستان سے جنگ لڑی گئی اور وہاں سے روسی فوج کو نکال باہر کیا گیا۔ جنگ فیڈ کے نام سے بے خوب ڈالر آئے
  • پرویز مشرف کے دور میں پاکستان طالبان کے خلاف امریکہ کا اتحادی بنا اور ان کی حکومت کا خاتمہ کیا۔ ڈالروں کی بہار نظر آئی
موجودہ حکومت کے آتے ہی امریکہ سے تعلقات میں ایک مرتبہ پھر گرمجوشی آچکی ہے۔ ہوسکتا ہے اس بار ایجنڈے میں کشمیر شامل ہو۔

وزیرِ اعظم صاحب صدرِ امریکہ کی دعوت پر امریکہ پہنچے اور پاکستان کے لیے امداد بحال کروانے میں کامیاب ہوئے۔ اسی دوران ہندوستان نے مبینہ طور پر امریکہ اور دیگر دوسرے حلیفوں کو اپنے عزائم کے بارے میں مطلع کیا۔ صدر ٹرمپ نے اس کی بھنک بھی وزیرِ اعظم پاکستان کو پڑنے نہیں دی بلکہ بھانڈا پھوڑنے پر اس کی تردید بھی کی۔ ظاہر ہے اس کے علاؤہ اور کیا کہتے!

کیا کہیں سے اشارے دیئے جارہے ہیں کہ آرٹیکل 370 سے متعلق بات نہ کی جائے؟ قرینِ قیاس تو نہیں البتہ واللہ اعلم!

حکومت نے ہندوستان کے اس اقدام کے احتجاج کے طور پر بلائے گئے قومی اسمبلی کے اجلاس میں جو قرارداد پیش کی اس میں آرٹیکل 370 کا تذکرہ نہیں تھا۔

آج بھی بقول شاہ محمود قریشی وزیرِ خارجہ پاکستان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے سربراہ کے نام جو خط لکھا گیا ہے اس میں آرٹیکل 35 اے پر تو احتجاج کیا گیا ہے لیکن آرٹیکل 370 کا کوئی تذکرہ نہیں۔ اللہ ہی جانے کیا اسرار ہے!
بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 اور 35 اے ختم کرتے ہوئے ریاست کو 2 حصوں میں تقسیم کرنے کا اعلان کردیا۔

بھارت کے آئین کی دفعہ 370 کے تحت ریاست جموں کشمیر کو وفاق میں ایک خصوصی حیثیت حاصل ہے۔ مقبوضہ کشمیر کو اپنا آئین بنانے کی اجازت ہے اور متعدد معاملات میں بھارتی وفاقی آئین کا نفاذ جموں کشمیر میں منع ہے

آرٹیکل 370 کو ختم کرنا مودی کے 2014 الیکشن منشور کا بھی حصہ تھا۔ البتہ تب وہ اس بل پر واضح اکثریت لینے میں ناکام ہوئے تھے

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہندوستان یہ سمجھتا ہے کہ وہ ان ہتھکنڈوں سے کشمیریوں کی آواز کو دبالے گا تو یہ اس کی غلط فہمی ہے اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ 35 اے کے خاتمے سے مسلمانوں کو اقلیت میں تبدیل کردے گا تو یہ اس کی بھول ہے
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
کیا کہیں سے اشارے دیئے جارہے ہیں کہ آرٹیکل 370 سے متعلق بات نہ کی جائے؟ قرینِ قیاس تو نہیں البتہ واللہ اعلم!
حکومت نے ہندوستان کے اس اقدام کے احتجاج کے طور پر بلائے گئے قومی اسمبلی کے اجلاس میں جو قرارداد پیش کی اس میں آرٹیکل 370 کا تذکرہ نہیں تھا۔
آج بھی بقول شاہ محمود قریشی وزیرِ خارجہ پاکستان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے سربراہ کے نام جو خط لکھا گیا ہے اس میں آرٹیکل 35 اے پر تو احتجاج کیا گیا ہے لیکن آرٹیکل 370 کا کوئی تذکرہ نہیں۔ اللہ ہی جانے کیا اسرار ہے!
آرٹیکل370 کا ذکر نہ کرنا، فارن آفس کے بابوؤں کی "غلطی" ہی سمجھیے خلیل صاحب۔ کیوں کہ یہ آرٹیکل مہاراجہ کے الحاق کا نتیجہ تھا جب کہ پاکستان اس الحاق کو مانتا ہی نہیں۔فرض کیجیے، پاکستانیوں کی اپنی ہی سڑکوں پر احتجاج اور سوشل میڈیا پر احتجاجی جگتوں اور خان صاحب کی "بے مثال سفارت" کے بعد انڈین گورنمنٹ آرٹیکل 370 کو دوبارہ بحال کر دیتی ہے تو کیا پاکستان الحاق کو تسلیم کر لے گا؟

جب کہ دوسری طرف آرٹیکل 35 اے، کشمیر کی شہریت اور وہاں جائداد خریدنے کے متعلق ہے۔ اس پر شور ڈالنے سے ہر دو صورتوں میں پاکستان کی پوزیشن پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔
 
آخری تدوین:
آرٹیکل370 کا ذکر نہ کرنا، فارن آفس کے بابوؤں کی "غلطی" ہی سمجھیے خلیل صاحب۔ کیوں کہ یہ آرٹیکل مہاراجہ کے الحاق کا نتیجہ تھا جب کہ پاکستان اس الحاق کو مانتا ہی نہیں۔فرض کیجیے، پاکستانیوں کی اپنی ہی سڑکوں پر احتجاج اور سوشل میڈیا پر احتجاجی جگتوں اور خان صاحب کی "بے مثال سفارت" کے بعد انڈین گورنمنٹ آرٹیکل 370 کو دوبارہ بحال کر دیتی ہے تو کیا پاکستان الحاق کو تسلیم کر لے گا؟

جب کہ دوسری طرف آرٹیکل 35 اے، کشمیر کی شہریت اور وہاں جائداد خریدنے کے متعلق ہے۔ اس پر شور ڈالنے سے ہر دو صورتوں میں پاکستان کی پوزیشن پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔
جزاک اللہ جناب۔ واقعی یہی اسرار ہے اس کا کہ وزارتِ خارجہ کے بابؤوں نے جان کر اس شق کا تذکرہ نہیں کیا۔ قومی اسمبلی کی قرارداد بھی چونکہ خارجہ امور سے متعلق تھی لہٰذا فارن آفس ہی میں ڈرافٹ کیا گیا ہوگا۔
 

آصف اثر

معطل
آرٹیکل370 کا ذکر نہ کرنا، فارن آفس کے بابوؤں کی "غلطی" ہی سمجھیے خلیل صاحب۔ کیوں کہ یہ آرٹیکل مہاراجہ کے الحاق کا نتیجہ تھا جب کہ پاکستان اس الحاق کو مانتا ہی نہیں۔
جب اس آرٹیکل کا پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں، تو پھر یہ غلطی کیسے ہوئی؟
 
جب اس آرٹیکل کا پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں، تو پھر یہ غلطی کیسے ہوئی؟
پوائینٹ یہ ہے کہ پاکستان پہلے ہی اس الحاق کو نہیں مانتا جبکہ اب ہندوستان حکومت نے اسے الحاق کا تذکرہ ہٹاکر باقاعدہ علاقے میں شامل کیا ہے ادھر پاکستان ان دونوں صورتوں کو تسلیم نہیں کرتا۔
 

جاسم محمد

محفلین
تحریک آزادی کشمیر
اعزاز احمد کیانی بدھ 14 اگست 2019
1774242-tehreekazadikashmir-1565440272-233-640x480.jpg

کشمیر میں تحریک آزادی کی داغ بیل 1930 کی دہائی کے اوائل میں رکھی جاچکی تھی۔ (فوٹو: فائل)

کشمیر کے متعلق اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ کشمیر میں تحریک آزادی نوے کی دہائی میں شروع ہوئی۔ جبکہ کچھ دیگر لوگوں کا خیال ہے کہ یہ تحریک آزادی قیام پاکستان اور تقسیم برصغیر کے بعد شروع ہوئی۔ یہ دونوں آرا بنیادی طور پر اور تاریخی تناظر میں درست نہیں۔

کشمیر میں تحریک آزادی کی داغ بیل 1930 کی دہائی کے بالکل اوائل میں رکھی جاچکی تھی۔ کشمیر میں جماعت سازی کی بنیاد ریڈنگ روم سے رکھی گئی تھی۔ نام ہی سے ہویدا ہے کہ یہ کس قسم کی تنظیم ہوگی اور اس کے اغراض و مقاصد کیا ہوئے ہوں گے۔

ریڈنگ روم کا قیام اس وقت کے انتہائی اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں نے عمل میں لایا تھا، جس کا مرکزی دفتر مقبوضہ کشمیر میں تھا۔ ان نوجوانوں میں ایک نام شیخ محمد عبداللہ کا تھا، جو بعد ازاں شہرت کی بلندیوں کو پہنچا۔ شیخ محمد عبداللہ اس وقت پورے کشمیر میں پہلا نوجوان تھا جس کے پاس کیمیات میں ماسٹرز کی سند تھی۔ ان کے دیگر رفیق بھی اس سطح کے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان تھے۔ نیشنل کانفرنس اور مسلم کانفرنس وغیرہ جیسی مشہور و بڑی سیاسی جماعتیں اس کے بعد وجود میں آئیں۔

کشمیر کی تاریخ کے تمام تاریخی اور الم ناک واقعات مقبوضہ کشمیر میں ہی رونما ہوئے۔ عیدین پر مسلمانوں کےلیے پانی کی بندش، توہین قرآن کے واقعات اسی دور میں رونما ہوئے۔

جولائی کا واقعہ جو ہر سال کشمیر کے دونوں حصوں میں یوم شہدا کے نام سے منایا جاتا ہے، بھی اسی عہد میں اور اسی قطعے میں وقوع پذیر ہوا، جس میں ہزاروں کے مجمعے پر سرعام گولیاں برسائی گئیں۔ پریس کی بندش، رہنماؤں کی نظربندی اور گرفتاریاں بھی اسی عہد اور اسی خطے میں ہوئیں۔ کشمیر اور کشمیریوں کے حقوق کے تعین کی صدائیں بھی انہی زبانوں سے بلند ہوئیں۔ کشمیریوں کے حقوق کی خاطر علامہ اقبال کے تعاون سے کمیشن اسی خطے میں بنایا گیا۔ الغرض قیام پاکستان سے پہلے ہی تحریک آزادی کشمیر پوری آب و تاب سے جاری تھی۔ اور یہ تمام جدوجہد کشمیر کے پُرامن لوگوں کی تحریک تھی۔

کشمیر اور تحریک آزادی کشمیر کی تمام عہد ساز اور مشہور شخصیات اسی وادی میں پیدا ہوئیں اور تمام جماعتیں اصلاً وہیں قیام میں آئیں۔

تقسیم کے وقت برصغیر کی سیکڑوں ریاستوں کا فیصلہ ہونا تھا، جن میں ریاست کشمیر بھی شامل تھی۔ کشمیر ایک کثیرالمسلم ریاست تھی، جس نے خودمختار رہنے کا فیصلہ کیا۔ مگر بعد ازاں پنڈت جواہر لعل نہرو، جو بعد ازاں کشمیر کے وزیراعظم بھی رہے، کے کہنے پر مہاراجہ ہری سنگھ نے ہندوستان سے الحاق کا اعلان کیا اور ہندوستان کی فوجیں کشمیر میں اتار دی گئیں۔ جواباً پاکستانی فوجیں بھی مقابل اتریں اور 1949 تک جنگ جاری رہی۔ مسئلہ اقوام متحدہ میں گیا اور کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی قراردادتیں منظور ہوئیں۔ اس عہد تک کسی طور اور کسی ادنیٰ درجے میں بھی کسی مسلح جدوجہد کا آغاز نہیں ہوا تھا۔

قیام پاکستان کے بعد بھی تحریک آزادی جاری رہی، یہاں تک کہ قریباً نوے کی دہائی میں مسلح جدوجہد کا آغاز کیا گیا۔ تحریک کے آغاز کے تقریباً ساٹھ سال یعنی نصف صدی گزرنے کے بھی ایک دہائی بعد یہ جدوجہد شروع کی گئی۔ یہ جدوجہد دراصل ہندو افواج کے مقابل تھی۔ یہاں کچھ دوسرے عناصر پر البتہ بحث کی جاسکتی ہے۔ اس دوران ہندوستان کی جانب سے کشمیریوں پر ہر وہ ظلم کیا گیا، جو کیا جاسکتا تھا۔ یہاں تک نہتے مظاہرین پر پیلٹ و پاوا تک کا استعمال کیا گیا۔

نصف صدی کے طویل انتظار و جدوجہد کے بعد افواج سے براہِ راست تصادم کو کسی طور ناقابل قبول نہیں کہا جاسکتا۔ یہ انسانی صبر کی آخری حد ہے، جس کے بعد شاید مزید صبر فطرت انسانی میں ہی نہیں ہے۔ یہ تحریکوں کا عام مزاج ہے کہ طویل جدوجہد کے بعد وہ کچھ عملی اقدام ضرور اٹھاتی ہیں، جو ناگزیر ہوجاتے ہیں۔ ہندوستانی افواج کے خلاف یہ مسلح جدوجہد تحریک آزادی کے فطری ارتقا کا نتیجہ تھا۔

ہندوستان کا حالیہ اقدام سراسر ظلم ہے۔ آخر کوئی کس طرح ہندوستان کے اس اقدام کی حمایت کرسکتا ہے کہ لاکھوں کی آبادی کو یک جنبش قلم، تمام ملکی و بین الاقوامی قوانین، و جمہوری اصول، عالمی قراردادوں اور لاکھوں زندہ انسانوں کی آرا کو بالکل بالائے طاق رکھتے ہوئے، ابدی طور پر اپنے ساتھ ملا لیا جائے۔ یہ اقدام نہ صرف اہل کشمیر کےلیے یوم سیاہ ہے، بلکہ خود دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت پر بھی سوالیہ نشان ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
بھارت نے آزاد کشمیر کی طرف آنکھ اٹھا کردیکھا تو اینٹ کا جواب پتھر سے دیں گے، وزیراعظم
ویب ڈیسک بدھ 14 اگست 2019
1776746-imrankhanspeechphotoafp-1565796792-907-640x480.jpg

مودی نے اپنا آخری کارڈ کھیل دیا یہ کارڈ مودی کو بہت بھاری پڑے گا، وزیراعظم ۔ فوٹو : اے ایف پی

اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ میں کشمیر کا سفیر بن کر اس مسئلہ کو دنیا میں مزید اجاگر کروں گا۔

آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی کے خصوصی اجلاس سے خطاب وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی آزادی کے دن میں اور مشکل ترین وقت میں کشمیری بھائیوں کے ساتھ ہوں، ہماری ہندوستان کے ساتھ مفادات کی کشمکش نہیں، ہندوستان کے خلاف ہم ایک نظریے کے ساتھ کھڑے ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ ہمارے سامنے آر ایس ایس کے بڑی خوفناک آئیڈیالوجی ہے، آر ایس ایس کی آئیڈیالوجی ہٹلر کی پالیسی سے متاثر ہیں اور اسی آئیڈیالوجی نے مہاتما گاندھی کو قتل کیاجب کہ اس سوچ کے پیچھے مسلمانوں کے خلاف نفرت ہے، آر ایس ایس والے سمجھتے ہیں مسلمان 6 سو سال حکومت نہ کرتے تو یہ عظیم قوم ہوتے اور یہ سمجھتے ہیں مسلمانوں نے ان پر حکومت کی اب بدلہ لینا ہے تاہم میں نے نریندر مودی کی اصل شکل کو میں نے دنیا کے سامنے رکھا۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ملک کا نظریہ ختم ہونے سے ملک بنانا ری پبلک بن جاتا ہے، مودی نے اپنا آخری کارڈ کھیل دیا یہ کارڈ مودی کو بہت بھاری پڑے گا اور جب مقبوضہ وادی سے کرفیو اٹھے گا تو پھر ہمیں جو پتہ چلے گا، اس کا بڑا خوف ہے۔ جب کہ جولوگ دو قومی نظریہ کے خلاف تھے، آج کہتے ہیں قائداعظم ٹھیک کہتے تھے۔

وزیراعظم نے کہا کہ بھارت نے اپنے اقدام سے نظر ہٹانے کیلیے آزادکشمیر میں ایکشن کا پروگرام بنا رکھا ہے لیکن پاکستانی فوج کو پتا ہے کہ بھارت نے آزاد کشمیر میں ایکشن لینے کا پروگرام بنایا ہوا ہے، نریندر مودی ہم تیار ہیں، جو آپ کریں گے ہم آخر تک جائیں گے، پاکستانی فوج تیار ہے، قوم تیار ہے، قوم فوج کے شانہ بشانہ لڑے گی، آزادی کے لیے جنگ میں شہداء کا مرتبہ پیغمبروں کے بعد ہوتا ہے۔

عمران خان نے کہا کہ نہرو کے کشمیریوں سے کیےگئے وعدے نظر انداز کردیے گئے، مودی نے اقوام متحدہ کی قرار دادیں ایک طرف پھینک دی ہیں، یہ لوگ سپریم کورٹ اور کشمیر کے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف گئے تاہم مودی کے آخری کارڈ کے بعد کشمیراب آذادی کی طرف جائے گا جب کہ ہم دنیا کو بار بار پیغام دے رہے ہیں اگر جنگ ہوئی تو دنیا ذمہ دار ہوگی۔
 

جاسم محمد

محفلین
کاغذ کا ٹکڑا 1947 میں کشمیر کی حیثیت تبدیل نہ کرسکا اور نہ اب کرسکے گا، آرمی چیف
ویب ڈیسک بدھ 14 اگست 2019
1776795-qamarbajwaxxx-1565780332-523-640x480.png

کشمیر پر کسی قسم کے سمجھوتے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، آرمی چیف۔ فوٹو:ٖفائل

راولپنڈی: آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا ہے کہ نہ ہی 1947 میں کاغذ کا ٹکڑا کشمیر کی حیثیت تبدیل کر سکا اور نہ ہی موجودہ غیر قانونی اقدام اس کی حیثیت تبدیل کر سکتا ہے۔

یومِ پاکستان اور یومِ یکجہتی کشمیر پر اپنے بیان میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا تھا کہ نہ ہی 1947 میں کاغذ کا ٹکڑا کشمیر کی حیثیت تبدیل کر سکا اور نہ ہی موجودہ غیر قانونی اقدام یا مستقبل میں کوئی اس کی حیثیت تبدیل کر سکتا ہے، پاکستان ہمیشہ بھارت کے غاصبانہ عزائم کے خلاف کشمیریوں کے ساتھ کھڑا رہا ہے اور کھڑا رہے گا۔


جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ کشمیر پر کسی قِسم کے سمجھوتے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، ہم کشمیریوں پر بھارت کے جبر کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑے ہیں، چاہے اس کی ہمیں کوئی بھی قیمت ادا کر نی پڑے، پاکستان آرمی کو جموں و کشمیر کے تقدس کا بھرپور اَدراک ہے اور کشمیر کاز کے لیے اپنی قومی ذمہ داری کو نبھانے کے لئے مکمل تیار ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب
ویب ڈیسک جمعرات 15 اگست 2019
1777235-unobuilding-1565841855-874-640x480.jpg

اجلاس میں جموں کشمیر کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا جائے گا، فوٹوفائل

نیویارک: مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس کل صبح 10 بجے طلب کرلیا گیا۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق سفارتی سطح پر پاکستان کو اہم کامیابی حاصل ہوگئی، 50 سال میں پہلی بار جموں کشمیر کا مسئلہ سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر آگیا۔ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس کل طلب کیا گیا ہے۔

اجلاس کل صبح 10 بجے ہوگا جس میں جموں کشمیر کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیاجائے گا۔ اجلاس وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی جانب سے تحریری خط کے بعد بلایا گیا ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ روزاسلامی تعاون کی تنظیم او آئی سی نے بھی مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر سخت اظہار تشویش کرتے ہوئے عالمی برادری سے نوٹس لینے کا مطالبہ کیا تھا اور اس بات پر زور دیاتھا کہ اقوام متحدہ ودیگر ادارے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اپنا کردارادا کریں۔
---
عمران خان نے کے پی کے میں کیا کر لیا؟
 

جاسم محمد

محفلین
5 دہائیوں بعد سلامتی کونسل کا مسئلہ کشمیر پراجلاس بلانا سفارتی فتح ہے،فردوس عاشق
ویب ڈیسک جمعرات 15 اگست 2019
1777472-firdous-1565847812-568-640x480.jpg

مہذب دنیا مودی کے غیر قانونی اور یکطرفہ اقدام کانوٹس لے رہی ہے، فردوس عاشق اعوان فوٹو: فائل

اسلام آباد / پشاور: معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ 5 دہائیوں بعد سلامتی کونسل کا مسئلہ کشمیر پراجلاس بلانا ہماری سفارتی فتح ہے۔

پشاور میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ ہندستان نے سیکولر ریاست ہونے کا دعوی کیا تھا، بھارت میں بسنے والی اقلیتیں آج شرمندہ ہیں، مودی سرکار نے ثابت کیا اقلیتوں کیلئے ان کے ملک میں کوئی جگہ نہیں، مودی نے خطے میں تھانیدار بننے کے عزائم کی نشاندہی کی ہے، مودی نے مقبوضہ کشمیر میں کربلا کی یاد تازہ کر دی ہے، مقبوضہ کشمیر میں ہرگھر کے باہر ہندو فوجی کھڑا ہے۔

معاون خصوصی نے کہا کہ قائد اعظم نے دو قومی نظریے کی بنیاد پر پاکستان بنایا، پاکستان بنانے کا مقصد سامراجی اور استحصالی نظام کا خاتمہ تھا، وزیر اعظم عمران خان قائداعظم کے سپاہی ہیں، انہوں نے ثابت کر دیا کہ کشمیر کی آزادی تک ہماری خوشیاں ادھوری ہیں اور 14 اگست کو اپنی آزادی کشمیریوں کی آزادی سے جوڑ دی، وزیراعظم نے کنٹرول لائن پر کھڑے ہو کر کہا کہ مودی کو اینٹ کا جواب پتھر سے دیں گے۔

فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے کشمیر کا مسئلہ سلامتی کونسل میں لے جانے کا اعلان کیا تو ان کا مذاق اڑایا گیا، 5 دہائیوں بعد کشمیر پر سلامتی کونسل کا اجلاس ہونے جا رہا ہے، وزیراعظم مظلوم کشمیریوں کا مقدمہ لڑنے کی تیاری کر رہے ہیں، عمران خان نے مسئلہ کشمیر پر عالمی برادری کو جھنجھوڑا ہے، روس نے پہلی بار ہندستان کے بجائے ایک تحریک کی حمایت کی ہے۔

اپنی ٹوئٹ میں فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ تنازعہ کشمیر پر سلامتی کونسل کا اجلاس بھارت کے اس دعوے پر کاری ضرب ہے کہ کشمیر ان کا اندرونی معاملہ ہے۔ 5 دہائیوں بعد سلامتی کونسل کا تنازعہ کشمیر پر اجلاس بلانا ہماری سفارتی فتح ہے۔ روس نے بھی پاکستان کے مطالبے کی تائید کی۔ مہذب دنیا مودی کے غیر قانونی اور یکطرفہ اقدام کا نوٹس لے رہی ہے۔

معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ ہٹلر نے ایک نسل کو جس طرح اپنے ظلم اور بربریت کی بھینٹ چڑھایا، خاکم بدہن مودی اسی طرح کشمیریوں کی نسل کشی کرنا چاہتا ہے۔ مودی اپنے سیاہ اقدام سے ان عزائم کی تکمیل چاہتا ہے جس کا آغاز اس نے گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام سے کیا۔ پاکستان وزیر اعظم عمران خان کی قیادت میں ہر فورم پر مظلوم کشمیریوں کی وکالت کرے گا تاکہ بھارت کو مجبور کیا جاسکے کہ تنازعہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل ہوسکے۔
 

عثمان

محفلین
کیا کشمیری ریاست ہندوستان میں رہتے ہوئے اپنے بہتر مستقبل کے لیے غور نہیں کرتے؟
جہاں دیگر کروڑوں مسلمان اس ملک میں بس سکتے ہیں وہاں کشمیریوں کے لیے بھی جگہ ہوسکتی ہے۔
 
Top