مسئلہ کشمیر۔ نہ بساط نہ اختیار ۔ ناقابل اشاعت کالم
10/08/2019 عمار مسعود
اس بات کو تسلیم کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ کشمیر کے مسئلے کا پر امن تصفیہ ہی خطے میں ترقی کی ضمانت ہے۔ قریبا ستر برس سے یہ مسئلہ اس خطے کی سلامتی کے لئے آتش فشاں بنا ہوا ہے۔ اسی انسانی المیے کی وجہ سے دونوں نیوکلیئر پاورز ہر وقت جنگ کے دھانے پر کھڑی رہتی ہیں۔ اسی قضیے کی وجہ سے دونوں ممالک میں ترقی کی بہت سی راہیں مسدود ہو چکی ہیں۔ اسی تنازعے کی وجہ سے تعلیم صحت اور سماجی ترقی ان دوممالک میں مفقود ہے۔
دہائیوں اس قضیے میں الجھنے کے بعد بھی کسی ملک کے ہاتھ کچھ نہیں آیا۔ دونوں ممالک میں دفاعی اخراجات اس متوقع جنگ کے نام پر ہی بڑھائے جاتے ہیں۔ اگر اس تنازعے کا پرامن حل ہو جائے تو یہ نہ صرف اس خطے کے لئے بلکہ بین الا قوامی امن عامہ کے لئے نہایت سود مند ہو گا۔ اس سے خطے میں امن ہو گا، ترقی ہو گی اور سماجی بہبود پر خرچ کرنے کے لئے رقم بھی بچے گی۔ غربت کے مارے ان دو ممالک کو اس حوالے سے ہر ممکن کوشش کرنا ہو گی۔ لیکن اس ”حل میں کشمیریوں کی رائے کو اہمیت دینا ہو گی۔ ایسا حل جو مزید اختلافات کا باعث بنے وہ ان ممالک کی سلامتی کومخدوش کر دے گا۔ حل ایسا ہونا چاہیے کہ جس سے دونوں ممالک کے علاوہ کشمیریوں کی بھی حق تلفی نہ ہو۔
کشمیر پر بھارت کے حالیہ بہیمانہ اقدامات پر ہر پاکستانی شہری کو غم ہے۔ اس خاموشی پر بھی غم ہے جو ہماری طرف سے اختیار کی جا رہی ہے۔ سوال صرف اتنا ہے کہ اگر یہی ہونا تھا اور اسی حل کو ہم نے راضی بہ رضا تسلیم کر لینا تھا تو پھر اسے انیس سو اڑتالیس میں ہی تسلیم کر لینا چاہیے تھا۔ اگر یہی ہونا تھا تو اتنے برس پاکستانیوں کو کشمیر کی آزادی کی ترانے کیوں سنوائے تھے، کشمیر میں ماتم کرتی ہوئی عورتوں کے مناظر کیوں دکھائے تھے۔
جنازوں پر روتے ہو بزرگوں کیوں دکھائے گئے۔ نہتی بچیاں مسلح بھارتی فوجیوں پر پتھراؤ کرتی کیوں دکھائی گئِیں، کشمیر کو پاکستان کہ شہ رگ کیوں کہا گیا۔ کشمیر میں ہونے والی جنگ آزادی کے حوالے سے ہمارے سینے کیوں گرمائے گئے۔ یوم کشمیر کیوں اتنے جوش و خروش سے منایا گیا۔ اب جب کئی نسلوں کی وابستگی اس سرزمیں کشمیر سے ہو گئی ہے تو پھر انیس سو اڑتالیس والے حل پر کیوں اکتفا کر لیا گیا۔ یہ کام کئی دہائیوں پہلے کیوں نہیں کیا گیا۔ میرے وطن کی کئی نسلیں تعلیم سے کیوں محروم رہیں، کیوں انہیں صحت کی سہولیات نہیں ملیں، کیوں یہ ملک ترقی نہ کر سکا۔
قومی اسمبلی میں کشمیر کے موضوع پر دھواں دھار بحث ہوئی۔ لیڈر آف دی اپوزیشن جناب شہباز شریف نے حکومت وقت سے نہایت دردمندانہ لہجے میں تمام اختلافات بھال کر کشمیر کے مسئلے پر حکومت کو مکمل تعاون کا یقین دلایا۔ جواب میں وزیر اعظم کہاں پیچھے رہنے والے تھے انہوں نے اسی دبنگ لہجے میں کہا کہ مجھے تعاون نہیں تجاویز چاہئیں۔ کیا آپ چاہتے ہیں ہم بھارت کے خلاف جنگی محاذ کھول دیں؟ جنگ کا آغاز کر دیں؟
اسمبلی کی اس کارروائی کو دیکھ کر بچوں کا وہ کھیل یاد آگیا جس میں ایک بچے کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی جاتی اور اسے دوسروں کو پکڑنے پر مامور کیا جاتا ہے۔ اس دفعہ المیہ یہ ہے کہ دونوں بچوں کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہے اور دونوں نہ جانے کس کو پکڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دونوں کے ہاتھ میں کچھ نہیں آ رہا اور دونوں ہی ”پکڑ لیا، پکڑ لیا“ کا شور مچا رہے ہیں۔
اس لئے کہ اس فیصلے کو منسوخ یا منظور کرنے میں دونوں بے اختیار نہیں۔ بدقسمتی سے یہ منصب کبھی بھی سول قیادت کو نہیں سونپا گیا۔ ووٹ سے منتخب لوگوں کو کبھی اس کا اختیار نہیں دیا کہ وہ خارجہ پالیسی میں کوئی رائے دے سکیں۔ ہم نے کب ہتھیار ڈالنے ہیں، کب ہتھیار اٹھانے ہیں، کب کسی ملک کو اپنے صوبہ بنانے کا خواب دیکھنا ہے، کب چین کے ساتھ یاری لگانی ہے، کب ایران کے ساتھ اختلاف پیدا کرنا ہے، کب جہاد کے لئے چندے کی صندوقچیوں کو ملک کی ہر دکان کے باہر رکھنا ہے، کب اسی جہاد سے منکر ہو جانا ہے، کب بھارت کے وزیر اعظم کے ملک میں آنے کو غداری کہنا ہے اور کب مودی کو مسلسل کالیں کرنے کو خارجہ پالیسی کہنا ہے۔
کب ایران سے تعلقات کے بارے میں بات کرنے کوفرقہ واریت کہنا ہے اور کب عمران خان کے ایران سے متعلق بیان پر ان کے قصیدے گانے ہیں۔ کب کسی وزیر اعظم پر کشمیر کے بورڈ ہٹانے پرغداری کی تہمت لگانی ہے اور کب کشمیر پر بھارتی تسلط پر خا موش رہنا ہے۔ کب فلسطین کی آزادی کے لئے ملک بھر سے ڈنڈا بردار نوجوانوں کی ریلیاں نکالنی ہیں، کب یمن میں ہونے والے مظالم پر چپ سادھ لینی ہے۔ کب امریکہ کو صہیونی طاقت کہنا ہے اور کب ٹرمپ سے ملاقات کے لئے شہزادوں کی مدد حاصل کرنی ہے۔
کب مذہبی بنیادوں پر نکالے گئے جلوسوں میں موٹر سائیکلوں کو نذر آتش کرنا ہے کب پرامن مظاہرے کرنا ہے۔ کب دہشت گردی کے بین الا قوامی ملزمان کو سر آنکھوں پر بٹھانا ہے اور کب انہیں جیل کی ہوا لگوانی ہے۔ کب بھارت کے ساتھ تجارت کو ملک دشمنی کہنا ہے کب تجارتی معاہدوں کے لئے تعلقات کی پینگیں بڑھانا ہے۔ کب ڈان لیکس کے بہانے حکومتوں کو تختہ مشق بنانا ہے اور کب عمران خان کے امریکہ میں اسامہ بن لادن والے بیان پر چپ رہنا ہے۔
کب فاطمہ جناح کو غدار کہنا ہے اور کب مادر ملت کی یاد میں اعزازی ٹکٹ کا اجراء کرنا ہے۔ کب اکہتر کی جنگ کا ملبہ مجیب الرحمن پر ڈالنا ہے اور کب اسے بھٹو کی سازش کہنا ہے۔ کب بگڑتی معشیت کا ملبہ گذشتہ حکومتوں پر ڈالنا ہے اور کب اسی ابتر معشت کو ”نیا پاکستان“ کہنا ہے۔ کب مدرسوں پر چھاپے مارنے ہیں اور کب انہیں فنڈنگ مہیا کرنی ہے۔ کب آپریشن ضرب عضب شروع کرنا ہے اور کب آپریشن ضرب قلم کا آغاز کرنا ہے۔ کب نوجوانوں کو بد راہ کہنا ہے اور کب انہیں انٹرنی بنا کر گالی گلوچ سکھانا ہے۔
کب کس چینل کو محب وطن قرار دینا ہے اور کب کس چینل کو ملک دشمن قرار دینا ہے۔ کب صحافیوں کی تصویروں پر لال دائرے لگا کر انہیں اینٹی سٹیٹ قرار دینا ہے اور کب کس صحافی کو تمغہ حسن کارکردگی سے نوازنا ہے۔ کب کس پر کفر کا فتوی لگنا ہے اور کب کسی کے تعویذوں پر ایمان لانا ہے۔ کب کسی وزیر اعظم کو پھانسی پر لٹکانا ہے کب کسی وزیر اعظم کی کن پٹی پر پستول رکھ کر ملک بدر کرنا ہے، کب کس منتخب وزیر اعظم کے ہاتھ میں پکڑے جام والی تصویر کو وائرل کروانا ہے اور کب کسی ڈکٹیٹر کی کتوں کے ساتھ تصویر کھنچوا کر فرنٹ پیج پر لگوا کر ماڈریشن کا درس دینا ہے۔
کب نیب کے ذریعے انتقام لینا ہے اور کب اسی محکمے کے سربراہ کی ایک واہیات وڈیو سرعام لانی ہے۔ کب اخباروں کے دفتر جلانے ہیں، کب سارے ملک سے اخبار کی کاپیاں غائب کرنی ہیں اور کب انہیں اخباروں میں شہہ سرخیاں لگوا کر اپنے لئے رائے عامہ ہموار کرنی ہے۔
ان تمام فیصلوں میں سول حکومت کا کبھی کوئی اختیار نہیں رہا۔ یہ فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں۔ عمران خان اور شہباز شریف کی شعلہ بیانی اپنی جگہ مگر یہ معاملہ ان کی دسترس سے باہر ہے۔ اب جو کچھ ہو رہا اس میں بس اتنا سمجھ لیجیے کہ شہباز شریف اور عمران کی وہ حیثیت ہے جیسے دو بچے آنکھوں پر پٹی باندھے ایک دوسرے کو پکڑ رہے ہیں۔ نہ کسی کو کچھ سجھائی دے رہا ہے، نہ کسی کو کچھ دکھائی دے رہا ہے۔ نہ کسی کے پاس کوئی اختیار ہے نہ کسی کی کوئی بضاعت ہے۔