نیرنگ خیال
لائبریرین
جی ضرور۔۔۔
ایک انتہائی تلخ حقیقت پر مبنی پُر اثر سوچنے پر مجبور کر دینے والی تحریر ۔
تبصرہ کرنا واقعی بہت مشکل تھا۔
لکھتے رہیں اور ذہنوں کو جھنجھوڑتے رہیں۔ کون جانے آپ کے الفاظ کتنوں کی بھلائی کا ذریعہ بن جائیں۔
جی ضرور۔۔۔
ایک انتہائی تلخ حقیقت پر مبنی پُر اثر سوچنے پر مجبور کر دینے والی تحریر ۔
تبصرہ کرنا واقعی بہت مشکل تھا۔
لکھتے رہیں اور ذہنوں کو جھنجھوڑتے رہیں۔ کون جانے آپ کے الفاظ کتنوں کی بھلائی کا ذریعہ بن جائیں۔
ساحر کی کتاب تلخیاں پڑھیں۔۔ یہی درد جابجا ملے گا۔ گر چاہیے تو مجھے بتا دیں۔۔ میں نے کسی دور میں آدھی سے زیادہ ٹائپ کر کے اپنے فیس بک نوٹس میں شائع کی تھی۔
اگر آپ کے لیے بھی کچھ نہیں بچا تو ہم جیسے قلیل الفاظ کی لغت رکھنے والوں کو پہلے ہی اک طرف ہوجانا چاہیے۔اتنی ساری باتیں اس تحریر پر ہو گئی ہیں کہ میرے کہنے کے لئے کچھ بچا ہی نہیں۔۔۔
مختصر یہ کہ بہت اثر انگیز اور بہت دل کو لگنے والی داستان ہے یہ ۔ زیادہ تلخ بات یہ ہے کہ یہ صرف افسانہ نہیں بلکہ ہمارے جیتے جاگتے معاشرے کی پیداوار ہے۔
شکریہ سربہت خوب لکھا ہے نیرنگ خیال! سادہ اور پر اثر۔۔۔ واہ۔
بھائی یہاں جملہ حقوق وغیرہ کے بہت پھڈے ہیں۔۔۔ اس لیے ایسے کاموں میں ہاتھ نہیں ڈالتا۔۔۔۔جب اتنی محنت کی ہی تھی بھائی جان تو تھوڑی اور سہی مکمل کتاب تائپ کر کے بھیج دیں الف عین چاچو کو لائبریری کی زینت بنادیں گے ۔آپ کو ڈھیر ساری دعائیں تو مل ہی جائیں گی۔ وہ بھی مفت میں۔
آپ کی طرف سے اس یہ سمجھا جائے گا کہ آئندہ ایسے موضوعات پر قلم نہ اٹھایا جائے۔۔۔ یا لکھنے میں کوئی کمی کوتاہی ہے۔۔۔ہم کوئی تبصرہ نہیں کر رہے اور نہ ہی تحریر کو ریٹ کر رہے ہیں!
نایاب بھائی کوئی تنقیدی تبصرہ تحریر کے لیے
نایاب بھائی پھر کبھی وہ واقعہ بھی تحریر کروں گا جس نے مجھے یوں سوچنے پر مجبور کر دیا۔۔۔ ابھی کے لیے اس بات کو اٹھا رکھتے ہیں۔خیال بھائی کیا کسی تعریف و تنقید کی محتاج ہو سکتی ہے ایسی تحریر
جس کو پڑھتے سنتے ذہن اور وجود میں جذبات کے جوار بھاٹے اٹھنے لگیں ۔ آنکھوں سے سیلاب بہنے لگے ۔
رونے والا نہیں ہونا چاہئے بسنایاب بھائی پھر کبھی وہ واقعہ بھی تحریر کروں گا جس نے مجھے یوں سوچنے پر مجبور کر دیا۔۔۔ ابھی کے لیے اس بات کو اٹھا رکھتے ہیں۔
جنازوں کی طرح نکلے ہیں حرف قلم سےرونے والا نہیں ہونا چاہئے بس
یہ شہر سے باہر جانے والی سڑک تھی۔ شہر سے نکلتے ہی اسی سڑک کے ساتھ ساتھ خانہ بدوشوں کی بے شمار جھونپڑیاں تھیں۔ وہیں پر بھیڑ لگی ہوئی تھی۔ کوئی کم سن بچہ کسی کار کے نیچے آکر کچلا گیا تھا۔ مغرب کے قریب کا وقت تھا۔ اور بچہ جھونپڑیوں سے نکل کر ایکا ایکی کار کے سامنے آگیا۔ نتیجہ کے طور پر جو ہوا سب کے سامنے تھا۔ کار والا بے بسی سے ہاتھ مل رہا تھا۔ وہ شکل و صورت سے کسی متمول گھرانے کا فرد لگتا تھا۔ بے انتہا کوشش کے باوجود وہ اس ننھے کی جان نہ بچا سکا تھا۔ سب لوگ یہی کہہ رہے تھے کہ کار والے کا قصور نہیں۔ پر کسی کی جان لینے کا بوجھ اس کے دل پر سوار تھا۔ پولیس آگئی۔ اور فریقین کے درمیان کاروائی اور وہاں موجود لوگوں کے بیانات کے بعد کچھ معاملات طے پا گئے۔ کار والے نے بچے کے باپ کو دو لاکھ اپنی طرف سے ادا کیے کہ کچھ وہ اس کے غم کا مداوا کر سکے۔دن گزر گئے۔ لوگ اس حادثہ کو بھول گئے۔ وقت نے صبح و شام کے پیراہن میں اپنا سفر جاری رکھا ۔وہ اک بہت ہی سخت دن تھا۔ کم از کم اس جھونپڑی میں بسنے والوں کے لیے۔ دو دن سے فاقہ تھا۔ جھونپڑی کے اندر موجود چار بچے بھوک سے بلک رہے تھے۔ اک سال کے قریب عمر کا بچہ ماں کی گود میں تھا۔ پر بھوک کو اس کی معصومیت پر کوئی ترس نہیں آ یا تھا۔ اور نقاہت کے سبب اس کے چہرے کا رنگ پیلا پڑ چکا تھا۔ماں کبھی اپنے بچوں کو دیکھتی اور کبھی سر جھکا کر رونا شروع کر دیتی۔ پر بچوں کو ان آنسووں سے کوئی سروکار نہ تھا۔ ان کا تقاضا تو روٹی تھا۔ جس کا وجود اس جھونپڑی سے عنقا تھا۔ آخر ماں کے جی میں کوئی بات سما گئی۔ اس نے بچوں سے کہا کہ اب سب خاموش ہو جاؤ۔ میں تمہارے کھانے پینے کے لیے روٹی کا کوئی بندوبست کرتی ہو۔ ماں کے تسلی کے چند الفاظ بھی بچوں کی بھوک کو کم نہ کر سکے۔ مگر اک امید سے ان کی آنکھیں جگمگا اٹھیں۔ ماں نے چھوٹا بچہ اٹھایا اور باہر نکل گئی۔ اور باقی سب جھونپڑی کے دروازے پر لٹکے پردے پر آنکھیں ٹکا کر بیٹھ گئے۔سڑک کنارے ہجوم جمع تھا۔ موڑ کے ساتھ ہی اک حادثہ ہو گیا تھا۔ لوگوں کی آنکھیں پر نم تھیں۔ چھوٹا سا قریب ایک سال کی عمر کا بچہ پتا نہیں کہاں سے بیچ سڑک آگیا اور اک ٹرک کے نیچے آ کر کچلا گیا تھا۔رات کو جھونپڑی سے بچوں کے رونے کی کوئی آواز نہیں تھی۔ ہاں اک ماں کی سسکاریاں کبھی کبھی بلند ہو کر سناٹا چیر رہی تھیں۔
میرے نین! ہم تو گوتم بدھ بھی نہیں بن سکتے ۔مجبوریاں ۔۔۔ ۔۔قدم قدم پر بے بسی۔۔۔ ۔۔۔ نوعیت مختلف ہے
"اسی"۔۔۔۔۔یار۔۔۔۔۔ اسی وجہ سے میں افسانہ نگاری ہی کے خلاف ہوں۔۔۔
شکریہ عمر بھائیعمدہ تحریر ۔۔
حذف کروا دیں؟نہ کریا کرو مرشد۔۔
کِنیاں نوں روا چھڈیا۔
زبردست تحریر ہے نین بھائی۔۔۔۔۔یہ شہر سے باہر جانے والی سڑک تھی۔ شہر سے نکلتے ہی اسی سڑک کے ساتھ ساتھ خانہ بدوشوں کی بے شمار جھونپڑیاں تھیں۔ وہیں پر بھیڑ لگی ہوئی تھی۔ کوئی کم سن بچہ کسی کار کے نیچے آکر کچلا گیا تھا۔ مغرب کے قریب کا وقت تھا۔ اور بچہ جھونپڑیوں سے نکل کر ایکا ایکی کار کے سامنے آگیا۔ نتیجہ کے طور پر جو ہوا سب کے سامنے تھا۔ کار والا بے بسی سے ہاتھ مل رہا تھا۔ وہ شکل و صورت سے کسی متمول گھرانے کا فرد لگتا تھا۔ بے انتہا کوشش کے باوجود وہ اس ننھے کی جان نہ بچا سکا تھا۔ سب لوگ یہی کہہ رہے تھے کہ کار والے کا قصور نہیں۔ پر کسی کی جان لینے کا بوجھ اس کے دل پر سوار تھا۔ پولیس آگئی۔ اور فریقین کے درمیان کاروائی اور وہاں موجود لوگوں کے بیانات کے بعد کچھ معاملات طے پا گئے۔ کار والے نے بچے کے باپ کو دو لاکھ اپنی طرف سے ادا کیے کہ کچھ وہ اس کے غم کا مداوا کر سکے۔
دن گزر گئے۔ لوگ اس حادثہ کو بھول گئے۔ وقت نے صبح و شام کے پیراہن میں اپنا سفر جاری رکھا ۔
وہ اک بہت ہی سخت دن تھا۔ کم از کم اس جھونپڑی میں بسنے والوں کے لیے۔ دو دن سے فاقہ تھا۔ جھونپڑی کے اندر موجود چار بچے بھوک سے بلک رہے تھے۔ اک سال کے قریب عمر کا بچہ ماں کی گود میں تھا۔ پر بھوک کو اس کی معصومیت پر کوئی ترس نہیں آ یا تھا۔ اور نقاہت کے سبب اس کے چہرے کا رنگ پیلا پڑ چکا تھا۔
ماں کبھی اپنے بچوں کو دیکھتی اور کبھی سر جھکا کر رونا شروع کر دیتی۔ پر بچوں کو ان آنسووں سے کوئی سروکار نہ تھا۔ ان کا تقاضا تو روٹی تھا۔ جس کا وجود اس جھونپڑی سے عنقا تھا۔ آخر ماں کے جی میں کوئی بات سما گئی۔ اس نے بچوں سے کہا کہ اب سب خاموش ہو جاؤ۔ میں تمہارے کھانے پینے کے لیے روٹی کا کوئی بندوبست کرتی ہو۔ ماں کے تسلی کے چند الفاظ بھی بچوں کی بھوک کو کم نہ کر سکے۔ مگر اک امید سے ان کی آنکھیں جگمگا اٹھیں۔ ماں نے چھوٹا بچہ اٹھایا اور باہر نکل گئی۔ اور باقی سب جھونپڑی کے دروازے پر لٹکے پردے پر آنکھیں ٹکا کر بیٹھ گئے۔
سڑک کنارے ہجوم جمع تھا۔ موڑ کے ساتھ ہی اک حادثہ ہو گیا تھا۔ لوگوں کی آنکھیں پر نم تھیں۔ چھوٹا سا قریب ایک سال کی عمر کا بچہ پتا نہیں کہاں سے بیچ سڑک آگیا اور اک ٹرک کے نیچے آ کر کچلا گیا تھا۔
رات کو جھونپڑی سے بچوں کے رونے کی کوئی آواز نہیں تھی۔ ہاں اک ماں کی سسکاریاں کبھی کبھی بلند ہو کر سناٹا چیر رہی تھیں۔