بھگت سنگھ کا قرض

غدیر زھرا

لائبریرین
FB_IMG_1490281853610_zpse5iyf0yr.jpg
 
وطن پرستی ہمارا شعار نہیں
ہم توحید کے پرستار ہیں باقی کہانیاں ہیں
پنجاب کے جاگیردار مسلم خون گرانے میں ماہر تھے صرف انگریز کی غلامی میں۔ یہی حقیقت ہے
 
ہزاروں مسلم علما کو پھانسی دی گئی۔ کالا پانی کی سزا دی گئی۔ بھگتے بھگت سنگھ جیسے نچلے درجے کے کارکنوں کا رونا رورہے ہیں۔ رنجیت سنگھ کا غم نہیں جاتا بھگتوں کا
 
آخری تدوین:

آصف اثر

معطل
اگر بھگت سنگھ کے نام پر دوسروں کے لتھے لینے کا سلسلہ رُک گیا تو بھگت سنگھ کو کچھ خوشی ہوجائے۔۔۔۔
جہاں ڈوگر و چوہدری جیسے چیف جسٹس کی تعریف و توصیف میں لمبی تمہیدیں باندھی جاتی ہیں۔وہاں بھگوان داس (اور ایک دوسرے غیر مسلم چیف جسٹس کا نام بھول رہا) کی دفعہ آوازیں بند کیوں ہو جاتیں؟

کچھ کچھ ایسا ہی ممتاز قادری وغیرہ کے متعلق بھی کہا جاتا ہے ۔لگ بھگ ایسا ہی محمد بن قاسم کے متعلق سنتے چلے آئے کہ 17 سال کی عمر میں ایک عورت کی آواز میں مدد کو آئے بعض میں پتا چلا کہ کہانی الگ تھی۔لیکن تھی تو وہ بھی کہانی ہی،
تو ایسے میں بندہ کہیڑے پاسے جاوے ،منجی کتھے ڈھاوے۔

ہمیں تو ہماری نصابی کتابوں نے بہت پہلے ہی مار ڈالا۔ کتنے بچے جانتے ہیں کہ پاکستان بنانے والے محمد علی جناح شیعہ تھے۔ کس اسکول میں یہ پڑھایا جاتا ہے کہ پاکستان کی آئین ساز اسمبلی کا پہلا اسپیکر اور پہلا وزیرِ قانون و انصاف ایک نچلی ذات کا بنگالی ہندو جوگندر ناتھ منڈل تھا۔ تین سال تک لیاقت کابینہ میں شامل رہا اور پھر دل برداشتہ ہو کر پاکستان سے ہی چلا گیا۔

کتنے بچوں کو آج بتایا جاتا ہے کہ پاکستان کا پہلا وزیرِ خارجہ ایک احمدی سر ظفر اللہ خان تھا جس نے سات برس تک قرار دادِ مقاصد کے معمار سنی العقیدہ نوابزادہ لیاقت علی خان سے محمد علی بوگرا تک تین حکومتوں میں پاکستانی خارجہ پالیسی کو پائلٹ کیا اور پھر عالمی عدالتِ انصاف کا پہلا پاکستانی جج بن گیا۔
کیا ہماری نصابی کتابوں میں جسٹس ایلون رابرٹ کارنیلئیس کا ذکر ہے جو ایک دیسی کرسچن تھا اور آٹھ برس تک اسلامی جمہوریہ پاکستان کا چیف جسٹسرہا۔ اور اس نے کیسے کیسے اہم فیصلے کیے؟ اور وہ کس قدر درویش طبیعت تھا جس نے زندگی لاہور کے فلیٹیز ہوٹل کے ایک کمرے میں گذار دی۔
کیا کسی آٹھ دس سال کے بچے نے اس ہزارہ جنرل محمد موسیٰ کا نام سنا ہے جس نے سن پینسٹھ کی جنگ میں پاکستانی بری فوج کی کمان کی؟ اور اسی جنگ میں ایک کرسچن فلائٹ لیفٹننٹ سیسل چوہدری کو بھارتی فضائیہ کو چنے چبوانے کے اعتراف میں ستارہِ جرات ملا۔ اور کتنی عزت تھی ہم بچوں کے دلوں میں فاتحِ چونڈہ میجر جنرل عبدالعلی ملک اور فاتحِ چھمب جوڑیاں میجر جنرل افتخار جنجوعہ شہید کی۔ معاشرتی علوم کے پینسٹھ کی جنگ کے باب میں ان دونوں جنرلوں کی چکنے کاغذ پر بلیک اینڈ وائٹ تصاویر ہوتی تھیں جن میں ایوب خان دونوں کے سینے پر ہلالِ جرات ٹانک رہے ہیں۔ جب ایک روز پتہ چلا کہ یہ تواحمدی ہیں تو فوراً اسکولی نصاب اور ہم سب کے دلوں سے اتر گئے۔ پھر اس کے بعد باقی مشکوک شخصیات کا بھی اسکول کی کتابوں میں داخلہ مرحلہ وار بند ہوتا چلا گیا اور آج الحمداللہ تعلیمی نصاب ہر طرح کی تاریخی آلائشوں سے پاک ہے۔ (وسعت اللہ خان، ۲۳ ستمبر ۲۰۱۳، روزنامہ ایکسپریس)

فی الحال اس کو سمجھنے کے لئے جاوید چودھری کے کسی کالم کا ایک جملہ کوٹ کرنا چاہوں گا جو شاید ساری بات کا احاطہ کرتا ہے۔
"ہمارا بس نہیں چلتا کہ ہم قائداعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال کی تصویروں پہ داڑھیاں لگا دیں اور پھر ان کو اپنی تاریخ میں اسی طرح سے پیش کرنا شروع کر دیں"۔

بالکل درست جناب۔
ان سب سے بھی بڑھ کر جو ظلم ہم نے ڈاکٹر عبدالسلام کے ساتھ کیا، اس پہ جتنا افسوس کیا جائے کم ہے۔
اور ہاں جرنیلوں کی فہرست میں جنرل اختر حسین ملک کا نام مت بھولئے۔ جتنی تاریخ میں نے پڑھی ہے، اگر کسی ایک جرنیل کو پاکستانی رومیل کہنے کو بولا جائے تو میں بلا کسی تامل اختر حسین ملک کا نام لوں گا۔ لیکن افسوس وہ بھی احمدی ہونے کی وجہ سے خارج از تاریخ ٹھہرے۔

1965 کی جنگ کی کوئی بھی کتاب اٹھا کے پڑھ لیں بھائی جو کسی فوجی یا کسی شہاب نامے ٹائپ نے نہ لکھی ہو۔
 

شاہد شاہ

محفلین
آج 23 مارچ کو بھگت سنگھ کی 87ویں برسی بھی حسبِ معمول خاموشی سے ہی گزر گئی۔
صرف ایک مضمون دکھائی دیا ہے "ہم سب" کی ویب سائٹ پہ۔ ربط درج ذیل ہے۔
آزادی کے ہیرو بھگت سنگھ کی برسی از فرح خان لودھی
بھگت سنگھ کا نام سنتے ہی فلم رنگ دی بسنتی یاد آجاتی ہے۔ واقعی ہم نے اصل ہیروز کو بھلا دیا ہے
 

ضیاء حیدری

محفلین
جناب میری لالٹین بس اتنا ہی کہتی ہے کہ ہر وہ شخص جس نے بلاتخصیصِ رنگ و نسل و عقیدہ انسانوں کی آزادی کے لئے کوشش کی ہے، وہ ہمارا ہیرو ہونا چاہئے۔
خیال رہے کہ آزادی سے مراد صرف جسمانی آزادی ہی نہیں، بلکہ خیال و فکر کی آزادی بھی ہے، دل و دماغ کی آزادی بھی ہے۔
اس تعریف کی رو سے دیکھا جائے تو بے شمار مفکر، شاعر، ادیب، فنکار وغیرہ بھی ہیرو کہلا سکتے ہیں۔ ساغر صدیقی جیسا فٹ پاتھ پہ رہنے والا بھی ہیرو ہو سکتا ہے اور بڑھاپے میں پولیس کے ڈنڈے کھانے والا حبیب جالب بھی ہیرو ہو سکتا ہے۔

اپنے زور قلم سے آپ جسے چاہیں ہیرو قرار دیدیں، ہیرو کون ہوتا ہے؟ جیسے کہ کہانیوں کےہیرو۔۔۔ یعنی کہ ایک شہزادی ہوا کرتی تھی اور ایک شہزادہ۔ بدبخت جادوگر شہزادی کو اپنے شکنجے میں پھنسا لیا کرتا تھا اور عقلمند شہزادہ اپنی ذہانت اور بہادری سے شہزادی کو جادوگر کے شکنجے سے چھڑا لیا کرتا تھا. پھر سب ہنسی خوشی رہنا شروع کر دیتے تھے، شہزادہ ہیرو ہوتا تھا کیونکہ وہ اپنے مشن میں کامیاب ہوجاتا تھا اور کہانی ختم۔ بھگت سنگھ کو ہیرو بنانے سے پہلے یہ تو بتائیے وہ کامیاب ہوا یا ناکام؟ اس کے پاس کیا پروگرام تھا، گاندھی جی اسکو جوشیلا جوان سمجھتے تھے جو تحریک آذادی کو نقصان پہنچا سکتا تھا محض کم عقلی کی وجہ، یہاں آپ یہ نہ سمجھ بیٹھئے گا کیونکہ وہ سردار تھا اس لئے ایسا کہہ رہا ہوں، میں آپ کے جذبات کا احترام کررہا ہوں، آخر کو کمیونسٹوں کو بھی تحریک آذادی کا ہیرو چاہئے۔
 

شاہد شاہ

محفلین
آخر کو کمیونسٹوں کو بھی تحریک آذادی کا ہیرو چاہئے۔
صرف کمیونسٹ؟ تحریک آزادی کیلئے تو قادیانیوں کا اہم رول بھی کسی تعریف کا محتاج نہیں۔ کشمیر کمیٹی سے لیکر فرقان فورس۔ وزارت خارجہ سے لیکر ایٹمی اثاثوں تک جگہ جگہ قادیانیوں نے حب الوطنی میں اپنا حصہ ڈالا۔ اب وہ کافر و غدار ہیں۔
 

ربیع م

محفلین
صرف کمیونسٹ؟ تحریک آزادی کیلئے تو قادیانیوں کا اہم رول بھی کسی تعریف کا محتاج نہیں۔ کشمیر کمیٹی سے لیکر فرقان فورس۔ وزارت خارجہ سے لیکر ایٹمی اثاثوں تک جگہ جگہ قادیانیوں نے حب الوطنی میں اپنا حصہ ڈالا۔ اب وہ کافر و غدار ہیں۔
چلیں اچھا ہوا آپ نے ان کی نمائندگی تو کر دی
 
آخری تدوین:

یاز

محفلین
اپنے زور قلم سے آپ جسے چاہیں ہیرو قرار دیدیں، ہیرو کون ہوتا ہے؟ جیسے کہ کہانیوں کےہیرو۔۔۔ یعنی کہ ایک شہزادی ہوا کرتی تھی اور ایک شہزادہ۔ بدبخت جادوگر شہزادی کو اپنے شکنجے میں پھنسا لیا کرتا تھا اور عقلمند شہزادہ اپنی ذہانت اور بہادری سے شہزادی کو جادوگر کے شکنجے سے چھڑا لیا کرتا تھا. پھر سب ہنسی خوشی رہنا شروع کر دیتے تھے، شہزادہ ہیرو ہوتا تھا کیونکہ وہ اپنے مشن میں کامیاب ہوجاتا تھا اور کہانی ختم۔ بھگت سنگھ کو ہیرو بنانے سے پہلے یہ تو بتائیے وہ کامیاب ہوا یا ناکام؟ اس کے پاس کیا پروگرام تھا، گاندھی جی اسکو جوشیلا جوان سمجھتے تھے جو تحریک آذادی کو نقصان پہنچا سکتا تھا محض کم عقلی کی وجہ، یہاں آپ یہ نہ سمجھ بیٹھئے گا کیونکہ وہ سردار تھا اس لئے ایسا کہہ رہا ہوں، میں آپ کے جذبات کا احترام کررہا ہوں، آخر کو کمیونسٹوں کو بھی تحریک آذادی کا ہیرو چاہئے۔
میرے محترم بھائی! ہم شاید آپ کی رائے سے اتفاق نہ کرتے ہوں، لیکن جمہوری قدروں پہ غیرمتزلزل یقین رکھنے کی بدولت آپ کے حقِ رائے دہی سے ضرور اتفاق کرتے ہیں۔ بلاشبہ آپ کو ہمارے کسی بھی مراسلے سے اختلاف کا اور اس اختلاف کے برملا اظہار کا پورا پورا حق حاصل ہے۔
خوش رہیں۔
 
اپنے زور قلم سے آپ جسے چاہیں ہیرو قرار دیدیں، ہیرو کون ہوتا ہے؟ جیسے کہ کہانیوں کےہیرو۔۔۔ یعنی کہ ایک شہزادی ہوا کرتی تھی اور ایک شہزادہ۔ بدبخت جادوگر شہزادی کو اپنے شکنجے میں پھنسا لیا کرتا تھا اور عقلمند شہزادہ اپنی ذہانت اور بہادری سے شہزادی کو جادوگر کے شکنجے سے چھڑا لیا کرتا تھا. پھر سب ہنسی خوشی رہنا شروع کر دیتے تھے، شہزادہ ہیرو ہوتا تھا کیونکہ وہ اپنے مشن میں کامیاب ہوجاتا تھا اور کہانی ختم۔ بھگت سنگھ کو ہیرو بنانے سے پہلے یہ تو بتائیے وہ کامیاب ہوا یا ناکام؟ اس کے پاس کیا پروگرام تھا، گاندھی جی اسکو جوشیلا جوان سمجھتے تھے جو تحریک آذادی کو نقصان پہنچا سکتا تھا محض کم عقلی کی وجہ، یہاں آپ یہ نہ سمجھ بیٹھئے گا کیونکہ وہ سردار تھا اس لئے ایسا کہہ رہا ہوں، میں آپ کے جذبات کا احترام کررہا ہوں، آخر کو کمیونسٹوں کو بھی تحریک آذادی کا ہیرو چاہئے۔
ہیرو بنانا یا نہ بنانا ضروری ہی کیوں ہے؟
آپ ایک شخص کے بعض اعمال کی تائید اور بعض کی مخالفت کر سکتے ہیں۔ بلکہ ایک ہی عمل کے کسی پہلو کی تائید اور کسی کی مخالفت بھی۔
بھگت سنگھ کی کہانی کے بھی کئی پہلو ہیں۔ ہمارے بعض لبرل دوست بھگت سنگھ کو پنجابیوں کی انگریز مخالفت اور بعض آزادی کی تحریک میں تمام مذاہب کی کاوش کے طور پہ پیش کرتے ہیں۔
مگر شاید یہ بھول جاتے ہیں کہ بھگت سنگھ کا طریقۂ مزاحمت اب مذموم خیال کیا جاتا ہے۔
 
ہیرو بنانا یا نہ بنانا ضروری ہی کیوں ہے؟
آپ ایک شخص کے بعض اعمال کی تائید اور بعض کی مخالفت کر سکتے ہیں۔ بلکہ ایک ہی عمل کے کسی پہلو کی تائید اور کسی کی مخالفت بھی۔
بھگت سنگھ کی کہانی کے بھی کئی پہلو ہیں۔ ہمارے بعض لبرل دوست بھگت سنگھ کو پنجابیوں کی انگریز مخالفت اور بعض آزادی کی تحریک میں تمام مذاہب کی کاوش کے طور پہ پیش کرتے ہیں۔
مگر شاید یہ بھول جاتے ہیں کہ بھگت سنگھ کا طریقۂ مزاحمت اب مذموم خیال کیا جاتا ہے۔

واہ چوہدری صاب کمال کیتی چھڈی جے!!
 

شاہد شاہ

محفلین
رنگ دے بسنتی کی اس سے کیا نسبت؟:thinking:
بھگت سنگھ جیسے ہیروز کو زندہ رکھنے کیلئے فلم اور ڈرامہ انڈسٹری کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ آجکل کے دور میں جہاں کتابیں پڑھنا معمول نہیں رہا وہاں کم از کم انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کو عوام تک ان ہیروز کی یاد پہنچاتے رہنا چاہئے۔ عامر خان کی فلم رنگ دی بسنتی میں ان تمام ہیروز کیساتھ انصاف کیا گیا تھا۔
 

شاہد شاہ

محفلین
مگر شاید یہ بھول جاتے ہیں کہ بھگت سنگھ کا طریقۂ مزاحمت اب مذموم خیال کیا جاتا ہے۔
متفق۔ اسی لئے پاکستانی میزائلوں کا نام برصغیر پر حملے کرنے والے مسلمان حکمرانوں کے نام پر نہیں ہونا چاہیے۔ وہ لوگ کسی بھی طور پر مصدقہ ہیرو نہیں تھے۔ وجوہات وہی ہیں جو آپنے لکھی ہیں
 
Top