بھوک ڈھل نہیں سکتی۔۔۔

صابرہ امین

لائبریرین
آج دس سالوں کے باوجود حالات وہی ہیں ۔ شائد بدتر ہی ہو گئے ہیں۔ عام لوگوں کی زندگی صرف بھوک مٹانے کی تگ و دو کے سوا کچھ نہیں۔ نیرنگ خیال بھائی، آپ تو سنجیدہ کہانی بھی بہت پر اثر انداز میں تحریر کرتے ہیں۔ کیا بات ہے آپ کی! :applause: :applause: :applause:
 

سیما علی

لائبریرین
عام لوگوں کی زندگی صرف بھوک مٹانے کی تگ و دو کے سوا کچھ نہیں۔
بٹیا دن بہ دن بد سے بدتر ہوئے جاتے ہیں۔ کبھی کبھی منشی پریم چند کا افسانہ کفن یاد آجاتا ہے اور وہ جملہ یاد آجاتا ہے کہ ۔۔۔کیسا برا روا ج ہے کہ جسے جیتے جی تن ڈھانکنے کو چیتھڑا بھی نہ ملے اسے مرنے پر نیا کفن چاہئے۔الفاظ اپنے اندر بے شمار تکلیفوں کا احساس لئے ہوئے ہیں جس کے سہارے وہ مصیبت زدہ لوگوں کی تصویر کشی کرتے ہیں ،سماج کے ظالم رویے کو دکھاتے ہیں۔۔جب یہ پڑھا تھا تو سوچتے تھے کیا انسان اتنا سنگدل ہوسکتا ہے پھر اپنے ہوش میں بےشمار ایسے لوگ دیکھنے کو ملے۔۔۔🥲🥲🥲🥲🥲
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
مختصر مگر بہت ہی پراثر تحریر ہے آپکی نیرنگ خیال بھائی۔ دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہے آپ نے۔ ہمارے معاشرے کا یہ المیہ ہے کہ جہاں شادی ہالوں میں بے دریغ رزق کا ضیاع ہو تا ہےاسی شادی ہال کے باہر کوئی بھوکے پیٹ سونے پر مجبور ہے۔ اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے۔ آمین۔
 

سیما علی

لائبریرین
چھوٹا سا قریب ایک سال کی عمر کا بچہ پتا نہیں کہاں سے بیچ سڑک آگیا اور اک ٹرک کے نیچے آ کر کچلا گیا تھا۔رات کو جھونپڑی سے بچوں کے رونے کی کوئی آواز نہیں تھی۔ ہاں اک ماں کی سسکاریاں کبھی کبھی بلند ہو کر سناٹا چیر رہی تھیں۔​
دل چیر اجاتا ہے نین بھیا۔۔کرب شدت سے محسوس کروانا ہی لکھنے والے کی سب سے بڑی شان ہے اور تحریر کی پہچان نین بھیا جب دکھ لکھتے ہیں تو پڑھنے والا وہ محسوس کرتا ہے ۔۔ڈھیروں دعائیں سلامت رہیے۔۔۔۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
آج دس سالوں کے باوجود حالات وہی ہیں ۔ شائد بدتر ہی ہو گئے ہیں۔ عام لوگوں کی زندگی صرف بھوک مٹانے کی تگ و دو کے سوا کچھ نہیں۔ نیرنگ خیال بھائی، آپ تو سنجیدہ کہانی بھی بہت پر اثر انداز میں تحریر کرتے ہیں۔ کیا بات ہے آپ کی! :applause: :applause: :applause:
بہت شکریہ صابرہ حوصلہ افزائی کی۔۔۔۔ باقی حالات تو برے سے بد تر کی طرف تیزی سے گامزن ہیں۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
مختصر مگر بہت ہی پراثر تحریر ہے آپکی نیرنگ خیال بھائی۔ دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہے آپ نے۔ ہمارے معاشرے کا یہ المیہ ہے کہ جہاں شادی ہالوں میں بے دریغ رزق کا ضیاع ہو تا ہےاسی شادی ہال کے باہر کوئی بھوکے پیٹ سونے پر مجبور ہے۔ اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے۔ آمین۔
آپ کی محبت نوازش ہے ایس ایس ساگر بھائی۔۔۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
دل چیر اجاتا ہے نین بھیا۔۔کرب شدت سے محسوس کروانا ہی لکھنے والے کی سب سے بڑی شان ہے اور تحریر کی پہچان نین بھیا جب دکھ لکھتے ہیں تو پڑھنے والا وہ محسوس کرتا ہے ۔۔ڈھیروں دعائیں سلامت رہیے۔۔۔۔
اپیا دعاؤں میں یاد رکھا کریں۔ جزاک اللہ
 

صابرہ امین

لائبریرین
بہت شکریہ صابرہ حوصلہ افزائی کی۔۔۔۔ باقی حالات تو برے سے بد تر کی طرف تیزی سے گامزن ہیں۔
ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے بےشک ۔ ۔ یہ دن بھی گزر جائیں گے ۔ ۔ مگر بہت لوگوں کو بہت سا سبق بھی سکھا جائیں گے! ان شا اللہ
 

صابرہ امین

لائبریرین
بٹیا دن بہ دن بد سے بدتر ہوئے جاتے ہیں۔ کبھی کبھی منشی پریم چند کا افسانہ کفن یاد آجاتا ہے اور وہ جملہ یاد آجاتا ہے کہ ۔۔۔کیسا برا روا ج ہے کہ جسے جیتے جی تن ڈھانکنے کو چیتھڑا بھی نہ ملے اسے مرنے پر نیا کفن چاہئے۔الفاظ اپنے اندر بے شمار تکلیفوں کا احساس لئے ہوئے ہیں جس کے سہارے وہ مصیبت زدہ لوگوں کی تصویر کشی کرتے ہیں ،سماج کے ظالم رویے کو دکھاتے ہیں۔۔جب یہ پڑھا تھا تو سوچتے تھے کیا انسان اتنا سنگدل ہوسکتا ہے پھر اپنے ہوش میں بےشمار ایسے لوگ دیکھنے کو ملے۔۔۔🥲🥲🥲🥲🥲
واقعی کفن ایک بہت پر اثر افسانہ تھا ۔ کبھی کبھی جھرجھری سی آ جاتی ہے اس کی کہانی سوچ کر۔ ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اچھی تحریر ہے ، نین بھائی ۔ مختصر اور پر اثر!
ذوالقرنین ، آپ نے لکھنے کی ابتدا سنجیدہ نثر سے کی یا فکاہیہ ؟ یعنی نقطۂ آغاز کیا تھا اور اب جہاں ہیں وہاں تک کیسے پہنچے۔
چونکہ آپ نے ایک اور دھاگے میں نقد و نظر کی حوصلہ افزائی کی ہے اس لیے یہ کہنے کی جرات کروں گا کہ یہ تحریر مزید خوبصورت ہوسکتی تھی اگر کچھ لسانی اسقام نہ ہوتے۔ مزید یہ کہ بیانیہ کئی جگہوں پر ڈھیلا ہے ۔ فقروں کی ترتیب میں تحریر سے زیادہ تقریر یعنی گفتگو کا انداز ہے ۔ فقروں کی نشست و برخواست تبدیل کرکے نثر کو مزید چست اور جامع بنایا جاسکتا ہے۔

مجموعی طور پر اچھی تحریر ہے ۔ اپنے مقصد میں کامیاب!
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
۔ کبھی کبھی منشی پریم چند کا افسانہ کفن یاد آجاتا ہے اور وہ جملہ یاد آجاتا ہے کہ ۔۔۔کیسا برا روا ج ہے کہ جسے جیتے جی تن ڈھانکنے کو چیتھڑا بھی نہ ملے اسے مرنے پر نیا کفن چاہئے۔

واقعی کفن ایک بہت پر اثر افسانہ تھا ۔ کبھی کبھی جھرجھری سی آ جاتی ہے اس کی کہانی سوچ کر۔ ۔
منشی پریم چند اردو افسانہ نگاری میں بہت بڑا نام ہے ۔ یہ اور ان کی قبیل کے دیگر افسانہ نگار وہ ادیب ہیں کہ جن کی تحریروں سے آنے والی کئی نسلوں نے زبان و بیان سیکھا ، اظہارکے اسلوب سیکھے ۔ یہ لوگ اپنی ذات میں اسکول تھے۔ کفن ہی کو لے لیجیے ۔ میں نے شاید لڑکپن میں پڑھا ہوگا۔ لیکن بھولتا نہیں۔ اس افسانے میں پریم چند نے کردار نگاری کا کمال دکھایا ہے ۔ دونوں مرکزی کرداروں کی بات چیت کا انداز ، ان کی زبان یعنی لفظیات اور پھر ان کی حرکتیں تمام کی تمام مربوط اور مکمل ہیں ۔ قاری کے تصور میں ایک تصویر کھنیچ کر رکھ دیتی ہیں ۔ کرداروں کی جزئیات نگاری ایسی ہے کہ نہ صرف کردار بلکہ ان کے اردگرد کا ماحول ، گھر محلے کی تصویر تک بغیر بیان کیے ذہن میں چلی آتی ہے ۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
اچھی تحریر ہے ، نین بھائی ۔ مختصر اور پر اثر!
شکریہ ظہیر بھائی۔۔۔ آپ کی حوصلہ افزائی میرے لیے بہت معنی رکھتی ہے۔

ذوالقرنین ، آپ نے لکھنے کی ابتدا سنجیدہ نثر سے کی یا فکاہیہ ؟ یعنی نقطۂ آغاز کیا تھا اور اب جہاں ہیں وہاں تک کیسے پہنچے۔
میں بچپن میں ایسے چھوٹی چھوٹی پیروڈیاں سی کرتا تھا۔ کچھ کہانی شہانی لکھ لیتے تھے۔۔۔ سکول میں جو ڈرامے وغیرہ ہوتے ہیں۔ ان میں ہاتھ بٹا لیتے تھے۔۔۔ لیکن مستقل کبھی بھی نہیں لکھ سکا۔۔۔ ہاں سنجیدہ قسم کی تحاریر کا سلسلہ میں نے انجیئرنگ میں شروع کیا تھا۔ لیکن زیادہ تر اس قابل نہیں تھی کہ کہیں پیش کی جا سکیں۔۔۔ بلکہ جب تک میں اردو محفل پر نہیں آیا تھا۔ مجھے اپنی تحاریر کہیں لگانا پسند ہی نہ تھا۔۔۔ یہاں پر آکر سلسلہ شروع کیا۔۔۔ لیکن بات وہی کہ دس میں سے ایک تحریر اس قابل لگتی ہے کہ کہیں شریک کی جا سکے۔۔۔ اس میں بھی زبان و بیان کے اتنے مسائل ہوتے ہیں کہ الاماں والحفیظ۔۔۔

چونکہ آپ نے ایک اور دھاگے میں نقد و نظر کی حوصلہ افزائی کی ہے اس لیے یہ کہنے کی جرات کروں گا کہ یہ تحریر مزید خوبصورت ہوسکتی تھی اگر کچھ لسانی اسقام نہ ہوتے۔ مزید یہ کہ بیانیہ کئی جگہوں پر ڈھیلا ہے ۔ فقروں کی ترتیب میں تحریر سے زیادہ تقریر یعنی گفتگو کا انداز ہے ۔ فقروں کی نشست و برخواست تبدیل کرکے نثر کو مزید چست اور جامع بنایا جاسکتا ہے۔
یہ میرا ایک مسئلہ ہے۔ اکثر تحاریر ایسی ہیں جو میں نے محفل کے ایڈیٹر میں ہی لکھی ہیں اور پھر یہیں پر لڑی پوسٹ کر دی۔۔ یعنی نظر ثانی والا معاملہ مفقود سا ہے۔۔۔ کہیں کوئی غلطی نظر آجاتی ہے تو بعد میں تدوین کرتا رہتا ہوں۔۔۔ سچ پوچھیں تو زبان و بیان پر گرفت برائے نام ہے۔۔۔ اسے واجبی کہنا بھی شوخی مارنے کے زمرے میں آئے گا۔۔۔ اس لیے جیسا ویسا لکھ لیتا ہوں۔ لکھ کر خوش ہوجاتا ہوں۔ آپ ایسے اساتذہ کی رہنمائی ہو تو بہتر کرنے سے نہیں گھبراتا۔۔۔

مجموعی طور پر اچھی تحریر ہے ۔ اپنے مقصد میں کامیاب!
حوصلہ افزائی پر صمیم قلب سے تشکر بسیار۔۔۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
میں بچپن میں ایسے چھوٹی چھوٹی پیروڈیاں سی کرتا تھا۔ کچھ کہانی شہانی لکھ لیتے تھے۔۔۔ سکول میں جو ڈرامے وغیرہ ہوتے ہیں۔ ان میں ہاتھ بٹا لیتے تھے۔۔۔ لیکن مستقل کبھی بھی نہیں لکھ سکا۔۔۔ ہاں سنجیدہ قسم کی تحاریر کا سلسلہ میں نے انجیئرنگ میں شروع کیا تھا۔ لیکن زیادہ تر اس قابل نہیں تھی کہ کہیں پیش کی جا سکیں۔۔۔ بلکہ جب تک میں اردو محفل پر نہیں آیا تھا۔ مجھے اپنی تحاریر کہیں لگانا پسند ہی نہ تھا۔۔۔ یہاں پر آکر سلسلہ شروع کیا۔۔۔ لیکن بات وہی کہ دس میں سے ایک تحریر اس قابل لگتی ہے کہ کہیں شریک کی جا سکے۔۔۔ اس میں بھی زبان و بیان کے اتنے مسائل ہوتے ہیں کہ الاماں والحفیظ۔۔۔

یہ میرا ایک مسئلہ ہے۔ اکثر تحاریر ایسی ہیں جو میں نے محفل کے ایڈیٹر میں ہی لکھی ہیں اور پھر یہیں پر لڑی پوسٹ کر دی۔۔ یعنی نظر ثانی والا معاملہ مفقود سا ہے۔۔۔ کہیں کوئی غلطی نظر آجاتی ہے تو بعد میں تدوین کرتا رہتا ہوں۔۔۔ سچ پوچھیں تو زبان و بیان پر گرفت برائے نام ہے۔۔۔ اسے واجبی کہنا بھی شوخی مارنے کے زمرے میں آئے گا۔۔۔ اس لیے جیسا ویسا لکھ لیتا ہوں۔ لکھ کر خوش ہوجاتا ہوں۔ آپ ایسے اساتذہ کی رہنمائی ہو تو بہتر کرنے سے نہیں گھبراتا۔۔۔
نین بھائی ، اپنے آپ کو ذرا کریڈٹ بھی دیں ۔ الحمدللّٰہ آپ بہت اچھا لکھتے ہیں ۔ آپ کے پاس لکھنے کے لیے بہت کچھ ہے ۔
نین بھائی ، مجھے یقین ہے کہ آپ ذرا بھی برا نہ مانیں گے اگر اس گفتگو کے توسط سے میں دیگر لکھنے والوں تک کچھ باتیں پہنچادوں کہ محفل پر بہت سارے نئے لکھنے والے بھی موجود ہیں جو ان باتوں سے مستفید ہو سکتے ہیں ۔
شاعری ہو یا نثر ، ہر تحریر دو بنیادی اجزا پر مشتمل ہوتی ہے ۔ خیال اور اظہارِ خیال ۔ یعنی ہر تحریر میں ایک مضمون یا خیال ہوتا ہے اور پھر اس خیال یا مضمون کو الفاظ کے ذریعے قاری تک پہنچانے کی سعی کی جاتی ہے ۔ خیال یا مضمون کے بارے میں تو صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ وہ ہر لکھاری کا اپنا ہوتا ہے ، اس کا اپنا زاویہ یا نقطۂ نظر ہوتا ہے ۔ لیکن وہ الفاظ یا زبان جس کے ذریعے مضمون ادا کیا جارہا ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ لکھاری اور قاری کے درمیان مشترک ہو تاکہ خیال کا ابلاغ ہوسکے۔ جہاں یہ اشتراک ختم ہوتا ہے وہیں سے ابلاغ کے مسئلے شروع ہوجاتے ہیں ۔ تقریر اور تحریر کی زبانیں عموماً الگ الگ ہوتی ہیں ۔ تحریر کی زبان عام بول چال کی زبان کی نسبت کچھ پابندیوں کا تقاضا کرتی ہے ۔ادب کے لیے فصیح زبان یعنی صاف ستھری نفیس اور معیاری زبان کا استعمال نہ صرف ابلاغ میں مدد کرتا ہے بلکہ تحریر کو پائیداری اور دوام بھی عطا کرتا ہے۔ میر کے وہ اشعار جن میں عام معیار سے ہٹ کر زبان استعمال ہوئی ہے وہ کسی کو یاد نہیں بلکہ عجیب و غریب لگتے ہیں ۔ پڑھ کر کوئی لطف نہیں آتا بلکہ بعض اوقات طبیعت منغض ہوجاتی ہے ۔ ( اب یہ دیکھ لیجیے کہ اگر میری تحریر میں یہ لفظ منغز لکھا ہو تو اسے پڑھ کر یقیناً آپ کی طبیعت منگج ہوجائے گی ۔ :))۔ یہ تو محض املا کی ایک معمولی سی بات ہے لیکن تصور کیجیے کہ اگر تحریر میں گرامر کی اغلاط ہوں ، تجنیس و تعدید کے اسقام ہوں ، روزمرہ اور محاورے کا قتلِ ناحق ہوا ہو تو پھر وہ تحریر ادبِ عالیہ کے معیار پر کیسے رکھی جاسکتی ہے ۔ یعنی اس ساری بحث کو اگر کوزے میں بند کیا جائے تو یوں کہیے کہ شاعر اور ادیب کا کام اپنی نگارش میں مناسب اور موّثر معیاری زبان استعمال کرنا ہے تاکہ جو خیال اور احساس لکھاری پر گزرا ہے وہ حتی الامکان قاری تک پہنچ جائے ۔
اس سلسلے میں بہت سالوں پہلے میں نے کہیں ایک گفتگو کے دورانایک مفصل تحریر لکھی تھی وہ ڈھونڈ کر اگلے مراسلے میں پیش کرنے کی کوشش کرتا ہوں ۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
نین بھائی ، اپنے آپ کو ذرا کریڈٹ بھی دیں ۔ الحمدللّٰہ آپ بہت اچھا لکھتے ہیں ۔ آپ کے پاس لکھنے کے لیے بہت کچھ ہے ۔
نین بھائی ، مجھے یقین ہے کہ آپ ذرا بھی برا نہ مانیں گے اگر اس گفتگو کے توسط سے میں دیگر لکھنے والوں تک کچھ باتیں پہنچادوں کہ محفل پر بہت سارے نئے لکھنے والے بھی موجود ہیں جو ان باتوں سے مستفید ہو سکتے ہیں ۔
شاعری ہو یا نثر ، ہر تحریر دو بنیادی اجزا پر مشتمل ہوتی ہے ۔ خیال اور اظہارِ خیال ۔ یعنی ہر تحریر میں ایک مضمون یا خیال ہوتا ہے اور پھر اس خیال یا مضمون کو الفاظ کے ذریعے قاری تک پہنچانے کی سعی کی جاتی ہے ۔ خیال یا مضمون کے بارے میں تو صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ وہ ہر لکھاری کا اپنا ہوتا ہے ، اس کا اپنا زاویہ یا نقطۂ نظر ہوتا ہے ۔ لیکن وہ الفاظ یا زبان جس کے ذریعے مضمون ادا کیا جارہا ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ لکھاری اور قاری کے درمیان مشترک ہو تاکہ خیال کا ابلاغ ہوسکے۔ جہاں یہ اشتراک ختم ہوتا ہے وہیں سے ابلاغ کے مسئلے شروع ہوجاتے ہیں ۔ تقریر اور تحریر کی زبانیں عموماً الگ الگ ہوتی ہیں ۔ تحریر کی زبان عام بول چال کی زبان کی نسبت کچھ پابندیوں کا تقاضا کرتی ہے ۔ادب کے لیے فصیح زبان یعنی صاف ستھری نفیس اور معیاری زبان کا استعمال نہ صرف ابلاغ میں مدد کرتا ہے بلکہ تحریر کو پائیداری اور دوام بھی عطا کرتا ہے۔ میر کے وہ اشعار جن میں عام معیار سے ہٹ کر زبان استعمال ہوئی ہے وہ کسی کو یاد نہیں بلکہ عجیب و غریب لگتے ہیں ۔ پڑھ کر کوئی لطف نہیں آتا بلکہ بعض اوقات طبیعت منغض ہوجاتی ہے ۔ ( اب یہ دیکھ لیجیے کہ اگر میری تحریر میں یہ لفظ منغز لکھا ہو تو اسے پڑھ کر یقیناً آپ کی طبیعت منگج ہوجائے گی ۔ :))۔ یہ تو محض املا کی ایک معمولی سی بات ہے لیکن تصور کیجیے کہ اگر تحریر میں گرامر کی اغلاط ہوں ، تجنیس و تعدید کے اسقام ہوں ، روزمرہ اور محاورے کا قتلِ ناحق ہوا ہو تو پھر وہ تحریر ادبِ عالیہ کے معیار پر کیسے رکھی جاسکتی ہے ۔ یعنی اس ساری بحث کو اگر کوزے میں بند کیا جائے تو یوں کہیے کہ شاعر اور ادیب کا کام اپنی نگارش میں مناسب اور موّثر معیاری زبان استعمال کرنا ہے تاکہ جو خیال اور احساس لکھاری پر گزرا ہے وہ حتی الامکان قاری تک پہنچ جائے ۔
اس سلسلے میں بہت سالوں پہلے میں نے کہیں ایک گفتگو کے دورانایک مفصل تحریر لکھی تھی وہ ڈھونڈ کر اگلے مراسلے میں پیش کرنے کی کوشش کرتا ہوں ۔
اللہ بھلا کرے اگراحمد بھائی جیسے احباب سے کوئی سال دو سال میں ایک آدھی بار گفتگو نہ ہوئی ہوتی تو یہ سارے الفاظ بالا بالا ہی چلے جاتے۔۔۔۔

آپ کا نکتہ بہت اہم ہے۔۔۔ میں آپ کے مضموں کا منتظر بھی ہوں۔ اور اپنی طرف کی گئی خوش گمانی پر خوش بھی ۔۔۔۔ محبت ظہیر بھائی ۔۔۔۔۔ سر بہ سر۔۔۔
 
Top