بھتہ نہ ملنے پر ایک جماعت کے کارکنوں نے فیکٹری کے سینکڑوں ملازمین کو زندہ جلایا گیا

محمد امین

لائبریرین
اگر یہ منظر عام پر ہے تو انکا ہاتھ پکڑنے کا فرض نبھائیے

ہم اتنا ہی کر سکتے ہیں کہ مختلف پلیٹ فورمز پر ان کی نشاندہی کریں جیسا کہ ابھی کر رہے ہیں۔۔۔نہ ہی ہم صاحبِ اختیار ہیں اور نہ ہی اسلحہ بردار۔۔۔

صاحبِ اختیار سے یاد آیا۔۔۔

شہر کرے طلب اگر تم سے علاجِ تیرگی
صاحبِ اختیار ہو آگ لگا دیا کرو
(پیرزادہ قاسم)
 

x boy

محفلین
کراچی کے علاقے بلدیہ ٹائون کی فیکٹری میں آگ لگنے سے تین سو کے قریب ہلاکتوں کے بارے میں انکشاف ہوا ہے کہ یہ کوئی حادثہ نہیں تھابلکہ کراچی میں جاری بھتے کی لڑائی کا ایک کارنامہ تھا۔ ایک جماعت کےکارکن فیکٹری سے پانچ کروڑ روپے بھتہ مانگ رہے تھے جب کہ مالکان دینے پر تیار نہ تھے جس پر ایک جماعت کے کارکنوں نے فیکٹری مین آگ لگا دی۔ ان کا خیال تھا کہ آگ لگنے سے کچھ نقصان ہو گا جس سے مالکان ڈر کر ان کو رقم ادا کردیں گے مگر الگ پھیل گئی اور اکثر لوگ اندر ہی جل کر مرگئے۔ اس حقیقت کے سامنے آنے کے باوجود پولیس نے اس جماعت کے خلاف کارروائی کےبجائے فیکٹری مالکان کے خلاف مقدمہ درج کرلیا ہے۔ بلدیہ ٹاوٴن میں گارمنٹس فیکٹری کے سانحہ سے متعلق دو انٹیلی جنس اداروں نے اپنی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹس حکومت سندھ کو پیش کردی ہیں۔ یہ رپورٹس صدر آصف علی زرداری، وفاقی وزیر داخلہ، وزیراعلیٰ سندھ اور دیگر متعلقہ حکام کو ارسال کردی گئی ہیں۔ باخبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ ان رپورٹس میں دہشت گردی کے امکان کو نظرانداز نہیں کیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق حکومت سندھ نے پولیس ، محکمہ محنت ، محکمہ صنعت اور محکمہ بلدیات کو بھی اپنے اپنے طور پر تحقیقات کرنے کی ہدایت کردی ہے۔سانحہ بلدیہ ٹاؤن کی تحقیقات پر مامور تحقیقاتی ٹیموں کو معلوم ہوا ہے کہ متاثرہ فیکٹری علی انٹر پرائزز کے مالک میاں عبدالعزیز بیلہ 15 روز قبل بیرون ملک منتقل ہوچکے ہیں فیکٹری مالکان کے پاس 3سے زائد ممالک کے ویزے موجود ہیں، فیکٹری میں دو مرتبہ پہلے بھی آگ لگ چکی ہے جبکہ ایک بڑی چوری بھی ہوئی تھی، فیکٹری کے مالکان سے ایک جماعت کے افراد نے 5 کروڑ روپے بھتہ بھی طلب کیا تھا، آگ کے وقت 6سو ملازمین فیکٹری میں موجود تھے جنہیں فیکٹری انتظامیہ نے جان کی بجائے مال بچانے کی ہدایت کی تھی، ذرائع کے مطابق بلدیہ ٹاؤن نمبر2 ، حب ریور روڈ پر واقع مذکورہ فیکٹری 2 ایکڑ زمین پر قائم تھی، سانحے کی تحقیقات پرمامور 2تفتیشی ٹیموں نے تحقیقات کا آغاز کردیا ہے ابتدائی طورپر تفتیش کاروں زخمی فیکٹری ملازمین کے بیانات قلمند کئے، جنہوں نے تفتیش کاروں کو بتایاکہ آگ لگنے کے وقت فیکٹری میں بجلی منقطع تھی اور اس وقت قریباً 6سو ملازم فیکٹری میں موجود تھے، انہوں نے بتایاکہ فیکٹری انتظامیہ نے ملازمین کو جان بچانے کی بجائے پہلے فیکٹری کے سامان کو بچانے کی ہدایت کی تھی، انہوں نے بتایاکہ فیکٹری میں 2سال پہلے اورپھرقریباً 6ماہ پہلے بھی آگ لگ چکی ہے جبکہ رمضان میں فیکٹری میں ایک بڑی چوری ہوئی تھی ، جس کے بعد فیکٹری مالکان نے دروازوں میں آٹومیٹک لاک اور کھڑکیوں پرلوہے کی گرل لگوادی تھیں، منگل کو فیکٹری میں تنخواہ دی جارہی تھی اس لئے تمام دروازے مکمل طور پر بند تھے، فیکٹری ملازمین نے تفتیش کاروں کو بتایاکہ بعض نامعلوم افراد نے فیکٹری کے مالک میاں عبدالعزیز بیلہ سے5کروڑ روپے بھتہ مانگا تھا جس کے باعث انہوں نے فیکٹری آنا چھوڑ دیا تھا اور 15روز پہلے ان کے بیرون ملک منتقل ہونے کی بھی اطلاعات ہیں، جبکہ فیکٹری مالکان کے پاس 3سے زائد ملکوں کے کار آمد ویزے بھی موجود تھے۔
سائٹ ایریا میں گارمنٹس فیکٹری میں لگنے والی آگ نے جہاں بہت سی انسانی جانوں کو نگل لیا وہاں یہ سانحہ اپنے پیچھے بہت سے سوالات چھوڑ گیا ہے۔ فیکٹری کے گیٹ پر تالا لگنا ہونا، اور ملازمین کیلئے باہر نکلنے کا ایک ہی راستہ ہونا بھی شک میں ڈالتا ہے کہ کیا فیکٹری میں لیبر لاز پر عمل ہو رہا تھا ۔ سائٹ ایریا میں 50 سے زائد ایسی فیکٹری ہیں جو لیبرز لاز پر عمل نہیں کرتی ۔فیکٹریوں کو چیک کرنے والے تمام محکموں کے ماہانہ بھتے مقرر ہیں ہر ماہ متعلقہ محکمے کا نمائندہ فیکٹری میں آتا ہے اور اپنا لفافہ لے کر چلاجاتا ہے۔ سائٹ ایسوسی ایشن آف ٹریڈ انڈسٹری کے سابق چیئر مین سراج قاسم تیلی نے بتایا کہ واقعہ افسوناک ہے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ اس واقعہ کی تحقیقات کی جائیں اور حکومت نے جس طرح تحقیقات شروع کی ہیں صورتحال دو روز میں سامنے آجائے گی۔سائٹ ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری عرفان موٹن نے کہا کہ فیکٹری کے مالک نے رابطہ کرکے فیکٹری کو بچانے اور اعلی احکام سے بات کرنے کیلئے رابطہ قائم کیا تھا۔لیکن اس کے بعد دوبارہ رابطہ قائم نہیں ہوا۔سائٹ ایریا میں یہ فیکٹری تقریباً 20 سال سے قائم ہے ۔فیکٹری کا مالک جو میمن ہے اور بھائیلا جماعت سے تعلق رکھتا ہے۔اچھی شہرت کا حامل صنعت کار ہے اور اس سے مکمل پیداوار برآمد ہوتی ہے اور غیر ملکی خریداروں کو بھی اس فیکٹری میں دیکھا گیا ہے۔تاہم بعض صنعت کاروں کا کہنا ہے کہ فیکٹری کی کچھ تعمیرات غیر قانونی ہے اور ایک بات سمجھ میں نہیں آتی کہ فیکٹری میں ایک ہزار مرد و خواتین کام کرتے ہیں وہ اپنے آپ کو بچانے کے لئے کچھ نہیں کرسکے۔صنعت کاروں کا کہنا ہے کہ فیکٹری کے گیٹ کو تالا لگانا بھی شک میں ڈالتا ہے۔کیا فیکٹری میں لیبر لاز پر عمل ہورہا تھا تو پھر لیبر کو فیکٹری سے نکلنے کے راستے کیوں فراہم نہیں کئے گئے۔ بعض صنعت کاروں کا کہنا ہے کہ فیکٹری میں آگ لگنا کوئی سیاسی مسئلہ نہ ہو کیونکہ فیکٹری میں کئی زبان کے لوگ کام کرتے تھے۔صنعت کاروں کا کہنا ہے کہ آگ لگنے کا جو جواز پیش کیا جارہا ہے وہ ٹھوس ثبوت نہیں ہے آگ لگنے کی سخت تحقیقات کی جائیں اوروجوہات معلوم کی جائیں کہ آگ کیوں لگی اور فیکٹری میں کیا فائر فائٹنگ کے آلات نہیں تھے اگر تھے تو کیا نا کارہ ہوچکے تھے۔صنعت کاروں کا کہنا ہے کہ فیکٹری میں ایسا کوئی کیمیکل ملنے کی اطلاعات نہیں ملی جس سے اسطرح کی خطرناک آگ لگ سکے۔ سائٹ صنعتی ایریا کے صنعت کار گار منٹس فیکٹری میں لگنے والی آگ سے بہت خوف زیادہ ہیں اور صنعت کاروں نے فیکٹری کو چیک کرنے کے لئے ازخود سائٹ لمیٹڈ سے رابطہ قائم کیا ہے۔ دوسری جانب سانحہ بلدیہ ٹاؤن میں ڈھائی سو سے زائد افراد کی ہلاکت کا مقدمہ قتل عمد کی دفعہ 302 کے تحت فیکٹری مالکان، انتظامیہ، محکمہ محنت، شہری دفاع، سائٹ لمیٹڈ اور دیگر متعلقہ اداروں کے خلاف درج کرلیا گیا۔ پولیس کے مطابق بلدیہ ٹاؤن نمبر2 حب ریورروڈ پر واقع علی انٹرپرائزز نامی گارمنٹ فیکٹری میں لگنے و الی آگ کے نتیجے میں ڈھائی سو سے زائد افراد کی ہلاکت کی ایف آئی آر نمبر 343/12 قتل عمد کی دفعہ 302 کے تحت فیکٹری کے مالک میاں عبدالعزیز بیلہ، اس کے بیٹے میاں شاہد بیلہ اور داماد میاں ارشد بیلہ، فیکٹری انتظامیہ، محکمہ محنت، سول ڈیفنس، سائٹ لمیٹڈ اور دیگر متعلقہ سرکاری اداروں کے خلاف تھانہ سائٹ بی میں درج کرلی گئی ہے تاہم کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اس نے ملزمان کی گرفتاری کے لئے ان کی رہائش گاہوں واقع ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی، بہادرآباد اور کے ڈی اے اسکیم نمبر1 میں چھاپے مارے مگر ملزمان مفرور ہوچکے ہیں۔

نوٹ: یہ احوال سے لیا گیا ہے

اس آگ سے متعلق اک تصویر میں پوچھے گئے چند سوالات
539279_490013484343726_1824207845_n.jpg

بالکل درست ہے سرجی
 

x boy

محفلین
اچھا تو اس میں ایم کیو ایم کی جانب اشارہ کیا گیا ہے۔۔ میرا ایسے پروپگینڈا پھیلانے والے لوگوں سے سوال ہے کہ اے این پی ک طرف کیوں انگلی نہیں اٹھاتے؟؟ میں ابھی چھتیس مثالیں دے دوں گا اے این پی اور بلوچوں کی بھتہ خوری کی۔ ایم کیو ایم کی بھتہ خوری اپنی جگہ مگر پچھلے 3،4 سالوں میں جو ہزاروں لوگ مارے گئے ہیں وہ پٹھان بھائیوں اور بلوچ بھائیوں کی بھتہ خوری اور گینگ وار کی وجہ سے مارے گئے ہیں اس پر کسی کی انگلی کیوں نہیں اٹھتی؟

ایم کیو ایم میں لاکھ بدمعاش ہوں میری بلا سے۔۔۔مگر ان لوگوں کے خلاف کیوں نہیں بولتے کہ کراچی جن کا شہر بھی نہیں ہے اور وہ کراچی کو نوچ کھسوٹ بھی رہے ہیں۔۔۔وہ مرتے ہیں تو مردان میں بنوں میں دفن ہوتے ہیں اور بھتہ اور بدمعاشی کراچی میں؟؟؟ ان کی طرف انگلی کیوں نہیں اٹھتی؟ ڈرتے ہیں کیا لوگ؟ اے این پی کا سندھ میں کیا اسٹیک ہے؟ پورے سندھ سے ایک نشست اور اچھلتے کتنا ہیں وہ اسی لیے کہ کراچی میں بھتہ، قبضہ، منشیات اور اسلحہ فروشی کا اسٹیک ہے انکا۔۔۔ کراچی کی ٹرانسپورٹ تباہ کر کے رکھ دی ہے اے این پی نے۔۔۔ کوئی نئی بس نہیں چلنے دیتے توڑ پھوڑ کر دیتے ہیں آگ لگا دیتے ہیں وہی 40 40 سال پرانی بسیں چلا کر لوگوں کو تکلیف دے رہے ہیں پھر بھی اربوں کما رہے ہیں کہ لوگ مجبور ہیں۔۔۔ان کے خلاف کوئی نہیں بولتا۔۔۔جہاں کہیں چڑیا کا بچہ بھی مرجائے تو ایم کیو ایم۔۔۔

ان شاء اللہ اب سب کی شامت آئی گی۔
 
Top