بھتہ نہ ملنے پر ایک جماعت کے کارکنوں نے فیکٹری کے سینکڑوں ملازمین کو زندہ جلایا گیا

نیرنگ خیال

لائبریرین
کراچی کے علاقے بلدیہ ٹائون کی فیکٹری میں آگ لگنے سے تین سو کے قریب ہلاکتوں کے بارے میں انکشاف ہوا ہے کہ یہ کوئی حادثہ نہیں تھابلکہ کراچی میں جاری بھتے کی لڑائی کا ایک کارنامہ تھا۔ ایک جماعت کےکارکن فیکٹری سے پانچ کروڑ روپے بھتہ مانگ رہے تھے جب کہ مالکان دینے پر تیار نہ تھے جس پر ایک جماعت کے کارکنوں نے فیکٹری مین آگ لگا دی۔ ان کا خیال تھا کہ آگ لگنے سے کچھ نقصان ہو گا جس سے مالکان ڈر کر ان کو رقم ادا کردیں گے مگر الگ پھیل گئی اور اکثر لوگ اندر ہی جل کر مرگئے۔ اس حقیقت کے سامنے آنے کے باوجود پولیس نے اس جماعت کے خلاف کارروائی کےبجائے فیکٹری مالکان کے خلاف مقدمہ درج کرلیا ہے۔ بلدیہ ٹاوٴن میں گارمنٹس فیکٹری کے سانحہ سے متعلق دو انٹیلی جنس اداروں نے اپنی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹس حکومت سندھ کو پیش کردی ہیں۔ یہ رپورٹس صدر آصف علی زرداری، وفاقی وزیر داخلہ، وزیراعلیٰ سندھ اور دیگر متعلقہ حکام کو ارسال کردی گئی ہیں۔ باخبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ ان رپورٹس میں دہشت گردی کے امکان کو نظرانداز نہیں کیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق حکومت سندھ نے پولیس ، محکمہ محنت ، محکمہ صنعت اور محکمہ بلدیات کو بھی اپنے اپنے طور پر تحقیقات کرنے کی ہدایت کردی ہے۔سانحہ بلدیہ ٹاؤن کی تحقیقات پر مامور تحقیقاتی ٹیموں کو معلوم ہوا ہے کہ متاثرہ فیکٹری علی انٹر پرائزز کے مالک میاں عبدالعزیز بیلہ 15 روز قبل بیرون ملک منتقل ہوچکے ہیں فیکٹری مالکان کے پاس 3سے زائد ممالک کے ویزے موجود ہیں، فیکٹری میں دو مرتبہ پہلے بھی آگ لگ چکی ہے جبکہ ایک بڑی چوری بھی ہوئی تھی، فیکٹری کے مالکان سے ایک جماعت کے افراد نے 5 کروڑ روپے بھتہ بھی طلب کیا تھا، آگ کے وقت 6سو ملازمین فیکٹری میں موجود تھے جنہیں فیکٹری انتظامیہ نے جان کی بجائے مال بچانے کی ہدایت کی تھی، ذرائع کے مطابق بلدیہ ٹاؤن نمبر2 ، حب ریور روڈ پر واقع مذکورہ فیکٹری 2 ایکڑ زمین پر قائم تھی، سانحے کی تحقیقات پرمامور 2تفتیشی ٹیموں نے تحقیقات کا آغاز کردیا ہے ابتدائی طورپر تفتیش کاروں زخمی فیکٹری ملازمین کے بیانات قلمند کئے، جنہوں نے تفتیش کاروں کو بتایاکہ آگ لگنے کے وقت فیکٹری میں بجلی منقطع تھی اور اس وقت قریباً 6سو ملازم فیکٹری میں موجود تھے، انہوں نے بتایاکہ فیکٹری انتظامیہ نے ملازمین کو جان بچانے کی بجائے پہلے فیکٹری کے سامان کو بچانے کی ہدایت کی تھی، انہوں نے بتایاکہ فیکٹری میں 2سال پہلے اورپھرقریباً 6ماہ پہلے بھی آگ لگ چکی ہے جبکہ رمضان میں فیکٹری میں ایک بڑی چوری ہوئی تھی ، جس کے بعد فیکٹری مالکان نے دروازوں میں آٹومیٹک لاک اور کھڑکیوں پرلوہے کی گرل لگوادی تھیں، منگل کو فیکٹری میں تنخواہ دی جارہی تھی اس لئے تمام دروازے مکمل طور پر بند تھے، فیکٹری ملازمین نے تفتیش کاروں کو بتایاکہ بعض نامعلوم افراد نے فیکٹری کے مالک میاں عبدالعزیز بیلہ سے5کروڑ روپے بھتہ مانگا تھا جس کے باعث انہوں نے فیکٹری آنا چھوڑ دیا تھا اور 15روز پہلے ان کے بیرون ملک منتقل ہونے کی بھی اطلاعات ہیں، جبکہ فیکٹری مالکان کے پاس 3سے زائد ملکوں کے کار آمد ویزے بھی موجود تھے۔
سائٹ ایریا میں گارمنٹس فیکٹری میں لگنے والی آگ نے جہاں بہت سی انسانی جانوں کو نگل لیا وہاں یہ سانحہ اپنے پیچھے بہت سے سوالات چھوڑ گیا ہے۔ فیکٹری کے گیٹ پر تالا لگنا ہونا، اور ملازمین کیلئے باہر نکلنے کا ایک ہی راستہ ہونا بھی شک میں ڈالتا ہے کہ کیا فیکٹری میں لیبر لاز پر عمل ہو رہا تھا ۔ سائٹ ایریا میں 50 سے زائد ایسی فیکٹری ہیں جو لیبرز لاز پر عمل نہیں کرتی ۔فیکٹریوں کو چیک کرنے والے تمام محکموں کے ماہانہ بھتے مقرر ہیں ہر ماہ متعلقہ محکمے کا نمائندہ فیکٹری میں آتا ہے اور اپنا لفافہ لے کر چلاجاتا ہے۔ سائٹ ایسوسی ایشن آف ٹریڈ انڈسٹری کے سابق چیئر مین سراج قاسم تیلی نے بتایا کہ واقعہ افسوناک ہے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ اس واقعہ کی تحقیقات کی جائیں اور حکومت نے جس طرح تحقیقات شروع کی ہیں صورتحال دو روز میں سامنے آجائے گی۔سائٹ ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری عرفان موٹن نے کہا کہ فیکٹری کے مالک نے رابطہ کرکے فیکٹری کو بچانے اور اعلی احکام سے بات کرنے کیلئے رابطہ قائم کیا تھا۔لیکن اس کے بعد دوبارہ رابطہ قائم نہیں ہوا۔سائٹ ایریا میں یہ فیکٹری تقریباً 20 سال سے قائم ہے ۔فیکٹری کا مالک جو میمن ہے اور بھائیلا جماعت سے تعلق رکھتا ہے۔اچھی شہرت کا حامل صنعت کار ہے اور اس سے مکمل پیداوار برآمد ہوتی ہے اور غیر ملکی خریداروں کو بھی اس فیکٹری میں دیکھا گیا ہے۔تاہم بعض صنعت کاروں کا کہنا ہے کہ فیکٹری کی کچھ تعمیرات غیر قانونی ہے اور ایک بات سمجھ میں نہیں آتی کہ فیکٹری میں ایک ہزار مرد و خواتین کام کرتے ہیں وہ اپنے آپ کو بچانے کے لئے کچھ نہیں کرسکے۔صنعت کاروں کا کہنا ہے کہ فیکٹری کے گیٹ کو تالا لگانا بھی شک میں ڈالتا ہے۔کیا فیکٹری میں لیبر لاز پر عمل ہورہا تھا تو پھر لیبر کو فیکٹری سے نکلنے کے راستے کیوں فراہم نہیں کئے گئے۔ بعض صنعت کاروں کا کہنا ہے کہ فیکٹری میں آگ لگنا کوئی سیاسی مسئلہ نہ ہو کیونکہ فیکٹری میں کئی زبان کے لوگ کام کرتے تھے۔صنعت کاروں کا کہنا ہے کہ آگ لگنے کا جو جواز پیش کیا جارہا ہے وہ ٹھوس ثبوت نہیں ہے آگ لگنے کی سخت تحقیقات کی جائیں اوروجوہات معلوم کی جائیں کہ آگ کیوں لگی اور فیکٹری میں کیا فائر فائٹنگ کے آلات نہیں تھے اگر تھے تو کیا نا کارہ ہوچکے تھے۔صنعت کاروں کا کہنا ہے کہ فیکٹری میں ایسا کوئی کیمیکل ملنے کی اطلاعات نہیں ملی جس سے اسطرح کی خطرناک آگ لگ سکے۔ سائٹ صنعتی ایریا کے صنعت کار گار منٹس فیکٹری میں لگنے والی آگ سے بہت خوف زیادہ ہیں اور صنعت کاروں نے فیکٹری کو چیک کرنے کے لئے ازخود سائٹ لمیٹڈ سے رابطہ قائم کیا ہے۔ دوسری جانب سانحہ بلدیہ ٹاؤن میں ڈھائی سو سے زائد افراد کی ہلاکت کا مقدمہ قتل عمد کی دفعہ 302 کے تحت فیکٹری مالکان، انتظامیہ، محکمہ محنت، شہری دفاع، سائٹ لمیٹڈ اور دیگر متعلقہ اداروں کے خلاف درج کرلیا گیا۔ پولیس کے مطابق بلدیہ ٹاؤن نمبر2 حب ریورروڈ پر واقع علی انٹرپرائزز نامی گارمنٹ فیکٹری میں لگنے و الی آگ کے نتیجے میں ڈھائی سو سے زائد افراد کی ہلاکت کی ایف آئی آر نمبر 343/12 قتل عمد کی دفعہ 302 کے تحت فیکٹری کے مالک میاں عبدالعزیز بیلہ، اس کے بیٹے میاں شاہد بیلہ اور داماد میاں ارشد بیلہ، فیکٹری انتظامیہ، محکمہ محنت، سول ڈیفنس، سائٹ لمیٹڈ اور دیگر متعلقہ سرکاری اداروں کے خلاف تھانہ سائٹ بی میں درج کرلی گئی ہے تاہم کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اس نے ملزمان کی گرفتاری کے لئے ان کی رہائش گاہوں واقع ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی، بہادرآباد اور کے ڈی اے اسکیم نمبر1 میں چھاپے مارے مگر ملزمان مفرور ہوچکے ہیں۔
نوٹ: یہ احوال سے لیا گیا ہے

اس آگ سے متعلق اک تصویر میں پوچھے گئے چند سوالات
539279_490013484343726_1824207845_n.jpg
 

Muhammad Qader Ali

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یہ میں بھی سوچ رہا تھا کہ اس کے پیچھے کسی نہ کسی کا ہاتھ ہے
جن لوگوں نے بھی یہ کام کیا ہے وہ لوگ بھی نہیں بچیں گے۔
ان شاء اللہ
ہم بھی اپنے کراچی میں جو ہماری دکان جو 90 کے احاطے میں ہے
اس سے مختلف ناموں سے لیے جانے والے بھتہ ادا کرتے ہیں۔ اس میں سے فطرانہ
جو 500 سے 500000 تک ہوسکتی ہے۔ کبھی اسلام میں فطرانہ ایک کنبے کے لیے اتنا نہیں
ہوسکتا۔ اگر ہم یہ پیسے نہ دینگے تو ہمارے تجارت میں خلل ڈالیں گے اس کی کئیں ایک صورتیں
ہوسکتی ہیں۔ اوپر کی مثال آپ کے سامنے ہے۔
ان لوگوں سے دوستی بھی مہنگی اور دشمنی بھی۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یہ میں بھی سوچ رہا تھا کہ اس کے پیچھے کسی نہ کسی کا ہاتھ ہے
جن لوگوں نے بھی یہ کام کیا ہے وہ لوگ بھی نہیں بچیں گے۔
ان شاء اللہ
ہم بھی اپنے کراچی میں جو ہماری دکان جو 90 کے احاطے میں ہے
اس سے مختلف ناموں سے لیے جانے والے بھتہ ادا کرتے ہیں۔ اس میں سے فطرانہ
جو 500 سے 500000 تک ہوسکتی ہے۔ کبھی اسلام میں فطرانہ ایک کنبے کے لیے اتنا نہیں
ہوسکتا۔ اگر ہم یہ پیسے نہ دینگے تو ہمارے تجارت میں خلل ڈالیں گے اس کی کئیں ایک صورتیں
ہوسکتی ہیں۔ اوپر کی مثال آپ کے سامنے ہے۔
ان لوگوں سے دوستی بھی مہنگی اور دشمنی بھی۔

بس سر کیا کہا جا سکتا ہے۔ انسانوں کو اپنی طاقت اور قوت کا خود اندازہ لگانا پڑے گا۔ ورنہ یہ چور ڈاکو لٹیرے یونہی خون چوس چوس کر ہڈیوں کی مالا بنا دیں گے سب کو۔
پاکستان کے لوگو! اپنی طاقت کو پہچانو
295272_10151406392923102_186023569_n.jpg
 
کچھ بھی کہیے۔ لیکن جس جماعت طرف آپ کا اشارہ ہے۔ یہ اس کا کارنامہ نہیں ہوسکتا۔
اس قسم کے شاندار کارنامے کراچی میں صرف ایک اقلیتی بھتہ خور گروہ ہی انجام دیتا ہے۔
ہاں ہاں وہی۔۔۔۔۔
جس نے گزشتہ سال ماہ رمضان میں شیطان کو بھی مات دے دی تھی۔
 

نایاب

لائبریرین
ابھی اس الزام پر تبصرہ کرنا بہتر نہ ہوگا ۔
یہ اک ایسی سائٹ سے لیا گیا ہے جو کہ سنسی خیزی پیدا کرنے والے پروپیگنڈے کی حامل ہے ۔
ابھی اس سانحہ کی تفتیش جاری ہے ۔ اور اس طرح الزام لگانے سے نسلی و لسانی فسادات ابھر سکتے ہیں ۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
کچھ بھی کہیے۔ لیکن جس جماعت طرف آپ کا اشارہ ہے۔ یہ اس کا کارنامہ نہیں ہوسکتا۔
اس قسم کے شاندار کارنامے کراچی میں صرف ایک اقلیتی بھتہ خور گروہ ہی انجام دیتا ہے۔
ہاں ہاں وہی۔۔۔ ۔۔
جس نے گزشتہ سال ماہ رمضان میں شیطان کو بھی مات دے دی تھی۔
سر میں تو کسی کیطرف اشارہ نہیں کر رہا۔ میں تو اس نیت سے شئیر کیا کہ احباب بتائیں گے اپنی رائے۔ مجھے تو علم نہیں کراچی کا اور اسکے حالات کا۔ نہ میں کبھی گیا وہاں
 

نیلم

محفلین
ٹی وی میں بھی بھتہ خوروں کاذکر تو کیا جارہاتھا.اور واقعی کراچی میں بھتہ خوروں نے لوگوں کی زندگی عذاب بنائی ہوئی ہے.اللہ ہدایت دے سب کو.ہر طرف بیچارہ غریب ہی مر رہاہے.
 

باباجی

محفلین
اس تمام سانحے میں کسی بہت بڑی سازش کی بُو آرہی ہے
بہرحال خون ناحق کبھی رائیگاں نہیں جاتا انشاءاللہ اس کے زمہ داران کو بھگتنا ہوگا
باقی دل پھٹا جارہا ہے یہ سوچ کر کہ 600 انسانی جانوں کی قیمت صرف پانچ کروڑ
اف خدایا یہ کیسی قیامت ہے جو ٹوٹی ہے
ہے کوئی جو مرنے والوں کے لواحقین کو انصاف و صبر دلائے
ہے کوئی جو ذمہ داران کو قرار واقعی سزا دے کر انصاف کا جھنڈا بلند کرے
ہے کوئی جو اس بات کی ذمہ داری لے کہ آئندہ ایسا ہوا تو اس سے نپٹنے کے لیئے مکمل بندوبست ہوگا ؟؟؟؟
نہیں نہیں ہے کوئی
کیونکہ انصاف بھی انہوں نے کرنا ہے جو اس سانحہ میں ملوث ہیں
پوری حکومت ملوث ہے اس میں
اس کا مقدمہ 600 معصوم انسانوں کے قتلِ عمد کا مقدمہ حکومت کے خلاف درج کیا جائے
اور فیکٹری مالکان کو انٹرپول کو ذریعے پاکستان واپس لایا جائے
لیکن ڈر یہ ہے کہ ہمارا ایمان بکاؤ ہے
بک جاتے ہیں کچھ روپوں کے لیئے
 
سر میں تو کسی کیطرف اشارہ نہیں کر رہا۔ میں تو اس نیت سے شئیر کیا کہ احباب بتائیں گے اپنی رائے۔ مجھے تو علم نہیں کراچی کا اور اسکے حالات کا۔ نہ میں کبھی گیا وہاں
آپ کی خبر کی بنیاد پر آپ سے مخاطب تھا میں۔ :)
ویسے واقعی اگر کہ ایسا ہے تو یقینا ایک ہی گروہ کا کم ہوسکتا ہے۔ جو دکانوں پر بم پھینکنے کے سلسلے میں بھی کافی فعال ہے۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
اس تمام سانحے میں کسی بہت بڑی سازش کی بُو آرہی ہے
بہرحال خون ناحق کبھی رائیگاں نہیں جاتا انشاءاللہ اس کے زمہ داران کو بھگتنا ہوگا
باقی دل پھٹا جارہا ہے یہ سوچ کر کہ 600 انسانی جانوں کی قیمت صرف پانچ کروڑ
اف خدایا یہ کیسی قیامت ہے جو ٹوٹی ہے
ہے کوئی جو مرنے والوں کے لواحقین کو انصاف و صبر دلائے
ہے کوئی جو ذمہ داران کو قرار واقعی سزا دے کر انصاف کا جھنڈا بلند کرے
ہے کوئی جو اس بات کی ذمہ داری لے کہ آئندہ ایسا ہوا تو اس سے نپٹنے کے لیئے مکمل بندوبست ہوگا ؟؟؟؟
نہیں نہیں ہے کوئی
کیونکہ انصاف بھی انہوں نے کرنا ہے جو اس سانحہ میں ملوث ہیں
پوری حکومت ملوث ہے اس میں
اس کا مقدمہ 600 معصوم انسانوں کے قتلِ عمد کا مقدمہ حکومت کے خلاف درج کیا جائے
اور فیکٹری مالکان کو انٹرپول کو ذریعے پاکستان واپس لایا جائے
لیکن ڈر یہ ہے کہ ہمارا ایمان بکاؤ ہے
بک جاتے ہیں کچھ روپوں کے لیئے
اک آدمی کو زندہ جلتا نہ دیکھ سکوں کجا یہ کہ سینکڑوں۔ میں تو بس بیٹھا رہ گیا لوگوں کی درندگی دیکھ کر جب ٹی-وی پر دیکھا کہ لوگ رپورٹر کے ارد گرد گھیرا ڈالے کھڑے ہیں کہ کیمرے میں آجائیں بس
 

نیلم

محفلین
میں کراچی جاتی رہتی ہوں.مجھے تو کراچی میں الطاف حسین کی تصاویر جو جگہ جگہ لگی ہوئی ہیں دیکھ کےغصہ آتاہے بہت.
 

نیلم

محفلین
ایک بار میں کراچی میں اپنی پھوپھوکی بیٹی کے گھر میں تھی.یہ اُن دنوں کاواقعہ ہےجن دنوں ایم کیو ایم کا ایک رکن جس کا مجھے نام یاد نہیں آرہا.انگلینڈ میں ماراگیاتھا.اُس کی ڈیڈبوڈی آنی تھی صبح میں اور ایم کیوایم نے ہڑتال کا اعلان کر دیاتھاکہ صبح کوہڑتال ہوگی.رات 2بجےکا ٹائم تھا.میں اور میری کزن ایک ہی روم میں سو رہےتھیں اور گیلری کا دروازہ بھی کھلا ہوا تھا.ایک دم سے بہت شدید فائرنگ کی آوازیں آنےلگ گئی میں ایک دم ڈر کے اُٹھ کے بیٹھ گئی اتنےقریب سے میں نے کبھی فائرنگ کی آواز نہیں سنی تھی.میں نے کزن سے کہا لگتاہےڈاکو آگئے.ہم لوگ جلدی سے اُٹھے اور کمرےسے نکل کےہال میں آگئےکہ بلکل سامنےہی گیلری سےگولی اندر بھی آسکتی تھی.عورتوں کی چیخوں کی آوازیں بھی آرہی تھی.تھوڑی دیر بعد فائرنگ روکی تو ہم نےکھڑکھی سے جانکھ کے دیکھا بائر پولیس بھی آگئی تھی....جاری ہے
 
Top