بھگت سنگھ کا قرض

یاز

محفلین
ہمیں تو ہماری نصابی کتابوں نے بہت پہلے ہی مار ڈالا۔ کتنے بچے جانتے ہیں کہ پاکستان بنانے والے محمد علی جناح شیعہ تھے۔ کس اسکول میں یہ پڑھایا جاتا ہے کہ پاکستان کی آئین ساز اسمبلی کا پہلا اسپیکر اور پہلا وزیرِ قانون و انصاف ایک نچلی ذات کا بنگالی ہندو جوگندر ناتھ منڈل تھا۔ تین سال تک لیاقت کابینہ میں شامل رہا اور پھر دل برداشتہ ہو کر پاکستان سے ہی چلا گیا۔

کتنے بچوں کو آج بتایا جاتا ہے کہ پاکستان کا پہلا وزیرِ خارجہ ایک احمدی سر ظفر اللہ خان تھا جس نے سات برس تک قرار دادِ مقاصد کے معمار سنی العقیدہ نوابزادہ لیاقت علی خان سے محمد علی بوگرا تک تین حکومتوں میں پاکستانی خارجہ پالیسی کو پائلٹ کیا اور پھر عالمی عدالتِ انصاف کا پہلا پاکستانی جج بن گیا۔
کیا ہماری نصابی کتابوں میں جسٹس ایلون رابرٹ کارنیلئیس کا ذکر ہے جو ایک دیسی کرسچن تھا اور آٹھ برس تک اسلامی جمہوریہ پاکستان کا چیف جسٹسرہا۔ اور اس نے کیسے کیسے اہم فیصلے کیے؟ اور وہ کس قدر درویش طبیعت تھا جس نے زندگی لاہور کے فلیٹیز ہوٹل کے ایک کمرے میں گذار دی۔
کیا کسی آٹھ دس سال کے بچے نے اس ہزارہ جنرل محمد موسیٰ کا نام سنا ہے جس نے سن پینسٹھ کی جنگ میں پاکستانی بری فوج کی کمان کی؟ اور اسی جنگ میں ایک کرسچن فلائٹ لیفٹننٹ سیسل چوہدری کو بھارتی فضائیہ کو چنے چبوانے کے اعتراف میں ستارہِ جرات ملا۔ اور کتنی عزت تھی ہم بچوں کے دلوں میں فاتحِ چونڈہ میجر جنرل عبدالعلی ملک اور فاتحِ چھمب جوڑیاں میجر جنرل افتخار جنجوعہ شہید کی۔ معاشرتی علوم کے پینسٹھ کی جنگ کے باب میں ان دونوں جنرلوں کی چکنے کاغذ پر بلیک اینڈ وائٹ تصاویر ہوتی تھیں جن میں ایوب خان دونوں کے سینے پر ہلالِ جرات ٹانک رہے ہیں۔ جب ایک روز پتہ چلا کہ یہ تواحمدی ہیں تو فوراً اسکولی نصاب اور ہم سب کے دلوں سے اتر گئے۔ پھر اس کے بعد باقی مشکوک شخصیات کا بھی اسکول کی کتابوں میں داخلہ مرحلہ وار بند ہوتا چلا گیا اور آج الحمداللہ تعلیمی نصاب ہر طرح کی تاریخی آلائشوں سے پاک ہے۔ (وسعت اللہ خان، ۲۳ ستمبر ۲۰۱۳، روزنامہ ایکسپریس)

بالکل درست جناب۔
ان سب سے بھی بڑھ کر جو ظلم ہم نے ڈاکٹر عبدالسلام کے ساتھ کیا، اس پہ جتنا افسوس کیا جائے کم ہے۔
اور ہاں جرنیلوں کی فہرست میں جنرل اختر حسین ملک کا نام مت بھولئے۔ جتنی تاریخ میں نے پڑھی ہے، اگر کسی ایک جرنیل کو پاکستانی رومیل کہنے کو بولا جائے تو میں بلا کسی تامل اختر حسین ملک کا نام لوں گا۔ لیکن افسوس وہ بھی احمدی ہونے کی وجہ سے خارج از تاریخ ٹھہرے۔
 

سارہ خان

محفلین
جناب میری لالٹین بس اتنا ہی کہتی ہے کہ ہر وہ شخص جس نے انسانوں کی آزادی کے لئے کوشش کی ہے، وہ ہمارا ہیرو ہونا چاہئے۔
خیال رہے کہ آزادی سے مراد صرف جسمانی آزادی ہی نہیں، بلکہ خیال و فکر کی آزادی بھی ہے، دل و دماغ کی آزادی بھی ہے۔
اس تعریف کی رو سے دیکھا جائے تو بے شمار مفکر، شاعر، ادیب، فنکار وغیرہ بھی ہیرو کہلا سکتے ہیں۔ ساغر صدیقی جیسا فٹ پاتھ پہ رہنے والا بھی ہیرو ہو سکتا ہے اور بڑھاپے میں پولیس کے ڈنڈے کھانے والا حبیب جالب بھی ہیرو ہو سکتا ہے۔
مگر یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ کوشش کس انداز سے کی ہے ۔۔۔ بھگت سنگھ کے بارے میں مختلف تبصرہ جات سننے میں آتے ہیں کہ وہ اس کے احتجاج کا طریقہ متشدد تھا۔۔۔ ایک پولیس افسر کا قتل اس پر ثابت ہوا ۔۔ اس نے اتنی کم عمری میں موت کو ترجیح دی ۔۔یہ انتہا پسندانہ رویہ تھا ۔۔ زندہ رہ کر اور بہتر طریقے سے لیڈرشپ کے ذریعے وہ اپنے مقاصد حاصل کر سکتا تھا اور عظیم رہنما کا درجہ پاتا ۔۔
 

کیا ہماری نصابی کتابوں میں جسٹس ایلون رابرٹ کارنیلئیس کا ذکر ہے جو ایک دیسی کرسچن تھا اور آٹھ برس تک اسلامی جمہوریہ پاکستان کا چیف جسٹسرہا۔ اور اس نے کیسے کیسے اہم فیصلے کیے؟
بہت شکریہ مجھے انہی جناب کا نام یاد نہیں تھا۔ اور وسعت اللہ صاحب کا یہ کالم پڑھنے سے تعلق رکھتا۔
بالکل درست جناب۔
ان سب سے بھی بڑھ کر جو ظلم ہم نے ڈاکٹر عبدالسلام کے ساتھ کیا، اس پہ جتنا افسوس کیا جائے کم ہے۔
اور ہاں جرنیلوں کی فہرست میں جنرل اختر حسین ملک کا نام مت بھولئے۔ جتنی تاریخ میں نے پڑھی ہے، اگر کسی ایک جرنیل کو پاکستانی رومیل کہنے کو بولا جائے تو میں بلا کسی تامل اختر حسین ملک کا نام لوں گا۔ لیکن افسوس وہ بھی احمدی ہونے کی وجہ سے خارج از تاریخ ٹھہرے۔

اس جرنیل کے بارے میں مزید کہاں پڑھے جا سکتابھائی۔اور ڈاکٹر صاب کے بارے میں حال ہی ایک بلاگ پڑھا جسکے بعد تو سمجھے جیسے اندر ہی اندر سے جینے کی تمنا اٹھ گئی۔کیا کیا ستم ڈھا رکھے ہیں ہم نے۔اور حیف صد حیف کہ احسا س تک بھی نہیں۔
 

یاز

محفلین
مگر یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ کوشش کس انداز سے کی ہے ۔۔۔ بھگت سنگھ کے بارے میں مختلف تبصرہ جات سننے میں آتے ہیں کہ وہ اس کے احتجاج کا طریقہ متشدد تھا۔۔۔ ایک پولیس افسر کا قتل اس پر ثابت ہوا ۔۔ اس نے اتنی کم عمری میں موت کو ترجیح دی ۔۔یہ انتہا پسندانہ رویہ تھا ۔۔ زندہ رہ کر اور بہتر طریقے سے لیڈرشپ کے ذریعے وہ اپنے مقاصد حاصل کر سکتا تھا اور عظیم رہنما کا درجہ پاتا ۔۔

آپ کی بات سے جزوی متفق ہوں۔ لیکن ہماری جو ٹوٹی پھوٹی تاریخ ہے، اس میں دلا بھٹی، ملنگی، نظام لوہار جیسے لوگوں کا نام بھی ہیرو کے طور پہ ملے گا۔ کیا یہ لوگ متشدد نہیں تھے؟ ان کے بارے میں زیادہ تو نہیں، لیکن جو تھوڑا بہت پڑھا ہے، اس کے مطابق تو یہ عام ڈاکو تھے (جن کو رابن ہڈ بنا کے پیش کیا جاتا ہے ہمارے سامنے) ۔ لیکن کیا ان کو مذہب کی وجہ سے ہیرو، باغی اور حریت پسند کا درجہ مل گیا، جب کہ بھگت سنگھ جیسوں کا نام تاریخ کے اوراق تلے مدفون ٹھہرا۔
 

یاز

محفلین
اس جرنیل کے بارے میں مزید کہاں پڑھے جا سکتابھائی۔اور ڈاکٹر صاب کے بارے میں حال ہی ایک بلاگ پڑھا جسکے بعد تو سمجھے جیسے اندر ہی اندر سے جینے کی تمنا اٹھ گئی۔کیا کیا ستم ڈھا رکھے ہیں ہم نے۔اور حیف صد حیف کہ احسا س تک بھی نہیں۔
1965 کی جنگ کی کوئی بھی کتاب اٹھا کے پڑھ لیں بھائی جو کسی فوجی یا کسی شہاب نامے ٹائپ نے نہ لکھی ہو۔
 
بہرکیف بات کو آگے بڑھاتے ہیں ایک تو جس چیز کا اوپر ذکر ہوا کہ بھگت سنگھ صاب تشدد کی راہ کے قائل وغیرہ تھے تو ایسے مجھے سے کہیں جذبہ شہادت میں کم علمی اور اپنی جہالت کے باعث چل پڑتے تو ہم انکو کہاں دیکھیں گے مثلاََاسامہ بن لادن،مل عمر ٹائپ
اور بقول فراز صاحب
"آج ہم دار پہ کھینچے گئے جن باتوں پر
کیا عجب کل وہ زمانے کو نصابوں میں ملیں"
دوسرے یہ کہ ابھی ایک صدی بھی نہیں گزری اور بھگت سنگھ کے متعلق کافی ساری باتیں جو کہ ہوائی سی لگتی ہیں انکے کھاتے میں ڈال دی گئی ہیں جیسا کہ انکی نعش کو آگ نہ لگنا وغیرہ
کچھ کچھ ایسا ہی ممتاز قادری وغیرہ کے متعلق بھی کہا جاتا ہے ۔لگ بھگ ایسا ہی محمد بن قاسم کے متعلق سنتے چلے آئے کہ 17 سال کی عمر میں ایک عورت کی آواز میں مدد کو آئے بعض میں پتا چلا کہ کہانی الگ تھی۔لیکن تھی تو وہ بھی کہانی ہی،
تو ایسے میں بندہ کہیڑے پاسے جاوے ،منجی کتھے ڈھاوے۔
 

یاز

محفلین
دوسرے یہ کہ ابھی ایک صدی بھی نہیں گزری اور بھگت سنگھ کے متعلق کافی ساری باتیں جو کہ ہوائی سی لگتی ہیں انکے کھاتے میں ڈال دی گئی ہیں جیسا کہ انکی نعش کو آگ نہ لگنا وغیرہ
کچھ کچھ ایسا ہی ممتاز قادری وغیرہ کے متعلق بھی کہا جاتا ہے ۔لگ بھگ ایسا ہی محمد بن قاسم کے متعلق سنتے چلے آئے کہ 17 سال کی عمر میں ایک عورت کی آواز میں مدد کو آئے بعض میں پتا چلا کہ کہانی الگ تھی۔لیکن تھی تو وہ بھی کہانی ہی،
تو ایسے میں بندہ کہیڑے پاسے جاوے ،منجی کتھے ڈھاوے۔
اسی لئے میں نے ابتدا میں عرض کی تھی کہ کچھ (یا بہت سی) باتیں فقط زیبِ داستاں کے لئے ہوتی ہیں۔ اور ان سے کسی بھی شخصیت کو استشناء نہیں ہے۔ اس طرح کے قصے اور کہانیاں آپ کو ہر رہنما کے بارے میں اور تاریخ کے ہر باب میں بے شمار ملیں گے۔
 
آپ کی بات سے جزوی متفق ہوں۔ لیکن ہماری جو ٹوٹی پھوٹی تاریخ ہے، اس میں دلا بھٹی، ملنگی، نظام لوہار جیسے لوگوں کا نام بھی ہیرو کے طور پہ ملے گا۔ کیا یہ لوگ متشدد نہیں تھے؟ ان کے بارے میں زیادہ تو نہیں، لیکن جو تھوڑا بہت پڑھا ہے، اس کے مطابق تو یہ عام ڈاکو تھے (جن کو رابن ہڈ بنا کے پیش کیا جاتا ہے ہمارے سامنے) ۔ لیکن کیا ان کو مذہب کی وجہ سے ہیرو، باغی اور حریت پسند کا درجہ مل گیا، جب کہ بھگت سنگھ جیسوں کا نام تاریخ کے اوراق تلے مدفون ٹھہرا۔
دلا بھٹی اور جگا جٹ کو تو شہرہ عام مل گئی اسلئے انکی بہت سے غلط باتیں چھپ گئی ہونگی اور کچھ کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہوگا۔
اسکے فائدہ کا تو معلوم نہیں البتہ ہر علاقے میں اس قسم کے کن ٹٹے بدمعاش ضرور پیدا ہوتے گئے۔جنکو ڈر،دہشت اور خوف اور خاص قسم کے لوگوں پر خاص قسم کی مہربانیوں نے "دبنگ والے پانڈے "ٹائپ ہیرو بنا دیا۔
اگر 60 کی دہائی کے کسی بھی بزرگ کے پاس بیٹھ جائیں تو وہ شیخوپورہ،پنڈی بھٹیاں،خانقاہ ڈوگراں ،لائل پور(آپ بیشک اپنے علاقے کیمطابق آزما لیں) وغیرہ کے ایسے چھوٹے موٹے رابن ہڈز کی رنگین داستانیں لئے بیٹھے ہوتے ۔اسکے علاوہ ہر ذات ،برداری نے اپنا ایک ہیرو بنا رکھا ہوتا تو اب کیا وہ سب بھی ہیرو ہو گئے۔
 
آخری تدوین:
اسی لئے میں نے ابتدا میں عرض کی تھی کہ کچھ (یا بہت سی) باتیں فقط زیبِ داستاں کے لئے ہوتی ہیں۔ اور ان سے کسی بھی شخصیت کو استشناء نہیں ہے۔ اس طرح کے قصے اور کہانیاں آپ کو ہر رہنما کے بارے میں اور تاریخ کے ہر باب میں بے شمار ملیں گے۔
بھائی بلکل آپ نے فرمایا اور بجا فرمایا لیکن مسئلہ آپکا نہیں مسئلہ تو مجھ جیسے قاری کا ہے جو انہی میں سے کسی کا قائل ہو کر کل کو بھگت سنگھ کو مسلمان بنانے کو پھرتا ہوگا(سکھوں کے پیشوا گورو نانک ٹائپ سین)۔اور پھر کوئی مجھ جیسا ہی کسی قاری حنیف کی تقریر سن کر جذبات میں اسکو قتل کرکے بہتر حوروں کےانتظار اور خواب سجائے پھرتا ہوگا۔ پھر وہی قاری اسی کے جنازے میں روح پرور نظارے دیکھے گا اور لوگوں کو بتائے گا۔اور یہ چکر یونہی چلتا رہے گاکیا؟
 

یاز

محفلین
دلا بھٹی اور جگا جٹ کو تو شہرہ عام مل گئی اسلئے انکی بہت سے غلط باتیں چھپ گئی ہونگی اور کچھ کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہوگا۔
اسکے فائدہ کا تو معلوم نہیں البتہ ہر علاقے میں اس قسم کے کن ٹٹے بدمعاش ضرور پیدا ہوتے گئے۔جنکو ڈر،دہشت اور خوف اور خاص قسم کے لوگوں پر خاص قسم کی مہربانیوں نے "دبنگ والے پانڈے "ٹائپ ہیرو بنا دیا۔
اگر 60 کی دہائی کے کسی بھی بزرگ کے پاس بیٹھ جائیں تو وہ شیخوپورہ،پنڈی بھٹیاں،خانقاہ ڈوگراں ،لائل پور(آپ بیشک اپنے علاقے کیمطابق آزما لیں) وغیرہ کے ایسے چھوٹے موٹے رابن ہڈز کی رنگین داستانیں لئے بیٹھے ہوتے ۔اسکے علاوہ ہر ذات ،برداری نے اپنا ایک ہیرو بنا رکھا ہوتا تو اب کیا وہ سب بھی ہیرو ہو گئے۔

اسی پہ ہی تو بات ہونی چاہئے کہ بھگت سنگھ ان لوکل ہیروز (ڈاکو، لیکن مسلمان) سے کیسے اور کتنا مختلف تھا۔
 

یاز

محفلین
اور ہاں ہیرو کی تعریف والے مراسلے میں اصل "کی ورڈ" لکھنے سے چوک گیا تھا، سو اس میں ترمیم جاری کی ہے۔ کچھ یوں
ہر وہ شخص جس نے بلاتخصیصِ رنگ و نسل و عقیدہ انسانوں کی آزادی کے لئے کوشش کی ہے، میری ذاتی رائے کے مطابق وہ ہمارا ہیرو ہونا چاہئے۔
 
پاکستان کا پہلا وزیرِ خارجہ ایک احمدی سر ظفر اللہ خان تھا جس نے سات برس تک قرار دادِ مقاصد کے معمار سنی العقیدہ نوابزادہ لیاقت علی خان سے محمد علی بوگرا تک تین حکومتوں میں پاکستانی خارجہ پالیسی کو پائلٹ کیا اور پھر عالمی عدالتِ انصاف کا پہلا پاکستانی جج بن گیا۔
بہن سارہ خان ۔ کیا آپ جانتی ہیں کہ اسی قادیانی وزیر خارجہ نے بانیء پاکستان قائد اعظم کا جنازہ پڑھنے سے انکار کیوں کیا تھا؟۔ ربوہ میں سالانہ قادیانی اجتماع کو فضائیہ کے طیاروں کے فلائی پاسٹ کی سلامی دینے والے فضائیہ کے اس وقت کے قادیانی چیف اور دوسروں قادیانی فوجی آفیسروں کے عزائم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں تھے ۔ نوبل پرائز اور عالمی عدالتوں کی ججیاں اور عالمی اعزازات یورپ کے کن منظور نظر لوگوں کو ملتے ہیں، یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔
 
آخری تدوین:
بہن سارہ خان ۔ کیا آپ جانتی ہیں کہ اسی قادیانی وزیر خارجہ نے بانیء پاکستان قائد اعظم کا جنازہ پڑھنے سے انکار کیوں کیا تھا؟۔ ربوہ میں سالانہ قادیانی اجتماع کو فضائیہ کے طیاروں کے فلائی پاسٹ کی سلامی دینے والے فضائیہ کے اس وقت کے قادیانی چیف اور دوسروں قادیانی فوجی آفیسروں کے عزائم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں تھے ۔ نوبل پرائز اور عالمی عدالتوں کی ججیاں اور عالمی اعزازات یورپ کے کن منظور نظر لوگوں کو ملتے ہیں، یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔

یہ بھی اچھا نکتہ ہے چونکے ہمارے ساتھ ہر جگہ سازش ہو جاتی ہے،ہم تو بہت معصوم ہیں یہ یہودی و نصاری ہمیں تنگ کرتے رہتے اب اس کا کیا جائے یاز بھائی۔
 
سوال گندم جواب چنا
چونکہ ہم ماسٹر جی کو چھولے دیکر پاس ہوتے آئے ہیں اسلئے جیب میں چھولے ہر وقت وافر مقدار میں موجود ہوتے جیسے کوئی گندم،چاول ،گنا یا کوئی دوسرا سوال پوچھتا میں چنے پکڑا دیتا
بقول شخصے ایداں ای نیں فئیر سیاستاں:);)
 

نایاب

لائبریرین
کتنے بچوں کو آج بتایا جاتا ہے کہ پاکستان کا پہلا وزیرِ خارجہ ایک احمدی سر ظفر اللہ خان تھا جس نے سات برس تک قرار دادِ مقاصد کے معمار سنی العقیدہ نوابزادہ لیاقت علی خان سے محمد علی بوگرا تک تین حکومتوں میں پاکستانی خارجہ پالیسی کو پائلٹ کیا اور پھر عالمی عدالتِ انصاف کا پہلا پاکستانی جج بن گیا۔
پاکستان کا پہلا وزیرِ خارجہ ایک احمدی سر ظفر اللہ خان
1935 سے 1941 تک واسرائے ہند کی ایگزیکیوٹو کونسل کے ممبر رہے۔ اسی زمانہ میں لارڈ لنلیتھگو نے مسلم لیگ کے رہنماوں کو بتایا کہ برطانوی حکومت نے ہندوستان کو ہندو، مسلمان، آزاد نوابی ریاستوں کی صورت میں تین حصوں میں تقسیم کرنے کا ارادہ کیا ہے۔ اس وقت مسلم لیگ کی طرف سے مختلف تجاویز پیش کی گئیں جو کہ حکومت نے مسترد کر دیں۔ اس پر سر ظفر اللہ خان کو تقسیم ہندوستان پر نئی تجویز پیش کرنے کا کام دیا گیا۔ اس بارہ میں واسرائے نے حکومت برطانیہ کو لکھا[1]:
” میری ہدایت پر ظفر اللہ نے ایک میمورنڈم دو ممالک کے متعلق لکھا ہے جو میں پہلے ہی آپ کو بھجوا چکا ہوں۔ میں نے انہیں مزید توضیح کے لئے بھی کہا ہے جو کہ ان کے کہنے کے مطابق جلد ہی آ جائے گی۔البتہ ان کا اصرار ہے کہ کسی کو یہ معلوم نہ ہو کہ یہ منصوبہ انہوں نے تیار کیا ہے۔ انہوں نے مجھے یہ اختیار دیا ہے میں اس کے ساتھ جو چاہوں کروں، جس میں آپ کو ایک نقل بھیجنا بھی شامل ہے۔ اس کی نقول جناح کو اور میرے خیال میں سر اکبر حیدری کو دی جا چکی ہیں۔ یہ دستاویز مسلم لیگ کی طرف سے اپنائے جانے اور اس کی مکمل تشہیر کے لئے تیار کر لی گئی ہے جبکہ ظفر اللہ اس کے مصنف ہونے کا اقرار نہیں کر سکتے۔ لارڈ لیتھینگو 12 مارچ 1940 “
وائسرائے نے مزید بیان کیا کہ ظفر اللہ خان احمدیہ جماعت سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے اگر عام مسلمانوں کو اس بارہ میں پتہ چلا تو ان کی جانب سے تحفظات کا اندیشہ ہے۔ چنانچہ منصوبہ پیش کرنے کے بارہ دن بعد اسے آل انڈیا مسلم لیگ کی جانب سے لاہور کے اجلاس میں منظور کر لیا گیا اور یہ قرارداد پاکستان کے نام سے مشہور ہوا۔
محمد علی جناح کی درخواست پر ظفر اللہ خان نے مسلم لیگ کا مقدمہ ریڈکلف کے کمشن کے سامنے پیش کیا۔
اسی زمانہ میں جوناگڑھ کی ریاست کے والی کے مشیر کے طور پر خدمات سر انجام دیں اور ان کے مشورہ پر نواب جوناگڑھ نے اپنی ریاست کے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا۔
آزادی کے بعد 1947 میں ظفر اللہ خان نے اقوام متحدہ کے سامنے بطور سربارہ پاکستانی وفد پاکستان کا موقف پیش کیا۔ اسی طرح مسئلہ فلسطین پر عالم اسلام کے موقف کی تائید کی۔ اسی سال ان کو پاکستان کا پہلا وزیر خارجہ مقرر کیا گیا۔ وہ 1954 تک سات سال اس عہدہ پر برقرار رہے۔
انہوں نے اقوام متحدہ میں کشمیر، فلسطین، لیبیا، شمالی ائیرلینڈ، ایریٹریا، صومالیہ، سوڈان، تیونس، مراکش اور انڈونیشیا کی آزادی کے لئے کام کیا۔
محمد ظفر اللہ خان مذہبی طور پر احمدیہ جماعت سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے خود مرزا غلام احمد قادیانی صاحب کے ہاتھ پر بیعت کی تھی اور ان کے احمدی خلفاء کے معتمد رہے۔ وہ جماعت احمدیہ کے اہم عہدوں پر فائز رہے اور مذہبی امور پر متعدد کتب کے مصنف ہیں۔1953 میں ہونے والی احمدیہ مخالف تحریک کے اہم مطالبات میں سے ایک ظفر اللہ خان کے استعفیٰ کا مطالبہ بھی تھا۔ اس تحریک کے نتیجہ میں پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ لاہور میں فوجی قانون لاگو ہوا۔اس تحریک کے کئی سال بعد ظفر اللہ خان نے 1967 میں سعودی عرب جا کر حج کا فریضہ سر انجام دیا۔ اس سے پہلے وہ 1958 میں سعودی بادشاہ کے شاہی مہمان کے طور پر عمرہ ادا کر چکے تھے۔
پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان نے جنہوں نے سن سینتالیس میں اقوام متحدہ میں فلسطین کی تقسیم کے منصوبہ کے خلاف معرکتہ الاراء تقریر کی تھی اور سارے عالم اسلام کے دل موہ لیے تھے، اس منصوبہ کی منظوری کے فورا بعد دمشق میں ایک مشہور مستشرق یوریل میڈ سے ملاقات کی تھی جو اس زمانہ میں اسرائیل کی خفیہ سروس کے لیے کام کر رہے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دن کے پونے تین بجے تمام وزراء، ا اعلیٰ حکام اورسفارت کار اس ہال میں جمع ہوئے جہاں قائد اعظم کا جسد خاکی دیدار کیلئے موجود تھا۔
وزیرخارجہ سر ظفر اللہ خان نے آخری دیدار کیلئے قائد کے چہرے سے چادر اٹھائی۔دیدار کے بعدمیت کو قریبی کمرے میں لے جایا گیا جہاں جنازہ مرتب کیا گیا ۔اس مقام سے خاص دروازے تک کاندھا دے کرمیت لانے والو ں میں وزیراعظم پاکستان لیاقت علی خان ،وزیرخارجہ سر ظفر اللہ خان،سردار عبدالرب نشتر،پیر الٰہی بخش ،پیرزادہ عبدالستار اورسید میران محمدشاہ شامل تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قائد اعظم کی نماز جنازہ نہ پڑھنے پر بیان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے ایک مسلمان ملک کا کافر وزیر خارجہ یا ایک کافر ملک کا مسلمان وزیر خارجہ سمجھ لیں ۔

اک سوال ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قادیانیو ں کو غیر مسلم سمجھنے کے بعد ان سے " مسلمان " کی نمازجنازہ میں شرکت کی امید یا خواہش کرنا کچھ عجب نہیں ؟
بہت دعائیں
قادیانی وزیر خارجہ نے بانیء پاکستان قائد اعظم کا جنازہ پڑھنے سے انکار کیوں کیا تھا؟

 
پاکستان کا پہلا وزیرِ خارجہ ایک احمدی سر ظفر اللہ خان

قائد اعظم کی نماز جنازہ نہ پڑھنے پر بیان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے ایک مسلمان ملک کا کافر وزیر خارجہ یا ایک کافر ملک کا مسلمان وزیر خارجہ سمجھ لیں ۔

اک سوال ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قادیانیو ں کو غیر مسلم سمجھنے کے بعد ان سے " مسلمان " کی نمازجنازہ میں شرکت کی امید یا خواہش کرنا کچھ عجب نہیں ؟

بہت دعائیں

نایاب بھائی آپ کی طرف سے ایک سچے مسلمان کو کوموں کی گرفت میں " مسلمان" لکھنے کے بعد میں "لاجواب" رہنا ہی بہتر سمجھتا ہوں۔یا یہ سوال آپ کی بجائے کسی قادیانی شخص کی طرف سے اٹھایا جاتا تو شاید جواب بھی دے پاتا۔ دوسری بات یہ کہ کوئی بھی مسلمان یہ خواہش یا امید نہیں رکھتا کہ کوئی قادیانی زندیق کسی مسلمان کے نماز جنازہ میں شامل ہو۔ ویسے اہل بیت رضوان اللہ کے عاشق ایک سید زادہ نقوی کی طرف سے گستاخ اہل بیت مرزا غلام احمد کے زندیق گروہ کی وکالت میرے لیے ناقابل فہم ہے۔ تقلیدِ امامِ عالی مقام حسینیت تو دین سے دوستی کا نام ہے نہ کہ دینی قوتوں کیخلاف قلمی لشکر کشی کا۔
 
نایاب بھائی آپ کی طرف سے ایک سچے مسلمان کو کوموں کی گرفت میں " مسلمان" لکھنے کے بعد میں "لاجواب" رہنا ہی بہتر سمجھتا ہوں۔یا یہ سوال آپ کی بجائے کسی قادیانی شخص کی طرف سے اٹھایا جاتا تو شاید جواب بھی دے پاتا۔ دوسری بات یہ کہ کوئی بھی مسلمان یہ خواہش یا امید نہیں رکھتا کہ کوئی قادیانی زندیق کسی مسلمان کے نماز جنازہ میں شامل ہو۔ ویسے اہل بیت رضوان اللہ کے عاشق ایک سید زادہ نقوی کی طرف سے گستاخ اہل بیت مرزا غلام احمد کے زندیق گروہ کی وکالت میرے لیے ناقابل فہم ہے۔ تقلیدِ امامِ عالی مقام حسینیت تو دین سے دوستی کا نام ہے نہ کہ دینی قوتوں کیخلاف قلمی لشکر کشی کا۔

یار لوگ کہتے ہیں کہ قائد اہل تشیع تھے۔ اور سنا ہے کہ اہل تشیع لوگوں پر خارج از اسلام کے فتوی بھی لگ چکے ہیں ۔
وغیرہ وغیرہ۔
اب دوبارہ بتائیں سچے مسلمان کو کوموں کی گرفت سے آزاد کر دیں یا قید ہی رہنے دیں ۔۔
 

یاز

محفلین
میں مشورہ دوں گا کہ اس لڑی میں سیکٹ سے متعلق گفتگو نہ کی جائے، اور جو ہو چکی ہے اس کی بھی تدوین کی جائے۔ اس مقصد کے لئے الگ لڑی بنا کے اس میں گفتگو کی جا سکتی ہے۔
یہاں بھگت سنگھ سے متعلق امور ہی موضوعِ گفتگو رہیں تو کیا ہی اچھا ہو۔
 
Top