وسیم
محفلین
بھان متی کا کنبہ
بچپن سے سنتے آئے تھے، کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا، بھان متی نے کنبہ جوڑا۔ پر ہم سے نادانوں کو کیا خبر تھی کہ سڈنی آ کر دیکھنابھی پڑے گا کہ ایک بھان متی نا صرف یہاں موجود ہے بلکہ اس نے سارے سڈنی کی اینٹیں روڑے بھی اکٹھے کر رکھے ہیں۔
بھان متی سڈنی میں کب وارد ہوئی اس کے متعلق تاریخ نے خاموش رہنا ہی مناسب سمجھا۔ کیونکہ تاریخ میں اس طرح کی باتیں چھپائی جاتی ہیں بتائی نہیں جاتیں۔ بھان متی جب سڈنی آئی تو اس کے سر کے بال کالے، کمر لچکیلی اور چال نشیلی تھی۔ لیکن ہائے خرابیء قسمت، ایک طرف اردو ادب اور دوسری طرف بیگم بے ادب۔ سو وہ بال جو سڈنی کی تیز ہواؤں میں ساون کےبادلوں کی طرح لہراتے تھے رفتہ رفتہ لاچارگی سے اعمال صالح کی طرح کم ہوتے چلے گئے۔ اور دھیرے دھیرے اتنے کم رہ گئے کہ ہر چند ہیں کہ نہیں ہیں۔
سڈنی سے پہلے بھان متی کا کنبہ کافی چھوٹا تھا، لیکن سڈنی میں کیونکہ گوروں نے پہلے انگلینڈ کا سارا کاٹھ کباڑ چھانٹ کر بھیجا تھا تو ملکہ برطانیہ کے کالے انگریزوں نے بھی اس روایت کی پاسداری ضروری سمجھی۔ بھان متی کو کہیں سے مرزا شغلیہ ملے کہیں سے صبح صادق کی طرح ماسی مصیبتی طلوع ہوئی، ایک آدھ انکل سرگم بھی مل گئے اور سونے پہ سہاگا کچھ عرصے بعد ایک چاچا سیاپا بھی آوارد ہوئے۔
بھان متی نے اس پوٹلی کو اردو کی گوند سے جوڑا اور ایک نیا کنبہ جوڑ لیا۔ مصیبت یہ ہوئی کہ بھان متی کو ان کی کماحقہ سرپرستی کاموقع نا مل سکا اور شغلیہ اوہ سوری مغلیہ ابن بطوطہ اس رنگ رنگیلی دینا کو دیکھنے نکل پڑے، ماسی مصیبتے نے افسری قبول کر لی،انکل سرگم نے ڈاکٹری شروع کر دی اور رہے چاچا سیاپا، وہ تن فن سے سوٹ پہنے کبھی یہاں دھواں نکالتے رہے اور کبھی وہاں دھواں"نوشی" کرتے رہے۔ آخر کار ان کی دیوانگی کام آئی اور اس مستانے کو شاعر الموت دیوانے نے پہچان لیا۔
بھان متی نے بڑی ہوشیاری سے کنبے کی فنی خرابی نظر انداز کرتے ہوئے سب اینٹوں کو غالب اور سب روڑوں کو فیض ڈکلئیر کردیا۔ صاحب اس سے تو سڈنی میں قیامت ٹوٹ پڑی۔ اتنے شاعر تو غالب کے زمانے میں دہلی میں نہ ہوں گے جتنے سڈنی نے پیدا کردیے۔ کنبہ وسیع ہوا تو دادا کی ضرورت بھی آن پڑی۔ اس لیے بے حد غور و غوض کے بعد اس کنبے کے لیے ایک عدد دادا دریافت کیے گئے۔ لیکن وائے قسمت وہ دادا زیادہ دیر بے ادب نہ رہے اور راہی عدم ہو کر عزت بچانے میں ہی عافیت جانی۔
سال پہ سال بدلے، روڑے سے روڑہ بدلا، آسٹریلوی ڈالروں کی ریل پیل ہوئی تو بھان متی نے پے در پے ایم اے بی اےکتابیں چھاپ دیں اور ایک دن سینٹی ہو کر کنبے کو پروں میں چھپائے "دادا بھائی سنبھال کے" ایوارڈ کا اعلان کر دیا۔
سال دو ہزار انیس میں اگست کے مہینے میں بیرونِ ملک سے کچھ سنگ مرمر کے اجسام درآمد کیے گئے اور کنبے کو ساتھ بٹھا کر محفل سجا لی۔ محفل میں ایک دوسرے پہ داد و تحسین کے ڈونگرے برسائے بلکہ الٹائے گئے۔ بھان متی کی خوشی کا تو پوچھیے ہی نا۔ ایسالگا جیسے نئے بال و پر نکل آئے ہوں۔
لیکن افسوس یہ خوشیاں بھان متی کے بالوں کی طرح عارضی نکلیں۔ چاچا سیاپے نے سیاپا ڈال دیا کہ اس سال پہلا "دادا بھائی سنبھال کے" ایوارڈ مجھے ملنا چاہیے۔ وجہ پوچھی تو چمک کر بولے میں نے اردو شاعری میں مستعمل تمام بحروں کے نام یاد کر رکھےہیں اور موقع بہ موقع ان کو دہرا بھی دیتا ہوں تا کہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔ بھان متی بہت چیں بچیں ہوئی لیکن اگلے پانچ سال کے سیاپے سے بہتر تھا کہ اس سال ہی سیاپا مکا دیا جائے۔ چنانچہ ایوارڈ سیاپے کو دیا گیا اور اس طرح دو ہزارانیس کی محفل اختتام پذیر ہوئی۔ کنبے کے ممبران کا ذکر اگلی تحاریر میں۔۔۔
بچپن سے سنتے آئے تھے، کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا، بھان متی نے کنبہ جوڑا۔ پر ہم سے نادانوں کو کیا خبر تھی کہ سڈنی آ کر دیکھنابھی پڑے گا کہ ایک بھان متی نا صرف یہاں موجود ہے بلکہ اس نے سارے سڈنی کی اینٹیں روڑے بھی اکٹھے کر رکھے ہیں۔
بھان متی سڈنی میں کب وارد ہوئی اس کے متعلق تاریخ نے خاموش رہنا ہی مناسب سمجھا۔ کیونکہ تاریخ میں اس طرح کی باتیں چھپائی جاتی ہیں بتائی نہیں جاتیں۔ بھان متی جب سڈنی آئی تو اس کے سر کے بال کالے، کمر لچکیلی اور چال نشیلی تھی۔ لیکن ہائے خرابیء قسمت، ایک طرف اردو ادب اور دوسری طرف بیگم بے ادب۔ سو وہ بال جو سڈنی کی تیز ہواؤں میں ساون کےبادلوں کی طرح لہراتے تھے رفتہ رفتہ لاچارگی سے اعمال صالح کی طرح کم ہوتے چلے گئے۔ اور دھیرے دھیرے اتنے کم رہ گئے کہ ہر چند ہیں کہ نہیں ہیں۔
سڈنی سے پہلے بھان متی کا کنبہ کافی چھوٹا تھا، لیکن سڈنی میں کیونکہ گوروں نے پہلے انگلینڈ کا سارا کاٹھ کباڑ چھانٹ کر بھیجا تھا تو ملکہ برطانیہ کے کالے انگریزوں نے بھی اس روایت کی پاسداری ضروری سمجھی۔ بھان متی کو کہیں سے مرزا شغلیہ ملے کہیں سے صبح صادق کی طرح ماسی مصیبتی طلوع ہوئی، ایک آدھ انکل سرگم بھی مل گئے اور سونے پہ سہاگا کچھ عرصے بعد ایک چاچا سیاپا بھی آوارد ہوئے۔
بھان متی نے اس پوٹلی کو اردو کی گوند سے جوڑا اور ایک نیا کنبہ جوڑ لیا۔ مصیبت یہ ہوئی کہ بھان متی کو ان کی کماحقہ سرپرستی کاموقع نا مل سکا اور شغلیہ اوہ سوری مغلیہ ابن بطوطہ اس رنگ رنگیلی دینا کو دیکھنے نکل پڑے، ماسی مصیبتے نے افسری قبول کر لی،انکل سرگم نے ڈاکٹری شروع کر دی اور رہے چاچا سیاپا، وہ تن فن سے سوٹ پہنے کبھی یہاں دھواں نکالتے رہے اور کبھی وہاں دھواں"نوشی" کرتے رہے۔ آخر کار ان کی دیوانگی کام آئی اور اس مستانے کو شاعر الموت دیوانے نے پہچان لیا۔
بھان متی نے بڑی ہوشیاری سے کنبے کی فنی خرابی نظر انداز کرتے ہوئے سب اینٹوں کو غالب اور سب روڑوں کو فیض ڈکلئیر کردیا۔ صاحب اس سے تو سڈنی میں قیامت ٹوٹ پڑی۔ اتنے شاعر تو غالب کے زمانے میں دہلی میں نہ ہوں گے جتنے سڈنی نے پیدا کردیے۔ کنبہ وسیع ہوا تو دادا کی ضرورت بھی آن پڑی۔ اس لیے بے حد غور و غوض کے بعد اس کنبے کے لیے ایک عدد دادا دریافت کیے گئے۔ لیکن وائے قسمت وہ دادا زیادہ دیر بے ادب نہ رہے اور راہی عدم ہو کر عزت بچانے میں ہی عافیت جانی۔
سال پہ سال بدلے، روڑے سے روڑہ بدلا، آسٹریلوی ڈالروں کی ریل پیل ہوئی تو بھان متی نے پے در پے ایم اے بی اےکتابیں چھاپ دیں اور ایک دن سینٹی ہو کر کنبے کو پروں میں چھپائے "دادا بھائی سنبھال کے" ایوارڈ کا اعلان کر دیا۔
سال دو ہزار انیس میں اگست کے مہینے میں بیرونِ ملک سے کچھ سنگ مرمر کے اجسام درآمد کیے گئے اور کنبے کو ساتھ بٹھا کر محفل سجا لی۔ محفل میں ایک دوسرے پہ داد و تحسین کے ڈونگرے برسائے بلکہ الٹائے گئے۔ بھان متی کی خوشی کا تو پوچھیے ہی نا۔ ایسالگا جیسے نئے بال و پر نکل آئے ہوں۔
لیکن افسوس یہ خوشیاں بھان متی کے بالوں کی طرح عارضی نکلیں۔ چاچا سیاپے نے سیاپا ڈال دیا کہ اس سال پہلا "دادا بھائی سنبھال کے" ایوارڈ مجھے ملنا چاہیے۔ وجہ پوچھی تو چمک کر بولے میں نے اردو شاعری میں مستعمل تمام بحروں کے نام یاد کر رکھےہیں اور موقع بہ موقع ان کو دہرا بھی دیتا ہوں تا کہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔ بھان متی بہت چیں بچیں ہوئی لیکن اگلے پانچ سال کے سیاپے سے بہتر تھا کہ اس سال ہی سیاپا مکا دیا جائے۔ چنانچہ ایوارڈ سیاپے کو دیا گیا اور اس طرح دو ہزارانیس کی محفل اختتام پذیر ہوئی۔ کنبے کے ممبران کا ذکر اگلی تحاریر میں۔۔۔