بھارت کا مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم، 2 حصوں میں تقسیم کرنے کا اعلان

جاسم محمد

محفلین
کشمیر آور؛ پاکستانی قوم کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کیلئے سڑکوں پر نکل آئی
ویب ڈیسک جمع۔ء 30 اگست 2019
1793377-kashmirhour-1567151323-302-640x480.jpg

پاکستانی قوم کا کشمیری عوام کے لیے ہر قربانی دینے کے عزم کا اظہار فوٹو:ٹوئٹر

اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان کے اعلان پر مظلوم کشمیری عوام سے اظہار یکجہتی کے لیے پاکستانی قوم گھروں سے باہر نکل آئی اور دن 12 سے ساڑھے 12 بجے تک ’’کشمیر آور ‘‘ منایا۔

kashmir5-1567157686.jpg


’’کشمیر آور‘‘ کی مرکزی تقریب شاہراہ دستور پر ہوئی جس میں وزیراعظم عمران خان نے ارکان پارلیمنٹ کیساتھ شرکت کی۔ وزیراعظم نے پارلیمنٹ ہاؤس کے لان میں طلبا اور نوجوانوں سے خطاب بھی کیا۔

kashmir4-1567157677.jpg


ملک بھر میں دوپہر کے 12 بجتے ہی پوری پاکستانی قوم سڑکوں پر نکل آئی۔ سائرن بجائے گئے اور تمام بڑی شاہراہوں پر ٹریفک سگنل سرخ ہوگئے، گاڑیاں جہاں تھیں وہیں رک گئیں، قومی ترانے کے ساتھ کشمیر کا ترانہ پڑھا گیا۔ لوگوں نے ریلیاں نکالیں، جلسے جلوس و احتجاجی مظاہرے ہوئے اور کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کیا گیا۔

kashmir3-1567157673.jpg


ٹیچرز اور طلبہ بھی اسکولوں سے باہر نکل آئے اور کشمیری عوام کے لیے ہر قربانی دینے کا عزم کیا۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے پتلے جلائے گئے، کشمیر کی آزادی کے لیے دعائیں کی گئیں اور بھارت کے خلاف نعرے لگائے گئے۔

kashmir2-1567157669.jpg


ملک بھر کے تمام ایئرپورٹس پر آپریشنل معاملات آدھے گھنٹے کیلیے جزوی طور پر معطل کیے گئے۔

kashmir10-1567158026.jpg


ایئر پورٹس پر قائم دفاتر، ایوی ایشن ڈویژن ، پی آئی اے اور سول ایوی ایشن اتھارٹی کے مرکزی اور ریجنل دفاتر میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے جبکہ آدھے گھنٹے کے لیے ٹرینیں بھی روکی گئیں۔

kashmir1-1567157667.jpg


سرکاری پروگرام کے مطابق ملک بھر کے تمام اضلاع میں مخصوص مقامات پر احتجاج کیا گیا۔ وفاقی وزرا اور تحریک انصاف کے قائدین بھی ڈی چوک میں جمع ہوئے۔ وزیراعظم کی ہدایت پر عوامی نمائندے اپنے حلقوں میں احتجاج کی قیادت کر رہے ہیں جس میں سول سوسائٹی اور طلبا نے بھی شرکت کی۔

kashmir6-1567158018.jpg


پنجاب حکومت نے بھی وزیراعظم عمران خان کے کشمیریوں سے مکمل اظہار یکجہتی کرنے کے اعلان کی مکمل حمایت کرتے ہوئے اس بابت ’’کشمیر موبلائیزیشن کمپین‘‘ چلائی۔

kashmir7-1567158021.jpg


وزیر اعلیٰ سردارعثمان بزدار بھی وزراء، اراکین اسمبلی اور افسران سمیت سی ایم سیکریٹریٹ سے باہر نکلے۔ کمشنر، ڈپٹی کمشنرز، اسسٹنٹ کمشنرز، پولیس افسران اپنے دفاتر کے باہر اسی ٹائم پر باہر سڑکوں پر جمع ہوئے۔

kashmir8-1567158023.jpg


ان تمام ایونٹس کی ہیلی کاپٹرز اور ڈرون کیمروں سے کوریج کی گئی۔ سوشل میڈیا پر کشمیر سے متعلق ہیش ٹیگز نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں ٹاپ ٹرینڈ بن گئے۔

kashmir9-1567158024.jpg
 

جاسم محمد

محفلین
مقبوضہ کشمیر میں ایک ماہ کے دوران 16 کشمیری شہید، پابندیاں بدستور برقرار
ویب ڈیسک اتوار 1 ستمبر 2019
1795840-kashmirsituation-1567330048-316-640x480.jpg

مقبوضہ کشمیر میں 5 اگست سے تاحال کرفیو نافذ ہے۔ فوٹو : فائل

سری نگر: مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد سے قابض بھارتی فوج کی جارحیت میں ایک خاتون اور ایک کم سن لڑکے سمیت 16 نوجوان شہید ہوئے۔

کشمیر میڈیا سروس کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں 5 اگست سے کرفیو نافذ ہونے کے باوجود سرچ آپریشن اور بلاجواز پکڑ دھکڑ کے دوران قابض بھارتی فوج کی فائرنگ سے 16 کشمیری شہید ہوئے جن میں ایک خاتون اور ایک کم سن لڑکا بھی شامل ہے۔

مودی سرکار نے بھارتی آئین میں کشمیریوں کو خصوصی حیثیت کا درجہ دینے والے آرٹیکلز 370 اور 35-اے کو منسوخ کر کے کشمیر کو جغرافیائی طور پر تقسیم کردیا اور اپنے غیر آئینی اقدام پر عمل درآمد کے لیے طاقت کا بے دریغ استعمال کر رہی ہے۔

قابض بھارتی فوج نے تما تر اخلاقی حدوں کو پار کرتے ہوئے 14 خواتین کے بے حرمتی کی اور جھوٹے الزامات عائد کرکے 31 عمارتوں کو مکمل طور پر تباہ کر دیا جب کہ شہید اور زخمی ہونے والوں کو میڈیکل سرٹیفکیٹ نہیں دیئے جارہے تاکہ دنیا کے سامنے یہ مظالم آشکار نہ ہوسکیں۔

مودی حکومت نے دنیا کے سامنے اپنا مکروہ چہرہ چھپانے کے لیے مواصلاتی نظام منقطع کر رکھا ہے جب کہ ذرائع آمدورفت معطل اور کاروباری سرگرمیاں بند ہیں، لوگ گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں پوری وادی قید خانے میں تبدیل ہوگئی ہے۔

تمام تر غیر قانونی پابندیوں کے باوجود بہادر کشمیری اپنے حق کے حصول کے لیے سڑکوں پر نکل آئے، قابض بھارتی فورس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پیلٹ گنز کا بے دریخ استعمال کیا جس کے نتیجے میں 467 افراد زخمی ہوگئے۔

اقوام متحدہ سمیت عالمی قوتوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے جارحیت پسند مودی سرکار نے کسی بھی ممکنہ احتجاجی تحریک سے بچنے کے لیے حریت پسند رہنماؤں سمیت 11 ہزار 135 کارکنان کو حراست میں لے رکھا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
وارننگ
حامد میر

کیا کشمیر کا مسئلہ مذاکرات کے ذریعہ حل ہو سکتا ہے؟ کشمیر پر جنگیں بھی ہو چکی ہیں اور کئی دفعہ مذاکرات بھی، لیکن یہ مسئلہ حل نہ ہو سکا۔ آج ایک دفعہ پھر پوری دنیا بھارت اور پاکستان پر زور دے رہی ہے کہ مسئلہ کشمیر کو مذاکرات کے ذریعہ حل کیا جائے۔ پاکستان تو مذاکرات پر آمادہ ہے لیکن بھارت کا وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ بڑے تکبر کیساتھ اعلان کر رہا ہے کہ ہاں مذاکرات ہونگے لیکن آزاد کشمیر پر ہونگے۔ آج کے دور میں عالمی تنازعات کو حل کرنے کا بہترین راستہ مذاکرات کو سمجھا جاتا ہے لیکن دوحہ میں سپر پاور امریکہ اور افغان طالبان کے مابین ہونیوالے مذاکرات نے دنیا بھر کی محکوم اقوام کو یہ سبق دیا ہے کہ مذاکرات اُسی وقت آگے بڑھتے ہیں جب کمزور کے ہاتھ میں بھی بندوق ہو اور وہ مرنے مارنے پر اتر آئے۔ امریکہ اور اس کے حواری کئی سال تک طالبان کو دہشت گرد قرار دیتے رہے اور آج ان دہشت گردوں کیساتھ مذاکرات کے نو رائونڈ مکمل کئے جا چکے ہیں۔ مسئلہ کشمیر کا بھی افغانستان کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے اور اگر ہم تاریخ پر نظر ڈالیں تو پتا چلتا ہے کہ افغانیوں اور برطانوی فوج کی پہلی لڑائی میں راجہ گلاب سنگھ نے برطانیہ کی مدد کی۔ پھر جب سکھوں اور برطانوی فوج کی 1845ء میں لڑائی ہوئی تو راجہ گلاب سنگھ نے سکھوں کے ساتھ غداری کی اور اسکے انعام میں اگلے ہی سال برطانوی گورنر جنرل ہیری ہارڈنگز نے معاہدۂ امرتسر کے ذریعہ ریاست جموں و کشمیر محض 75لاکھ نانک شاہی سکوں کے عوض گلاب سنگھ کو فروخت کر دی۔ گلاب سنگھ نے سرینگر پر قبضے کیلئے جموں سے فوج بھیجی تو شدید مزاحمت ہوئی جس پر ہارڈنگز نے اس کی مدد کی۔ یہ کشمیر فروش انگریز گورنر جنرل بعد ازاں برطانوی فوج کا کمانڈر انچیف اور فیلڈ مارشل بنا۔ 1947ء میں ایک اور انگریز گورنر جنرل لارڈ مائونٹ بیٹن نے گلاب سنگھ کے خاندان کیساتھ ملی بھگت کر کے ریاست جموں و کشمیر کا بھارت کیساتھ الحاق کروا دیا۔ اس الحاق کیخلاف مسلح بغاوت ہوئی اور بھارت و پاکستان میں جنگ شروع ہو گئی۔ جب بھارت کو کشمیر ہاتھ سے نکلتا نظر آیا تو وہ بھاگم بھاگ اقوام متحدہ پہنچا اور سیز فائر کرا دیا۔ پاکستان نے اقوام متحدہ پر اعتماد کرکے کشمیر کی آزادی کا یہ پہلا موقع کھو دیا۔


اقوام متحدہ نے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے 13اگست 1948ء اور 5جنوری 1949ء کی قراردادیں منظور کیں جنکے تحت کشمیریوں کو رائے شماری کے ذریعہ اپنے مستقبل کے فیصلے کا حق دیا گیا لیکن جب بھارت کا جموں و کشمیر پر فوجی قبضہ مستحکم ہو گیا تو اس نے ان قراردادوں کو فراموش کر دیا۔ اس دوران سلامتی کونسل نے آسٹریلیا کے ایک جج اوون ڈکسن کو مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے ثالث مقرر کیا۔ ڈکسن نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ایک سیدھا سادہ ریفرنڈم کرانے کے بجائے بڑا پیچیدہ منصوبہ پیش کر دیا جو ڈکسن پلان کہلایا۔ ڈکسن نے کہا کہ ریاست جموں و کشمیر کو چار زونز میں تقسیم کر دیا جائے۔ کشمیر، جموں، لداخ اور آزاد کشمیر و شمالی علاقہ جات۔ پھر ان چاروں زونز میں ضلع بہ ضلع رائے شماری کرائی جائے۔ پاکستان نے یہ منصوبہ مسترد کر دیا کیونکہ اسکا مقصد جموں اور لداخ کو بھارت کے حوالے کرنا نظر آتا تھا۔ بعد ازاں ڈکسن نے چناب فارمولا پیش کیا جسکے تحت دریائے چناب کو بنیاد بنا کر تقسیم کرنے کی تجویز پیش کی گئی تاکہ کپواڑہ، سرینگر، بارہ مولا، اسلام آباد، پلوامہ، بڈگام، پونچھ اور راجوری پاکستان میں آ جائیں اور جموں بھارت میں چلا جائے۔ پاکستان نے یہ تجویز بھی مسترد کر دی۔ 1956ء میں حسین شہید سہروردی پاکستان کے وزیراعظم بنے تو امریکی صدر آئزن ہاور نے اُن سے پاکستان میں ایک فوجی اڈہ مانگا۔ سہروردی نے شرط رکھی کہ مسئلہ کشمیر حل کرا دیا جائے تو پاکستان پشاور کے قریب امریکہ کو فوجی اڈہ دیدے گا۔ امریکہ کی کوشش سے جنوری 1957ء میں مسئلہ کشمیر ایک دفعہ پھر سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر آ گیا لیکن اکتوبر 1957ء میں میجر جنرل اسکندر مرزا نے اُن سے زبردستی استعفیٰ لے لیا۔ ایوب خان کے ایک قریبی ساتھی مرید حسین نے منیر احمد منیر سے انٹرویو میں بتایا کہ استعفیٰ کے بعد سہروردی نے کہا کہ پرائم منسٹر شپ تو آنی جانی چیز ہے لیکن کشمیر ہمیشہ کیلئے ہاتھ سے گیا۔ (اَن کہی سیاست صفحہ22)۔

تیسری دفعہ کشمیر کی آزادی کا موقع 1962ء میں آیا جب چین اور بھارت میں جنگ شروع ہوئی۔ چین نے ایوب خان کو پیغام بھیجا کہ بھارتی فوج چین کی سرحد پر اکٹھی ہو گئی ہے، کشمیر خالی ہے اسے آزاد کرا لو لیکن امریکی صدر جان ایف کینیڈی اور برطانیہ کے وزیراعظم ہیرلڈ میکملن نے ایوب خان کو کشمیر پر حملے سے باز رکھا۔ امریکی سی آئی اے کے ایک سابق افسر بروس ریڈل نے اپنی کتاب JFK's Forgotten Crisisمیں پوری تفصیل بیان کی ہے کہ کیسے پاکستان کو کشمیر پر حملے سے روکا گیا۔ اس دوران 22دسمبر 1962ء کو پنڈت نہرو نے واشنگٹن پوسٹ کو انٹرویو میں کہا کہ سیز فائر لائن میں معمولی رد و بدل کرکے اسے سرحد تسلیم کر لیتے ہیں۔ جنوری 1963ء میں اس تجویز پر پاکستان اور بھارت کے مذاکرات ہوئے، پاکستان نے کشمیری قیادت کو اعتماد میں لینے کا مطالبہ کیا اور مذاکرات ناکام ہو گئے۔

1965ء کے صدارتی الیکشن میں محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف دھونس و دھاندلی کے استعمال پر ایوب خان کے خلاف بہت غم و غصہ پایا جاتا تھا۔ اس غم و غصے کو ختم کرنے کیلئے ایوب خان نے آپریشن جبرالٹر کی منظوری دی۔ پاکستان کے فوجی دستے مقبوضہ جموں و کشمیر میں داخل ہو گئے لیکن بھارت نے لاہور پر حملہ کر دیا اور عالمی طاقتوں کی مداخلت سے سترہ دن کے بعد پھر سیز فائر ہو گیا۔ 1989ء میں افغانستان سے روسی فوج کی واپسی کے بعد کشمیر میں بھی مسلح مزاحمت کا آغاز ہوا۔ جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے مرحوم رہنما امان اللہ خان نے اپنی آپ بیتی ’’جہدِ مسلسل‘‘ (جلد سوم) میں لکھا ہے کہ اُنکی جماعت نے 1987ء میں خود مختار کشمیر کیلئے مسلح جدوجہد جنرل ضیاء الحق کی تائید و حمایت سے شروع کی لیکن جنرل ضیاء کی موت کے بعد جے کے ایل ایف کے مقابلے پر حزب المجاہدین کو کھڑا کر دیا گیا، اسکے باوجود 1995ء میں کشمیر اپنی آزادی کے قریب تھا۔ جے کے ایل ایف اور حزب المجاہدین کے اختلافات ختم ہو گئے تھے لیکن پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کے باعث ہم آزادی حاصل نہ کر سکے۔

1999ء میں کارگل آپریشن کے ذریعہ کشمیر کی آزادی کی ایک اور کوشش ہوئی اور غلط حکمت عملی کی وجہ سے ایک طرف کشمیر کی تحریک آزادی پر دہشت گردی کا لیبل لگ گیا دوسری طرف سول ملٹری تعلقات میں کشیدگی نے جنم لیا اور نواز شریف کی حکومت ختم ہو گئی۔ 2007ء میں پرویز مشرف اور منموہن سنگھ مسئلہ کشمیر کے اُس حل پر متفق ہو گئے جو پہلی دفعہ اوون ڈکسن نے پیش کیا تھا اور بعد ازاں نہرو نے بھی یہی فارمولا پیش کیا تھا کہ لائن آف کنٹرول کو مستقل بارڈر تسلیم کر لیا جائے۔ حریت کانفرنس کے لیڈر سید علی گیلانی نے اس فارمولے کو کشمیریوں سے غداری قرار دیکر مسترد کر دیا اور پھر وکلاء تحریک کے نتیجے میں پرویز مشرف زوال کا شکار ہو گئے اور اپنے فارمولے پر عملدرآمد نہ کر سکے۔ 5اگست 2019ء کے بعد سے بھارت کی حکومت نے جو اقدامات کئے ہیں ان سے لگتا ہے کہ مشرف اور منموہن سنگھ میں طے پانیوالے فارمولے پر طاقت کے ذریعہ عملدرآمد کیا جا رہا ہے۔ یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں۔ راج ناتھ سنگھ کی دھمکی کو محض سیاسی بڑھک نہ سمجھا جائے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 1967ء میں اپنی کتاب The Myth of Independence میں لکھا تھا کہ نہرو کی سوچ وہی ہے جو آر ایس ایس کے لیڈر ساوارکر کی تھی۔ یہ اکھنڈ بھارت پر یقین رکھتے ہیں اور ناصرف کشمیر پر قبضے کی کوشش کرینگے بلکہ پاکستان کو بھی توڑنے کا منصوبہ بنائے بیٹھے ہیں۔ اس کتاب کی اشاعت کے چار سال بعد پاکستان ٹوٹ گیا۔ بھٹو نے لکھا تھا کہ پاکستان کیخلاف ہر سازش میں بھارت کو امریکہ کی تائید حاصل رہی ہے اور آئندہ بھی حاصل رہے گی۔ یہ دونوں ملکر پاکستان کا وجود مٹانا چاہتے ہیں اور کشمیری پاکستان کے تحفظ کی جنگ لڑ رہے ہیں بھٹو کو ہم نے پھانسی پر لٹکا دیا لیکن بھٹو کی وارننگ کو نظر انداز نہ کریں کیونکہ دشمن کی نظر صرف آزاد کشمیر پر نہیں بلکہ پاکستان پر بھی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
مقبوضہ کشمیر میں پاک فوج کے ترجمان میجرجنرل آصف غفور کے پوسٹرز آویزاں
پير 2 ستمبر 2019
1797057-asif-1567435292-865-640x480.jpg

پوسٹرز میں ڈی جی آئی ایس پی آر کا کشمیریوں کے لئے آخری گولی اورآخری سپاہی تک لڑنے کابیان تحریر ہے

مقبوضہ کشمیر کی شاہراؤں اورگلیوں میں پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کے پوسٹرز اور ہینڈبلز آویزاں کیے گئے ہیں۔

کشمیر میڈیا سروس کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں پاک فوج کے ترجمان میجرجنرل آصف غفور کے پوسٹرزآویزاں کیے گئے ہیں جس میں میں ڈی جی آئی ایس پی آر کا کشمیریوں کے لئے آخری گولی اورآخری سپاہی تک لڑنے کابیان تحریر کیا گیا ہے۔

کشمیرکی شاہراؤں اورگلیوں میں آویزاں کیے گئے میجر جنرل آصف غفور کے پوسٹرز اور ہینڈبلز پر حریت کارکنان کی جانب سے لکھا گیا ہے کہ ہم زمین پر جنت کشمیر سے بھارت کو نکال باہر پھینکنے میں پاک فوج کے شانہ بشانہ ہوں گے، جنت غاصب بھارتی فوجیوں کا ٹھکانہ نہیں بن سکتی۔

dg-ispr-poster-1567453539.jpg
 

جاسم محمد

محفلین
آزاد جموں و کشمیر بمقابلہ مقبوضہ کشمیر
محمد فیصل سلہریا منگل 3 ستمبر 2019
1796658-ajkvsiok-1567423344-964-640x480.jpg

آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد بھارت کا ریاست کے ساتھ اب الحاق نہیں رہا، قبضہ ہوگیا ہے۔ (فوٹو: فائل)

آپس کی بات ہے ہمارا موقف کیا ہے جس پر ہم دنیا کو لانا چاہ رہے ہیں؟ جسے حمایت سمجھا جارہا ہے وہ ہمارے موقف کی جیت ہے یا محض صورتحال پر تشویش کا اظہار؟ ہماری یہ شدید اور پرخلوص خواہش بلاشبہ لائق تحسین ہے کہ دنیا اور اس دنیا کے سارے پنڈت جموں و کشمیر کو اب ترجیح دیں۔ جب ہمیں ایسا ہوتا محسوس نہیں ہوتا تو ہماری جھنجھلاہٹ ایک قدرتی ردعمل ہے، اس لیے کہ اہل جموں و کشمیر سے ہمارا تعلق قلبی ہے۔ یہ جھنجھلاہٹ دل کی بے قراری کا اظہاریہ ہے۔ دراصل اس درد دل ہی کی بدولت دنیا ہمارا مدعا سمجھ نہیں پارہی، محض تشویش کا اظہار کر رہی ہے۔ کیوں کہ درد تشویش ہی پیدا کرتا ہے، جس کا برملا اظہار ہورہا ہے۔ ہمیں دنیا کو رلانا ہے یا اپنے موقف کا حمایتی بنانا ہے؟ جس کا فی الوقت کوئی وجود ہی نہیں۔ درد کو اپنی طاقت بنائیے اور موجودہ منظرنامہ سے چند لمحوں کےلیے نظر ہٹا کر سوچئے کہ بھارتی جموں و کشمیر کی نئی حیثیت کے بعد ہمارا نیا موقف کیا ہے۔ حمایت تو موقف کی حاصل کی جاتی ہے منظر کی نہیں۔

ہم نے تاحال 5 اگست کے بھارتی اقدام کے نتیجے میں پیدا ہونے والی سنگینی کا واویلا ہی کیا ہے۔ جس پر اعتراض نہیں کیوں کہ یہ فطری ردعمل تھا۔ مگر سوال یہ ہے کہ جس منظرنامہ کی تصویرکشی کرکے ہم دنیا سے حمایت کے خواہاں ہیں، وہ اسی دنیا کے ذریعے تو ہم تک پہنچ رہا ہے۔ عالمی میڈیا کا دم غنیمت ہے کہ کشمیریوں کی کسمپرسی کی کوئی جھلک گاہے بگاہے ہمیں دکھا دیتا ہے، ہم جذبات پر قابو نہیں رکھ پاتے اور فون اٹھا کر اپنا درد دل دنیا کے آگے رکھ دیتے ہیں۔ پھر آئیوری کوسٹ جیسا ملک بھی ہماری ڈھارس بندھاتے ہوئے مشورہ دیتا ہے کہ بھارت کے ساتھ بیٹھ کر اس مسئلے کو حل کرلیں۔

یاد کیجئے جوہری افزودگی کے مسئلے پر جب ایران امریکی پابندیوں کی زد میں آیا تو عالمی میڈیا نے یہ تاثر دیا جیسے اب ایران دنیا کے نقشے سے مٹ جائے گا۔ ہم بھولے لوگ بھی جھانسے میں آگئے۔ اقتصادی پابندیاں… توبہ توبہ! ایرانی تو اب بھوکے مرجائیں گے۔ لیکن ایران آج بھی ویسا ہے جیسا جوہری پابندیوں سے پہلے تھا۔ روٹی وہاں اتنی ہی سستی ہے جتنی پہلے تھی۔ اور ظاہر ہے ایرانی اتنی ہی مقدار میں کھا بھی رہے ہیں جتنی پہلے کھاتے تھے، اس لیے کہ ان کی صحت کا معیار بھی ویسا ہے۔ یہ سب کیونکر ممکن ہوا؟ صرف ایک واضح، جاندار اور منطقی موقف کی بدولت، جسے آہستہ آہستہ حمایت حاصل ہوتی رہی، جس کی دنیا دھیرے دھیرے ہم نوا بنتی گئی۔ جس نے بھی سنا کہا ہاں بات تو ایرانی ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ یہ ہوتا ہے موقف۔

ایران نے اقتصادی پابندیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی سنگین صورتحال کا رونا نہیں رویا، نہ ہی اپنا وقار کھویا، ساری طاقت اپنے موقف میں ڈال دی، جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔

خدارا موقف اپنائیے۔ صورتحال کا واویلا نہ کیجیے۔ دشمن کو ہنسنے کا موقع نہ دیجئے۔ اپنا وقار قائم رکھیے۔ اپنے غصہ اور درد و غم کو اپنی طاقت بنائیے، جو ہمارے موقف سے جھلکے۔ ہم بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے، زیادہ جاننے کی ضرورت بھی نہیں، بس اتنا جان لیجئے کہ بھارت میں مودی امیت ہندوؤں کے عقیدہ کی محافظ جوڑی دیوتائوں کی خاص کرپا ہے۔ تقسیم ہند کے بعد سے سیکولر سیاست کے نام پر ہندو عقیدے پر جو حملے ہوتے رہے، اب ان کی تلافی کا وقت آگیا۔ اب مودی کا ساتھ دینے امیت شاہ بھی آگیا۔ گاؤ ماتا کے پجاریوں کےلیے یہ سیاستدانوں کی نہیں مہا اوتاروں کی جوڑی ہے، جو بھارت کو صحیح معنوں میں ہندو راشڑیہ ریاست بنائے گی۔ امیت شاہ کی انتخابی تقریروں میں جن دو وعدوں کی تکرار کی جاتی رہی، وہ دونوں پورے کر دیئے گئے۔ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ اور شہریت ایکٹ میں ترمیم، جس کا نشانہ ریاست آسام کے مسلمان ہیں۔ تو کہنا یہ مقصود ہے اس جوڑی سے ہم نبرد آزما ہیں جو مروجہ مہذب سفارتی اور سیاسی طریقوں سے قابو نہیں آئے گی۔ ان کی قیادت میں بھارت کو غیر معروف مگر باوقار طریقوں سے گھیرا ڈالنا ہوگا۔

یوں بھی ہوسکتا ہے، بلکہ ہونا چاہیے کہ ایک سچ کی مدد سے دوسرے سچ کو ثابت کیا جائے۔ یعنی آزاد جموں و کشمیر بمقابلہ مقبوضہ کشمیر۔

آزاد جموں و کشمیر ایک سچائی ہے جس کی مدد سے ہمیں بھارتی مقبوضہ کشمیر کے جھوٹ کی قلعی کھولنا ہے۔ بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے کہا تھا کہ اب صرف پاکستانی کشمیر پر بات ہوگی۔ پاکستان کو چاہیے تھا کہ وہ اس کے جواب میں کہتا بسم اللہ۔ آئیں آزاد جموں و کشمیر پر پہلے بات کرلیتے ہیں۔ بات کرنے سے آزاد جموں و کشمیر بھارت کا ہوجائے گا؟ بات کرنے میں کیا حرج ہے؟ کیا ہمیں بات کرنی نہیں آتی؟ گفتگو کی بنیاد کیا ہوگی؟ بھارت کہے گا آزاد جموں و کشمیر ہمارا ہے، آپ نے اس پر قبضہ کر رکھا ہے۔ یہی تو ہم سننا چاہتے ہیں۔ کسی بھی خطہ ارضی کے مقدر کا فیصلہ وہاں کے رہنے والوں نے کرنا ہوتا ہے۔ ہمیں پاکستانی کشمیریوں پر اعتماد نہیں؟ یقیناً ہے۔ تو پھر جو ماڈل ہم بھارتی کشمیر پر لاگو کرانا چاہتے ہیں، اسے پاکستانی کشمیر پر لاگو کرنے میں کیا حرج ہے؟ اب تو دونوں اطراف کے کشمیری یک زبان اور یک جان ہیں۔ بھارت کو اس شرط کے ساتھ آزاد جموں و کشمیر پر بات چیت کی دعوت دی جائے کہ جو فارمولا یہاں طے ہوگا اس کا اطلاق مقبوضہ کشمیر پر بھی ہوگا۔ کیوں کہ آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد بھارت کا ریاست کے ساتھ اب الحاق نہیں رہا، قبضہ ہوگیا ہے۔ بھارت اس گھیرے میں نہ آئے تو ہمیں رضاکارانہ طور پر اقوام متحدہ سے درخواست کرنی چاہیے کہ اپنی نگرانی میں آزاد جموں و کشمیر میں ریفرنڈم کرائے اور یہاں کے باشندوں کی مرضی معلوم کرلے۔ آزاد جموں و کشمیر کے وزیراعظم اس ریفرنڈم کے نتیجے کو لے کر ساری دنیا گھوم جائیں اور ایک چہکار مچا دیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
آرمی چیف سے سعودی اور اماراتی وزرائے خارجہ کی ملاقات، مسئلہ کشمیر پر گفتگو
ویب ڈیسک 29 منٹ پہلے
1800002-chief-1567675727-342-640x480.jpg

سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ برادرانہ تعلقات باعث فخر ہیں، آرمی چیف فوٹو:فائل


اسلام آباد: آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے وزرائے خارجہ نے ملاقات کی اور مقبوضہ کشمیر میں بھارتی اقدامات سے پیدا صورتحال سے نمٹنے میں تعاون کی یقین دہانی کرائی۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے سعودی وزیر مملکت برائے خارجہ امور عادل الجبیر اور متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ عبداللہ بن زاید بن سلطان النہیان نے ملاقات کی۔

ملاقات میں باہمی دلچسپی کے امور اور خطے کی سلامتی کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ دونوں وزرائے خارجہ نے علاقائی امن و استحکام کیلئے پاکستان کے کردار کی تعریف بھی کی۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ برادرانہ تعلقات باعث فخر ہیں۔

سعودی اور اماراتی وزرائے خارجہ نے یقین دہانی کرائی کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے یکطرفہ اقدامات سے پیدا شدہ صورتحال سے نمٹنے میں تعاون کریں گے۔

سعودی وزیر خارجہ امور عادل الجبیر اور متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ عبداللہ بن زاید بن سلطان النہیان نے گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے بھی ملاقات کی تھی جس میں مقبوضہ کشمیر کی مخدوش صورتحال اور بھارتی مظالم پر تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔
 

جاسم محمد

محفلین
وزیراعظم کا یوم دفاع کے ساتھ یوم یکجہتی کشمیر منانے کا فیصلہ
ویب ڈیسک جمعرات 5 ستمبر 2019
1800310-imrankhane-1567692558-494-640x480.jpg

کل ملک بھر میں کشمیریوں سے اظہاریکجہتی کیا جائے، وزیراعظم کی ہدایت، فوٹو: فائل

اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان نے 6 ستمبر کو یوم دفاع کے ساتھ یوم یکجہتی کشمیر منانے کا فیصلہ کیا ہے۔

ذرائع کے مطابق وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت ترجمان کا اجلاس ہوا جس میں فیصلہ کیا گیا کہ یوم دفاع کے ساتھ یوم یکجہتی کشمیر منایا جائے گا، اس حوالے سے وزیراعظم نے ہدایت کی کہ کل ملک بھر میں کشمیریوں سے بھرپور اظہاریکجہتی کیا جائے۔

وزیراعظم نے کہا کہ صوبائی دارلحکومتوں میں خصوصی تقریبات منعقد کی جائیں جس میں کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کیا جائے جب کہ پاکستان بھر کے عوام یوم دفاع پر شہداء کے خاندانوں کے پاس پہنچیں۔

اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ وزیراعظم یوم دفاع کشمیری شہداء کے ساتھ منانے کے لیے کل آزاد کشمیر کے صدر مقام مظفرآباد جائیں گے جہاں وزیراعظم کشمیری شہداء کی یاد میں تقریب سے خطاب کریں گے۔
 

جاسم محمد

محفلین
مسئلہ کشمیر کی مذہبی تجسیم
07/09/2019 خورشید ندیم


ایک وفاقی وزیر نے بھی کشمیرکی صورت ِ حال کوغزوۂ ہند کاآغازدے دیاہے۔ مسئلہ کشمیر کی یہ مذہبی تجسیم، کیا اہلِ کشمیر کے دکھو ں کا مداوا کر سکے گی؟

تاریخ یہ ہے کہ مذہب جب اقتدار کی کشمکش میں فریق بنتا ہے تو پھر اپنے جوہر سے محروم ہو جاتا ہے۔ مذہب کا جوہر کیا ہے؟ انسان کے اخلاقی وجود کا تزکیہ۔ اسلام کی نظرمیں اُخروی کامیابی کے لیے تیاری۔ اہلِ مذہب نے اقتدارکو اپنا مقصد بنایا تو معاشرہ کیا تبدیل ہوتا، اقتدار کی کشمکش میں ان کا اپنا اخلاقی وجود ہی تحلیل ہو گیا۔

انیسویں صدی ’ازمز‘ (Isms) کی صدی ہے۔ نیشنلزم، کیمونزم، فاشزم۔ یہ نظریاتی سیاست کا آغازہے۔ یہ سیاست کو ایک نظریے کے تابع کرنے کا عمل ہے۔ پہلے ایک نظریہ (Ideology) ، پھر اس کے پیروکاروں کی تنظیم۔ پھر انہیں اقتدار تک پہنچانے کی جدوجہد۔ تصور یہ ہے کہ ریاست کو ایک نظریاتی وجود مان لیاجائے۔ مثال کے طور پر کیمونزم کا نظریہ ہے کہ معاشرے کی طبقاتی تقسیم اور انفرادی ملکیت انسانی مسائل کے حقیقی اسباب ہیں۔ انسانوں کو ایک ایسی ریاست چاہیے جواس نظریے پرقائم ہو اور بالجبر اس تقسیم کو ختم کردے۔ اس سے انسانی دکھوں کا مداوا ہو جائے گا۔ کیمونزم کی اصل یہی ہے۔ اس کے سوا جو کچھ ہے، اس کی فروعات ہیں۔

اہلِ مذہب جب سیاست میں متحرک ہوئے تو انہوں نے نظمِ اجتماعی کی اساسات مذہب میں تلاش کیں۔ جہاں یہ موجود نہیں تھیں، وہاں مذہبی عصبیت کو آوازدی گئی اور ایک مذہب کے ماننے والوں کو کسی دوسرے گروہ کے خلاف لا کھڑا کیا گیا۔ جیسے مسیحیت۔ سینٹ پال نے، سیدنا مسیح ؑ کے پیروکاروں کو شریعت کی پابندیوں سے آزاد کر دیا۔ اب مسیحی معاشرے میں نفاذِ شریعت کی بحث ختم ہو گئی۔ صلیبی جنگوں کا آغاز ہوا تو اہلِ کلیسا نے مذہبی عصبیت کو آواز دی اور مسیحی عصبیت کومسلم عصبیت کے بالمقابل لا کھڑا کیا۔

یہی معاملہ ہندومت کا ہے۔ اس کی سیاسی تجسیم ہوئی تو ہندو تواجیسی تعبیرات سامنے آئیں۔ اس کی بنیاد ہندو عصبیت ہے۔ یہ ہندو قانون کے نفاذ کا سوال نہیں، دوسرے گروہوں پر ہندو تصورات کو بالجبر نافذ کرنا ہے۔ جیسے گائے آپ کے لیے مقدس ہے۔ آپ چاہتے ہیں کہ اسے سماجی یا ریاستی طاقت سے دوسروں کے لیے بھی مقدس بنا دیں۔

یہودیت اور اسلام کی تاریخ مختلف ہے۔ دونوں کا ورثہ مذہب بھی ہے اور ریاست بھی۔ بنی اسرائیل کو زمین پر اقتدار ملا اور بنی اسماعیل کو بھی۔ بنی اسرائیل کے آخری پیغمبر کا ورثہ، مذہب ہے، ریاست نہیں۔ یہودیوں نے انہیں ماننے ہی سے انکار کردیا۔ یوں مسیحیت ایک الگ تشخص کے ساتھ مذہب بن گئی جس کے خدوخال کا تعین سینٹ پال نے کیا۔ مسیحیت کی مذہبی تاریخ میں ریاست نہیں، یہ الگ بات کہ جب روم کے حکمرانوں نے مسیحیت کو قبول کیا توطاقت کے زور پردوسروں کو مسیحی بنایا۔ اسی سے پاپائیت وجود میں آئی۔

پاپائیت مذہب کے بالجبرنفاذ کا ناگزیر نتیجہ ہے۔ ایران میں تو اسلام ایک عوامی انقلاب کی شکل میں آیا لیکن وہ بھی پاپائیت میں بدل گیا۔ طالبان کا افغانستان بھی ایسا ہی تھاجس میں اقتدار مذہبی طبقے کے ہاتھ میں تھا۔ پاکستان میں ایک نیا تجربہ کیا گیا۔ یہ قومی ریاست کو مذہبی لبادہ پہناننے کی کوشش تھی۔ اس کا نتیجہ ایک فکری پراگندگی ہے جو ستر برس سے نہ صرف قائم ہے بلکہ روزافزوں ہے۔

ایک نہ ختم ہونے والی بحث یہ ہے کہ قائد اعظم نے کہیں سیکولرازم کا لفظ استعمال نہیں کیا اور وہ اسلام کا نفاذ چاہتے تھے۔ اسے یوں بھی بیان کیا جاتاہے کہ وہ پاکستان کو اسلامی ریاست بنانا چاہتے تھے۔ قائداعظم کے موقف کی تاریخی حیثیت مسلمہ ہے لیکن اصل اہمیت اس سوال کی ہے کہ جمہور کیا چاہتے ہیں۔ قائد اعظم بھی ایسا پاکستان چاہتے تھے جس میں جمہور کی رائے ہی نظام کی تشکیل میں بنیاد بنے۔

برسبیلِ تذکرہ اسے بھی سمجھنا چاہیے کہ قائد اعظم جب اسلام کو راہنما سمجھتے تھے تو اس سے ان کی مراد کیا تھی ’۔ اسلامی ریاست‘ کوئی مذہبی اصطلاح نہیں ہے جس کا ایک متعین مفہوم اسلام کی علمی تاریخ میں پایا جا تا ہو۔ یہ علمِ سیاسیات کی اصطلاح ہے جو اسلام کی ایک خاص تعبیر سے پھوٹی جسے ’سیاسی اسلام‘ کہا جاتا ہے۔ اسے بیسویں صدی میں ’خلافت‘ کے متبادل کے طور پر اختیار کیا گیا۔

قائداعظم کبھی اس تعبیر سے متعلق نہیں رہے۔ اس لیے جب وہ یہ کہتے تھے کہ پاکستان میں اسلام کی تعلیمات کو راہنما حیثیت حاصل ہوگی تواس کا مفہوم ’سیاسی اسلام‘ کی روشنی میں طے نہیں ہو سکتا۔ یہ غیر علمی رویہ ہوگا کہ ہم قائداعظم کے خیالات کو اپنے تصوراتِ ریاست کی روشنی میں ڈھالنے کی کوشش کریں۔ وہ علمی معاملات میں علامہ اقبال کو اپنا راہنما مانتے تھے۔ ہمارے ہاں اقبال کو بھی ’اسلامی ریاست‘ کے خاص پیراڈائم میں ڈھالنے کی کوشش ہوتی ہے، حالانکہ ان مباحث میں ان کی منفرد حیثیت ان کے خطبات سے پوری طرح واضح ہے۔

یہ بات کہ پاکستان کو اسلام کے اصولوں کی روشنی میں ایک جدید مملکت ہونا چاہیے، علامہ اقبال، علامہ مشرقی، مولانا مودودی، غلام احمدپرویزصاحب سمیت بہت سے لوگ کہ رہے تھے۔ سب کی بات کا مفہوم ایک نہیں ہے۔ قائداعظم کے بارے میں علامہ مشرقی یا علامہ مشرقی کے بارے میں مولانا مودودی کی آرا پڑھیں تو چودہ طبق روشن ہو جاتے ہیں۔ اب کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ قائداعظم چونکہ اسلام چاہتے تھے، لہذا وہ اور علامہ مشرقی ہم خیال ہیں۔ پرویز صاحب کا کہنا تھا کہ وہ دراصل فکرِ اقبال ہی کے شارح ہیں۔ ان کے اس دعوے کو قبولیتِ عامہ نہیں مل سکی۔

مسلم تاریخ میں، ایک فکری اورسماجی ارتقا کے نتیجے میں مذہب اور سیاست کے دائرے الگ ہوگئے تھے۔ اسی سے اہلِ سیاست اور علما کے دو ادارے قائم ہوئے۔ سیاست دانوں نے امورِمملکت کو سنبھالا اور علما نے سماج کے اسلامی تشخص کو برقرار رکھنے کا بیڑ اٹھایا۔ انہوں نے تمام سماجی طبقات کے لیے انذار کی ذمہ داری ادا کی جس میں حکمران طبقہ بھی شامل تھے۔ اگراربابِ اقتدار نے وہ کردار ادا نہیں کیا جو ایک مسلمان حکمران کا ہونا چاہیے تواسے تانذار کیا لیکن کسی عالم نے خود حکمران بننے کی کوشش نہیں کی۔

یہی تقسم فطری ہے۔ اس سے پاپائیت وجود میں نہیں آتی۔ بیسویں صدی میں دین کی جامعیت کا جو تصورسامنے آیا، اس نے علما اور سیاست دانوں کی تقسیم کو ختم کر دیا۔ ’اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے‘ کا یہ مطلب سمجھا گیا کہ حکومت کو علما کے حوالے کر دیا جائے۔ مسلم لیڈر کا یہ تصورسامنے آیا کہ اسے مجتہد ہونا چاہیے اور ساتھ ہی ششیر زن بھی۔ یہ ممکن نہیں تھا۔ لہذا اب تک مولوی کو سیاست دان بنانے کی ہرکوشش کا انجام ناکامی ہی نکلا ہے۔

ہمارے مسئلے کا حل یہ ہے کہ ہم اس فطری تقسیم کی طرف لوٹ جائیں جو مسلم معاشرے کا تاریخی تجربہ ہے۔ مسیحی معاشرے نے کلیسا اورایوانِ اقتدار کو الگ کر دیا۔ ہمیں بھی یہی کرنا ہوگا۔ تاہم یہ فرق پیشِ نظر رہے گا کہ اسلام چند انفرادی عبادات کا نام نہیں ہے۔ وہ سیاسی اور سماجی رویوں کے بارے میں بھی راہنمائی دیتا ہے۔ اس لیے مسلم سماج کی سیاست ومعاشرت، مذہب کے دائرے سے باہر نہیں جا سکتی۔ ہم سیاسی و سماجی نظام کی تشکیل میں اسلام سے راہنمائی لیں گے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ عقل اور تجربے جیسے دیگر ذرائع علم کو اپنے ماخذات سے خارج کر دیں گے۔

مسلم معاشرے کو اس تقسیم کی طرف جانا ہے۔ آج نہیں تو کل۔ تیونیسیا میں اس کی بنیاد رکھ دی ہے۔ ہمیں یہ بات سمجھنے میں شاید دس سال مزید لگ جائیں۔ ہمارا مذہبی ذہن ’اسلامی ریاست‘ کے تصورکی گرفت میں ہے۔ محمد خان جیسے ہمارے بعض وزرابھی ان ہی میں سے ہیں۔ اس لیے وہ کشمیر کی نئی صورتِ حال کو غزوہ ہند کے آغاز سے تعبیر کر ہے ہیں۔

غزوہ ہند کی روایات کی روایتی اور درایتی حیثیت پراہلِ علم نے سولا ات اٹھائے ہیں۔ اس سے دانستہ صرفِ نظر کرتے ہوئے، میں مسئلہ کشمیر کی مذہبی تجسیم کو خود کشمیریوں کے لیے خطرناک سمجھتا ہوں۔ اس کا پہلا نتیجہ اس عالمگیر عوامی حمایت سے محرومی ہے جو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے خلاف پیدا ہوئی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
کشمیرمیں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں؛ 50 سے زائد ممالک نے بھارت سے5 مطالبات کردیے
ویب ڈیسک منگل 10 ستمبر 2019
1805121-humanrightscouncil-1568143980-372-640x480.jpg

آج کا دن ہمارے لیے اور کشمیریوں کے لیے بہت اہم ہے ، شاہ محمود قریشی ۔ فوٹو : فائل

جنیوا: مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر ہیومن رائٹس کونسل میں 50 سے زائد ممالک نے بھارت کے سامنے 5 مطالبات پیش کردیے۔

اقوامِ متحدہ کے تحت عالمی ادارہ برائے پناہ گزین کے تحت (ہیومن رائٹس کونسل) کے غیرمعمولی اجلاس میں 50 سے زائد ممالک نے مقبوضہ کشمیر پر مشترکہ اعلامیہ جاری کرتے ہوئے بھارت کے سامنے 5 مطالبات پیش کئے ہیں۔

مشترکہ اعلامیے میں پہلا مطالبہ ہے کیا گیا ہے کہ بھارت کشمیریوں سے جینے کا حق نہ چھینے اور انہیں جینے دیا جائے۔ دوسرے مطالبے میں کہا گیا ہے کہ کشمیر میں مسلسل 37 روز سے جاری کرفیو فوری طور پر ختم کیا جائے۔

اس خبر کو بھی پڑھیں :پاکستان نے انسانی حقوق کونسل میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کو بے نقاب کردیا

تیسرے مطالبے میں بھارت سے کہا گیا ہے کہ بین الاقوامی میڈیا کشمیر میں مواصلات کے کریک ڈاؤن کی تصدیق کرچکا ہے اور کشمیر میں مواصلات کو یقینی بنایا جائے اور سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے۔

چوتھے مطالبے میں کئی ذیلی مطالبات رکھے گئے ہیں جن کے تحت مقبوضہ وادی میں انسانی حقوق کا تحفظ، آزادی اور گرفتار افراد کو رہا کرنے کے ساتھ ساتھ پیلٹ گن سمیت طاقت کے بے جا استعمال سے گریز کیا جائے۔

اسی کے ساتھ مطالبہ کیا گیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بین الاقوامی میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے دورے کی اجازت دی جائے۔ پانچواں اور اہم مطالبہ یہ کہتا ہے کہ جموں و کشمیر کے حل کےلیے پرامن طریقہ کار اختیار کیا جائے۔

اس موقع پر وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ آج کے دن کو ایک اہم روز قرار دیا ہے، آج کا دن ہمارے لیے اور کشمیریوں کے لیے بہت اہم ہے، دنیا بھرسے آئے مندوبین کےسامنے کشمیریوں کا مقدمہ پیش کیا اور مقبوضہ کشمیر پر پاکستانی کوششوں سے 50 سے زائد ممالک نے ایک مشترکہ بیان دیا ہے جس میں بھارت سے پانچ اہم مطالبات کیے ہیں۔
 

جاسمن

لائبریرین
آپ تھوڑی سی محنت کریں تو ان کالمز میں سے اہم ترین پوائنٹس نکال کے یہاں پیسٹ کر سکتے ہیں۔ اس سے ایک ہی فائدہ ہوگا کہ لوگ یہ مراسلے پڑھ سکیں گے۔
یا کم از کم کچھ ایڈٹ کر دیا کریں۔
 

جاسم محمد

محفلین
خبردار، ہوشیار
حامد میر
اگر کوئی غلط فہمی ہے تو اپنے دل و دماغ سے نکال دیجئے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کے بعد بھارت کی نظر آزاد کشمیر پر ہے۔


بھارت کے وزیر خارجہ ڈاکٹر سبرامینم جے شنکر نے 17ستمبر کو نئی دہلی میں میڈیا سے کہا ہے کہ ’’توقع ہے پاکستانی مقبوضہ کشمیر ایک دن ہمارے زیر اختیار ہوگا۔‘‘

جے شنکر نے اپنی گفتگو میں الفاظ کا استعمال بہت سوچ سمجھ کر کیا۔ موصوف نے کہا پاکستانی مقبوضہ کشمیر ہماری فزیکلJurisdictionمیں ہوگا۔

اس سے قبل بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے یہ کہا تھا کہ پاکستان سے مذاکرات ہوں گے تو پاکستانی مقبوضہ کشمیر پر ہوں گے۔

وزیر داخلہ امیت شاہ بار بار کہہ چکا ہے کہ ہم پاکستانی کشمیر کو بھارت کا حصہ بنائیں گے لیکن وزیر خارجہ جے شنکر نے کہا ہے کہ پاکستانی مقبوضہ کشمیر ہمارے زیرِ اختیار ہوگا۔

جے شنکر بھارت کا پہلا وزیر خارجہ ہے جو سیکرٹری خارجہ بھی رہ چکا ہے۔ امریکہ اور چین میں اپنے ملک کا سفیر بھی تھا اور ڈپلومیٹک کیریئر کی ابتدا روس سے کی۔

جب تک راج ناتھ سنگھ اور امیت شاہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر پر قبضے کی بڑھکیں مارتے رہے تو بھارتی میڈیا نے بھی ان بڑھکوں پر توجہ نہیں دی لیکن جے شنکر کی طرف سے بیان سامنے آنے کے بعد ناصرف بھارتی میڈیا بلکہ عالمی سفارتی حلقوں کے کان بھی کھڑے ہو گئے ہیں۔

یہ بیان اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم کی تقریروں سے صرف دس دن قبل دیا گیا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ بھارت کی طرف سے ملفوف انداز میں صرف پاکستان کو جنگ کی دھمکی نہیں دی جا رہی بلکہ پوری دنیا کو ذہنی طور پر تیار کیا جا رہا ہے کہ بھارت فی الحال مذاکرات کے ذریعہ مسئلہ کشمیر حل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا اور اگر مذاکرات ہوئے تو اس علاقے پر نہیں ہوں گے جسے پاکستان کی طرف سے مقبوضہ جموں و کشمیر کہا جاتا ہے.

مذاکرات اس علاقے پر ہوں گے جسے بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کہا جاتا ہے۔

ظاہر ہے یہ اس صورت میں ممکن ہے جب کسی محدود جنگ یا جارحیت کے نتیجے میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے کچھ علاقوں پر قبضہ کر لیا جائے۔

جو لوگ ریاستِ جموں و کشمیر کے جغرافیے سے واقف ہیں وہ اس رائے سے اتفاق کریں گے کہ بھارتی فوج کے لئے مظفر آباد تک پہنچنا بہت مشکل ہے البتہ کسی حملے کے نتیجے میں چند کلومیٹر علاقے پر قبضہ کیا جا سکتا ہے۔

یہ قبضہ پاکستان بھی کر سکتا ہے۔ جو بھی پہلے حملہ کرے گا وہ کچھ نہ کچھ علاقے پر قبضہ کر سکتا ہے کیونکہ لائن آف کنٹرول پر ہر جگہ آہنی باڑ نہیں ہے۔

عرض یہ کرنا ہے کہ 5اگست کو بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کے لئے اپنے آئین میں موجود دفعہ 370اور 35اے ختم کرکے ایک وعدہ پورا کیا لیکن وہ آزاد کشمیر پر قبضے کا وعدہ پورا کرنے کی بھی تیاری میں ہے۔

اب ذرا یہ سوچئے کہ بھارت کے عزائم کے مقابلے پر پاکستان کی کیا تیاری ہے؟ اس وقت پاکستان کو جس اتحاد اور یکجہتی کی ضرورت ہے، وہ اتحاد پیدا کرنے کے لئے عمران خان کی حکومت نے کیا اقدامات کئے ہیں؟ کیا وزیر قانون فروغ نسیم کی طرف سے کراچی میں دفعہ 149کے استعمال کی تجویز سے یکجہتی کو فروغ ملا؟

اس تجویز کے جواب میں بلاول بھٹو زرداری نے سندھو دیش سے ڈرانے کی کوشش کی اور نیب نے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو جعلی اکائونٹس کیس میں طلب کر لیا۔

وزیراعظم عمران خان مسئلہ کشمیر پر تقریریں تو بہت کر رہے ہیں لیکن ان کے کئی ناقدین کا خیال ہے کہ کشمیر پر بیان بازی کا اصل مقصد ملک کے معاشی مسائل سے توجہ ہٹانا ہے۔

حالات کی نزاکت کا تقاضا یہ تھا کہ عمران خان داخلی استحکام کے لئے اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کرتے لیکن پیر کو قومی اسمبلی میں ان کے نوجوان وزیر مراد سعید اور پیپلز پارٹی کے قادر پٹیل نے ایک دوسرے کے بارے میں جو لب و لہجہ اختیار کیا، تو یہ لگتا ہی نہیں تھا کہ ہماری سرحدوں پر جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں۔

ایسا لگتا تھا کہ مراد سعید کو اصل خطرہ نریندر مودی سے نہیں بلکہ بلاول بھٹو زرداری سے ہے۔

اب ذرا اپوزیشن کے کردار کا جائزہ بھی لے لیں۔ حکومت نے اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی تو اپوزیشن نے بھی اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔

مولانا فضل الرحمٰن چاہتے ہیں کہ نواز شریف اور آصف علی زرداری کی طرف سے اسلام آباد میں دھرنے کی حمایت کی جائے لیکن ان دونوں کی پارٹیاں آئیں بائیں شائیں کر رہی ہیں۔

حکومت کو اپوزیشن کی نیت پر شک ہے اور اپوزیشن کو اپوزیشن کی نیت پر شک ہے۔ شک و شبہے سے بھرپور صورتحال میں مولانا فضل الرحمٰن اکتوبر کے آخر میں اسلام آباد کے لاک ڈائون کی کال دینے کے ارادے پر مضبوطی سے قائم ہیں اور چند ہفتوں کے التوا پر بھی راضی نہیں۔

انہیں یقین ہے کہ وہ اسلام آباد میں بہت بڑا مجمع اکٹھا کر لیں گے اور جو انہیں مولانا ڈیزل کہہ کر چھیڑتے تھے، انہیں اسلام آباد سے بھاگنے کے لئے ڈیزل نہیں ملے گا۔

عمران خان کے ساتھ وہی کچھ ہونے والا ہے جو عمران خان نے نواز شریف کی حکومت کے ساتھ کیا تھا اور عمران خان کی حکومت وہی غلطیاں کر رہی ہے جو نواز شریف کی حکومت نے کیں۔

جب عمران خان نے دھرنا شروع کیا تو نواز شریف حکومت نے اپوزیشن کے ساتھ ساتھ عدلیہ اور میڈیا سے بھی لڑنا شروع کر دیا۔ عمران خان کی حکومت بھی وہی کر رہی ہے۔ ابھی مولانا فضل الرحمٰن کا دھرنا شروع بھی نہیں ہوا اور حکومت نے چیف الیکشن کمشنر سمیت کئی ججوں کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

سونے پر سہاگہ میڈیا ٹریبونلز قائم کرنے کا فیصلہ ہے۔ عدلیہ سے بھی لڑائی، میڈیا سے بھی لڑائی، اب تو تحریک انصاف نے آپس میں بھی لڑائی شروع کر دی ہے۔

آج کل تحریک انصاف والے سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کے ساتھ گالم گلوچ کر رہے ہیں، اسی لئے مولانا فضل الرحمٰن کہتے ہیں کہ کوئی اسلام آباد آئے نہ آئے، میں تو آئوں گا اور اگر مجھے گرفتار کرلیا گیا تو میرے کارکن ہر صورت آئیں گے۔

مولانا کو یقین ہے کہ اب عمران خان کی حکومت کو کوئی نہیں بچا سکتا۔ یہ کہنے کے بعد وہ کچھ رکتے ہیں، کچھ سوچتے ہیں اور پھر کہتے ہیں ’’ہاں ایک صورت میں عمران کی حکومت بچ سکتی ہے، وہ یہ کہ بھارت ہم پر حملہ کر دے۔‘‘
 

سین خے

محفلین
کنٹرول لائن عبور کرنے کے لیے آزادی مارچ کے راستے میں رکاوٹیں

_109122450_2d5e2607-be9c-40a4-82dc-2501debcd2a1.jpg



پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے آزادی مارچ کو لائن آف کنٹرول عبور کرنے سے روک دیا گیا ہے ضلعی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ رسک کی بنیاد پر انھیں آگے جانے نہیں دیا جا سکتا۔

مقامی انتظامیہ نے لائن آف کنٹرول چکھوٹی جانے والی مرکزی شاہرائے سرینگر کو جسکول کے مقام سے چھ کلومیٹر قبل پر کٹینیر اور خار دار تاریں لگا کر بند کیا ہے۔ تاہم جے کے ایل ایف کے کارکنان نے اب اس مقام پر دھرنا دے رکھا ہے۔

مقامی انتظامیہ کے درمیان اب تک ہونے والے مذاکرات ناکام ہو چکے ہیں اور جسکول کے مقام پر دھرنا جاری ہے۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی حکومت نے دو وزرا مشتاق منہاس اور سردار طاہر فاروق پر مشتمل مذاکراتی ٹیم تشکیل دی ہے جس نے آزادی مارچ کے منتظمین سے جسکول چناری کے مقام پر ملاقات کی.

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی حکومت کے وزیر اطلاعات مشتاق منہاس نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مارچ کے منتظمین سے اس مارچ کو ختم کرنے کی اپیل کی ہے اور ان کے ساتھ صبح پھر مذاکرات ہوں گے۔

جبکہ دوسری جانب آزادی مارچ کے سربراہ اور جے کے ایل ایف رہنما ڈاکٹر توقیر گیلانی کا کہنا ہے کہ آج مرکزی شاہراہ سرینگر پر ہی رات گزاریں گے اور کل لائن آف کنٹرول چکھوٹی کی جانب مارچ کریں گے. انھوں نے کہا کہ ہم پولیس تصادم نہیں چاہتے کیونکہ وہ بھی اس خطے کے لوگ ہیں مگر انتظامیہ نے اگر مجبور کیا تو ایل او سی پر دھرنا جاری رکھیں گے۔

جبکہ لبریشن فرنٹ کے رہنما رفیق ڈار کا کہنا ہے کہ ہم نے حکومت سے کہا کہ وہ ہمیں آگے بڑھنے کی اجازت دیں تاکہ ایل او سی کراس کر سکیں.

چکوٹھی کی جانب جاتے ہوئے جسکول کے اس مقام پر ایک جانب دریائے جہلم بہتا ہے اور دوسری جانب پہاڑ ہے۔ مظاہرین کے پاس واپسی کے لیے ایک ہی راستہ ہے کہ وہ واپس چناری کی جائیں۔

اس مارچ کا آغاز جمعے کو پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے ضلع بھمبر سے ہوا تھا جو کوٹلی، راولاکوٹ اور دھیرکوٹ سے ہوتا ہوا رات گئے مظفرآباد پہنچا، جہاں سے مارچ کے شرکا ایل او سی کے چکوٹھی چیک پوائنٹ کی جانب بڑھے۔

مارچ کے شرکا لائن آف کنٹرول چکھوٹی جانے اور ایل او سی کراس کرنے کے لیے آگے بڑھنا چاہتے ہیں مگر کمشنر مظفرآباد امتیاز چوہدری کے مطابق سکیورٹی رسکے کی بنیاد پر انہیں آگے جانے نہیں دیا جا سکتا۔

مارچ میں لگ بھگ پانچ ہزار افراد موجود ہیں جن کو روکنے کے لیے پندرہ سو اہلکار تعینات ہیں۔

خیال رہے کہ پاکستان کے وزیراعظم نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا تھا کہ وہ انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کی صورت حال کے حوالے سے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں پایا جانے والا کرب سمجھ سکتے ہیں مگر لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پار کرنا انڈین بیانیے کو مضبوط کرنے کے مترادف ہو گا۔

جس مقام، جسکول پر اس مارچ کو روکا گیا ہے وہاں 27 برس قبل یعنی سنہ 1992 میں جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ نے اس وقت جب ایل او سی کو کراس کرنے کے لیے کوشش کی تھی تو اسی مقام پر انھیں روکا گیا تھا اور اس مقام پر پولیس کے ساتھ تصادم ہوا۔

اس سے قبل سنہ 1991 میں نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن میں ایل او سی کراس کرنے کی کال دی تھی اور گیارہ افراد نے ایل او سی کراس کی تھی جن میں تین افراد انڈین فوج کی فائرنگ سے ہلاک ہوئے تھے۔

اقوام متحدہ کے مبصر مشن نے بھی آج لائن آف کنٹرول چکھوٹی سیکٹر کا دورہ کیا۔


خیال رہے کہ دو روز قبل خودمختار کشمیر کی حامی تنظیم جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کا آزادی مارچ شروع ہوا تھا۔ یہ مارچ چناری کے مقام پر پہنچا تو مارچ کے منتظمین نےایک جسلے کا انعقاد کیا۔

منتظمین کا کہنا ہے کہ وہ لائن آف کنٹرول چکھوٹی کی جانب مارچ اور ایل او سی عبور کرنے کے بارے میں لائحہ عمل طے کرنے کے بعد یہاں سے آگے نکلیں گے۔

Image copyrightSHAZEB AFZAL
_109123880_77037b3d-42a8-472d-887a-94a4d0afa27b.jpg

Image captionمارچ میں لگ بھگ پانچ ہزار افراد موجود ہیں جن کو روکنے کے لیے پندرہ سو اہلکار تعینات ہیں
آزادی مارچ میں موجود سلمیٰ طارق جن کا تعلق ڈسٹکرکٹ کوٹلی سے ہے اور وہ ایڈوکیٹ ہائی کورٹ ہیں۔

بی بی سی سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ 11 قراردادیں اقوام متحدہ میں موجود ہیں اور کوئی بھی قرارداد اور قانون کشمیریوں کو لائن اف کنٹرول عبور کرنے سے نہیں روکتا۔

انھوں نے کہا کہ یہ کشمیری عوام کی آواز ہے کہ جسے ایل او سی کا نام دیا گیا ہے وہ دراصل ایک خونی لکیر ہے۔ ایک جانب انڈیا نے فوجیں کھڑی کی ہوئی ہیں اور دوسری جانب پاکستان نے ہم۔ ہمارا یہ مطالبہ ہے کہ ہماری مزاحمت کے راستے میں نہ آئیں۔ ہم عوام ہیں۔ ہم اس جانب جانا چاہ رہے ہیں ہم کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں کر رہے۔ کم ازکم کشمیریوں کے لیے لائن آف کنٹرول کو کھولا جائے۔

مارچ کی سربراہی کرنے والے جے کے ایل ایف رہنما ڈاکٹر توقیر گیلانی کا کہنا ہے کہ یہ مارچ ایل او سی کی دوسری جانب رہنے والے ان کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے ہے جو 'ایک ماہ سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود انڈین فوج کے محاصرے میں ہیں۔'

دھرنے سے قبل گذشتہ ماہ ہونے والے مارچ میں شریک افراد نے جب میرپور سے تیتری نوٹ کی جانب مارچ کیا تو شرکا کو کوٹلی سرساوہ اور ہجیرہ کے بعد داورندری کے مقام پر پولیس نے روکا جس سے دونوں کے درمیان شدید تصادم ہوا اور متعدد افراد زخمی ہو گئے تھے۔
 
Top